صدر ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ منصوبے کا مطالعہ کریں گے: حماس
اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
قطر اور مصر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مجوزہ غزہ امن منصوبہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کی مذاکراتی ٹیم تک پہنچا دیا ہے۔ ایک سفارتی ذریعے نے الجزیرہ کو اس کی تصدیق کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق حماس نے ثالثوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ منصوبے کا بغور جائزہ لیں گے، تاہم باضابطہ ردعمل یا حمایت تاحال سامنے نہیں آئی۔ اس سے قبل حماس رہنماؤں کا کہنا تھا کہ انہیں منصوبہ تحریری صورت میں موصول نہیں ہوا، لیکن تازہ اطلاعات کے مطابق قطر اور مصر نے یہ معاہدہ حماس کو فراہم کردیا ہے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر نے اسرائیلی وزیر اعظم کے ہمراہ پریس کانفرنس میں امن منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اس پر تمام مسلم اور عرب ممالک متفق ہیں۔
ٹرمپ کے مجوزہ 20 نکاتی منصوبے میں فوری جنگ بندی، موجودہ محاذوں کو منجمد کرنا، 48 گھنٹوں کے اندر 20 زندہ یرغمالیوں کی رہائی اور 24 جاں بحق مغویوں کی باقیات کی واپسی شامل ہیں۔
معاہدے کے تحت تمام یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل 250 عمر قید کے فلسطینی قیدیوں اور 7 اکتوبر 2023 کے بعد گرفتار کیے گئے 1700 غزہ کے شہریوں کو رہا کرے گا، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
حماس کے عسکری ونگ نے جنگ بندی منصوبہ مسترد کردیا، بی بی سی کا بڑا انکشاف
غزہ: برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق حماس کے عسکری ونگ کے سربراہ نے امریکا کے نئے جنگ بندی منصوبے کو مسترد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق حماس رہنما عزالدین الحداد کا ماننا ہے کہ یہ منصوبہ دراصل حماس کو ختم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، اسی لیے وہ لڑائی جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا 20 نکاتی فریم ورک اسرائیل پہلے ہی قبول کرچکا ہے، لیکن اس میں حماس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ہتھیار ڈال دے اور غزہ کی حکومت میں اس کا کوئی کردار نہ ہو۔
قطر میں موجود حماس کی کچھ سیاسی قیادت منصوبے کو ترامیم کے ساتھ قبول کرنے پر تیار ہیں، مگر ان کا اثر و رسوخ محدود ہے کیونکہ یرغمالیوں پر ان کا کنٹرول نہیں ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ غزہ میں حماس کے قبضے میں 48 یرغمالی موجود ہیں جن میں سے صرف 20 کے زندہ ہونے کا امکان ہے۔ منصوبے کے تحت پہلے 72 گھنٹوں میں تمام یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی ایک بڑی رکاوٹ سمجھا جا رہا ہے۔
حماس رہنماؤں کو اس بات پر بھی خدشہ ہے کہ اسرائیل یرغمالیوں کی رہائی کے بعد دوبارہ حملے شروع کر سکتا ہے، خاص طور پر اس واقعے کے بعد جب امریکا کی مخالفت کے باوجود دوحہ میں حماس قیادت پر فضائی حملہ کیا گیا۔
مزید برآں، منصوبے میں غزہ کی سرحدوں پر ’سیکیورٹی بفر زون‘ قائم کرنے اور ایک عارضی بین الاقوامی فورس تعینات کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے، جسے حماس ایک نئی قسم کا قبضہ قرار دیتی ہے۔
دوسری جانب، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھی منصوبے کی کئی شقوں سے پیچھے ہٹنے کے اشارے دیے ہیں اور کہا ہے کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کی مزاحمت کرے گا۔