گلگت بلتستان، وحدت، بصیرت اور امن کی سرزمین
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اہلسنت عالم قاضی نثار احمد پر حملہ یقیناً افسوسناک اور قابلِ مذمت واقعہ ہے، مگر اس کے بعد جو فکری بیداری، اجتماعی یکجہتی اور بین المکاتب محبت سامنے آئی، وہ گلگت بلتستان کی اصل طاقت ہے۔ یہ سرزمین "امن و اخوت کی مادرِ علمی" بن چکی ہے، جہاں دشمن کی ہر سازش عوام کے اتحاد کے پتھروں سے ٹکرا کر چکنا چور ہو جاتی ہے۔ آج گلگت بلتستان کے ہر باسی، ہر عالم، ہر طالبعلم اور ہر تاجر کو یہ پیغام یاد رکھنا ہوگا: "امن سب کی ضرورت ہے اور اس نعمت کے محافظ ہم سب ہیں۔" تحریر: آغا زمانی
بلند و بالا پہاڑوں کے سائے میں بسی ہوئی یہ سرزمین صرف جغرافیہ نہیں، یہ ایک زندہ داستان ہے۔ اخوت، ایثار اور ایمان کی داستان۔ گلگت بلتستان کے باسیوں نے اپنی برفیلی وادیوں میں محبت کے وہ چراغ روشن کیے ہیں، جو سرد ہواؤں کے جھونکوں میں بھی بجھ نہیں پاتے۔ یہاں کے دریا صرف پانی نہیں بہاتے، بلکہ امن، وحدت اور بصیرت کی کہانیاں گنگناتے ہیں۔ گلگت بلتستان، وہ خطہ جہاں پہاڑوں کی بلندیوں سے زیادہ عظیم یہاں کے لوگوں کا صبر، محبت اور اخوت ہے۔ جہاں دریاؤں کی روانی کی طرح قلوب میں ایمان، رواداری اور بھائی چارے کی لہریں بہتی ہیں۔ یہاں کے عوام نے ہمیشہ اس خطے کو آگ و خون کی راہوں سے بچانے کے لیے تدبر، بصیرت اور قربانی کی مثالیں قائم کی ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں امیر جماعت اہلسنت مولانا قاضی نثار احمد پر حملے کا واقعہ اس خطے کے امن و اتحاد کو چیلنج کرنے کی ایک گہری اور سوچی سمجھی سازش کے طور پر سامنے آیا ہے۔ یہ وہی سازش ہے، جو ہر اس وقت سر اٹھاتی ہے، جب گلگت بلتستان کے عوام وحدت و اخوت کی فضا میں سانس لینے لگتے ہیں۔
وحدت کے لیے علمائے کرام کا کردار
گلگت بلتستان کے مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام نے ہمیشہ کی طرح اس موقع پر بھی اتحاد و امن کا مظاہرہ کرتے ہوئے مثالی قیادت کا ثبوت دیا۔ امام جمعہ جامع مسجد سکردو بلتستان، داعی وحدت علامہ شیخ محمد حسن جعفری نے اس واقعے کو "سوچی سمجھی سازش" قرار دیتے ہوئے فرمایا: "جب جب یہاں اتحاد کی باتیں ہوئی ہیں، علاقہ دشمنوں نے شرارت کی ہے۔ ہمیں ہوشیار رہنا ہوگا، کیونکہ گلگت بلتستان کا امن دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔" اسی تسلسل میں صدر انجمنِ امامیہ بلتستان آغا سید باقر الحسینی نے دلوں کو جوڑ دینے والا پیغام دیا: "ہم بھائی بھائی ہیں، ہمیں لڑانے والے ہم سب کے مشترکہ دشمن ہیں۔" یہ جملے صرف سیاسی ردِعمل نہیں بلکہ ایک فکری منشور ہیں، جو گلگت بلتستان کے شعور اور وحدتِ امت کے فلسفے کو زندہ رکھتے ہیں۔
آغا علی رضوی (صدر مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان) نے اپنے بیان میں کہا: "امن خراب کرنے والے علاقے کے مشترکہ دشمن ہیں۔" یہ اعلان دراصل اس اجتماعی شعور کی علامت ہے، جو دشمنوں کی چالوں کو ناکام بناتا ہے۔ جیسا کہ امامِ جمعہ مرکزی جامع مسجد گلگت علامہ آغا راحت الحسینی نے کہا: "گلگت بلتستان کا امن تباہی کرنے والوں کو بے نقابی کیا جائے۔" یہی وہ عزم و بصیرت ہے، جس نے گلگت بلتستان کو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے میں امن و بھائی چارے کی روشن مثال بنایا ہے۔
دیگر مکاتب فکر کی بصیرت
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ صرف اہل تشیع ہی نہیں بلکہ اہل سنت اور اہل حدیث کے رہنماؤں نے بھی اس واقعے کی مذمت کی اور اتحاد کے پیغام کو تقویت بخشی۔ ڈاکٹر محمد علی جوہر (رہنماء جمیعت اہلحدیث بلتستان) نے کہا: "قاضی نثار احمد پر حملہ گلگت بلتستان کی وحدت پر حملہ ہے۔ تحقیقات لازمی ہیں، تاکہ امن خراب کرنے والوں کا محاسبہ کیا جاسکے۔ ہم ایک تھے، ہیں اور رہیں گے، تقسیم کی سازش کامیاب نہیں ہوگی۔" یہ الفاظ محض سیاسی نعرے نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والی صدائیں ہیں، جو بتاتی ہیں کہ گلگت بلتستان کی روح میں فرقہ واریت کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
