بھیک لیا کرو بھیک دیا کرو
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
کہانی پرانی ہے لیکن جب تک یہ جہان ہے اور اس میں یہ حیوان ہے جس کے منہ میں زبان ہے اور ہمیشہ اپنے بارے میں رطب اللسان ہے۔کوئی کہانی پرانی نہیں ہوتی،کیونکہ جس طرح تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے اسی طرح یہ بھی اپنے کرتوت دہراتا رہتا ہے۔تو یہ پرانی بھی ایک مرتبہ پھر خود کو دہرا رہی، فرق صرف یہ ہے کہ پرانی ایک فرد کی تھی اور یہ کہانی ایک ملک کی ہے۔ایک لڑکا جس کے والدین ایک حادثے میں مرگئے تھے، سارے رشتہ داروں کو اس سے محبت اور ہمدردی ہوگئی، ہر کوئی اسے اپنے گھر لے جاتا کھلاتا پلاتا اور خاطر مدارت کرتا چنانچہ رشتہ داروں کے اس لاڈ پیار میں وہ بگڑگیا۔
کوئی کام نہیں کرتا دن بھر بھوک لگتی یا چارپائی پر پڑا رہتا،جب بھی بھوک لگتی یا کسی چیز کی ضرورت ہوتی کسی رشتہ دار کے ہاں جا دھمکتا۔ رشتہ دار برداشت کرتے یہاں تک جوان ہوگیا لیکن وطیرہ وہی مفت خوری کا رہا۔تنگ آکر رشتہ داروں نے یہ صلا ح ٹھہرائی کہ اس کی شادی کردی جائے ذمے داری سر پر آئے گی تو کوئی کام کاج شروع کردے گا لیکن اس تدبیر سے معاملہ اور خراب ہوگیا کیونکہ اب’’یک نہ شد دو شد‘‘ اب وہ زیادہ ’’مانگو‘‘ پر عمل پیرا تھا۔ ہر وقت ضرورت پڑتی تو جاکر کسی رشتہ دار سے مانگ کرلاتا۔ کچھ دن گزر گئے تو اسے تو نہیں اس کی بیوی کو احساس ہوگیا کہ ہم کب تک’’مانگو‘‘ رہیں گے، شوہر سے بولی کہ بہت ہوگیا اب ہمیں کچھ سوچنا چاہیے اور کچھ کرنا چاہیے۔
اب تو ایسا کوئی رشتہ دار بھی نہیں رہا جس سے ہم نے کچھ مانگا نہ ہو، لیا نہ ہو، کھایا نہ ہو،کچھ سوچو۔شوہر اپنے مخصوص غور کے حوض یعنی جھلنگی چارپائی میں پڑ کر سوچنے لگا۔تھوڑی دیر بعد نعرہ مارا۔سوچ لیا۔میں نے سوچ لیا۔بیوی خوش ہوکر اس کے پاس آئی۔کیا سوچا؟ شوہر نے کہا میں نے سوچا کہ گاؤں کے اس سرے پر تمہاری ایک دور کی خالہ رہتی ہے؟ بیوی نے کہا ہاں رہتی ہے تو؟ اور دوسرے سرے پر میرا ایک دور کا ماموں رہتا ہے ،بیوی نے کہا ہاں رہتے ہیں۔ شوہر بولا آخر ان لوگوں کو بھی ہماری مدد کرنی چاہیے، آخر ہم ان کے رشتہ دار ہیں۔
جاؤ اور ان سے کچھ مانگ کر لاؤ۔بیوی نے پہلے اپنا سر پیٹا اور پھر اس کا سر پیٹتے ہوئے بولی۔میں مانگنے کے بارے میں نہیں بلکہ خود کام کاج کے بارے میں کہہ رہی ہوں۔اچھا اچھا۔لیکن تم کیا کام کروگی تمہیں تو کچھ آتا بھی نہیں۔بیوی نے کہا میں تمہارے بارے میں کہہ رہی ہوں، نکلو ہٹے کٹے ہو، کوئی مزدوری کوئی محنت مشقت کرو۔کافی تو تو میں میں۔اور توتکار کے بعد بیوی نے شوہر کو مزدوری کے لیے نکلنے پر آمادہ کیا بلکہ کچھ رشتہ داروں کے ذریعے ایک جگہ کام بھی دلادیا۔ جس دن اسے پہلی بار پہلے دن کام پر جانا تھا، بیوی نے بہت خاطر تواضع کی اور نہایت پیار دلار سے اسے رخصت کیا۔لیکن ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ وہ واپس آیا، بیوی پوچھتی رہ گئی اور وہ سیدھا اپنی جھلنگی چارپائی یا غور کے حوض یعنی تھنک ٹینک میں پڑگیا۔
