Juraat:
2025-10-04@16:52:46 GMT

ہچکولے کھاتی معیشت کے استحکام کے دعوے!

اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT

ہچکولے کھاتی معیشت کے استحکام کے دعوے!

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے گزشتہ روز لندن میں سمندر پار پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دو تین سال پہلے معیشت ہچکولے کھا رہی تھی۔

اب معیشت مستحکم ہو رہی ہے۔ معیشت کی ترقی کا وقت آچکا ہے ملکی معیشت مشترکہ کاوشوں کی وجہ سے نہ صرف مستحکم ہوئی بلکہ اب درست سمت پر گامزن ہے۔اور یہ بہترین ٹیم ورک کا نتیجہ ہے۔ اس کی بہتری میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا اہم کردار ہے۔

ہم نے معاشی استحکام حاصل کر لیا ہے، اب ملک معاشی ترقی کی طرف بڑھے گا۔ایک طرف وزیراعظم معیشت کے استحکام کے دعوے کررہے ہیں دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ ا س وقت آئی ایم ایف کا وفد پاکستان میں موجود ہے جس کے ساتھ 7؍ ارب ڈالر قرض کے موجودہ پروگرام کے دوسرے جائزے کے سلسلے میں مذاکرات جاری ہیں اور کلائمیٹ فنانسنگ کے پہلے جائزے پر مذاکرات بھی شیڈول کا حصہ ہیں۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ پاکستان کے کلائمیٹ فنانسنگ پروگرام کے تحت مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف کی شرط پر کلائمیٹ بجٹ کے لیے نیا طریقہ کار طے کیا گیا ہے اورئی ایم ایف کی شرائط کے تحت پیڑول اور ڈیزل کے فی لیٹر پر ڈھائی، ڈھائی روپے کلائمیٹ سپورٹ لیوی عائد کردی گئی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف آئندہ 2 سال میں کلائمیٹ فنانسنگ پروگرام کے تحت پاکستان کو کم وبیش ایک ارب 30کروڑ ڈالرز فنڈز دے گا۔ جبکہ اطلاعات کے مطابق صورت حال یہ ہے کہ حالیہ قرضہ پروگرام کے سلسلے میں آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے معاملات اب ایسی سطح پر پہنچ چکے ہیں جہاں عام پاکستانی ملک کی سالمیت اور خود مختاری کے بارے میں بجا طور پر فکر مند دکھائی دیتے ہیں کیونکہ حکومت نے عالمی ساہوکار کو ہر اہم اور غیر اہم ادارے اور محکمے کے معاملات میں دخل اندازی کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ تیل کی قیمتوں کا تعین بھی آئی ایم ایف کرتا ہے اور یہ بھی آئی ایم ایف بتاتا ہے کہ بجلی کتنے روپے فی یونٹ دی جائے گی۔ ا سٹیٹ بینک کے معاملات بھی آئی ایم ایف کی نگرانی میں چل رہے ہیں اور مختلف اداروں کی نجکاری بھی اسی کے ایما پر ہو رہی ہے۔ اگر ان سارے معاملات کا اختیار ایک غیر ملکی ادارے کو سونپ کر حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ ملک کو ترقی اور استحکام کی طرف لے کر جا رہی ہے تو یہ اس کی خام خیالی نہیں تو کیاہے۔

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے اس کی مدد نہیں کر رہا بلکہ وہ گزرتے وقت کے ساتھ اس پر اپنا شکنجہ مزید کستا جا رہا ہے۔وزیراعظم اگر سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی صورت حال میں عوام کو معیشت کے استحکام کی نوید سنا کر وہ لوگوں کو مطمئن کرسکتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے کیونکہ عام آدمی دیکھ رہاہے کہ ملک میں حکمرانوں اور ان کے مقرب اشرافیہ کے سوا کسی کی حالت میں بہتری نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس آج ہر شخص پہلے سے کہیں زیادہ پریشان ہے اور یہ پریشانی لوگوں کے دلوں میں لاوے کے طرح پک رہی ہے جو کسی بھی وقت پھٹ کر باہر آسکتی ہے۔وزیراعظم اور ان کے معاونین کی سمجھ میں یہ بات آخر کیوں نہیں آتی کہبار بار آئی ایم ایف کے در پر کشکول لے کر جانے کی بجائے حکومت کو ایسی پالیسیاں بنانی چاہئیں جن کے ذریعے ملک خود کفالت کی طرف جائے۔ پاکستان کے پاس چین کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ اور وسط ایشیا کے ممالک کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے بہت وسیع مواقع موجود ہیں جن پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں دوست ممالک کے ساتھ جامع مشاورتی عمل شروع کرے اور اس بات کا جائزہ لے کہ کس ملک کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے سلسلے میں کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ اگر پاکستان اس طرف توجہ دے تو چند ہی برس میں وہ اس قابل ہوسکتا ہے کہ وہ نہ صرف آئی ایم ایف کا پچھلا قرضہ اتار دے بلکہ آئندہ اسے کبھی اس کی طرف جانے کی ضرورت بھی پیش نہ آئے لیکن اس حوالے سے بنیادی شرط یہ ہے کہ حکمران ذاتی اور گروہی مفادات سے اوپر اٹھ کر ریاست اور عوام کے بارے میں سوچیں اور خلوصِ نیت کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھائیں۔

وزیراعظم اس بات سے ناواقف نہیں ہوں گے کہ ان کی جانب سے معیشت کے استحکام کے دعووں کے برعکس ملک پر قرضوں کے بوجھ میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہاہے جس کا اندازہ وزارت خزانہ کی رپورٹ سے لگایا جاسکتاہے جس کے مطابق صرف گزشتہ 3سال کے دوران سرکاری قرضہ 31 ہزار 200 ارب روپے بڑھ گیا ہے۔سرکاری قرضے میں گزشتہ 9 سال کے دوران 300 فیصد سے زائد یعنی 60 ہزار 800 ارب روپے کے اضافے کا انکشاف ہوا ہے۔جون 2018 سے جون 2022 تک سرکاری قرضے میں 24 ہزار 900 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ ہواہے ، جون 2025 تک مجموعی قرضے کا حجم 80 ہزار 500 ارب رہا یعنی قرضوں میں 60 ہزار 800 ارب روپے کا اضافہ، وفاقی وزارت خزانہ کی رپورٹ میں قرضوں میں اضافے کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق گزشتہ 9 سال کے دوران 300 فیصد اضافے کا انکشاف ہوا ہے۔ جون 2018 سے جون 2022 تک سرکاری قرضے میں 24ہزار 900ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ جون 2025 تک مجموعی سرکاری قرضے کا حجم 80 ہزار 500 ا رب روپے رہا۔ اس میں مقامی سرکاری قرضہ 54ہزار 500ارب اور غیرملکی قرضہ 26 ہزار ارب روپے تھا۔وزارت خزانہ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ جون 2016 تک مجموعی سرکاری قرضہ 19 ہزار 700 ارب روپے تھا۔یہ رپورٹ خود حکومت کے ایک مقتدر ادارے کی ہے جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ وزارت خزانہ کے جاری کردہ ان اعدادوشمار کے ہوتے ہوئے کیا وزیر اعظم کا یہ کہنا درست ہے کہ معیشت ترقی کررہی ہے ۔ وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ عوام کو خیالوں کی دنیا سے باہر لاکرجرات سے کام لیتے ہوئے حقائق سے آگاہ کریں ،وزیراعظم کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ فی کس آمدنی ایک عدد ہے، جو صرف کاغذ پر موجود ہوتا ہے۔ مگر ایک بچہ جو صاف ہوا میں سانس لے، ایک ماں جو کینسر سے بچ جائے، ایک شہر جس میں صاف پانی اور محفوظ سڑکیں ہوں یہی اصل انسانی ترقی ہے۔ وزیراعظم اس بات سے ناواقف نہیں ہوں گے کہ عالمی بینک نے حال ہی میں غربت اور عدم مساوات پر جو رپورٹ جاری کی ہے اس میں ہوش ربا اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 3 برسوں میں غربت میں 7 فیصد اضافہ ہوا ہے اور مالی سال 2024 میں یہ 25.

3 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پے در پے آنے والی حکومتوں کی کبھی بھی ترجیح غربت اور عدم مساوات کو کم کرنا نہیں رہی ۔حکومت کا غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) کو راغب کرنے کے لیے قابلِ سرمایہ کاری منصوبوں کی تلاش کا نعرہ بنیادی طور پر غلط ہے۔ یہ وہی غلطی ہے جو بار بار دہرائی جا رہی ہے۔ حکومت کا اصل کام براہِ راست سرمایہ کاری کی تلاش نہیں بلکہ ایسا ماحول پیدا کرنا ہے جو سرمایہ کاری کے لیے سازگار ہو اور عوام کو ایسے مواقع فراہم کرنا ہے جس سے ترقی کو فروغ ملے اور سرمایہ کاروں کے لیے ایک مضبوط صارف مارکیٹ وجود میں آئے۔اس وقت حکومت کی تمام تر توجہ اس بات پر ہونی چاہیے کہ لوگوں کو غربت سے کیسے نکالا جائے۔ عالمی بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی رپورٹوں سے ظاہرہوتاہے کہ اس وقت ملک کی تقریباً نصف آبادی کو مکمل معاشی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ اس صورت حال سے نکلنے کیلئے حکومت کو اپنی توانائی اس جانب صرف کرنی چاہیے کہ 15 سے 24 برس کی عمر کے 37 فیصد بے کار نوجوانوں کو روزگار یا تربیت فراہم کی جائے۔توجہ کا فقدان واضح ہے۔ حکومت کی ترجیح سرخیوں میں آنا اور سرمایہ کاری کے لیے خارجہ پالیسی کے فوائد کو استعمال کرنا لگتا ہے۔ لیکن مارکیٹ پر مبنی، کارکردگی تلاش کرنے والی سرمایہ کاری اس طرح نہیں آتی۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت کو کچھ مالی ذخائر بطور تحفہ مالی معاونت میں مل جائیں۔ ایسی صورت میں پیدا ہونے والی لیکویڈیٹی کو غربت کم کرنے، بالخصوص دیہی علاقوں میں (جہاں غربت کی شرح 28.2 فیصد ہے جو شہری علاقوں کی نسبت دگنی سے بھی زیادہ ہے)، پر خرچ کیا جانا چاہیے۔

