Islam Times:
2025-10-04@16:52:56 GMT

فلسطین، مزاحمت، انصاف اور تاریخ کا مقدمہ

اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT

فلسطین، مزاحمت، انصاف اور تاریخ کا مقدمہ

اسلام ٹائمز: دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ فلسطین کی آزادی محض ایک خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ پوری انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔ تاریخ کا فیصلہ ہمیشہ مظلوم کے حق میں اور ظالم کیخلاف ہوا ہے اور یقیناً اس بار بھی ایسا ہی ہوگا، کیونکہ فلسطین کی آزادی صرف فلسطینی عوام کی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی آزادی ہے۔ آج دنیا کو ایک بار پھر یہ اعلان کرنا ہوگا کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور رہے گا۔ یہی انصاف کا تقاضا ہے، یہی تاریخ کی سمت ہے اور یہی مزاحمت کے ثمرات ہیں۔ مستقبل انہی کا ہے، جو حق پر ڈٹے ہیں اور خونِ شہداء ہمیشہ آزادی کی روشنی کو زندہ رکھے گا۔ تحریر: آغا زمانی

فلسطین صرف ایک خطۂ زمین کا نام نہیں بلکہ یہ تاریخ، ایمان اور انسانیت کا سب سے بڑا امتحان ہے۔ صدیوں سے اس مقدس سرزمین کے اصل مکین، فلسطینی، اپنی بقاء اور آزادی کے لیے قربانی دے رہے ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ محض ایک جغرافیائی تنازعہ نہیں بلکہ یہ پوری انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے، جو صدیوں سے انبیاء کی گواہ اور امت مسلمہ کے دل کی دھڑکن ہے۔ لیکن بدقسمتی سے صہیونی غاصب طاقتوں نے عالمی استعماری قوتوں کی پشت پناہی سے اس پاکیزہ خطے پر قبضہ کرکے اسے ظلم، بربریت اور جبر کی علامت بنا دیا۔ عالمی طاقتوں نے ظلم اور منافقت کے ساتھ ایک ایسا مصنوعی نظام مسلط کیا ہے، جس کا نام غاصب صہیونی ریاست ''اسرائیل'' ہے، جو نہ صرف انسانی حقوق بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتا ہے۔ فلسطین آج بھی ایک ایسا زخمی وجود ہے، جس کی روح انصاف اور آزادی کے لیے تڑپ رہی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کو بعض حلقے "نادر موقع" قرار دیتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس منصوبے میں فلسطینیوں کے بنیادی حقِ خود ارادیت، حقِ واپسی اور اپنی زمین پر مکمل اختیار کو صریحاً نظر انداز کیا گیا ہے۔ سابق سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے درست نشاندہی کی کہ اس منصوبے میں کوئی واضح ٹائم لائن، کوئی مستقل سیز فائر اور نہ ہی فلسطینی ریاست کے قیام کی حقیقی ضمانت موجود ہے۔ یہ دراصل ایک نیا "کالونیل پراجیکٹ" ہے، جسے عالمی طاقتیں اپنے مفادات کی خاطر فلسطینیوں پر تھونپنا چاہتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی حالیہ سرگرمیوں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کو بعض حلقے مسئلہ فلسطین کا حل قرار دے رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس منصوبے میں فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کو صریحاً نظر انداز کیا گیا ہے۔

اس منصوبے میں غزہ کو ہتھیاروں سے خالی کرنے، اسرائیلی افواج کے "مرحلہ وار" انخلاء اور عالمی امن بورڈ کے ذریعے "امن کی نگرانی" جیسے نکات شامل ہیں، جو دراصل ایک نئے نوآبادیاتی منصوبے کی جھلک پیش کرتے ہیں۔ فلسطینیوں کے حقِ واپسی اور اپنی زمین پر مکمل اختیار کے سوال کو دانستہ طور پر غائب کر دیا گیا ہے۔ پاکستانی سینیئر صحافی حامد میر نے دوحہ ڈیکلریشن اور وزیراعظم پاکستان کی تقریر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "ٹو اسٹیٹ سلوشن" دراصل اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے 1947ء میں فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کو مسترد کر دیا تھا، لہٰذا آج بھی پاکستان کی نظریاتی اساس اسی موقف پر قائم رہنی چاہیئے۔ یعنی فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور اس کے مستقبل کا فیصلہ صرف فلسطینی عوام ہی کرسکتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن نے جامعہ اشرفیہ لاہور میں کہا کہ جب تک فلسطینی خود کوئی فیصلہ نہ کریں، کوئی بھی منصوبہ ان پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے مطابق دنیا کی کوئی طاقت یہ حق نہیں رکھتی کہ وہ لاکھوں شہداء کے خون سے لکھی گئی تاریخ کو اپنے سیاسی ایجنڈے کے لیے استعمال کرے۔ یہی بات امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے مزید واضح انداز میں بیان کی کہ "امن معاہدے کے نام پر ایسی کوئی بھی دستاویز جو 66 ہزار فلسطینیوں کی لاشوں پر لکھی جائے، وہ ظالموں کی حمایت کے مترادف ہے۔" یہ بیانات اور تجزیئے ایک بڑی حقیقت کو سامنے لاتے ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ طاقت کی بنیاد پر نہیں بلکہ انصاف کی بنیاد پر حل ہوسکتا ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر بھی کہتا ہے کہ جس قوم کی سرزمین پر قبضہ کیا جائے، اسے مسلح جدوجہد کا حق حاصل ہے۔ فلسطینی عوام اس اصول کے مطابق اپنی مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہی ان کا بنیادی حق ہے۔ یہ تمام نکات ایک بڑی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین محض سیاسی نہیں بلکہ یہ انصاف اور ظلم کے درمیان ایک کائناتی معرکہ ہے۔

رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کا فرمان اس حوالے سے ایک راہنمائی ہے: "یقین رکھیں کہ اس مزاحمت کا نتیجہ صہیونی غاصب اور اس کے حامیوں کی شکست ہے۔" اگر دنیا واقعی امن چاہتی ہے تو اسے فلسطینی عوام کے ناقابلِ انکار حقوق کو تسلیم کرنا ہوگا: فلسطینیوں کے حقِ واپسی کی ضمانت، غاصبانہ قبضے کی دستاویزات کی منسوخی، اسرائیلی جنگی جرائم کی شفاف تحقیقات، متاثرین کے لیے معاوضہ اور بحالی کا انتظام اور سب سے بڑھ کر فلسطینی ریاست کا مکمل قیام جس پر فلسطینی خود حکمرانی کریں۔ یہی وہ واحد راستہ ہے، جو فلسطین اور مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کی ضمانت بن سکتا ہے۔ دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ فلسطین کی آزادی محض ایک خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ پوری انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔ تاریخ کا فیصلہ ہمیشہ مظلوم کے حق میں اور ظالم کے خلاف ہوا ہے اور یقیناً اس بار بھی ایسا ہی ہوگا، کیونکہ فلسطین کی آزادی صرف فلسطینی عوام کی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی آزادی ہے۔ آج دنیا کو ایک بار پھر یہ اعلان کرنا ہوگا کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور رہے گا۔ یہی انصاف کا تقاضا ہے، یہی تاریخ کی سمت ہے اور یہی مزاحمت کے ثمرات ہیں۔ مستقبل انہی کا ہے، جو حق پر ڈٹے ہیں اور خونِ شہداء ہمیشہ آزادی کی روشنی کو زندہ رکھے گا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کہ فلسطین کی آزادی ہوگا کہ فلسطین فلسطینی عوام پوری انسانیت نہیں بلکہ یہ امتحان ہے کا مسئلہ دنیا کو ہے اور کے لیے

پڑھیں:

امن منصوبے کے نام پر 2 ریاستی فارمولے کو مسترد کرتے ہیں، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا

وزیراعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے ٹرمپ کے امن منصوبے کو دو ریاستی فارمولا قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعلٰی خیبرپختونخوا نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بحیثیت مسلمان و پاکستانی ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے، ہم صرف ایک ہی ریاست فلسطین کو مانتے ہیں۔

وزیراعلٰی خیبر پختونخوا نے کہا کہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، فلسطین کے معاملے پر ہمارا موقف واضح ہے، اسرائیل کو کسی طور تسلیم نہیں کریں گے، صرف ایک ریاست فلسطین کو مانتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امن منصوبے کے نام پر دو ریاستی فارمولا مسترد کرتے ہیں، فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ فلسطین کا ساتھ دینا ہر مسلمان پر فرض ہے، فلسطینی عوام کی ہر حد تک مدد کریں گے، اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کسی کا مسلط فیصلہ ہرگز قبول نہیں، فلسطینی عوام کے ساتھ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکی معاہدے کو بے نقاب نہ کرنا اسلام کی توہین ہے، علامہ ریاض نجفی
  • لاہور، فلسطین کے مظلوم عوام کیساتھ اظہار یکجہتی کیلئے طلبہ ریلی
  •  غزہ امن منصوبہ ،فلسطینی مزاحمت کی ‘‘ہتھیار ڈالنے’’ کی دستاویز!
  • آزاد فلسطینی ریاست کے قیام تک ہتھیار نہیں چھوڑیں گے، حماس کا دو ٹوک اعلان
  • امن منصوبے کے نام پر 2 ریاستی فارمولے کو مسترد کرتے ہیں، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا
  • صمود فلوٹیلا دنیا میں مزاحمت کی ایک بہت بڑی علامت بن گیا: حافظ نعیم الرحمان
  • پاکستان اور سعودی عرب: تاریخ کے سائے، مستقبل کی روشنی
  • سیز فائر یا سودۂ حریت؟ فلسطین اور دو ریاستی فریب
  • فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ امریکہ نہیں، بلکہ فلسطینی عوام کرینگے، علامہ مقصود ڈومکی
  • امن منصوبے کے نام پر 2 ریاستی فارمولے کو مسترد کرتے ہیں، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا