Express News:
2025-10-07@23:03:34 GMT

جدوجہد کا نیا ماڈل

اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT

پاکستانی کشمیرکی آبادی 40 لاکھ کے قریب ہے۔ اس علاقے میں خواندگی کی شرح 91 فیصد کے قریب ہے جب کہ بھارت کے زیرِ کنٹرول کشمیر میں، یہ شرح 84 فیصد کے قریب ہے۔ کشمیر کی آبادی کا آدھا حصہ پاکستان کے مختلف شہروں کے علاوہ برطانیہ اور یورپی ممالک میں آباد ہے۔ یہاں غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 10.

35 فیصد کے قریب ہے۔

کشمیر میں تاریخی طور پر جدوجہد کی ایک طویل تاریخ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کشمیریوں نے مغل راج کو بھی قبول نہیں کیا تھا۔ 1586میں مغل بادشاہ اکبر نے دھوکے سے کشمیر کے بادشاہ یوسف شاہ چک کو ہندوستان بلا کر گرفتار کر لیا تھا۔ یوسف کی ملکہ ہبا خاتون نے جنگلوں میں جاکر لڑائی لڑی تھی اور جدوجہد کی ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔

کشمیری امورکے ماہر بشیر سدوزئی کا کہنا ہے کہ ہبا خاتون نے کشمیری زبان میں شاعری کر کے کشمیروں میں جوش پیدا کیا تھا، یوں کشمیر کی رانی کی شاعری کو برصغیر ہندوستان کی پہلی مزاحمت شاعری قرار دیا جاسکتا ہے۔

 کشمیریوں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے اقتدار کو چیلنج کیا۔ گزشتہ صدی کے پہلے دو عشروں میں کشمیریوں کی ڈوگر راج کے خلاف جدوجہد برصغیر کی مزاحمتی تاریخ کا روشن باب ہے۔ شیخ عبداللہ نے سب سے پہلے آل انڈیا جموں کشمیر مسلم کانفرنس قائم کی۔

اس جماعت کو مزید توسیع دی گئی اور جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کا نام دیا گیا۔ شیخ عبداللہ اور ان کے ساتھیوں نے ڈوگر راج کے خلاف برسوں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ شیخ عبد اللہ ایک قوم پرست رہنما تھے جب کہ پاکستان کے قیام کا معاملہ آیا تو انھوں نے پاکستان کی مخالفت کی مگر اس کے باوجود کشمیر کے مسئلے پر آواز اٹھانے پر انھیں بھارتی حکومت نے کئی سال تک قید میں رکھا۔ 1947 میں بٹوارے کے بعد انگریز سرکار نے کشمیر کا مسئلہ جان بوجھ کر پیدا کیا۔

کہا جاتا ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ پاکستان کی حکومت سے ریاست کشمیر کے الحاق کے لیے بات چیت کررہے تھے کیونکہ آل انڈیا مسلم لیگ نے پاکستان میں ریاستوں کی خود مختاری کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اچانک قبائلی لشکر نے کشمیر میں داخل ہونے اور لوٹ مارکی بناء پر مہاراجہ نے بھارت سے الحاق کا فیصلہ کیا اور آج تک کشمیرکا مسئلہ حل طلب ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں آزاد جموں و کشمیر حکومت 1948ء سے قائم ہے اور اس کا ایک آئین بھی ہے مگر حقائق ظاہرکرتے ہیں کہ آزاد کشمیر کی حکومت کو راولپنڈی سے ریگولیٹ کیا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں سردار ابراہیم اور سردار قیوم وغیرہ کشمیر کے مقبول رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ اس طرح لبریشن فرنٹ کے رہنما مقبول بٹ جنھیں بھارتی دار الحکومت نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دیدی گئی تو جوانوں میں مقبول رہے۔

 نئی قیادت اس وقت سامنے آئی ہے، جب 70ء کی دہائی میں پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور 1973 کے آئین کے تحت نظام حکومت ترتیب دیا گیا تو آزادکشمیر میں 1974 میں ایک عبوری آئین نافذ کیا گیا۔ اس آئین کے تحت آزاد کشمیر کی ایک خود مختار حکومت قائم ہوئی۔ اس آئین میں کئی ترامیم ہوئیں۔ آئین کے ارتقائی تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2018میں اس آئین میں 13ویں ترمیم کی گئی جس کے تحت آئین کی بعض دفعات میں ترمیم کے لیے حکومت پاکستان کی منظوری لازمی قرار دی گئی۔ ایک زمانے میں پاکستانی سیاسی جماعتوں کی کشمیر میں شاخیں قائم نہیں ہوتی تھیں مگر یہ روایت ختم ہوئی۔

آزاد کشمیر الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ جماعتوں میں آل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس، پیپلز پارٹی آزاد کشمیر، مسلم لیگ آزاد جموں و کشمیر، لبریشن لیگ، جماعت اسلامی آزاد کشمیر، تحریک انصاف آزاد کشمیر، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتیں شامل ہیں۔ یہ بھی روایت ہے کہ جب بھی پاکستان میں حکومت میں تبدیلی آجاتی ہے، آزاد کشمیر میں بھی حکومت تبدیل ہوجاتی ہے۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں بائیں بازو کے مختلف گروپ بھی متحرک ہیں۔ ان گروپوں میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی قابلِ ذکر ہے جس نے کشمیر کے مختلف علاقوں میں نوجوانوں کو اپنی جماعت کی طرف راغب کیا ہے۔

اگرچہ مسلم کانفرنس، مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف وغیرہ اقتدار میں آتی رہیں مگر حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ مختلف رہنما اسلام آباد میں حکومت میں ہونے والی تبدیلیوں سے متاثر ہوکر آزاد کشمیر میں جماعتیں بدلتے رہے اور کئی رہنما اسی طرح صدر اور وزیر اعظم کے عہدوں پر فائز ہوئے اور پھر وزیر بن گئے مگر برسر اقتدار حکومتوں کی کارکردگی حسب روایت مایوس کن رہی ۔ آزادکشمیر میں یہ تاثر پیداہونے لگا کہ برسر اقتدار جماعتیں عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے اپنے رہنماؤں اور کارکنوں کے مسائل حل کرنے کی طرف زیادہ توجہ دے رہی ہیں۔

گزشتہ 2 برسوں کے دوران اس تاثر کو بڑاوا دیا گیا، یوں مقامی تاجروں، وکلاء، صحافیوں اور دانشوروں نے ایک ایکشن کمیٹی کے قیام پر اتفاق کیا۔

عام آدمی حکومتوں کی کارکردگی سے مایوس تھا۔ یہ تحریک پورے آزاد کشمیر میں پھیل گئی، احتجاج شروع کیا۔ پھر حکومت کو ایکشن کمیٹی کے مطالبات تسلیم کرنا پڑے۔ بجلی کے نرخ مزیدکم کرنے پڑے۔ تاجروں پر عائد ٹیکس کم کرنے، تعلیمی اداروں اور اسپتالوں میں ضروریات اور سہولتوں کی فراہمی کے مطالبات حکومت کو منظور کرنے پڑے۔ پھر ایکشن کمیٹی والوں نے یہ مطالبہ کیا کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد مقبوضہ کشمیر کے مہاجریں کے لیے آئین ساز اسمبلی میں 12 نشستیں مختص ہیں انھیں ختم کیا جائے۔

 گزشتہ ہفتے مظفرآباد میں پھر دھرنا دینے کے لیے اپیل کی گئی۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں 11 افراد جاں بحق ہوئے۔ وزیر اعظم کو جو غیر ملکی دورہ پر تھے اس صورتحال کا اندازہ ہوا تو ایک اعلیٰ سطح وفد مظفر آباد بھیجا گیا، یوں جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور حکومت کے درمیان 90 فیصد مطالبات منظورکرنے پر اتفاق ہوا۔ بی بی سی کی اردو ویب سائٹ کے مطابق جو مطالبات حکومت نے منظورکیے ان میں سب سے اہم مطالبہ یہ ہے کہ مہاجرین کی نشستیں حتمی فیصلے تک اس وقت تک معطل رہیں گی جب تک خصوصی قانونی کمیٹی اس بارے میں اپنی رائے نہ دے۔

 حکومت نے وزراء اور انتظامی افسروں کی تعداد کم کرنے، احتساب بیوروکی تنظیمِ نو، تعلیمی اداروں میں اوپن میرٹ، اسلام آباد میں گرفتار ہونے والے مظاہرین کی رہائی، نئے تعلیمی بورڈ کے قیام اور میرپور میں جدید ایئر پورٹ کی تعمیر جیسے دیگر مطالبات بھی منظورکیے ہیں۔ یوں لوگوں کو جدوجہد کا ایک نیا ماڈل ملا ہے۔  

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایکشن کمیٹی پاکستان کے کے قریب ہے کشمیر کے کشمیر کی کے مختلف کے لیے

پڑھیں:

احتجاج ختم، حکومت ، ایکشن کمیٹی مذاکرات کامیاب، 25 نکاتی معاہدہ: بھارتی خواہش پوری نہیں ہو گی، حکومتی وفد: کشمیریوں کے حقوق کے محافظ ہیں اور رہیں گے: شہباز شریف

مظفر آباد(آئی این پی+نوائے وقت رپورٹ+ اپنے سٹاف رپورٹر سے )آزادکشمیر میں وفاقی وزر ا اور عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد25 نکاتی معاہدے پر دستخط ہوگئے ،جس کے بعد پانچ روز سے جاری احتجاج ختم ہوگیا۔  سڑکیں اور بازار کھل گئے اور مظاہرین گھروں کو لوٹ گئے۔ شہباز شریف کی ہدایت پر تشکیل دی گئی مذاکراتی کمیٹی اور عوامی ایکشن کمیٹی کے ارکان نے طویل مذاکرات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں معاہدے کا اعلان کیا۔ رانا ثناء نے کہا کہ یہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا اور عوامی ایکشن کمیٹی کے جائز مطالبات منظور کر لئے۔ فریقین کے درمیان معاملات طے کرنے کیلئے لیگل ایکشن کمیٹی قائم کی گئی ہے، لیگل ایکشن کمیٹی ہر 15 دن بعد بیٹھے گی۔ تمام امور خوش اسلوبی سے طے پا گئے ہیں، دشمن کے عزائم ناکام ہوگئے ہیں اور کشمیری عوام کی فلاح و بہبود حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ کچھ لوگ امید لگائے بیٹھے تھے کہ معاملے کو بگاڑا جائے لیکن ان کے تمام تر منصوبے ناکام ہوئے، کشمیر میں امن قائم کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے، ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے اور اب کسی کو سڑکوں پر آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی مسئلہ یا شکایت ہو تو وہ کمیٹی کے سامنے پیش کریں۔ احسن اقبال نے بھی جوائنٹ ایکشن کمیٹی سے معاہدے کو پاکستان، آزاد کشمیر اور جمہوریت کی جیت قرار دیا۔ پریس کانفرنس سے قبل طارق فضل چودھری نے کہا کہ ہمارے مذاکراتی وفد نے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ساتھ حتمی معاہدے پر دستخط کر دیئے۔وزرا نئے دونوں اطراف ہونے والے جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا۔ طارق فضل چودھری نے سوشل میڈیا پر جاری پیغام میں معاہدے کو امن کی فتح قرار دیا ہے، ساتھ ہی واضح کیاکہ مظاہرین اپنے گھروں کو واپس جا رہے ہیں اور تمام سڑکیں بھی کھل گئی ہیں۔ احسن اقبال نے بھی جوائنٹ ایکشن کمیٹی سے معاہدے کو پاکستان، آزاد کشمیر اور جمہوریت کی جیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ہفتوں میں عوامی مسائل کے باعث ایک مشکل صورتِ حال پیدا ہوئی، مقامی اور قومی قیادت کی دانائی اور مکالمے کی روح نے اس بحران کو پر امن انداز میں حل کردیا۔ نہ تشدد کو ہوا ملی نہ تقسیم ہوئی بلکہ باہمی احترام کے ساتھ راستہ نکالا گیا۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے عوام کی آواز کو بلند کیا اور وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں حکومت نے ان آوازوں کو سنجیدگی سے سنا، جب حکومت عوام کی سنتی ہے، عوام تعمیری انداز میں بات کرتے ہیں توحل نکل آتا ہے۔ ہم نے تصادم کے بجائے مشاورت کو اور انا کے بجائے یکجہتی کو ترجیح دی۔ انشا اللہ ہم سب مل کر آزاد جموں کشمیر میں بہتر حکمرانی اور ترقی کے لئے ساتھ ساتھ کام کریں گے۔وفاقی وزرا اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے درمیان طے پانے و الا معاہدہ 12 بنیادی اور 13 اضافی نکات پر مشتمل ہے۔ ان اہم نکات کے مطابق پرتشدد واقعات پر مقدمات درج ہوں گے اور عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے گا۔جاں بحق افراد کے ورثا کو اہلکاروں کے برابر معاوضہ دیا جائے گا، زخمیوں کو 10 لاکھ روپے اور ورثا کو سرکاری نوکری فراہم کی جائے گی۔مظفرآباد اور پونچھ میں 2 نئے تعلیمی بورڈ قائم کئے جائیں گے اور تمام بورڈز کو وفاقی تعلیمی بورڈ اسلام آباد سے منسلک کیا جائے گا۔میرپور کے متاثرہ خاندانوں کو 30 دن میں زمین کا قبضہ دیا جائے گا۔لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1990 ء میں 90 دن کے اندر ترامیم کی جائیں گی۔حکومت 15 دن میں ہیلتھ کارڈ کیلئے فنڈز جاری کرے گی۔بجلی کے نظام کی بہتری کیلئے 10 ارب روپے فراہم کئے جائیں گے۔کابینہ کا حجم 20 وزرا اور مشیران تک محدود ہوگا اور سیکرٹریز کی تعداد بھی 20 سے زائد نہیں ہوگی۔2 اور 3 اکتوبر کو گرفتار مظاہرین کو رہا کیا جائے گا۔معاہدے پر عملدرآمد کے لیے ایک اعلی سطحی مانیٹرنگ کمیٹی قائم کی جائے گی۔اضافی نکات کے مطابق احتساب بیورو اور اینٹی کرپشن کو ضم کرکے قوانین کو نیب ایکٹ سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔کہوری، کمسیرا اور چھپلانی نیلم روڈ پر سرنگوں کی فزیبلٹی تیار کی جائے گی۔مہاجرین ارکان اسمبلی کے معاملے پر کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، رپورٹ آنے تک مراعات اور فنڈز معطل رہیں گے۔بنجوسہ، مظفرآباد اور پلندری واقعات کی تحقیقات بھی عدالتی کمشن کے سپرد ہوں گی۔میرپور ایئرپورٹ کیلئے رواں مالی سال میں ٹائم فریم طے کیا جائے گا۔جائیداد کی منتقلی پر ٹیکس تین ماہ میں پنجاب و خیبرپی کے کے برابر کیا جائے گا۔2019 ء کے ہائی کورٹ فیصلے کے مطابق ہائیڈل منصوبوں پر عملدرآمد کیا جائے گا۔10 اضلاع میں واٹر سپلائی سکیم کی فزیبلٹی رواں سال مکمل ہوگی۔ تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتالوں میں آپریشن تھیٹر اور نرسریز قائم کی جائیں گی۔گلپور اور رحمان کوٹلی میں پل تعمیر کئے جائیں گے اور ایڈوانس ٹیکس میں کمی کی جائے گی۔تعلیمی اداروں میں اوپن میرٹ پالیسی پر عمل ہوگا۔ ڈڈیال کیلئے واٹر سپلائی سکیم اور ٹرانسمیشن لائن منظور کی گئی۔مہندر کالونی ڈڈیال کے مہاجرین کو ملکیتی حقوق دئیے جائیں گے اور ٹرانسپورٹ پالیسی کا ازسرنو جائزہ لیا جائے گا۔