گندم کی امدادی قیمت ختم کرنے کے بعد صوبائی حکومتوں کے رویے نے چھوٹے کسانوں کی آمدنی کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بھی دیہی علاقوں میں زیادہ سنگین ہیں، جہاں گزشتہ برسوں میں آنے والے سیلاب نہ صرف فصلوں بلکہ مویشیوں کی صورت میں اثاثے بھی تباہ کر گئے ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ فنڈز اس جانب منتقل کرے اور ایسا ڈھانچہ تعمیر کرنے کے لیے تعاون حاصل کرے جو موسمیاتی آفات کے مقابلے میں لچکدار ہو۔عالمی بینک کی رپورٹ کا ایک اور تشویشناک پہلو شہروں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی (informal urbanisation) ہے، جو نئے مسائل کو جنم دے گی۔ حکومت کو شہری منصوبہ بندی پر توجہ دینی چاہیے اور ساتھ ہی دیہی علاقوں میں معاشی و معاشرتی حالات کو بہتر بنانا چاہیے۔ معاشی پالیسیوں میں معیشت میں باضابطگی بڑھانے پر زور دینا چاہیے، کیونکہ 85 فیصد ملازمتیں غیر رسمی شعبے میں ہیں۔ ان کارکنوں کے پاس نہ پنشن ہے، نہ طبی سہولتیں اور نہ ہی دیگر مراعات، جس کی وجہ سے وہ کسی بھی جھٹکے کے وقت نہایت کمزور ہو جاتے ہیں۔ حکومت کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ملازمین کو ان کے حقوق ملیں، تاکہ وہ مزید حوصلہ افزائی پائیں اور اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر سکیں۔ غربت کے خاتمے اور ایک متحرک متوسط طبقے کے قیام کے لیے تعلیم، غذائیت اور ماحول میں سرمایہ کاری نہایت ضروری ہے۔ تقریباً 40 فیصد بچے نشوونما کی کمی (stunting) کا شکار ہیں، 25 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں اور پرائمری تعلیم حاصل کرنے والے 75 فیصد بچے ایک عام کہانی تک نہیں پڑھ سکتے۔ تعلیم کو سب سے بڑی ترجیح بنانا ہوگی۔مجموعی طور پر، بہتر جغرافیائی و سیاسی حیثیت کے جشن منانے کا وقت نہیں ہے۔ خود اطمینانی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اصلاحات کا عمل، جو اس وقت کمزور ہے، اسے مضبوط بنانا ہوگا۔ مشکل فیصلے درکار ہیں۔ اگر کوئی حقیقی پیش رفت ہوگی تو دنیا اسے خود تسلیم کرے گی اور سرمایہ کاری اس کے نتیجے میں آئے گی۔عالمی بینک نے پاکستان میں غربت و افلاس کے حوالے سے اپنی حالیہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں ترقی کا موجودہ ماڈل 2018 سے 2025 کے دوران غربت و افلاس کی سطح پر فرق ڈالنے میں ناکام رہا ہے۔بین الاقوامی پاورٹی انڈیکس کے مطابق پاکستان میں غربت 45 فی صد پر کھڑی ہے، قومی زراعت سکڑ رہی ہے، تعمیرات میں اجرتیں کم، قرضے اور خسارے بڑھ رہے ہیں، سرمایہ کاری کمزور ہے، سیاسی عدم استحکام
کاروبار کو تباہ کر رہا ہے، غریبوں کو نوکریاں نہیں مل رہی ہیں اور لاکھوں نوجوان بیرون ملک جانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ طاقتور اشرافیہ پالیسیوں کو اپنے فائدے کے لیے موڑتی ہے اور مقامی حکومتوں کی ناقص ٹیکس پالیسی کا بوجھ زیادہ تر نچلے طبقے پر ڈالا جاتا ہے۔ورلڈ بینک کے چیف اکانومسٹ کے مطابق غربت کا خاتمہ مختلف عوامل پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں میکرو اکنامک استحکام، افراط زر میں کمی، آمدنی میں اضافہ اور ملک کی معیشت کو کھولنا شامل ہے۔

عالمی بینک کی یہ رپورٹ ملک کی مجموعی معاشی صورت حال، عوام کی حالت زار اور سیاسی عدم استحکام کے حوالے سے نہایت اہمیت کی حامل اور سنجیدہ غور و فکر کی متقاضی ہے۔ موجودہ حکومت کے ارباب اختیار اور ان کے وزراء تواتر کے ساتھ ملک کی معیشت بہتر ہونے اور غربت میں کمی اور مہنگائی و گرانی نیچے آنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ ملک میں سیاسی استحکام اور نظام حکومت کی مضبوطی کی دلیلیں دی جا رہی ہیں۔ جب کہ زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے جس کی ایک جھلک عالمی بینک کی مذکورہ رپورٹ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ کیا قرضوں میں جکڑی ہوئی معیشت کو مستحکم قرار دیا جا سکتا ہے؟ ملک میں غربت و بے روزگاری اور مہنگائی میں برق رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے۔ نوجوان ڈگریاں لے کر نوکری کی تلاش میں سرگرداں و پریشان گھوم رہے ہیں۔ روزگار کے مواقعوں کی عدم دستیابی کے باعث پڑھے لکھے نوجوان چار و ناچار بیرون ملک جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ پالیسی سازوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ملک کی نصف کے قریب آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ بدقسمتی سے اس تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت کا مہنگائی پر کوئی کنٹرول نظر نہیں آتا، روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں بڑھ کر عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ آٹا اور چینی جیسی اہم اور بنیادی اشیا عوام کو سرکاری نرخوں پر دستیاب نہیں ہیں۔ملک کے چاروں صوبوں میں آٹے اور چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں صوبائی حکومتیں ناکام نظر آتی ہیں جس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے ایسے تلخ زمینی حقائق کی روشنی میں حکومت کے سیاسی، معاشی اور عدالتی استحکام کے دعوؤں کی کیا حقیقت رہ جاتی ہے۔
٭٭٭

