سعودی شوریٰ کونسل کا وفد اسلام آباد پہنچ گیا، اسٹریٹجک اور پارلیمانی تعاون پر بات چیت ہوگی
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
سعودی عرب کی شوریٰ کونسل کا ایک اعلیٰ سطحی وفد کونسل کے اسپیکر عبداللہ بن محمد بن ابراہیم آل الشیخ کی زیر قیادت پیر کو اسلام آباد پہنچ گیا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان سعودی عرب معاہدہ کیا کچھ بدل سکتا ہے؟
ریڈیو پاکستان کے مطابق یہ دورہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان پارلیمانی تعاون کو فروغ دینے کے لیے کیا جا رہا ہے اور دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان طویل المدتی تزویراتی (اسٹریٹجک) اور برادرانہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی کوششوں کا بھی حصہ ہے۔
مزید پڑھیے: پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تاریخی دفاعی معاہدہ، سوشل میڈیا پر لوگوں کی خوشی دیدنی
توقع کی جا رہی ہے کہ اس سے پارلیمانی تعاون کے لیے نئے امکانات کے دروازے کھلیں گے۔
اسپیکر آل الشیخ کا بیانشوریٰ کونسل کے اسپیکر عبداللہ بن محمد آل الشیخ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تعلقات گہرے اور اسٹریٹجک نوعیت کے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ یہ دورہ شوریٰ کونسل، پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے درمیان تعاون کے نئے مواقع پیدا کرے گا۔
اہم ملاقاتیں اور گفت و شنیداسلام آباد میں قیام کے دوران اسپیکر آل الشیخ کی قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق اور دیگر اعلیٰ پاکستانی حکام سے ملاقاتیں متوقع ہیں جن میں دوطرفہ تعلقات کا جائزہ لیا جائے گا اور انہیں مزید مضبوط بنانے پر بات چیت کی جائے گی۔
سیاسی، معاشی و دفاعی تعاون میں وسعتیہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان سیاسی، معاشی اور دفاعی تعاون میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب میں آئی ٹی اور سائبر سیکیورٹی پر پاک سعودی تعاون پر اتفاق
دونوں ممالک نے ادارہ جاتی سطح پر اور عوامی روابط کے میدان میں تعلقات کو مزید گہرا کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاک سعودی معاہدہ سعودی شوریٰ کونسل سعودی شوریٰ کونسل کے وفد کا دورہ پاکستان عبداللہ بن محمد بن ابراہیم آل الشیخ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاک سعودی معاہدہ سعودی شوری کونسل سعودی شوری کونسل کے وفد کا دورہ پاکستان عبداللہ بن محمد بن ابراہیم آل الشیخ کے درمیان آل الشیخ
پڑھیں:
پاکستان اور سعودی عرب میں اہم پیشرفت، دفاعی معاہدے کے بعد اقتصادی تعاون کیلئے اعلیٰ سطح کمیٹی قائم
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ تاریخی دفاعی معاہدے کے بعد دونوں برادر ممالک کے تعلقات میں ایک اور بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔ وفاقی حکومت نے دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعاون کو نئی جہت دینے کے لیے ایک 18 رکنی اعلیٰ سطح کمیٹی قائم کر دی ۔
کمیٹی کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری
میڈیارپورٹس کے مطابق یہ کمیٹی وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر قائم کی گئی ہے اور اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ کمیٹی کا مقصد پاکستان – سعودی اقتصادی فریم ورک کے تحت مذاکرات کی قیادت اور نگرانی کرنا ہے۔
دو شریک چیئرمین، بااختیار ٹیمیں
کمیٹی کی قیادت کے لیے دو شریک چیئرمین نامزد کیے گئے ہیں ،سینیٹر مصدق مسعود ملک (وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی) ،لیفٹیننٹ جنرل سرفراز احمد (نیشنل کوآرڈینیٹر، ایس آئی ایف سی) یہ دونوں عہدیدار سعودی حکام کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کے لیے مرکزی ٹیمیں تشکیل دیں گے۔
کمیٹی کون کون شامل ہے؟
کمیٹی میں مختلف شعبوں کے اہم وزراء اور اعلیٰ حکام شامل ہیں، جن میں احد چیمہ (اقتصادی امور)، جام کمال خان (تجارت)، اویس لغاری (توانائی)، رانا تنویر حسین (خوراک)، شزا فاطمہ خواجہ (آئی ٹی)،
عبدالعلیم خان (مواصلات) ، چیئرمین ایس ای سی پی، ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینکشامل ہیں
وزیراعظم آفس نے ہدایت دی ہے کہ کمیٹی 6 اکتوبر 2025 سے اپنی مکمل دستیابی یقینی بنائے سعودی عرب سے متعلق ہر اجلاس کی سفری منظوری ایک گھنٹے کے اندر مکمل کی جائے ہر 15 دن بعد وزیراعظم کو کارکردگی رپورٹ پیش کرے
تعاون کا دائرہ مزید وسیع
نوٹیفکیشن میں واضح کیا گیا ہے کہ پاک سعودی تعاون صرف دفاع اور توانائی تک محدود نہیں رہا، بلکہ اب یہ ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی، تجارت، زراعت، اور دیگر اقتصادی شعبوں تک پھیل چکا ہے۔
اہم ترجیحات کیا ہوں گی؟
ذرائع کے مطابق کمیٹی کی ترجیحات میں شامل ہوں گے سعودی عرب کے ساتھ بائے بیک سرمایہ کاری کی تجدید (خصوصاً تیل اور زراعت کے شعبے میں) ، پاکستانی برآمدات میں اضافہ، زیر التوا تیل ریفائنری منصوبے پر پیش رفت ،اس وقت دونوں ملکوں کی باہمی تجارت میں 3 ارب ڈالر کا خسارہ سعودی عرب کے حق میں ہے، جسے کم کرنے پر بھی بات چیت متوقع ہے۔
وزیراعظم کا ممکنہ سعودی دورہ
وزیراعظم شہباز شریف رواں ماہ کے آخر میں سعودی عرب کا سرکاری دورہ کریں گے، جہاں وہ اہم اقتصادی معاہدوں کو حتمی شکل دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