وفاقی حکومت کے مذاکراتی وفد نے کشمیری عوام کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا ہے کہ تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں جبکہ بھارت کی آزاد کشمیر میں خونریزی کی خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی۔احسن اقبال نے کہا پاکستان کے دشمن آزاد کشمیر میں بدامنی، فساد اور انتشار دیکھنا چاہتے تھے، ان کی سازش ناکام ہوئی اور ہم کامیابی سے ان مراحل سے سرخرو ہوکر نکلے، یہ عوام اور پاکستان کی جیت ہے۔ مذاکرات دونوں فریقین میں پاکستان اور آزاد کشمیر کے عوام کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیے گئے۔ جو کامیاب ہوگئے اور یہاں امن بحال ہوگیا، جبکہ جن اقدامات پر اتفاق رائے ہوا، اس سے کشمیری عوام کا ترقیاتی ایجنڈے کو پورا کرنے میں ہمیں معاونت ملے گی جس میں حکومت بھی دلچسپی رکھتی ہے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ آزاد کشمیر سمیت ملک کے دیگر صوبوں میں بھی جو انتظامی ڈھانچے میں کمزوریاں ہیں، ہم انہیں نظرانداز نہیں کرسکتے جن سے عوامی شکایات جنم لیتی ہیں، ہمیں انہیں فوری طور پر دور کرنا چاہیے اور حکومتی ڈھانچے کو مؤثر ہونا چاہیے، اس کے لیے ہمیں گڈ گورننس کی اصلاحات کو ملک گیر سطح پر رائج کرنا چاہیے۔ عوام اب باشعور ہوچکے ہیں، میڈیا نے انہیں شعور دیا ہے اور ان کی توقعات بڑھ چکی ہیں، اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کے اپنے معاشی، اقتصادی مسائل ہیں جس کی وجہ سے ہم محدود وسائل کے اندر ان مشکلات کو حل کرنے کے لیے اپنی پوزیشن میں ہیں۔ جمہوریت کا حسن یہی ہے کہ آپ ان شکایات کو تشدد، افراتفری اور انتشار کے بجائے میز پر بیٹھ کر حل کرکے ثابت کرتے ہیں جب کہ وہاں کے عوام بھی مبارکباد مستحق ہیں۔ پاکستان کے دشمن جو مناظر دیکھنا چاہتے تھے اور وہاں پر بدامنی، فساد اور انتشار دیکھنا چاہتے تھے، ان کی سازش ناکام ہوئی اور ہم کامیابی سے ان مراحل سے سرخرو ہوکر نکلے ہیں۔ وفاقی حکومت نے جو وعدے کیے ہیں، ہم پورے خلوص سے ان پر عمل بھی کریں گے اور 15 روزہ جو میکنزم بنایا گیا ہے، مجھے یقین ہے اس کے بعد یہ شکایات دوبارہ جنم نہیں لیں گی۔ قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے بعد کشمیری عوام نے بھی سکھ کا سانس لیا ہوگا کیوں کہ وہاں جو ٹینشن کا ماحول بنا تھا جس پر سب کو فکر تھی، احتجاج پرتشدد ہوگیا تھا جس میں قیمتی انسانی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ وفاقی حکومت کے بروقت اقدامات سے مذاکرات کامیاب ہوئے، کشمیری ہمارے بھائی ہیں ان کا مفاد عزیز ہے، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، آزاد کشمیر کے عوامی مسائل حل کیے جائیں گے۔ تشدد کسی بھی مسئلے کا حل نہیں، تشدد شامل ہونے سے کوئی بھی تحریک منزل کھو دیتی ہے، جمہوریت میں عوامی دباؤ حکومتی سٹرکچر کو درست رکھنے میں اہم ہوتا ہے لیکن اس تشدد معاملات کو خراب کردیتا ہے اس سے کبھی اچھی چیزیں پیدا نہیں ہوتیں۔ امیر مقام نے کہا کہ بھارت کی کشمیر میں خونریزی کی خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی، آزاد کشمیر میں خوش اسلوبی سے معاملات طے پاگئے، آزاد کشمیر میں مذاکرات کی کامیابی پر شہبازشریف کے مشکور ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام سے بہن اور بھائی کا رشتہ ہمیشہ قائم رہے گا، پاکستان مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت جاری رکھے گا۔دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف نے آزاد جموں و کشمیر میں مذاکرتی عمل کی کامیابی اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے درمیان معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ امن کا قیام اور حالات کا معمول پر آ جانا خوش آئند ہے،حکومت اپنے کشمیری بھائیوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہے،افواہوں پر کان نہ دھریں ،ہم پہلے بھی کشمیری بہن بھائیوں کے حقوق کے محافظ تھے اور آئندہ بھی ان کے حقوق کا تحفظ کرتے رہیں گے۔ شہباز شریف نے مذاکراتی کمیٹی کے اراکین کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کی انفرادی اور اجتماعی کاوشوں کو سراہتے ہوئے بھرپور شاباش دی ۔ وزیر اعظم نے اسے پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر کی بڑی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ امن کا قیام اور حالات کا معمول پر آ جانا خوش آئند ہے۔ سازشیں اور افواہیں آخر کار دم توڑ گئیں اور تمام معاملات خوش اسلوبی سے حل ہوئے مذاکرات کی کامیابی پر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے اراکین کا بھی شکریہ ادا کیا اور امن کے قیام پر مبارکباد دی کہ حکومت اپنے کشمیری بھائیوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہے،عوامی مفاد اور امن ہماری ترجیح ہے اور آزاد کشمیر کی خدمت کرتے رہیں گے۔ آزاد کشمیر کے مسائل پر ہمیشہ توجہ رہی ہے اور میری حکومت نے ہمیشہ ترجیحی بنیادوں پر ان مسائل کو حل کیا۔عوامی ایکشن کمیٹی نے منگل کو یوم تشکر منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پولیس اور کارکنوں کی جان کے ضیاع پر وادی میں تین دن سوگ رہے گا۔ رکن ایکشن کمیٹی شوکت نواز میر نے وزیراعظم اور فیلڈ مارشل سے اظہار تشکر کیا اور کہا وزیراعظم اور آرمی چیف نے حالات پر بھرپور توجہ دی اور مطالبات تسلیم کئے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کا اقوام متحدہ سے غزہ سے کشمیر تک حق خودارادیت کے تحفظ کا مطالبہ
  •  آزاد کشمیر کے عوام کیلئے خوشخبری,حکومت نے کل عام تعطیل کا اعلان کردیا
  •  ہم رہا ہو چکے ہیں لیکن فلسطین کی آزادی کی جدوجہد جاری رہے گی: مشتاق احمد خان
  • دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھاری سرمایہ کاری کے مودی حکومت کے دعوے بے نقاب
  • پی ٹی اے سے تصدیق شدہ آئی فون 17 سیریز پاکستان میں لانچ، قیمتوں کا اعلان
  • زمین جیسے سیارے کی تلاش ایک دلچسپ جدوجہد، سائنسدان پرامید
  • ٹرمپ کا امن منصوبہ نیتن یاہو کو ریسکیو کرنا ہے، لیاقت بلوچ
  • احتجاج ختم، حکومت ، ایکشن کمیٹی مذاکرات کامیاب، 25 نکاتی معاہدہ: بھارتی خواہش پوری نہیں ہو گی، حکومتی وفد: کشمیریوں کے حقوق کے محافظ ہیں اور رہیں گے: شہباز شریف
  • آزاد کشمیر میں مظاہرین کے ساتھ مذاکرات دانشمندانہ فیصلہ، بھارتی ہاتھ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ماہرین