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: معیشت کے استحکام اور سرمایہ کاری سرمایہ کاری کے پاکستان میں سرکاری قرضے آئی ایم ایف استحکام کے پروگرام کے عالمی بینک سلسلے میں رپورٹ میں اضافہ ہو صورت حال ارب روپے حکومت کو چاہیے کہ کے دوران کی رپورٹ کے مطابق کرنے کے ہیں اور رہے ہیں عوام کو کے ساتھ اس بات جا رہی کے لیے گیا ہے ملک کی ہے اور رہا ہے کی طرف رہی ہے

پڑھیں:

مزید مہنگائی ، مزید غربت ، مزید قرضے

وزیر خارجہ ، اسحاق ڈار ، کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان سمیت عالمِ اسلام کے 8ممالک نے امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، کے فلسطین بارے20نکاتی ایجنڈے کا خیر مقدم کیا ہے تو حکومتِ پاکستان کے اِس اقدام کی تعریف کی جائے ، نہ کہ اِس کی تنقیص۔‘‘

ممکن ہے ڈار صاحب درست ہی کہتے ہوں ، مگر جب پاکستانی عوام آئے روز مہنگائی در مہنگائی کی ہلاکت خیز چکی میں پِس رہے ہوں تو عوام کسی بھی حکومتی اقدام کی تعریف کریں تو کیونکر؟

اب دیکھئے اکتوبر کا مہینہ طلوع ہوتے ہی شہباز حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں فی لٹر 4روپے سے زیادہ اضافہ کرکے غریب عوام پر مہنگائی کا جو نیا بم گرایا ہے ، اِس کی موجودگی میں پاکستانی عوام اِس حکومت کی تحسین و تعریف کیسے کر سکتے ہیں؟

پٹرول کی قیمت اب269روپے فی لٹر ہو گئی ہے ۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں نئے اضافے سے مہنگائی میں نئے سرے سے اضافہ ہُوا ہے ۔ حکومتیں اور حکمران مگر سمجھتے ہیں کہ جس طرح اُنہیں ہمہ دَم بڑھتی مہنگائی سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا، اِسی طرح عوام بھی مہنگائی سے متاثر نہیں ہو رہے ۔

مثال کے طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے اگلے روز چکوال میں فرمایا:’’ حکومت ملی تو خزانہ خالی تھا۔ اب بھرنا شروع ہو چکا ہے ۔ جب سے ہم اقتدار میں آئے ہیں ، ملک کو کہاں سے کہاں لے آئے ہیں۔‘‘درست فرمایا ہے ۔ کیا حکومتی خزانہ پٹرول، ڈیزل ، آٹے ، چینی اور گھی کی قیمتوں میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ کرکے بھرا جا رہا ہے ؟

امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اپنے عوام سے چند دن قبل، یو این جی اے میں اپنے خطاب میں، ایسی ہی غلط بیانی کی: ’’ جب سے مَیں اقتدار میں آیا ہُوں ، امریکا بھر میں مہنگائی اور خورونوش کی قیمتوں میں قابلِ ذکر کمی آئی ہے‘‘ ۔

جونہی اُن کی تقریر اختتام کو پہنچی ، سی این این کے تجزیہ کاروں نے ٹرمپ کے خطاب کی سرجری کرتے ہُوئے امریکی عوام کو بتایا کہ امریکی صدر نے سراسر جھوٹ بولا ہے۔ امریکا میں مہنگائی کم ہونے کی بجائے ، مزید بڑھی ہے ۔ اِس مہنگائی کے کارن امریکی عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں ۔

امریکی صدر شائد نہیں جانتے تھے کہ اُن کی تقریر ’’دلپذیر‘‘ سُننے اور دیکھنے والے کروڑوں افراد بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں ۔ لالہ مادھو رام جوہر فرخ آبادی کا شعر ہے:بھانپ ہی لیں گے اشارہ سرِ محفل جو کیا/ تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں! قیامت کی نظر رکھنے والوں نے ٹرمپ کو آئینہ دکھا کر اُنہیں امریکا ہی میں نہیں، دُنیا بھر میں نادم کر دیا ہے ۔

ٹرمپ صاحب کی طرح ہمارے حکمرانوں کو بھی اِس بات کی قطعی پروا نہیں ہے کہ مہنگائی کم کرنے کے حوالے سے اُن کے دعوے کس قدر بے بنیاد اور بودے ہیں!

سب کچھ جانتے ہُوئے بھی ہمارے حکمران اور اُن کے دائیں بائیں کھڑے کارندے مسلسل جھوٹ الاپ رہے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کا گراف بہت نیچے آگیا ہے ۔

زمینی حقائق مگر اِن سرکاری درباری دعوؤں کے برعکس ہیں ۔حکمران مہنگائی میں ’’خاصی کمی‘‘ کا دعویٰ شائد اس لیے کرتے ہیں کہ وہ خود اور اُن کی بیگمات بازار سے سودا سلف لانے کا کبھی تکلّف ہی نہیں کرتے ۔

اگر حکمران خود دکانوں پر جائیں تو اُنہیں ’’لون مرچ‘‘ کے آسمانوں تک پہنچے داموں کی حدت اور شدت کی ’’لو‘‘ لگ جائے ۔ عالمی ادارے ہمارے حکمرانوں کے دعوؤں کے برعکس اعتراف کررہے ہیں کہ ’’ پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں 26فیصد اضافہ ہُوا ہے ۔‘‘

یہ اعدادو شمار عالمی بینک کی جانب سے بتائے گئے ہیں اور اِنہیں تمام اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کیا ہے ۔

بقول ورلڈ بینک: یہ مہنگائی پچھلے تین برسوں کے دوران مزید اور مسلسل بڑھتی چلی گئی ہے ۔ اور یہ وہ عرصہ ہے جس کے دوران پی ڈی ایم اور نون لیگ کی مسلسل حکومت رہی ہے۔

اور اِن حکومتوں کے سربراہ شہباز شریف رہے ہیں ۔ ساتھ ہی معاشی تھنک ٹینک (Economic Policy and Business Development)نے پاکستانی قرضوں پر ایک رپورٹ جاری کرتے ہُوئے یہ انکشاف کیا ہے کہ ’’پاکستان کا ہر شہری 3لاکھ18ہزار252روپے کا مقروض ہے ۔ ایک عشرہ قبل پاکستان کا ہر شہری 90ہزارروپے کا مقروض تھا۔‘‘

لاریب شہباز حکومت مہنگائی کو لگام دینے اور عوام کو متوقع ریلیف فراہم کرنے میں ناکام ہوتی چلی جارہی ہے۔ حکمرانوں اور اُن کے سنگی ساتھیوں کے غیر ملکی دَورے( جن میں ہردَورے پر کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں) مگر رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہے ۔

بھاری بھر کم وفد کے ساتھ ایک غیر ملکی دَورہ ابھی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا تیار ہو جاتا ہے ۔ پاکستان ایسا مفلس ترین اور غیر ملکی قرضوں میں ڈُوبا ملک کیا ایسے مہنگے غیر ملکی مسلسل دَوروں کا بوجھ برداشت کر سکتا ہے؟

حکمرانوں کے اِن غیر ملکی دَوروں سے غربت کے مارے عوام کو کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے؟ دیکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ ستمبر2025کے تیسرے ہفتے UNGA کے سالانہ اجلاس میں اگر بھارتی وزیر اعظم نہیں پہنچے تو بھارتی عوام کو کتنا نقصان پہنچا ہے ؟

اور اگر ہمارے وزیر اعظم صاحب بھاری تر وفد اور اپنے منظورِ نظر ساتھیوں کے ساتھ UNGAاور واشنگٹن پہنچے تو یہ ایک عام غریب پاکستانی کے لیے کتنا مفید ثابت ہُوا ؟ دو ہفتوں کو محیط وزیر اعظم کے تازہ غیر ملکی دَورسے ایک عام غریب پاکستانی کا کیا بھلا ہُوا؟

ملک میں اِس وقت آٹا ، چینی ،چاول، گھی، دالوں وغیرہ کے نرخوں میں مسلسل کمر توڑ مزید اضافہ ہورہا ہے ۔ آٹے اور چاول کی نئی قیمتیں تو ہوشربا ہیں۔ اوپر سے یہ ’’نوید‘‘ بھی سُننے کو مل رہی ہے کہ اِس بار ملک بھر میں گندم کی فصل کمتر کاشت ہوگی کہ سیلابوں نے اکثر زرعی زمینوں کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔

اِسی خدشے کے پس منظر میں نون لیگی وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی ، رانا تنویر، نے کہا ہے کہ ’’اگلے سال ڈیڑھ ارب ڈالر کی گندم درآمد کرنا پڑے گی۔‘‘

گندم درآمدگی کا مطلب یہ ہے کہ آٹے کی قیمت میں مزید اضافہ ۔ وطنِ عزیز میں مہنگائی کی شرح میں کس قدر اضافہ ہو رہا ہے ، اِس کا اندازہ اِس ایک مثال سے بھی لگایا جا سکتاہے :آل پاکستان جیمز اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن نے یکم اکتوبر کو بتایا ہے کہ’’ یکم جنوری 2025سے 30ستمبر2025 تک ، صرف9مہینوں میں سونے کی فی تولہ قیمت میں ایک لاکھ34ہزار روپے اضافہ ہُوا ہے ۔‘‘

اب سونے کی قیمت فی تولہ 4لاکھ روپے سے بھی تجاوز کر چکی ہے ۔ اربوں کھربوں میں کھیلنے والے ہمارے حکمران مگر غربت کی لکیر کے نیچے بسنے والے کروڑوں عوام کی مسلسل اجیرن ہوتی زندگیوں سے شائد آگاہ اور آشناہی نہ ہوں۔

مثال کے طور پر سیلابوں کی بنیاد پر مالی تباہی کا شکار غریب کسانوںاور ہاریوں کی دستگیری کی بات چھڑی ہے تو پنجاب اور سندھ کے حکمرانوں کے ’’آگو‘‘ ایک دوسرے کی تکذیب پر اُتر آئے ہیں ۔

مثلاً:بے نظیر انکم سپورٹ (BISP)کی سربراہ ( جو پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں) محترمہ روبینہ خالد مطالبہ کرتی سنائی دے رہی ہیں کہ ’’سیلاب زدگان (خاص طور پر سندھ کے)کی امداد BISP کے تحت کی جائے ‘‘۔

بلاول بھٹو سمیت ساری پیپلز پارٹی روبینہ خالد کی ہمنوا نظر آ رہی ہے ،جب کہ پنجاب حکومت کی ترجمان اور وزیر اطلاعات ، محترمہ عظمیٰ بخاری ، روبینہ خالد اورپیپلز پارٹی کی قیادت کو صاف الفاظ میں بتا رہی ہیں کہ’’(پنجاب اور سندھ میں) سیلاب متاثرین کو BISPکے تحت مدد فراہم نہیں ہو سکتی ۔

وزیر اعلیٰ (پنجاب ) ریلیف کارڈ کے تحت ہی پنجاب کے سیلاب زدگان کی مدد کی جائیگی ۔‘‘ حکمران طبقات کے مفاداتی تصادم میں اب بیچارے غربت وعسرت ، سیلابی پانیوں کے مارے اور مہنگائی زدہ عوام جائیں تو جائیں کہاں؟

متعلقہ مضامین

  • معیشت مستحکم کرنا اولین ترجیح، سرمایہ کاروں کو سہولتیں دی جائیں: شہباز شریف
  • پاکستان کو خطے میں سرمایہ کاری کا پرکشش مرکز بنایا جائے گا، شہباز شریف
  • ملکی معیشت مضبوط بنیادوں پر مستحکم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے، وزیرِ اعظم
  • وزیراعظم کی بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو تمام سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت
  • پاکستان کو خطے کا پرکشش سرمایہ کاری مرکز بنایا جائے گا، وزیراعظم
  • پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر مستحکم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے؛ وزیراعظم
  • پاکستان کو خطے کا پرکشش سرمایہ کاری مرکز بنایا جائے گا، وزیراعظم شہباز شریف
  • مزید مہنگائی ، مزید غربت ، مزید قرضے
  • معاشی استحکام اور ٹیکس اصلاحات کا نفاذ حکومت کی ترجیح ہے: سینیٹر محمد اورنگزیب