لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 ستمبر2025ء) پنجاب ریونیو اتھارٹی نے غیر رجسٹرڈ کاروباروں کے خلاف کارروائی کے لیے موثر حکمت عملی ترتیب دے دی ۔ اتھارٹی نے سروسز فراہم کرنے والے اداروں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کے لیے انفورسمنٹ ٹیموں کو فعال کر دیا ہے جنہوں نے ہوٹلوں، ریسٹورینٹس اور مارکیز سمیت متعدد غیررجسٹرڈ کاروباروں کی نشاندہی کرکے انہیں فوری نوٹسز جاری کرنا شروع کر دئیے ہیں۔

(جاری ہے)

پی آر اے کے مطابق نئی ٹیکس اصلاحات کے تحت ایک آسان اور صارف دوست رجسٹریشن مہم کا آغاز کیا گیا ہے جس میں آن لائن رجسٹریشن کی سہولت دی گئی ہے تاکہ کاروباری افراد بغیر کسی پیچیدگی کے نظام سے منسلک ہو سکیں۔اتھارٹی کے مطابق ہر سروسز پرووائیڈر کو سسٹم میں لانا ضروری قرار دیا گیا ہے جبکہ ماہانہ سیلز ٹیکس ریٹرن بروقت جمع کروانا بھی لازمی ہوگا۔ رجسٹریشن نہ کروانے والے کاروباروں کو جرمانے اور قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے

پڑھیں:

ٹرمپ کا امن منصوبہ یا امت ِ مسلمہ کے خلاف سازش؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دنیا ایک بار پھر بڑے منظرناموں کے پیچھے چھپی حقیقت سے آنکھیں چرا رہی ہے۔ امریکا اور اسرائیل نے غزہ کے حوالے سے وہ معاہدہ پیش کیا ہے جسے بڑے شوروغل کے ساتھ ’’امن منصوبہ‘‘ کہا جا رہا ہے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے: یہ امن نہیں، فریب اور سیاسی سودے بازی ہے جس کا نتیجہ فلسطینیوں کی مزید بے بسی اور اسرائیلی تسلط کی باضابطہ تقویت ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے پیش کیا گیا یہ منصوبہ دراصل غزہ کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ایک ایسا سیاسی جال جس کا مقصد مظلوم کو جھٹلا کر مظالم کو جائز قرار دینا ہے۔ یہ بات کسی قسم کی مبالغہ آرائی نہیں؛ تاریخ بارہا بتا چکی ہے کہ بڑی طاقتیں اپنے مفاد کے لیے وعدے کرتی ہیں اور معاہدے کرتی ہیں، مگر نتیجہ ہمیشہ کمزور طبقات کے نقصان میں نکلتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا کہ ’’یہود و نصاریٰ تمہارے کبھی دوست نہیں ہو سکتے‘‘۔ (البقرہ: 120) اور رسولِ مقبولؐ نے اسی حقیقت کی طرف خبردار کیا۔ آج جب ہم غزہ کی ویرانی، بے گھر خاندان، اور سسکتی ہوئی ماؤں کو دیکھتے ہیں تو یہ نصیحت حرفِ آخر کی طرح سچ معلوم ہوتی ہے۔ مزید افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ قیادت نے اس معاہدے کے متعلق جو ردِ عمل دکھایا یا جس پر خاموشی اختیار کی وہ امت ِ مسلمہ کی قلبی توقعات کے بالکل برعکس ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے ٹرمپ کو امن کا علمبردار قرار دینا اور اس کے لیے ایوارڈ کی بات کرنا — چاہے وہ محض ایک تجویز یا حمایت ہو!! دراصل فلسطینی شہداء کے خون کے ساتھ ایک ظالمانہ کھلواڑ ہے۔ ایسے شخص کو امن کا علم بردار کہنا، جس کے دورِ اقتدار میں لاکھوں مظلوموں کا خون بہا، اسپتال و اسکول ملبے میں تبدیل ہوئے اور بے گناہ بچے یتیم ہوئے، انسانیت کے منافی ہے۔

فلسطین کے محاذ پر جو قوتیں کھڑی ہیں، ان میں حماس ایک ایسا نام ہے جس نے عملی مزاحمت کے ذریعے امت ِ مسلمہ کے فرض کو ادا کرنے کی کوشش کی۔ حماس کے بانی اور قائدین نے اپنی اپنی جگہ پر قربانیاں دیں اور دین و وطن کے دفاع کی خاطر جدوجہد کی۔ حماس کی قیادت اور مجاہدین نے ہمیشہ یہ واضح کیا ہے کہ لہو کے آخری قطرے تک سرزمین ِ فلسطین کی حفاظت کریں گے۔ حماس کی لاتعداد قربانیوں کے بعد عالمی سطح پر بہت سے مسلم ممالک نے کھل کر اسرائیل کی پالیسیوں کی مخالفت کی ہے؛ احتجاج ہوئے، قراردادیں منظور ہوئیں، بعض حکومتوں نے سفارتی سطح پر اقدامات کیے۔ مگر پاکستان کی پالیسی، جو روایتی طور پر فلسطین کے حق میں مضبوط بیانیہ رکھتی آئی ہے، آج عملی موقف میں نمایاں طور پر کمزور دکھائی دیتی ہے۔ زبانی اظہارِ یکجہتی کافی نہیں؛ عملی قدم، واضح بیانیہ اور بین الاقوامی سطح پر مضبوط موقف درکار ہوتا ہے۔ افسوس کہ تاحال پاکستان کی جانب سے کھلے اور واضح الفاظ میں اسرائیل کی مخالفت یا اْس کے خلاف ٹھوس عملی اقدامات نظر نہیں آئے۔ بیانات بھی دیے گئے، مگر عملی سطح پر وہی ڈبل اسٹینڈرڈ دکھائی دیتا ہے جس نے ہماری خارجہ پالیسی کو کمزور کر دیا ہے۔

