شہید کانسٹیبل کی بیٹی کا پہلا دن، ڈی پی او نے پروٹوکول کے ساتھ اسکول چھوڑا
اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT
ڈی پی او محمد راشد ہدایت شہید کانسٹیبل اسد جمیل کے اہلِ خانہ سے اظہار یکجہتی کے لیے خود ان کے گھر پہنچے اور شہید کی ننھی بیٹی مریم اسد کو اسکول چھوڑنے کے لیے ساتھ لے گئے۔ پولیس ترجمان کے مطابق مریم اسد کا یہ اسکول میں پہلا دن تھا، جس پر ڈی پی او نے اسے مکمل پروٹوکول کے ساتھ اسکول پہنچایا۔
اس موقع پر ڈی پی او نے جذباتی انداز میں کہا، شہید کی بیٹی، ہماری اپنی بیٹی ہے۔ ان کا یہ اقدام نہ صرف اہل خانہ سے یکجہتی کا مظہر تھا بلکہ یہ پیغام بھی کہ شہدا کے خاندانوں کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ڈی پی او
پڑھیں:
عالمی فوجداری عدالت میں سوڈانی ملیشیا رہنما کے لیے عمر قید کی سز اکا مطالبہ
عالمی فوجداری عدالت میں استغاثہ نے مشرقی افریقہ کے ملک سوڈان کی دو دہائیوں پُرانی خانہ جنگی کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب ایک ملیشیا رہنما کے لیے عمر قید کی سزا کا مطالبہ کیا ہے۔
منگل کے روز عالمی فوجداری عدالت نے علی محمد علی عبدالرحمٰن، المعروف علی کوشائب، کے لیے سزاؤں سے متعلق سماعت کا آغاز کیا، ایک روز قبل پروسیکیوٹر جولیئن نکولز نے دارفور کے مغربی علاقے میں ہونے والی قتل و غارتگری میں اُن کے کردار کے پیشِ نظر زیادہ سے زیادہ سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سوڈان میں خانہ جنگی، سینکڑوں خواتین جنسی تشدد کا نشانہ
استغاثہ کے مطابق عبدالرحمٰن جن جرائم میں ملوث ہیں، ان میں کلہاڑی سے 2 افراد کو قتل کرنا بھی شامل ہے۔
Prosecutors are also pushing for the harshest punishment as the ICC weighs sentencing a convicted Darfur perpetrator.https://t.co/KyfnRnHd59
— K24 TV (@K24Tv) November 18, 2025
نکولز نے ہیگ میں موجود ججوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے سامنے لفظی معنوں میں ایک کلہاڑی سے قتل کرنے والا موجود ہے۔ صرف عمر قید ہی بدلے اور مستقبل میں روک تھام کے تقاضے پورے کر سکتی ہے۔
دوسری جانب عبدالرحمٰن کے وکلا 7 سال قید کی سزا کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں وہ آئندہ سماعتوں میں دلائل پیش کریں گے۔
مزید پڑھیں:سوڈان میں خانہ جنگی، سینکڑوں خواتین جنسی تشدد کا نشانہ
گزشتہ ماہ عبدالرحمٰن کو 27 الزامات میں مجرم قرار دیا گیا تھا، جن میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور جنسی زیادتی شامل ہیں۔ وہ 2003 سے 2004 کے دوران حکومت کے حمایت یافتہ جنجوید ملیشیا کی قیادت کرتے ہوئے دارفور میں قتل، تباہی اور بربادی کی مہم کے ذمہ دار پائے گئے تھے۔
یہ پہلی مرتبہ تھا کہ عالمی فوجداری عدالت نے دارفور کے جرائم سے متعلق کسی ملزم کو سزا سنائی ہو۔ یہ علاقہ اس وقت بھی ایک شدید خانہ جنگی کے باعث ہولناک مظالم کا شکار ہے۔
غلط شناخت کا کیس ہے، عبدالرحمٰن کا موقفعبدالرحمٰن مسلسل یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ وہ جنجوید ملیشیا کے اعلیٰ عہدے دار نہیں تھے، جنجوید عرب نسل سے تعلق رکھنے والی وہ نیم فوجی فورس تھی جسے سوڈانی حکومت نے دارفور میں سیاہ فام قبائل کے خلاف کارروائی کے لیے مسلح کیا تھا۔
اپریل 2022 میں مقدمے کے آغاز سے ہی ان کا مؤقف تھا کہ وہ ’علی کوشائب نہیں‘ اور عدالت نے غلط شخص کو پکڑ لیا ہے، تاہم عدالت نے ان کا موقف مسترد کر دیا۔
مزید پڑھیں:آر ایس ایف نے 300 خواتین کو ہلاک، متعدد کیساتھ جنسی زیادتی کی، سوڈانی وزیر کا دعویٰ
فروری 2020 میں وہ وسطی افریقی جمہوریہ فرار ہو گئے تھے، جب نئے سوڈانی حکام نے عالمی فوجداری عدالت سے تعاون کا اعلان کیا۔ انہوں نے بعد ازاں خود کو عدالت کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’مایوس‘ تھے اور ڈرتے تھے کہ حکام انہیں قتل کر دیں گے۔
دارفور کا پس منظردارفور میں لڑائی اس وقت شروع ہوئی جب غیر عرب قبائل نے منظم امتیاز کے خلاف بغاوت کی، اس کے ردِعمل میں خرطوم حکومت نے جنجوید ملیشیا کا سہارا لیا، جسے بعد میں پاپولر ڈیفنس فورسز کے نام سے جانا گیا۔
اقوام متحدہ کے مطابق 2000 کی دہائی میں دارفور کے تنازع میں 3 لاکھ افراد مارے گئے جبکہ 25 لاکھ کو اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے۔
عالمی فوجداری عدالت کے پروسیکیوٹر موجودہ تنازع سے متعلق مزید گرفتاریوں کے وارنٹ جاری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں:سوڈان میں خانہ جنگی، سینکڑوں خواتین جنسی تشدد کا نشانہ
سرکاری فوج اور نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) — جو جنجوید ہی کا تسلسل ہیں — کے درمیان جاری جنگ میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔
افریقی یونین کے مطابق یہ ’’دنیا کا بدترین انسانی بحران‘‘ بن چکا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق کم از کم 40 ہزار افراد ہلاک اور 1 کروڑ 20 لاکھ سے زائد بے گھر ہو چکے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں