امریکی کمپنی کا پاکستان کو فضا سے فضا میں مار کرنیوالے میزائل فروخت کرنیکا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251008-01-15
واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک )امریکا کی دفاعی کمپنی ریتھیون نے اپنے معاہدے میں ترمیم کے بعد پاکستان کو جدید درمیانی فاصلے کے فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل (AMRAAM) فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے، معاہدے میں ترمیم کے تحت پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جو یہ میزائل خریدیں گے۔30 ستمبر کو امریکی وزارتِ دفاع کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ریتھیون کو پہلے سے دیے گئے معاہدے میں 4 کروڑ 16 لاکھ ڈالر کی ’ فِرم فکسڈ پرائس’ ترمیم کی منظوری دی گئی ہے، یہ ترمیم سی 8 اور ڈی 3 ماڈلز کے جدید اے ایم ریم میزائلوں کی پیداوار سے متعلق ہے۔بیان میں کہا گیا کہ اس ترمیم کے بعد معاہدے کی مجموعی مالیت 2.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: معاہدے میں پاکستان کو
پڑھیں:
سعودی عرب کو اسرائیل کے مقابلے میں کم درجے کے ایف 35 طیارے دیئے جائیں گے، امریکی حکام
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ہفتے سعودی عرب کو ایف 35 طیارے فروخت کرنے کا اعلان کیا، لیکن حکام نے کہا کہ سعودی طیاروں میں وہ اعلیٰ خصوصیات شامل نہیں ہوں گی جو اسرائیلی بیڑے میں موجود ہیں، جن میں جدید ہتھیاروں کے نظام اور الیکٹرانک وار فیئر آلات شامل ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی حکام اور دفاعی ماہرین نے کہا ہے کہ امریکا سعودی عرب کو ایف 35 لڑاکا طیارے فروخت کرنے کا جو منصوبہ بنا رہا ہے، وہ اسرائیل کے زیرِ استعمال طیاروں کے مقابلے میں کم تر درجے کے ہوں گے، کیونکہ ایک امریکی قانون اسرائیل کی خطے میں عسکری برتری کی ضمانت دیتا ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ہفتے سعودی عرب کو ایف 35 طیارے فروخت کرنے کا اعلان کیا، لیکن حکام نے کہا کہ سعودی طیاروں میں وہ اعلیٰ خصوصیات شامل نہیں ہوں گی جو اسرائیلی بیڑے میں موجود ہیں، جن میں جدید ہتھیاروں کے نظام اور الیکٹرانک وار فیئر آلات شامل ہیں۔ اسرائیل کو اپنے ایف 35 طیاروں میں ترمیم کے خصوصی اختیارات حاصل ہیں، جن میں اپنے ہتھیاروں کے نظام کو ضم کرنے اور ریڈار جیمنگ کی صلاحیتیں اور دیگر اپ گریڈ شامل کرنے کی اجازت ہے، جن کے لیے امریکا کی منظوری درکار نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود، جیسا کہ منگل کو ٹائمز آف اسرائیل نے رپورٹ کیا، اسرائیلی فضائیہ اس مجوزہ فروخت کی مخالفت کرتی ہے اور اس نے سیاسی رہنماؤں کو ایک دستاویز میں خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام خطے میں اسرائیل کی فضائی برتری کو کمزور کرے گا۔
مچل انسٹیٹیوٹ فار ایرو اسپیس اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈگلس برکی کے مطابق اگرچہ سعودی عرب کو یہ طیارے مل بھی جائیں، امکان ہے کہ اسے AIM-260 جوائنٹ ایڈوانسڈ ٹیکٹیکل میزائل (JATM) نہ دیا جائے جو اگلی نسل کے لڑاکا طیاروں کے لیے تیار کی جانے والی اگلی نسل کا فضا سے فضا میں مار کرنے والا میزائل ہے۔ JATM کے 120 میل سے زیادہ کے فاصلے کو ایف-35 پلیٹ فارم سے وابستہ سب سے حساس میزائل ٹیکنالوجی سمجھا جاتا ہے, یہ میزائل غالباً اسرائیل کو ہی فراہم کیے جائیں گے۔ ایف-35 ہر ملک اور ہر پائلٹ کے لیے تخصیص کردہ ہوتا ہے۔ امریکا کے پاس سب سے زیادہ قابل ورژن موجود ہیں، جبکہ دیگر تمام ممالک کو اس سے کم تر درجے کے طیارے ملتے ہیں، سعودی طیاروں کو ٹیکنالوجی کے اعتبار سے اسرائیلی طیاروں کے مقابلے میں کم مضبوط رکھنا ممکن ہے، جس کا انحصار اس سافٹ ویئر پیکیج پر ہے جس کی طیاروں کے لیے اجازت دی جائے۔
رپورٹ کے مطابق صلاحیت کے فرق کے علاوہ، اسرائیل عددی برتری بھی رکھتا ہے، کیونکہ وہ اس وقت ایف-35 کے دو اسکواڈرن چلا رہا ہے اور تیسرا آرڈر پر ہے، سعودی عرب کو دو اسکواڈرن تک محدود رکھا جائے گا جن کی فراہمی میں کئی سال لگ جائیں گے۔ اسرائیل گزشتہ تقریباً آٹھ برسوں سے خطے میں ایف 35 کا واحد استعمال کنندہ رہا ہے۔ امریکی حکام نے کہا کہ فروخت کو حتمی شکل دینے سے قبل اسرائیل کی معیاری عسکری برتری کا باضابطہ جائزہ ضروری ہو گا، سعودی عرب کو ہونے والی ہر فروخت کی کانگریس سے منظوری درکار ہوتی ہے، ایک اہلکار نے اشارہ دیا کہ کانگریس میں اسرائیل کی مضبوط حمایت اس منظوری میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ حکام نے یہ بھی نوٹ کیا کہ اسرائیل، سعودی عرب کو ابراہیمی معاہدوں میں شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ خطے میں تعلقات کو معمول پر لایا جا سکے اور ٹرمپ کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی سے بچا جا سکے۔
کانگریس کی جانب سے ویٹو پروف مشترکہ قرارداد کے ذریعے اس کی مخالفت کرنے کے لیے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہو گی تاکہ صدر کے ویٹو کو کالعدم قرار دیا جا سکے، جو ایک مشکل ہدف سمجھا جاتا ہے۔ یہ فروخت سعودی عرب کو قطر اور متحدہ عرب امارات کے برابر لا کھڑا کرے گی، جنہیں ایف 35 طیاروں کی پیش کش کی گئی ہے، تاہم یہ معاہدے اب بھی ڈیلیوری شیڈول، طیاروں کی صلاحیتوں، اور ٹیکنالوجی تک چین کی ممکنہ رسائی پر تحفظات کی وجہ سے تعطل کا شکار ہیں۔