data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251001-03-2
غزہ میں 7 اکتوبر 2023 سے اسرائیلی درندگی کا کھیل جاری ہے، ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کو خاک و خون میں نہلانے اور پورے غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کرنے کے بعد اسرائیل کے سرپرست امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر غزہ میں قیامِ امن کے لیے نام نہاد بیس نکاتی امن منصوبہ پیش کیا ہے۔ پیر کے روز نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے غزہ میں قیام امن کے لیے میرے 20 نکاتی امن منصوبے پر رضامندی ظاہر کردی ہے اگر حماس بھی اس منصوبے کو قبول کرلیتی ہے تو تمام اسرائیلی یرغمالی رہا ہوجائیں گے‘ حماس ایسا کرنے کو تیار ہے لیکن انہیں ایسا کرنے میں 72 گھنٹے سے زیادہ کا وقت نہیں لگنا چاہیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا کہ اگر حماس نے یہ تجویز نہ مانی تو اسرائیل کے پاس ملٹری طاقت استعمال کرنے کا پورا حق ہوگا اور امریکا اس کی مدد کرے گا۔ غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے امریکی صدر اور نیتن یاہو کے درمیان جن نکات پر اتفاق کیا گیا ہے اس کے مطابق غزہ کو ایک ایسی جگہ بنایا جائے گا جو اپنے پڑوسیوں کے لیے خطرے کا باعث نہ بنے اور دہشت گردی سے پاک ہو۔ اگر اسرائیل اس معاہدے کو قبول کر لے تو 72 گھنٹوں کے اندر تمام یرغمالی واپس کیے جائیں گے۔ وہ حماس ممبر جو ہتھیار ڈالنے پر راضی ہوں، انہیں معافی دی جائے گی اور جو غزہ چھوڑنا چاہیں انہیں محفوظ راستہ اور پناہ گزین ممالک تک رسائی دی جائے گی۔ اس معاہدے کی قبولیت پر غزہ میں فوری طور پر مکمل امداد بھیجی جائے گی۔ غزہ کی عارضی حکومت ایک غیر سیاسی، تکنیکی فلسطینی کمیٹی کے ہاتھ میں ہوگی، جو روز مرہ سرکاری خدمات اور میونسپل انتظامات چلائے گی۔ اس کمیٹی میں اہل فلسطینیوں اور بین الاقوامی ماہرین شامل ہوں گے، غزہ کی بحالی اور نگرانی کے لیے ٹرمپ کی قیادت میں نیا بین الاقوامی ادارہ ’’بورڈ آف پیس‘‘ بنایا جائے گا جس میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر سمیت دیگر شخصیات شامل ہوں گی، یہ ادارہ غزہ کی ترقی کے فنڈز اور ڈھانچہ بنائے گا جب تک کہ فلسطینی اتھارٹی اپنی اصلاحات مکمل نہ کر لے۔ کسی کو غزہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا، اور جو جانا چاہیں، وہ آزادانہ جا سکتے ہیں اور واپس آ سکتے ہیں۔ لوگوں کو رہنے کی ترغیب دی جائے گی اور بہتر غزہ بنانے کا موقع دیا جائے گا۔ حماس اور دیگر دھڑوں کو غزہ کی حکومت میں کوئی کردار نہیں ملے گا، نہ براہ راست نہ بالواسطہ۔ تمام فوجی ڈھانچہ، جیسے سرنگیں اور ہتھیاروں کے کارخانے، تباہ کر دیے جائیں گے اور دوبارہ نہیں بنائے جائیں گے۔ غزہ کو ہتھیاروں سے پاک کریں گے۔ عرب اور عالمی شراکت دار اس بات کی ضمانت دیں گے کہ حماس اپنے وعدوں پر عمل کرے اور غزہ خطرہ نہ بنے۔ ایک عارضی عالمی استحکام فورس غزہ میں فوراً تعینات ہوگی۔ اسرائیل غزہ پر قبضہ یا الحاق نہیں کرے گا۔ اسرائیلی فوج غزہ کا علاقہ آہستہ آہستہ عالمی فورس کو سونپے گی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس منصوبے کو قبول کر لیا ہے، لیکن حماس کے سیاسی بیورو کے رکن حسام بدران کا کہنا ہے کہ کہا کہ حماس کو اب تک قطر اور مصر کے ثالثوں کے ذریعے کوئی باضابطہ تجویز موصول نہیں ہوئی جس میں فائر بندی یا غزہ میں جنگ کے اختتام کی بات کی گئی ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ قابض اسرائیلی فوج کو غزہ سے واپس جانا ہوگا، فلسطینی مزاحمت ہر اس خیال اور تجویز کے لیے فراخ دلی کا مظاہرہ کر رہی ہے جس کا مقصد غزہ میں قتل عام روکنا اور غزہ میں جاری نسل کشی کا خاتمہ ہو، تاہم یہ سب کچھ ہمارے اصولی موقف اور قومی مطالبات پر سمجھوتے کے بغیر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کسی بیرونی طاقت کو یہ حق نہیں کہ وہ فلسطینی عوام پر اپنی مرضی تھوپے کہ وہ کس طرح اپنی قیادت منتخب کریں یا اپنے امور کو چلائیں۔ اس معاہدے پر نیتن یاہوکی خوشی قابل ِ دید ہے، ان کا کہنا ہے کہ منصوبہ جنگ کے خاتمے سے متعلق اسرائیل کے اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے اور یہ معاہدہ یقینی بنائے گا کہ غزہ اسرائیل کے لیے کبھی خطرہ نہیں بنے گا۔ تاہم انہوں نے یہ بھی دھمکی دی ہے کہ اگر حماس نے منصوبہ رد کیا تو اسرائیل اپنا کام مکمل کرے گا، ادھر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی نیتن یاہو کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حماس معاہدہ مسترد کردے تو اسرائیل کو حماس کے خاتمے کے لیے میری مکمل پشت پناہی حاصل ہوگی۔ مجوزہ امن معاہدے میں شامل نکات سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ امریکی صدر کی ساری دلچسپی جنگ بندی نہیں بلکہ ہر صورت میں اسرائیل کو مکمل طور پر تحفظ فراہم کرنا ہے، اس معاہدے میں اسرائیلی موقف کی تائید و حمایت کی گئی ہے، یہ اسرائیل کو قانونی حیثیت دلانے کی ایک مذموم کوشش ہے، غزہ میں حماس عوام کی نمائندہ جماعت ہے، جسے عوام نے اپنے ووٹوں سے منتخب کیا تھا غزہ کے عوام کے حقیقی نمائندوں کی نفی کر کے اور حماس کو ایک دہشت گرد گروہ باور کراکے امن کے قیام کی کوشش کا دعویٰ ایک مضحکہ خیز طرز عمل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل امریکا کی سرپرستی کے باوجود اپنے عزائم کی تکمیل میں کامیاب نہیں ہوسکا، جن مقاصد کو وہ جنگی میدان میں حاصل نہیں کرسکا ان کو اب معاہدے کے تحت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ٹرمپ کہتے ہیں کہ غزہ کی بحالی اور نگرانی کے لیے بین الاقوامی ادارہ ’’بورڈ آف پیس‘‘ بنایا جائے گا جس کی قیادت وہ خود کریں گے اور جس میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر بھی شامل ہوں گے، ڈونلڈ ٹرمپ کی اسرائیل نواز پالیسی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ان کی غیر جانبداری بھی واضح ہے اس اعتبار سے وہ کسی بھی طور بورڈ آف پیس کی قیادت کے اہل نہیں، 2003 میں جب امریکا نے عراق پر ’’ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن‘‘ کے جھوٹے الزامات لگا کر اس پر حملہ کیا تو ٹونی بلیئر اس میں پیش پیش رہے بعد ازاں جب یہ الزامات غلط ثابت ہوئے توٹونی بلیئر کو معذرت کرنا پڑی، انہوں نے کہا کہ وہ جنگ کی تباہی پر شرمندہ ہیں، ٹرمپ ایک ایسے شرمندہ شخص کو ایک مرتبہ پھر شرمندگی کا سامنا کرنے کے لیے فرنٹ لائن پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ٹرمپ یا ٹونی بلیئر کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ غزہ پر حکمرانی کریں؟ بظاہر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ امریکا جنگ بندی کے حوالے سے نہ صرف یہ کہ سنجیدہ ہے بلکہ عملی اقدامات بھی اٹھا رہا ہے مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ امریکا اسرائیلی ایجنڈے کی تکمیل اور اس کی بقا، سلامتی اور تحفظ پر نہ صرف یقین رکھنا ہے بلکہ اس کی پوری پالیسی اسی کے گرد گھوم رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کر کے امریکا نے کھل کر اپنی جانبداری کا اظہار کردیا ہے، آج غزہ میں اسرائیل جس درندگی کا مظاہرہ کر رہا ہے، اس میں اسے امریکا کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ اس باب میں مسلم حکمرانوں کی کورچشمی اور عاقبت نااندیشی ملی غیرت و حمیت کے فقدان کا مظہر ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ غزہ میں جاری نسل کشی کے خاتمے اور حماس کے کردار کی نفی کر کے امن کا کوئی معاہدہ سود مند ثابت نہیں ہوسکتا۔ فلسطینیوں کے حق ِ خود ارادیت اور تنازع کے ایک اہم فریق کو یکسر نظر انداز کرکے کیا جانے والا کوئی معاہدہ نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا، یہ امن نہیں خطے میں فساد کو فروغ دینے کی کوشش ہے جس کی کسی طور تائید نہیں کی جانی چاہیے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسرائیل کے امریکی صدر ٹونی بلیئر ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے نیتن یاہو اگر حماس جائے گا کا کہنا کی کوشش جائے گی غزہ کی کے لیے
پڑھیں:
حماس اتوار کی شام تک معاہدہ قبول کرلے ورنہ سب مارے جائیں گے، ٹرمپ کی دھمکی
واشنگٹن:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کو اتوار کی شام 6 بجے تک معاہدہ کرنے کی ڈیڈلائن دیتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ معاہدہ ہوا تو حماس کے جنگجوؤں کی جان بچ جائے گی ورنہ سب مارے جائیں گے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹر کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ حماس مشرق وسطیٰ میں کئی سال سے ایک بے رحم اور پرتشدد خطرہ رہا ہے، حماس نے 7 اکتوبر 2023ء کو کئی اسرائیلی بچوں، بزرگوں، خواتین اور مردوں کو ہلاک کیا، 7 اکتوبر کے حماس کے حملے کے جواب میں اب تک حماس کے 25 ہزار جنگجو مارے جاچکے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ بہت ساری افواج صرف میرے اجازت نامے کی منتظر ہیں کہ جائیں اور انہیں ختم کریں، ہم جانتے ہیں حماس کے جنگجو کون ہیں اور کہاں ہیں، وہ مارے جائیں گے، تمام بے گناہ فلسطینی فوری طور پر غزہ کے سیف زون منتقل ہوجائیں،حماس امن منصوبے پر رضا مند نہ ہوا تو اسے جہنم کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکی صدر نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کی عظیم اقوام اور امریکا نے اسرائیل کے ساتھ امن منصوبے پر دستخط کیے ہیں، مشرق وسطی میں کسی بھی طرح امن قائم کریں گے، اسرائیل کے زندہ یا مردہ تمام یرغمالیوں کو رہا کیا جائے، معاہدہ کرنے سے حماس کے جنگجوؤں کی جان بچ جائے گی، حماس کو اتوار شام 6 بجے سے پہلے معاہدے تک پہنچنا ہوگا۔