Express News:
2025-10-04@13:55:23 GMT

اسرائیل کے خلاف مسلسل بین الاقوامی بحری مزاحمت

اشاعت کی تاریخ: 4th, October 2025 GMT

سب جانتے تھے کہ فریڈم فلوٹیلا کولیشن ( ایف ایف سی ) کے زیرِ اہتمام سمود فلوٹیلا کی پینتالیس کشتیوں میں سوار چھیالیس ممالک کے چار سو ستانوے رضاکار فاقہ زدوں کے لیے خوراک و طبی سامان لاد کر اکتیس اگست کو اسپین ، اٹلی ، یونان اور تیونس سے غزہ تک لگ بھگ ایک ماہ کا سفر مکمل نہیں کر سکیں گے۔

سب جانتے تھے اس قافلے میں ماحولیاتی رہنما گریٹا تھنبرگ ، نیلسن منڈیلا کے پوتے مانڈلا ، پاکستان کے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان ، لاہور کے شہری عزیز نظامی ، یورپی پارلیمنٹ کی فرنچ رکن ریما حسن ، بارسلونا کے سابق مئیر ایڈا کولائیو ، یہودی سیاسی ایکٹوسٹ ڈیوڈ ایڈلر کے علاوہ بتیس صحافی ، متعدد فن کار ، سماجی شخصیات اور انسانی حقوق کے کارکن دورانِ سفر دھمکائے جائیں گے اور پھر ہتھکڑیاں پہنا کے اسرائیل لے جائے جائیں گے اور ڈی پورٹ کر دیے جائیں گے۔ کچھ کشتیاں یا تو ڈبو دی جائیں گی ورنہ ضبط ہو جائیں گی۔سو یہی ہوا۔مگر دو کشتیاں مکینو اور مارنیٹی اسرائیلی بحریہ کو جل دے کر غزہ کی سمندری حدود میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں اور ساحل سے کچھ ہی پرے اسرائیلی کمانڈوز کے قابو میں آئیں۔

سب جانتے ہیں کہ ایسی مہمات کا مقصد منزل تک کامیابی سے پہنچنا نہیں ہوتا بلکہ ذرایع ابلاغ کی زینت بن کر عالمی ضمیر کو ہلکا سے جھنجوڑنا ، ریاستی منافقتوں کو بے نقاب کرنا اور ظالم کے گرد ایک اور سوالیہ نشان کھڑا کرنا ہوتا ہے۔ یہ کام نہ پہلی بار ہوا نہ آخری بار۔البتہ دو ہزار آٹھ سے اب تک غزہ کی بحری ناکہ بندی توڑنے کی یہ اڑتیسویں اور سب سے بڑی عالمی کوشش تھی۔

تین ماہ قبل جون میں بھی سسلی سے میڈیلین نامی کشتی کے ذریعے گریٹا تھنبرگ ، یورپی پارلیمنٹ کی رکن ریما حسن اور الجزیرہ کے صحافی عمر فیاض سمیت سات ممالک کے بارہ رضاکاروں نے غزہ پہنچنے کی کوشش کی مگر انھیں ایک سو پچاسی کیلومیٹر پرے ( سو ناٹیکل میل ) بین الاقوامی سمندر میں ہی اسرائیلی کمانڈوز نے حراست میں لے لیا۔انھیں ڈی پورٹ کرنے سے پہلے غزہ سے تیس کیلومیٹر دور اسرائیلی شہر اشدود کی جیل میں رکھا گیا۔

 غزہ کا بحری ، بری ، فضائی محاصرہ دو ہزار سات سے جاری ہے۔اس غیر قانونی محاصرے کو توڑنے کی پہلی بین الاقوامی کوشش دو ہزار آٹھ میں ہوئی جب فری غزہ موومنٹ نامی تنظیم کی ایک کشتی اسرائیلی ناکہ بندی سے بچتے ہوئے ساحل تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔فری غزہ موومنٹ نے دو ہزار سولہ تک وقتاً فوقتاً اکتیس کشتیاں روانہ کیں اور ان میں سے پانچ محاصرہ توڑنے میں کامیاب رہیں۔

مئی دو ہزار دس میں ترک امدادی تنظیم ہیومینٹیرین ریلیف فاؤنڈیشن ( آئی ایچ ایچ ) نے چھ سو بین الاقوامی رضاکاروں کو ’’ ماوی مرمرا ‘‘ نامی ایک بڑے امدادی بحری جہاز کے ذریعے ترکی سے غزہ کے سفر پر روانہ کیا مگر اسرائیلی کمانڈوز نے غزہ کی حدود میں داخلے سے بہت پہلے ہی جہاز پر حملہ کردیا۔اس کارروائی میں دس رضاکار شہید اور لگ بھگ ڈیڑھ سو زخمی ہوئے۔

