سندھ سولر انرجی پروجیکٹ میں اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 28th, September 2025 GMT
پاکستان پیپلز پارٹی کے فلیگ شپ پروجیکٹ، سندھ سولر انرجی پروجیکٹ (SSEP) کے معاہدوں میں شفافیت اور بے ضابطگیوں کے الزامات نے ایک بار پھر توجہ حاصل کر لی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پروجیکٹ کے پہلے مرحلے کے لیے ورلڈ بینک کی جانب سے 28 ارب روپے کی فنڈنگ فراہم کی گئی تھی، جس کا مقصد 2 لاکھ سولر ہوم سسٹمز کی تقسیم تھا۔
قیمت میں فرق اور بے ضابطگیاںپروجیکٹ میں شامل غیر ملکی کمپنی نے ہر سولر کٹ کی قیمت 151 امریکی ڈالر ظاہر کی، تاہم درآمدی دستاویزات میں اصل قیمت صرف $23.
The solar energy project in Sindh, with the cooperation of the World Bank, has been initiated with a budget of 27 billion rupees. The Energy Minister of Sindh, Syed Nasir Hussain Shah, briefed the Chief Minister of Sindh in the solar energy project meeting. #PPPDigitalKSK pic.twitter.com/iGwsZqM66q
— Tahir Soomro (@TheTahirSoomro) April 6, 2024
اسی طرح، سولر ڈی سی فینز بھی درآمد ہونے کی بجائے پاکستان میں تیار شدہ فینز تقسیم کیے گئے، جبکہ درآمدی دستاویزات میں جعلسازی کے الزامات سامنے آئے ہیں۔
صوبائی حکومت کا مؤقفصوبائی وزیر سید ناصر حسین شاہ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی بے ضابطگی ہوئی بھی تو وہ نجی کمپنی کی جانب سے ہوئی۔
انہوں نے وعدہ کیا کہ اگر درآمدی دستاویزات میں غلطی ہوئی تو اس کی تحقیقات کر کے روشنی میں لائی جائے گی۔
ورلڈ بینک اور فنڈنگ کا سوالپہلے مرحلے میں 2 لاکھ گھروں کو سولر سسٹمز فراہم کرنے کے لیے ورلڈ بینک سے قرض لیا گیا۔ تاہم دستاویزات کے مطابق اصل قیمت $50 سے کم ہے، جبکہ سندھ حکومت نے ہر یونٹ 151 امریکی ڈالر کی لاگت پر معاہدہ کیا۔
اس سے ابتدائی مرحلے میں 200,000 یونٹس کے لیے تقریباً 5.6 ارب روپے کا فرق سامنے آیا ہے۔
دوسری مرحلے میں مزید بے ضابطگیاںدوسرے مرحلے میں بھی معاہدے میں شفافیت نہ ہونے اور قیمت میں اضافے کے الزامات سامنے آئے ہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو لکھے خط میں کہا کہ سولر یونٹس کی خریداری میں مارکیٹ قیمت کے مقابلے میں 50 امریکی ڈالر کا اضافہ ہوا ہے، جس سے تقریباً 6 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔
صوبائی حکومت نے یہ پروجیکٹ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت کم آمدنی والے خاندانوں کو فراہم کرنے کا آغاز کیا، تاہم شفافیت اور لاگت کے مسائل کے باعث عوام میں سوالات بڑھ گئے ہیں۔
سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے تحقیقات شروع کی ہیں، لیکن ابھی تک کوئی حتمی نتائج منظر عام پر نہیں آئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سندھ بے ضابطگیاں سندھ سولر پروجیکٹ سید ناصر حسین شاہ مراد علی شاہ وزیراعلیٰ سندھذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سندھ بے ضابطگیاں سندھ سولر پروجیکٹ سید ناصر حسین شاہ مراد علی شاہ وزیراعلی سندھ مرحلے میں کے لیے
پڑھیں:
90 فیصد شوگر ملز غیر فعال، ملک میں چینی کا مصنوعی بحران
کراچی:ہول سیل گروسرز ایسوسی ایشن نے درآمدات گنے کی ریکارڈ پیداوارکے باوجود چینی کی قیمتوں کے بحران کو مصنوعی قرار دیتے ہوئے ملوث عناصرکے خلاف سخت کارروائی کامطالبہ کر دیا ہے۔
ہول سیل گروسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین رؤف ابراہیم کے مطابق شوگر ملوں کی جانب سے 100 فیصدکرشنگ شروع نہ کیے جانے سے منظم انداز میں چینی کا مصنوعی بحران پیدا کیا گیا ہے۔
انہوں نے ایکسپریس کے استفسار پر بتایا کہ فی الوقت صرف 10فیصد شوگر ملز گنے کی کرشنگ کررہی ہیں، باقی ماندہ 90 فیصدملوں سیزن کے باوجود گنے کی کرشنگ کا آغاز نہیں کیا ہے۔
رؤف ابراہیم کے مطابق گنے کی تیار فصل کی 100 فیصد کرشنگ سے فی کلو چینی کی قیمت 120 روپے کی سطح پر آنے سے عوام کو ریلیف مل سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ رواں سال گنے کی 25 فیصد زائد پیداوار ریکارڈ کی گئی ہے، لیکن گنے کی بمپر پیداوار اور امپورٹ کے باوجودعوام کو چینی زائد قیمتوں پر فروخت کی جا رہی ہے۔
رؤف ابراہیم کے مطابق کراچی میں فی کلوگرام ایکس مل چینی کی قیمت 175روپے سے بڑھ کر 185روپے ہوگئی ہے، جبکہ فی کلوگرام چینی کی تھوک قیمت بڑھکر 187روپے اور ریٹیل قیمت 200 روپے کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔
پنجاب اور خیبر پختونخوامیں فی کلوچینی 200 سے 210 روپے میں فروخت کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 100 فیصدکرشنگ نہ کرکے گنے کے کاشتکاروں کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے، حالانکہ شوگر ملوں نے کاشتکاروں سے 350 تا 400 روپے فی من گنے کے خریداری معاہدے کیے ہیں۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کارٹیلائزیشن کے خلاف سخت اقدامات بروئے کار لاکر ملوث عناصرکے خلاف کاروائی کرے، کیونکہ چینی کا مصنوعی بحران پیدا کر کے عوام اور کسانوں کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا جا رہا ہے۔