یہ دوغلی پالیسی صرف فلسطین تک محدود نہیں؛ یہ ہماری قومی خوداری، ہماری خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی شعبہ کو متاثر کرتی ہے۔ ماضی میں جب پاکستان نے اصولی موقف اپنایا تھا تو ہمیں اسلامی دنیا میں ایک وقار ملا کرتا تھا۔ مگر آج جو رویّہ اختیار کیا جا رہا ہے وہ ہمیں اس عزت و وقار سے محروم کر رہا ہے۔ اب یہ بتانا ضروری ہے کہ ٹرمپ کا حالیہ معاہدہ محض ایک دستاویز نہیں؛ یہ ایک سیاسی عمل ہے جس کے اثرات آنے والے برسوں میں محسوس ہوں گے۔ یہ معاہدہ فلسطین کے حقوق پر سمجھوتا، اسرائیلی تسلط کو قانونی رنگ دینے اور خطے میں دہشت گردی کی فضا کو مزید گہرا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ایسے معاہدے کی حمایت خواہ وہ کسی حکومت کی جانب سے براہِ راست کی جائے یا خاموشی سے قبول کر لی جائے، بنیادی انسانی حقوق اور بین الاقوامی انصاف کے خلاف ایک اعلانِ جنگ کے مترادف ہے۔ اور جب ہمارے اعلیٰ حکومتی عہدے دار اِس پر نرم گوشہ دکھاتے ہیں یا ایوارڈ جیسی تجاویز سامنے آتی ہیں، تو یہ نہ صرف اخلاقی طور پر ناقابل ِ فہم ہے بلکہ قوم کے نظریاتی بْنیادوں کے ساتھ بھی تضاد ہے۔

ہمیں خود سے پوچھنا ہوگا: کیا ہم فلسطین پر ہوئے ظلم و ستم کی اس تاریخ کو فراموش کر دیں گے؟ کیا ہم اپنے مذہبی، اخلاقی اور انسانی تقاضوں کے برعکس رہ کر دنیا کی طاقتوں کے سودے بازی میں شریک ہو جائیں گے؟ حقیقی امن کا علمبردار تو وہ ہے جو مظلوم کا حق دے اور انصاف کو قائم کرے۔ پاکستان کی قیادت کو چاہیے کہ وہ فوری اور کھلے دل کے ساتھ اس معاہدے کی کھل کر مذمت کرے، فلسطینیوں کے حق ِ خودارادیت کے لیے عملی طور پر آواز اٹھائے، اور اپنے بیانات کو عمل سے بھی ثابت کرے۔ قوم کا صبر اٹل ہے مگر تاریخ کی نظر سخت ہے؛ جو اب خاموش رہتا ہے، کل اسے اپنی چپ پر جواب دینا ہوگا۔ آخر میں ایک کڑوی مگر سچ بات کے پاکستانی وزیر اعظم اور آرمی چیف کا امریکا کا کر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے عالمی دہشت گرد کو امن کا ایوارڈ دینے کی سفارش کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ موجودہ حکمران کا قدر اپنے زمینی آقاؤں کی دہلیز پر سجدہ ریز ہیں اور مسلمانوں کے خون کا سودا کرنے کو تیار ہیں۔

دانش عابد سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • فیلڈ مارشل کی بہترین حکمت عملی سے آپریشن بنیان مرصوص میں تاریخی کامیابی ملی، مریم نواز
  • فیلڈ مارشل عاصم منیر کی بہترین حکمتِ عملی کی بدولت جنگ میں عظیم کامیابی ملی: مریم نواز
  • فیلڈ مارشل کی بہترین حکمت عملی کی بدولت جنگ میں عظیم کامیابی ملی، مریم نواز
  • حماس کی طرف سے قیدیوں کی رہائی کی پیشکش، شکست یا حکمت عملی؟
  • سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی کیلئے ٹیکس پالیسی کو ایڈمنسٹریشن سے الگ کرنا ہو گا: وزیر خزانہ
  • رجسٹریشن منتقلی میں دیرہوگی توجرمانہ دینا ہو گا، قانون میں ترمیم کر دی گئی
  • آزاد کشمیر کے موجودہ حالات انتہائی تشویشناک ہیں، دانشمندانہ حکمتِ عملی کی اشد ضرورت ہے: چوہدری محمد سرور
  •   آج پاکستان کو ایک معاملہ فہم قیادت اور دانشمندانہ حکمت عملی کی شدید ضرورت ہے، چوہدری محمد سرور
  • ٹرمپ کا امن منصوبہ یا امت ِ مسلمہ کے خلاف سازش؟
  • ایف بی آر کا نیاای۔کامرس ٹیکس نظام چھوٹے کاروباروں کے لیے چیلنج بن سکتا ہے، حنین ضیاء