اس المیے کے ردِعمل میں ترکی نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات معطل کر دیے۔حسبِ معمول اسرائیل پر بین الاقوامی لعن طعن بھی ہوئی اور حسبِ عادت اسرائیل چکنا گھڑا ثابت ہوا۔اسرائیل نے تین برس بعد دو ہزار تیرہ میں اپنی ’’ آپریشنل غلطی ‘‘ پر ترکی سے معذرت کی۔ترکی نے کارروائی میں شریک اسرائیلی کمانڈوز پر ’’ غیر حاضری ‘‘ میں جنگی جرائم کا مقدمہ چلا کے علامتی سزائیں سنائیں اور اپنا غصہ ٹھنڈا کیا۔شہدا اور زخمیوں کے لیے ہرجانے کی دو طرفہ بات چیت آج پندرہ برس بات بھی معلق ہے۔

 دو ہزار گیارہ میں فریڈم فلوٹیلا دوم کے نام سے دس کشتیوں میں تین سو سے زائد رضاکاروں نے غزہ پہنچنے کی کوشش کی مگر اسرائیل کے بے پناہ سفارتی دباؤ کے سبب یونان نے اس فلوٹیلا کو منظم ہونے کی سہولت فراہم کرنے سے معذرت کر لی۔کچھ کشتیوں میں تکنیکی خرابیاں ڈلوا دی گئیں۔صرف ایک بڑی فرانسیسی کشتی ’’ ڈگنٹی الکراما ‘‘ جس میں سترہ رضاکار سوار تھے اسے مصر جانے کے وعدے پر بندرگاہ چھوڑنے کی اجازت ملی مگر مصری حدود میں پہنچتے ہیں کشتی والوں نے اعلان کیا کہ وہ سمت بدل کر غزہ جا رہے ہیں۔چنانچہ اسرائیلی کمانڈوز نے کشتی اپنی تحویل میں لے لی اور مسافروں کو ڈی پورٹ کر دیا گیا۔

جون دو ہزار پندرہ میں فریڈم تھری کے نام سے سویڈش جہاز ماریانا آف گوتھنبرگ غزہ کی جانب روانہ ہوا۔اس کے ساتھ بھی وہی ہوا جو پہلی کوششوں کے ساتھ ہوا تھا۔اسرائیل نے اس کی سواریوں کو بھی چھ دن قید میں رکھنے کے بعد ڈی پورٹ کر دیا۔

جولائی دو ہزار اٹھارہ میں پھر چار بڑی کشتیاں (العودہ ، فریڈم ، مائی ریڈ اور فلسطین) فیوچر آف فلسطین فلوٹیلا کے نام سے روانہ ہوئیں۔اس بار اسرائیلی کمانڈوز نے امدادی کارکنوں کوگرفتار کر کے زد وکوب بھی کیا۔

اس سال مئی میں لگ بھگ تیس ترک اور آزری رضاکاروں نے کانشئیس ( ضمیر ) نامی کشتی میں مالٹا سے غزہ پہنچنے کی کوشش کی مگر اسرائیلی ڈرونز نے اس کشتی پر مالٹا کی سمندری حدود میں ہی دو حملے کیے۔کشتی کو نقصان پہنچا۔کچھ رضاکار زخمی بھی ہوئے۔

اسرائیل کا دعوی ہے کہ غزہ کی بحری ناکہ بندی بین الاقوامی قانون کے تحت ہے۔مگر ماہرینِ قانون اس دعوی کے بودے پن پر حیران ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ غزہ اسرائیل کا نہیں فلسطینی اتھارٹی کا علاقہ ہے اور اتھارٹی نے کبھی بھی اس ناکہ بندی کی اجازت نہیں دی لہٰذا اس کے قانونی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

دوسری بات یہ ہے کہ اسرائیل نے اب تک جتنے بھی امدادی بیڑوں کو روکا ، حملہ کیا یا مسافروں کو یرغمال بنایا۔یہ سب کاروائی اسرائیل کی بحری حدود میں نہیں بلکہ کھلے بین الاقوامی سمندر میں ہوئی۔ لہٰذا ان کارروائیوں پر قزاقی کا بین الاقوامی قانون لاگو ہوتا ہے۔

ویسے بھی ہر ملک کی سمندری حدود بارہ ناٹیکل میل ( بائیس کلومیٹر ) طے ہے۔جب کہ دو سو ناٹیکل میل ( تین سو ستر کلومیٹر ) تک کا سمندر ماہی گیری ، کانکنی اور دیگر معاشی مقاصد کے لیے تو استعمال ہو سکتا ہے مگر اس میں بھی بحری ٹریفک روکنے کا حق کسی بھی ریاست کو نہیں ۔

سان ریمو بین الاقوامی کنونشن کے مطابق کسی بھی آبادی تک خوراک اور دیگر ضروری امداد کو بحری ناکہ بندی کے ذریعے روکنا بین الاقوامی جرم ہے۔اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی متفقہ قرار داد ستائیس سو بیس اور ستائیس سو اٹھائیس کے تحت تمام رکن ممالک پابند ہیں کہ انسانی امداد کی ترسیل میں ہرگز رکاوٹ نہ ڈالیں۔اسرائیل بھی اگرچہ اقوامِ متحدہ کا رکن ہے مگر جس طرح وہ ہر تنظیم ، عدالت اور قانون کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔ایسا رویہ بھی قابلِ رشک و حسد ہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسرائیلی کمانڈوز نے بین الاقوامی ڈی پورٹ کر ناکہ بندی کے لیے غزہ کی

پڑھیں:

امدادی قافلے پر اسرائیلی حملہ بین الاقوامی پانیوں میں قانون اور انسانیت دونوں کی صریح توہین ہے، صادق جعفری

احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم رہنما نے کہا کہ فلسطین میں موجود مزحمتی جماعتیں غاصب اسرائیل کے خلاف اپنا جائز دفاع کر رہی ہیں، اسرائیل مغربی کنارے سمیت غزہ پر مسلسل حملے کر رہا ہے، امریکہ اور یورپی ممالک مشرق وسطیٰ میں امن و امان کے خیر خواہ نہیں، ٹرمپ کی امن تجاویزات کو عرب و مسلم ممالک کو مسترد کرنا چاہیئے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے کراچی کے صدر علامہ شیخ محمد صادق جعفری نے کہا ہے کہ پاکستانی 25 کروڑ عوام ٹرمپ منصوبے کو سختی سے مسترد کرتی ہے، ہمیں ٹرمپ کا نہیں قائد اعظم محمد علی جناح کا پاکستان چاہیئے، نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار عوام کو معاہدے سے مطلق بے وقوف نہ بنایئے، کل اگر کشمیری عوام کے بغیر ٹرمپ مسئلہ کے حل کیلئے اپنا ایجنڈا دیتے ہیں تو کیا حکومت قبول کرے گی۔ جامع مسجد حیدر کرار اورنگی ٹاؤن کے باہر احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے علامہ صادق جعفری، علامہ مبشر حسن کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ نہ صرف فلسطینی قوم کے بنیادی حقوق کی نفی کرتا ہے بلکہ غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف یہود و نصاریٰ کی ایک منظم اور گہری سازش ہے، غزہ کے عوام کو ان کے وطن، شناخت، خودمختاری اور جغرافیائی وحدت سے محروم کرنے کی اس  مذموم کوشش کے خلاف امت مسلمہ کو آواز بلند کرنا ہوگی، اس منصوبے کا مقصد غزہ کو سیاسی طور پر تنہا، معاشی طور پر مفلوج، اور انسانی سطح پر تباہ کرنا اور وہاں کی مزاحمتی آواز کو مکمل طور پر خاموش کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے عوام کو سیاسی منظرنامے سے نکالنے کی کوشش ایک ناقابل قبول اقدام ہے جو بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور انسانی حقوق کے اصولوں کے سراسر خلاف ہے، اس منصوبے کے ذریعے فلسطینی سرزمین کی تقسیم، انضمام اور غزہ کی علیحدگی کو ایک ''حل'' کے طور پر پیش کرنا اصل میں قبضے کو قانونی جواز فراہم کرنے کی کوشش ہے، غزہ پر جاری ناکہ بندی، معاشی پابندیاں اور مسلسل عسکری حملے اس منصوبے کے نفاذ کی عملی صورت ہیں، جو غزہ کے لاکھوں مظلوم عوام کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہیں، فلسطینی مجاہدین ایسے کسی دھوکے میں نہیں آئیں گے، ٹرمپ کے ایجنڈے پر فلسطین کا سودا کرنے والے مسلم حکمران خیانت کار ہیں، امریکہ و صہیونی غاصب ریاست کی افواج نے سرزمین انبیاء فلسطین پر لاکھوں بے گناہ انسانوں کا خون بہایا ہے، پاکستانی حکمران خائن عرب بادشاہوں کے طرز عمل اپنا رہے ہیں، خائن عرب حکمرانوں کی طرح فلسطین کا سودا نہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطین میں موجود مزاحمتی جماعتیں غاصب اسرائیل کے خلاف اپنا جائز دفاع کر رہی ہیں، اسرائیل مغربی کنارے سمیت غزہ پر مسلسل حملے کر رہا ہے، امریکہ اور یورپی ممالک مشرق وسطیٰ میں امن و امان کے خیر خواہ نہیں، ٹرمپ کی امن تجاویزات کو عرب و مسلم ممالک کو مسترد کرنا چاہیئے، ہم عالمی برادری، اقوام متحدہ، اسلامی ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس خطرناک اور غیر انسانی سازش کا حصہ بننے کی بجائے اس کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوں، غزہ کے عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات وقت کی اولین ضرورت ہے، ہم فلسطین کی مکمل آزادی، القدس کو دارالحکومت بنانے اور غزہ سمیت پورے فلسطین میں عوام کے حقِ خودارادیت کے لیے اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے، ٹرمپ منصوبہ تاریخ کی کوڑے دان میں جائے گا لیکن غزہ کے عوام کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، غزہ فلسطین کا دل ہے اور دل کی اس دھڑکن کو کبھی خاموش نہیں ہونے دیا جائے گا۔

