فلسطین، مزاحمت، انصاف اور تاریخ کا مقدمہ
اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ فلسطین کی آزادی محض ایک خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ پوری انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔ تاریخ کا فیصلہ ہمیشہ مظلوم کے حق میں اور ظالم کیخلاف ہوا ہے اور یقیناً اس بار بھی ایسا ہی ہوگا، کیونکہ فلسطین کی آزادی صرف فلسطینی عوام کی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی آزادی ہے۔ آج دنیا کو ایک بار پھر یہ اعلان کرنا ہوگا کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور رہے گا۔ یہی انصاف کا تقاضا ہے، یہی تاریخ کی سمت ہے اور یہی مزاحمت کے ثمرات ہیں۔ مستقبل انہی کا ہے، جو حق پر ڈٹے ہیں اور خونِ شہداء ہمیشہ آزادی کی روشنی کو زندہ رکھے گا۔ تحریر: آغا زمانی
فلسطین صرف ایک خطۂ زمین کا نام نہیں بلکہ یہ تاریخ، ایمان اور انسانیت کا سب سے بڑا امتحان ہے۔ صدیوں سے اس مقدس سرزمین کے اصل مکین، فلسطینی، اپنی بقاء اور آزادی کے لیے قربانی دے رہے ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ محض ایک جغرافیائی تنازعہ نہیں بلکہ یہ پوری انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے، جو صدیوں سے انبیاء کی گواہ اور امت مسلمہ کے دل کی دھڑکن ہے۔ لیکن بدقسمتی سے صہیونی غاصب طاقتوں نے عالمی استعماری قوتوں کی پشت پناہی سے اس پاکیزہ خطے پر قبضہ کرکے اسے ظلم، بربریت اور جبر کی علامت بنا دیا۔ عالمی طاقتوں نے ظلم اور منافقت کے ساتھ ایک ایسا مصنوعی نظام مسلط کیا ہے، جس کا نام غاصب صہیونی ریاست ''اسرائیل'' ہے، جو نہ صرف انسانی حقوق بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتا ہے۔ فلسطین آج بھی ایک ایسا زخمی وجود ہے، جس کی روح انصاف اور آزادی کے لیے تڑپ رہی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کو بعض حلقے "نادر موقع" قرار دیتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس منصوبے میں فلسطینیوں کے بنیادی حقِ خود ارادیت، حقِ واپسی اور اپنی زمین پر مکمل اختیار کو صریحاً نظر انداز کیا گیا ہے۔ سابق سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے درست نشاندہی کی کہ اس منصوبے میں کوئی واضح ٹائم لائن، کوئی مستقل سیز فائر اور نہ ہی فلسطینی ریاست کے قیام کی حقیقی ضمانت موجود ہے۔ یہ دراصل ایک نیا "کالونیل پراجیکٹ" ہے، جسے عالمی طاقتیں اپنے مفادات کی خاطر فلسطینیوں پر تھونپنا چاہتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی حالیہ سرگرمیوں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کو بعض حلقے مسئلہ فلسطین کا حل قرار دے رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس منصوبے میں فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کو صریحاً نظر انداز کیا گیا ہے۔
اس منصوبے میں غزہ کو ہتھیاروں سے خالی کرنے، اسرائیلی افواج کے "مرحلہ وار" انخلاء اور عالمی امن بورڈ کے ذریعے "امن کی نگرانی" جیسے نکات شامل ہیں، جو دراصل ایک نئے نوآبادیاتی منصوبے کی جھلک پیش کرتے ہیں۔ فلسطینیوں کے حقِ واپسی اور اپنی زمین پر مکمل اختیار کے سوال کو دانستہ طور پر غائب کر دیا گیا ہے۔ پاکستانی سینیئر صحافی حامد میر نے دوحہ ڈیکلریشن اور وزیراعظم پاکستان کی تقریر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "ٹو اسٹیٹ سلوشن" دراصل اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے 1947ء میں فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کو مسترد کر دیا تھا، لہٰذا آج بھی پاکستان کی نظریاتی اساس اسی موقف پر قائم رہنی چاہیئے۔ یعنی فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور اس کے مستقبل کا فیصلہ صرف فلسطینی عوام ہی کرسکتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے جامعہ اشرفیہ لاہور میں کہا کہ جب تک فلسطینی خود کوئی فیصلہ نہ کریں، کوئی بھی منصوبہ ان پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے مطابق دنیا کی کوئی طاقت یہ حق نہیں رکھتی کہ وہ لاکھوں شہداء کے خون سے لکھی گئی تاریخ کو اپنے سیاسی ایجنڈے کے لیے استعمال کرے۔ یہی بات امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے مزید واضح انداز میں بیان کی کہ "امن معاہدے کے نام پر ایسی کوئی بھی دستاویز جو 66 ہزار فلسطینیوں کی لاشوں پر لکھی جائے، وہ ظالموں کی حمایت کے مترادف ہے۔" یہ بیانات اور تجزیئے ایک بڑی حقیقت کو سامنے لاتے ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ طاقت کی بنیاد پر نہیں بلکہ انصاف کی بنیاد پر حل ہوسکتا ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر بھی کہتا ہے کہ جس قوم کی سرزمین پر قبضہ کیا جائے، اسے مسلح جدوجہد کا حق حاصل ہے۔ فلسطینی عوام اس اصول کے مطابق اپنی مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہی ان کا بنیادی حق ہے۔ یہ تمام نکات ایک بڑی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین محض سیاسی نہیں بلکہ یہ انصاف اور ظلم کے درمیان ایک کائناتی معرکہ ہے۔
رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کا فرمان اس حوالے سے ایک راہنمائی ہے: "یقین رکھیں کہ اس مزاحمت کا نتیجہ صہیونی غاصب اور اس کے حامیوں کی شکست ہے۔" اگر دنیا واقعی امن چاہتی ہے تو اسے فلسطینی عوام کے ناقابلِ انکار حقوق کو تسلیم کرنا ہوگا: فلسطینیوں کے حقِ واپسی کی ضمانت، غاصبانہ قبضے کی دستاویزات کی منسوخی، اسرائیلی جنگی جرائم کی شفاف تحقیقات، متاثرین کے لیے معاوضہ اور بحالی کا انتظام اور سب سے بڑھ کر فلسطینی ریاست کا مکمل قیام جس پر فلسطینی خود حکمرانی کریں۔ یہی وہ واحد راستہ ہے، جو فلسطین اور مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کی ضمانت بن سکتا ہے۔ دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ فلسطین کی آزادی محض ایک خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ پوری انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔ تاریخ کا فیصلہ ہمیشہ مظلوم کے حق میں اور ظالم کے خلاف ہوا ہے اور یقیناً اس بار بھی ایسا ہی ہوگا، کیونکہ فلسطین کی آزادی صرف فلسطینی عوام کی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی آزادی ہے۔ آج دنیا کو ایک بار پھر یہ اعلان کرنا ہوگا کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور رہے گا۔ یہی انصاف کا تقاضا ہے، یہی تاریخ کی سمت ہے اور یہی مزاحمت کے ثمرات ہیں۔ مستقبل انہی کا ہے، جو حق پر ڈٹے ہیں اور خونِ شہداء ہمیشہ آزادی کی روشنی کو زندہ رکھے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کہ فلسطین کی آزادی ہوگا کہ فلسطین فلسطینی عوام پوری انسانیت نہیں بلکہ یہ امتحان ہے کا مسئلہ دنیا کو ہے اور کے لیے
پڑھیں:
کچے مکانات، ہماری ثقافت اور تاریخ کے محافظ
لیوٹالسٹائی کہتے ہیں کہ ’’اگر آپ فن میں سچی محبت اور حقیقت دیکھنا اور محسوس کرنا چاہتے ہو، تو جائیں اور دیہاتوں کے کچے مکانات میں رہنے والوں کے فن و آرٹ کو دیکھیں۔ اس میں آپ کو نظر بھی آئے گااور محسوس بھی کرسکو گے‘‘۔
ٹالسٹائی کی بات کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ فطرت کی گود میں پیدا ہوتے ہیں، وہاں پرورش پاتے ہیں، نہ صرف ان کی معاشرتی زندگی سادہ اور خلوص پر مبنی ہوتی ہے۔ بلکہ ان کے فن و آرٹ، ادب، شاعری اور دیگر روحانی سرگرمیوں میں بھی یہی چیزیں کارفرما ہوتی ہیں۔
مٹی کے یہ کچے گھرہمارے دیہاتی حسن اور ثقافت کے امین ہیں۔ فطرت سے قریب تر ان کچے مکانوں نے آج تک ہماری تاریخ، روایات، ثقافت، رومان اور اقدار کو محفوظ کر رکھا ہے۔ لیکن آج کل پوری دنیا اربنائزیشن کی طرف روا ں دواں ہے۔ اس کے باعث یہ کچے مکان یا تو خالی ہورہے ہیں یا پھر ڈھائے جارہے ہیں۔