عدلیہ، وکلا اور تاجر برادری کا پیغام
محبوب خاکسار ایڈووکیٹ (صدر بار ایسوسی ایشن سکردو) نے اس واقعے کو "امن پر حملہ" قرار دیتے ہوئے کہا: "وکلا امن و امان کی مجموعی صورتحال کو برقرار رکھنے کیلئے سفیر بنیں۔ امن سب کی ضرورت ہے، اس نعمت کو چھیننے والے ہم سب کے مشترکہ دشمن ہیں۔" اسی طرح صدر انجمن تاجران بلتستان نے بھی اپنے بیان میں کہا: "تاجر برادری خطے میں قیامِ امن کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ ہم کسی کو فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کی اجازت نہیں دیں گے۔"
شیعہ سنی اتحاد، کردار کی صورت میں محبت
حقیقی اتحاد کا مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا، جب گلگت میں ایک اہل تشیع نوجوان احتجاجی دھرنے میں شامل ہوا، تاکہ قاضی نثار پر حملے کے خلاف اپنی آواز بلند کرے۔ یہی نہیں، بلکہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک تصویر نے پورے خطے کو امید کی کرن دکھائی۔ پڑی بنگلہ سے تعلق رکھنے والے ایک اہل سنت بھائی نے سکردو کے ایک اہل تشیع نوجوان کو مشکل وقت میں اپنے گھر لے جا کر مہمان نوازی کی۔ یہ منظر گلگت بلتستان کے عوامی شعور اور حقیقی اخوت کی عملی تصویر ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نفرت کے پرچار کرنے والے کبھی بھی محبت کے اس کلچر کو مٹا نہیں سکتے۔
اتحاد کا پیغام، قرآن و سنت کی روشنی میں
قرآن مجید واضح فرماتا ہے: "واعتصموا بحبل الله جميعاً ولا تفرقوا" (سورۃ آل عمران، آیت 103) "اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ مت ڈالو۔" اسی آیت کے مطابق گلگت بلتستان کے عوام نے ہمیشہ ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوط کیے۔ یہاں کے علماء نے "وحدت امت" کو نظریہ نہیں بلکہ طرزِ زندگی بنایا ہے۔
امن، محبت اور شعور کا سفر
اہلسنت عالم قاضی نثار احمد پر حملہ یقیناً افسوسناک اور قابلِ مذمت واقعہ ہے، مگر اس کے بعد جو فکری بیداری، اجتماعی یکجہتی اور بین المکاتب محبت سامنے آئی، وہ گلگت بلتستان کی اصل طاقت ہے۔ یہ سرزمین "امن و اخوت کی مادرِ علمی" بن چکی ہے، جہاں دشمن کی ہر سازش عوام کے اتحاد کے پتھروں سے ٹکرا کر چکنا چور ہو جاتی ہے۔ آج گلگت بلتستان کے ہر باسی، ہر عالم، ہر طالبعلم اور ہر تاجر کو یہ پیغام یاد رکھنا ہوگا: "امن سب کی ضرورت ہے اور اس نعمت کے محافظ ہم سب ہیں۔"
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: گلگت بلتستان کے گلگت بلتستان کی نہیں بلکہ پر حملہ اخوت کی کے عوام یہاں کے
پڑھیں:
گلدستہ پاکستان اور سیاست کا کھیل
مملکت ِ پاکستان چند اکائیوں پر مشتمل ایک ایسا حسین گلدستہ ہے جس میں کھلتے ہوئے پھولوں کی خوشبو سے یہ وطن مہکتا ہے۔ کشمیر کی جنت نظیر وادیاں ہوں یا گلگت بلتستان کے برف پوش بلند و بالا پہاڑ، بلوچستان کے نیلگوں ساحل ہوں یا خیبر پختونخوا کی بل کھاتی وادیاں اورشور مچاتے چشمے، سندھ کی قدیم تہذیب کو اجاگر کرتی ٹھٹھہ کی شاہ جہانی مسجد ہو یا مکلی کا تاریخی قبرستان اور پنجاب کے سرسبز لہلہاتے کھیت ،یہ سب اس مملکت خداداد کے وہ پھول ہیں جن کی ہمارے بزرگوں نے اپنے خون سے آبیاری کی۔کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کی گئی یہ ریاست ہمیشہ دشمن کی آنکھ میں کھٹکتی رہی ہے۔
وہ اس گلدستے کو بکھیرنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرتا رہتا ہے مگر اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان آج بھی قائم و دائم ہے اور دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
