13 اکتوبر سے ملک بھر میں انسداد پولیو مہم کے آغاز کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
13 اکتوبر سے انسداد پولیو کی ملک گیر مہم کا آغاز ہونے جارہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اس مہم کا اعلان فوکل پرسن برائے انسداد پولیو پروگرام عائشہ رضا فاروق نے پریس کانفرنس میں کیا۔
انہوں نے بتایا کہ چار لاکھ سے زائد پولیو ورکرز حصہ لے رہے ہیں اور چار کروڑ پچاس لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے۔
ستمبر 2004 سے چھ ملک گیر مہم چلائی جا چکی ہیں جبکہ پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کے کیسز 11 لاکھ سے کم ہو کر آٹھ لاکھ تیس ہزار رہ گئے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ملک سے اب تک 29 کیسز سامنے آچکے ہیں جبکہ خیبرپختونخوا سے کیسز کی تعداد زیادہ سامنے آئی ہے۔ ہر سال ستر لاکھ بچے پیدا ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے مہم کا ٹارگٹ بھی بدل رہا ہے۔
عائشہ رضا کا کہنا تھا کہ پولیو ویکسین مکمل محفوظ ہے اور عازمین حج بھی اس کو پی کر جاتے ہیں۔ فرنٹ لائن ورکرز سے غیر مناسب رویہ ٹھیک نہیں ہوتا۔ لوگوں کی نقل مکانی زیادہ ہونے کے باعث بھی ہماری مہم کا ہدف متاثر ہوتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مہم کا
پڑھیں:
کیا مصنوعی ذہانت کے ماڈلز انسانوں سے زیادہ بجلی استعمال کرتے ہیں؟ تحقیق سامنے آ گئی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مصنوعی ذہانت (اے آئی) اب ہماری روزمرہ زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے، جس کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ معلومات اور مواد تک فوری رسائی فراہم کرنا ہے۔ تاہم، جہاں یہ تعلیمی اور تخلیقی شعبوں میں انقلاب برپا کر رہی ہے، وہیں بعض اوقات تجارتی اور منفی مقاصد کے لیے بھی استعمال ہو رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق اگرچہ اے آئی ہمارے کام کو آسان بناتی ہے، مگر اس کے استعمال کی ایک بڑی قیمت توانائی کی صورت میں ادا کی جا رہی ہے۔ جنریٹو اے آئی ماڈلز کو تربیت دینے اور چلانے کے لیے بے پناہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ماڈل کی تربیت دراصل اسے وسیع اور پیچیدہ ڈیٹا فراہم کرنے کے مترادف ہے، اور جتنا زیادہ ڈیٹا ہوگا، اتنی ہی توانائی درکار ہوگی۔ تحقیق کے مطابق چیٹ جی پی ٹی پر ایک سرچ گوگل سرچ کے مقابلے میں تقریباً دس گنا زیادہ توانائی استعمال کرتی ہے۔
ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ ایک جنریٹو اے آئی ماڈل سے صرف ایک تصویر تیار کرنے میں اتنی توانائی خرچ ہوتی ہے جتنی ایک اسمارٹ فون کو چارج کرنے میں لگتی ہے۔ ان ماڈلز کو چلانے کے لیے بڑے ڈیٹا سینٹرز استعمال کیے جاتے ہیں، جہاں طاقتور پروسیسرز اور کولنگ سسٹمز مسلسل فعال رہتے ہیں، جس سے توانائی کی کھپت بہت زیادہ ہوتی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں دنیا بھر کے ڈیٹا سینٹرز میں استعمال ہونے والی توانائی کا تقریباً 8 فیصد حصہ مصنوعی ذہانت کے شعبے سے متعلق تھا، اور ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ شرح 2028 تک 20 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں اے آئی کے ماحول دوست اور پائیدار استعمال کے لیے توانائی کی کھپت کو محدود کرنا ناگزیر ہے۔ اسی مقصد کے لیے محققین ایسے نئے ماڈلز پر کام کر رہے ہیں جو کم توانائی میں زیادہ مؤثر نتائج فراہم کریں۔ ان میں *ڈیپ سیک* جیسے توانائی کے مؤثر ماڈلز امید کی کرن ثابت ہو سکتے ہیں، جو مستقبل میں مصنوعی ذہانت کو زیادہ ماحول دوست اور پائیدار بنانے میں مددگار ہوں گے۔