پکے مکان کے اپنے کچھ لوازمات اور مطالبات ہوتے ہیں۔ آج ہمارے گھروں پر چین، جاپان اور یورپ کی الیکٹرانک مشینیں، کمپیوٹر، فریج اور واشنگ مشین قابض ہوگئی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ان چیزوں نے ہماری اقدارو روایات کو بھی متاثر کیا ہے۔ فطرت سے دوری نے ہمیں ایک ایسے ویرانے میں لاکھڑا کیا ہے جہاں اب کوئی چیز اپنی اصل شکل اور رنگ میں نظر نہیں آتی۔ ہم ایک ایسے کنکریٹ کے جنگل میں رہتے ہیں جہاں سے اب فطرت کا نظارہ اور ان نظاروں سے لطف اندوز ہونا بھی نصیب نہیں ہوتا، حالانکہ فطرت تو اب بھی موجود ہے۔ ویسا سورج ہے ویسا چاند ہے اور ویسے ہی تارے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ موسم بدل گئے، حالانکہ موسم نہیں بلکہ ہمارے مزاج بدل گئے ہیں۔ تہذیب و ثقافت کے حوالے سے ہمارے اندازے اور پیمانے بدل گئے ہیں۔ آج بھی جو لوگ کچے مکان اور دیہات میں رہتے ہیں انہیں ان اونچے اونچے مکانات، شہر کے محلات اور بنگلوں میں رہنے والے لوگ پسماندہ اور غیر مہذب سمجھتے ہیں۔ انہیں اُجڈ اور جاہل جیسے ناموں سے لکھتے اور پکارتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھول جاتے ہیں کہ انہی کچے مکانات اور دیہات نے ہمیں خاندانی رشتوں کی مٹھاس دی ہے، ہمیں سچی محبت کرنے کا سلیقہ سکھایا، خلوص، صداقت اور اپنی مٹی اپنے وطن سے ناتا جوڑنے کا درس دیا ہے۔
اتحاد و اتفاق، تنظیم، مہمان نوازی، جرگہ سسٹم اور حجرہ کلچر غم اور خوشی دونوں کے موقع پر ایک دوسرے کے ساتھ ہم دردی، خدمت، تعاون کرنا ہمیں انہی کچے مکانات میں رہنے والوں نے سکھایا۔ ہم یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہماری ثقافت کے اصل اور تاریخ کے محافظ یہی کچے مکانات ہیں۔ مٹی کے ان گھروں نے پیارو محبت کی عظیم داستانوں اور کرداروں کو جنم دیا ہے۔ فن و آرٹ کے نادر نمو نے تخلیق کیے ہیں۔ صنعت و ہنر کی بے شمارایجادات پیش کی ہیں۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آج کا انسان پکا مکان بنانا اور اس میں رہنا بسنا چھوڑ کر مٹی کا مکان بنائے اور واپس دیہاتی زندگی اپنائے۔ لیکن اصل بات ہے انسانی رویوں کی، ہماری ثقافت اور اقدار کی، ہماری اپنی تہذیبی شناخت اور پہچان کی۔ ہم چاہے جہاں بھی اور جس جگہ بھی رہیں، اپنی تہذیب وثقافت کی ان اقدار و روایات کا دامن ضرور تھام کر رکھیں، جو اقدار و روایات آج بھی ہمای رہنمائی کرسکتی ہیں۔
یہ بات یہاں تک تو صحیح ہے کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ دنیا گھٹتی جارہی ہے، بڑے بڑے اور وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے مکانات کے بجائے اب لوگ اپارٹمنٹس میں رہنے پر مجبور ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی وہ سوچ ترک کردیں جو ہماری مٹی کے خمیر میں شامل ہے۔ جدید سے جدید گھر بناکر سکھ کی زندگی ضرور گزاریں اور اس میں رہنا بھی کوئی بری بات نہیں، مگر کہنا مقصود یہ ہے کہ مٹی کے بنے یہ گھروندے ہمارا ورثہ ہے۔ آج بھی دور دراز کے دیہاتوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو پکے مکانات تعمیر کرنے سے قاصر ہیں۔ ہمیں محض اس لیے کسی کو کمتر نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ کچے مکان میں رہتا ہے۔ دراصل یہی ہماری تہذیب کاحصہ ہے، یہی ہماری ثقافت ہے اور یہی ہماری روایات ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آج کی اس گلوبل ویلیج اور گلوبل ہوم نے ہمیں قدرتی مناظر سے دور کردیا ہے۔ آج ہمیں نہ تو پرندوں کی چہچہاہٹ سے محظوظ ہونا نصب ہوتا ہے اور نہ ہی دریاؤں کی گونجتی آوازیں سننے کو ملتی ہیں۔ ہم صرف اسکرین پر درختوں کے پتوں کی سرسراہٹ سننے تک محدود رہ گئے ہیں۔ پتھریلی زمینوں پر چلنے کے بجائے پکے فٹ پاتھوں پر واک کرنے کے عادی ہوگئے ہیں۔
ذرا سوچیے کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم خود مشین بنتے جارہے ہیں۔ جو بندہ مٹی میں نہیں کھیلا، بھلا اسے وطن کی مٹی کی خوشبو کیسے محسوس ہوگی اور جو خوشبو محسوس نہیں کرتا تو اس وطن کی مٹی سے کیسے پیار ہوسکتا ہے۔ ہم اپنے بلند وبالا مکانات کے خوب صورت ڈرائنگ رومز میں کچے مکانات کی دیدہ زیب پینٹنگز آویزاں کردیتے ہیں مگر ہم اس مٹی کی دل فریب خوشبو محسوس نہیں کرسکتے۔ کیا ہم واقعی تخیلاتی دنیا میں نہیں رہتے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