بیوی نے پوچھا۔کیا ہوا واپس کیوں آئے؟۔اس نے کہا مت پوچھو بہت بڑا انرت ہوگیا ہے۔خان کی گھوڑی نے بچہ دیا ہے لیکن اس کی دُم بھی نہیں اور کان بھی نہیں ہیں۔ بیوی نے کہا تمہیں خان سے کیا۔اس کی گھوڑی سے کیا اور بچے سے کیا اور اس کی دُم اور کانوں سے کیا؟۔شوہر نے کہا بے وقوف عورت یہ بہت بڑا اور گھمبیر مسئلہ ہے سوچو کہ جب یہ بڑا ہوکر گھوڑا بن جائے اور کہیں دلدل میں پھنس جائے گا تو لوگ اسے کہاں سے پکڑ کر نکالیں گے؟کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ پرانی کہانی ایک مرتبہ’’ نئی‘‘ ہو رہی ہے، فرق صرف یہ کہ اس آدمی کا نام معلوم نہیں ہوسکا جو رشتہ داروں کے مانگے تانگے پر زندہ تھا اور خان کی گھوڑی کے لیے فکر مند تھا۔لیکن نام معلوم ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ یہ کہانی ہر دور میں کہیں نہ کہیں تو دہرائی جاتی ہے، ہیرو بدلتا ہے لیکن کہانی وہی ہوتی ہے۔مثلاً ہمیں معلوم ہے کہ اس’’دور‘‘ میں یہ کہانی کہاں دہرائی جارہی ہے اور اس کے ہیرو کا نام کیا ہے۔
وہ کہاں کہاں کن کن دوستوں اور رشتہ داروں کے دیے یا بھیک پر پل رہا ہے لیکن جو بات اس پرانی میں’’نئی‘‘ہے وہ یہ ہے کہ مانگے تانگے جو کماتا ہے اسے دوسروں کے ساتھ بھی شئیر کرتا ہے یعنی صرف بھیک مانگتا نہیں بلکہ دیتا بھی ہے یہ اس کی اس مہربانی کا نتیجہ ہے کہ بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ بہت سارے لوگ جو کچھ نہ کچھ تھوڑا بہت کام کرتے ہیں اب آرام سے جھلنگی چارپائی میں پڑے خان کی گھوڑی کے بچے کے بارے میں غور و حوض کرتے ہو۔ ویسے پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ جب قرضہ سو(روپے یا کھرب) سے بڑھ جا ئے تو گھی چاول کھاؤ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رشتہ داروں کے بیوی نے کہا بھی نہیں رشتہ دار ہے لیکن سے کیا
پڑھیں:
مقدمات کی کھچڑی بنانے والوں نے سمجھا تھا بانی پی ٹی آئی ڈیل کرلیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا، علیمہ خان
اسلام آباد:بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کیخلاف مقدمات میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جا رہے۔
انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے کیسز کی "کچڑی" پکائی تھی وہ خود اب پھنس چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مخالفین یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ بانی پی ٹی آئی گھبرا جائیں گے اور ڈیل کر لیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
علیمہ خان نے کہا کہ عدالت میں ججز کو بھی مشکلات کا سامنا ہے، جج صاحب بھی دباؤ میں ہیں اور ان کی بھی کچھ مجبوری ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ تمام کیسز بری طرح ایکسپوز ہو رہے ہیں اور کیسز بہت اچھے طریقے سے لڑے جا رہے ہیں۔
علیمہ خان کا کہنا تھا کہ انصاف عوام میں مل چکا ہے، کیسز کا جو حال عوام کے سامنے آرہا ہے، وہ سب کچھ واضح کر رہا ہے۔