بدقسمتی یہ رہی کہ آزادی کے بعد ہمیں ایسے حکمران میسر آئے جنھیں یہ ملک پلیٹ میں رکھا ہوا ملا، وہ اس کی قدر نہ کر سکے۔ آٹھ دہائیوں کے بعد بھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں سے یہ قافلہ چلا تھا۔ قافلے کے ساربان بدلتے رہے، مگر سفر کٹ نہ سکا۔
پاکستان کے چاروں صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں قائم ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ میں م ہے، تحریکِ انصاف مسلسل تین انتخابات سے خیبر پختونخوا پر حکمران ہے، پنجاب میں کچھ وقفے کے بعد مسلم لیگ (ن) نے پھر اقتدار سنبھال لیا ہے، جب کہ بلوچستان میں مختلف جماعتوں پر مشتمل نمایندہ حکومت موجود ہے۔ وفاق میں بھی مسلم لیگ (ن) برسراقتدار ہے، جسے پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور چند دیگر جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا سیاسی اتحاد بلاشبہ ایک غیر فطری اتحاد ہے۔ اس غیر فطری اتحاد کی واحد وجہ ایک تیسری جماعت ہے جسے اقتدار سے دور رکھنے کے لیے یہ اتحاد بنایا گیا۔ یہ اتحاد اب تک ضرورتوں کا محتاج ہے اور سر دست ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ یہ غیر فطری اتحاد ٹوٹ کر حکومت کا شیرازہ بکھیر دے اور دونوں جماعتیںسیاسی طور پر اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ یکایک عوام کی عدالت میں چلی جائیں ۔ دوسری جانب پنجاب کی پُرجوش وزیرِاعلیٰ محترمہ مریم نواز شریف نے حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں پر پیپلز پارٹی کی بے جا تنقید کے جواب میں خاموشی توڑ دی ہے اور پنجاب کی طرف اٹھنے والی انگلی کو توڑنے کا دوٹوک پیغام دیا ہے۔ اس کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان لفظی گولہ باری اور تند و تیز بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا جو تاحال جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیرِاعلیٰ پنجاب سے معافی کا غیر سیاسی مطالبہ سامنے آیا ہے جس کا جواب الجواب ابھی دیا جا رہا ہے۔
وزیرِاعلیٰ پنجاب ملک کے سینئر سیاستدان میاں نواز شریف کی سیاسی وارث ہیں جوخود تین بار وزیرِاعظم رہ چکے ہیں۔ ان کی وطن سے وفاداری کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ مگر دونوں پارٹیوں کے ترجمانوں کی حالیہ بیان بازی سے صوبائیت کی بو آنے لگی ہے جو ملکی سیاست کے لیے نیک شگون نہیں۔ ریاست پہلے ہی معاشی اور دفاعی مشکلات میں گھری ہوئی ہے ایسے میں صوبائی بنیادوں پر تقسیم کی باتیں خطرناک ہیں۔
عوام اس لڑائی کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں جب کہ دشمن ان اختلافات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری جو اپنی اپنی جماعتوں کے اصل فیصلے ساز ہیں، اب تک خاموش ہیں۔ سنجیدہ حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ آیا یہ محض ایک نوراکشتی ہے یا اس کے پیچھے کوئی پوشیدہ مقصد پوشیدہ ہے۔ فی الحال ایسا نہیں لگتا کہ یہ اتحاد فوری طور پر ٹوٹ جائے گا کیونکہ دونوں جماعتیں اس پوزیشن میں نہیں کہ انتخابات میں علیحدہ علیحدہ عوام کے سامنے جا سکیں۔البتہ یہ طے ہے کہ صوبائیت کا کارڈ مسلم لیگ (ن) کو پنجاب تک محدود کر دے گا جہاں پر اس کو پہلے ہی تحریکِ انصاف کے مضبوط سیاسی چیلنج کا سامنا ہے۔
اگرچہ تحریکِ انصاف کے اندر اختلافات موجود ہیں مگر عوامی سطح پر پارٹی کے بانی کا اثر کم نہیں ہوا۔ایسی صورتحال میں میاں نواز شریف کو چاہیے کہ اپنی سیاسی وراثت کو صرف پنجاب تک محدود نہ کریں بلکہ اسلام آباد کے بڑے منظرنامے پر نگاہ رکھیں۔ خدانخواستہ اگر یہ چبھتی ہوئی بیان بازی اسی رفتار سے جاری رہی تو یہ عوام کے دلوں میں ایسی دراڑ ڈال سکتی ہے جس کا مداوا ممکن نہ رہے۔پہلے ہی ملک کو نئے صوبوں میں تقسیم کرنے کے شوشے چھوڑے جا رہے ہیںجو موجودہ حالات میں ریاست کے لیے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔ نئے صوبوں پر مزید معروضات کسی اگلے کالم میں پیش کروں گا۔