رہنماؤں نے گلوبل صمود فلوٹیلا پر اسرائیل کا قبضہ کرنے سینیٹر مشتاق سمیت 150 سے زائد نہتے کارکنوں کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ امدادی قافلے پر اسرائیلی حملہ بین الاقوامی پانیوں میں قانون اور انسانیت دونوں کی صریح توہین ہے، واقعہ دراصل غزہ کے غیر قانونی اور غیر انسانی محاصرے کو مزید سخت کرنے کی ایک شرمناک کڑی ہے، قافلہ کسی جنگ کے لیے نہیں، بلکہ بھوک اور پیاس سے تڑپتے غزہ کے بچوں اور مریضوں کے لیے زندگی کا پیغام لے کر نکلا تھا مگر اسرائیلی جارحیت ایک بار پھر دنیا پر عیاں ہوگئی ہے، اس ریاست کے اصل عزائم امداد روکنے، ظلم بڑھانے اور انسانیت کو روندنے کے سوا کچھ نہیں، حکومت اپنے اس دوغلے رویے کو ترک کرے، مگرمچھ کے آنسو بہانے کے بجائے فلسطین کے مظلوم عوام کے ساتھ دے سینیٹر مشتاق سمیت دیگر مغویوں کو فوری آزاد کرایا جائے، ملکی عوام امریکی صدر کے ایجنڈے کو مسترد کرتی ہے حکومت فورا اپنی حمایت واپس لے۔ شرکائے احتجاج نے امریکہ و اسرائیل کا پرچم نذر آتش کیا۔

متعلقہ مضامین

  • امدادی قافلے پر اسرائیلی حملہ بین الاقوامی پانیوں میں قانون اور انسانیت دونوں کی صریح توہین ہے، صادق جعفری
  • اسرائیل نے مشتاق احمد خان کو حراست میں لیکر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے؛ بلاول بھٹو 
  • ’گلوبل صمود فلوٹیلا‘ میں شامل آخری کشتی پر بھی اسرائیل کا قبضہ
  • آئرلینڈ کی اسرائیل پر تنقید، غزہ فلوٹیلا پر حملہ بین الاقوامی بحری قوانین کیخلاف ورزی قرار
  • امریکا اسرائیل کو ویٹو کے ذریعے مسلسل تحفظ دے کر بین الاقوامی قوانین پامال کررہاہے، چین
  • اسرائیل کا غزہ جانے والے بحری قافلے صمود کے کارکنوں کو یورپ ڈی پورٹ کرنے کا اعلان
  • صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی حملہ دہشت گردانہ اقدام ہے، ایران
  • مسلسل اضافے کے بعد سونے کی فی تولہ قیمت میں کمی آگئی
  • صمود فلوٹیلا کی سرگرمیوں پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت