جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) 26ویں آئینی ترمیم سے متعلق مشاورت کے آخری مرحلوں تک ہمارے ساتھ شریک رہی، لہٰذا اب اس معاملے پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنا مناسب نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی نے 26ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والے 5 اراکین قومی اسمبلی کو پارٹی سے نکال دیا

پشاور میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے اعلان کیاکہ 16 اکتوبر کو ڈیرہ اسماعیل خان میں مفتی محمود کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا، جس میں اہلِ غزہ سے بھرپور اظہارِ یکجہتی کیا جائے گا۔

مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ غزہ میں معصوم بچوں، خواتین اور بزرگوں سمیت 70 ہزار سے زیادہ بے گناہ افراد شہید کیے جا چکے ہیں، اور دنیا کو اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔

انہوں نے مزید کہاکہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف مختلف افراد عدالت سے رجوع کر چکے ہیں، جو کہ ہر شہری کا آئینی حق ہے۔

سربراہ جے یو آئی نے واضح کیاکہ ان کی جماعت سنجیدہ سیاست پر یقین رکھتی ہے اور تحریک انصاف کو بھی چاہیے کہ وہ اس ترمیم کے معاملے پر غیر سنجیدہ بیانات سے گریز کرے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اب کیسے یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ وہ محض عدلیہ سے یکجہتی کے لیے شامل ہوئی تھی، جبکہ ترمیم کے عمل میں متعدد دفعات کا خاتمہ اور نئی شقوں کا اضافہ باہمی مشاورت سے ہوا تھا۔

مولانا فضل الرحمان نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ان دونوں صوبوں میں ان کی جماعت کا مینڈیٹ چوری کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی 4 سے 5 دھڑوں میں تقسیم، 27ویں آئینی ترمیم پر غور نہیں کیا گیا، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ

انہوں نے الزام عائد کیا کہ خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صورتحال بگڑ چکی ہے جبکہ بدعنوانی بھی عروج پر ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آئینی ترمیم جمعیت علما اسلام جے یو آئی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ مولانا فضل الرحمان وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جمعیت علما اسلام جے یو ا ئی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ مولانا فضل الرحمان وی نیوز مولانا فضل الرحمان ترمیم کے

پڑھیں:

ججز ٹرانسفر کیس: آئینی عدالت میں فکس کرنے کا اقدام چیلنج

اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز نے ججز ٹرانسفر کیس میں وفاقی آئینی عدالت میں انٹرا کورٹ اپیل کو منتقل کیے جانے کے اقدام کو چیلنج کر دیا ہے۔ ان ججز نے وفاقی آئینی عدالت میں ایک متفرق درخواست دائر کی، جس میں انٹرا کورٹ اپیل کو سپریم کورٹ سے آئینی عدالت منتقل کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا۔
یہ درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس سمن رفت امتیاز اور جسٹس طارق محمود جہانگیری کی جانب سے دائر کی گئی ہے، جو دیگر ہائی کورٹ کے ججوں کے وفاقی دارالحکومت میں تبادلے کے معاملے پر مبنی ہے۔
جون میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اس تبادلے کو غیر آئینی قرار دینے سے انکار کیا تھا، جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان ججوں نے اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی۔ اب یہ اپیل وفاقی آئینی عدالت میں سماعت کے لیے مقرر کی گئی ہے، جو 27ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم کی گئی تھی، اور اس کی سماعت 24 نومبر کو ہوگی۔
درخواست میں ججز نے وفاقی آئینی عدالت سے یہ اپیل کی ہے کہ ان کی اپیل کو سپریم Court واپس بھیجا جائے، کیونکہ ان کے مطابق یہ معاملہ آئینی طور پر سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم خود آئین کی بنیادی ساخت سے متصادم ہے، کیونکہ آئین نے ریاست کے تین بنیادی ستون، مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات اور حدود کو واضح طور پر متعین کیا ہے۔
ججز کا کہنا تھا کہ اگرچہ پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کا اختیار حاصل ہے، لیکن یہ اختیار عدلیہ کے خاتمے یا کمزوری کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ عدلیہ آئینی ڈھانچے کا بنیادی حصہ ہے۔
انہوں نے اپنے موقف میں یہ بھی واضح کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں نے ہمیشہ عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی علیحدگی کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ ان ججز کا خیال ہے کہ اس نوعیت کے معاملات میں اپیل کا دائرہ اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہونا چاہیے، جب تک کہ کوئی ترمیم واضح طور پر اس کے دائرہ اختیار کو تبدیل نہ کرے۔
متفرق درخواست دائر کیے جانے کے بعد، اب آئینی عدالت یہ فیصلہ کرے گی کہ آیا وہ اپیل کی سماعت جاری رکھے یا معاملہ سپریم کورٹ کو واپس بھیج دے۔ اس سے قبل سپریم کورٹ نے ججز کے اس فیصلے پر ایک حکم دیا تھا جس میں ان پر 27ویں ترمیم کو چیلنج کرنے کی کوشش پر روکا گیا تھا اور انہیں وفاقی آئینی عدالت جانے کی ہدایت کی تھی۔
اس کے علاوہ، ججز نے آئین کے آرٹیکل 200 میں کی گئی ترمیم کو بھی چیلنج کیا تھا، جس کے مطابق ہائی کورٹ کے ججز کا ان کی مرضی کے بغیر تبادلہ ممکن ہو گیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ اس قسم کی تبدیلیاں ججوں کو دباؤ، انتقامی کارروائیوں اور عدالتوں کی تشکیل میں مداخلت کے خطرات سے دوچار کر سکتی ہیں۔
اب آئینی عدالت کے سامنے یہ سوال ہوگا کہ آیا وہ اس اپیل کو سپریم کورٹ کو بھیجنے کا فیصلہ کرے یا اسے اپنی سماعت میں رکھے۔

 

متعلقہ مضامین

  • 27 ویں آئینی ترمیم پر سپریم کورٹ کے ججز کی رائے تقسیم
  • 28ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے کوئی بات زیر غور نہیں، وفاقی وزیر
  • ججز ٹرانسفر کیس: آئینی عدالت میں فکس کرنے کا اقدام چیلنج
  • ملک میں عدالتی نظام انصاف پر مبنی نہیں، ویں ترمیم کو مسترد کرتے ہیں، حافظ نعیم الرحمان
  • عدالتی معاملے میں پیش رفت، ہائی کورٹ ججز نے نئی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ
  • 27ویں ترمیم کے ذریعے آئینی مارشل لا مسلط کردیا گیا ہے‘ وکلا ء و سیاسی رہنما
  • محراب پور: تحریک تحفظ پاکستان کی اپیل پر آئینی ترمیم کے خلاف سیاسی وسماجی تنظیمیں پریس کلب کے سامنے سراپا احتجاج ہیں
  • قاضی احمد ،27 ویں ترمیم کیخلاف تحریک تحفظ آئین پاکستان کی اپیل پر ملک بھر میں احتجاج
  • 27 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر لاہور ہائیکورٹ کا فل بنچ تشکیل
  • ایم ڈبلیو ایم شعبہ برطانیہ کے صدر مولانا ابرار حسینی کی مشہد مقدس میں ایم ڈبلیو ایم کے رہنمائوں سے ملاقات