Jasarat News:
2025-10-10@02:38:02 GMT

مسجد میں رہ کر زنا کرنے والے

اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251010-03-7

 

شاہنواز فاروقی

اسلام عصبیت اور اس سے پیدا ہونے والے تفرقے کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ قرآن صاف کہتا ہے کہ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ تفرقہ زبان کا ہو یا نسل کا، جغرافیے کا ہو یا فرقے اور مسلک کا اسلام اسے ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کرتا۔ رسول اکرمؐ نرم خو تھے مگر اس کے باوجود آپؐ نے فرمایا ہے کہ عصبیت کی طرف بلانے والا ہم میں سے نہیں ہے۔ رسول اکرمؐ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو عصبیت پر مرا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اقبال 20 ویں صدی کے عبقری اور برصغیر میں علٰیحدہ اسلامی ریاست کا تصور پیش کرنے والوں میں سے تھے۔ انہوں نے قرآن و سنت کی پیروی کرتے ہوئے فرمایا ہے۔

بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گُم ہوجا

نہ تو رانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی

٭٭

بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے

اسلام ترا دیس ہے تُو مصطفوی ہے

٭٭

چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا

مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

قائد اعظم بانیِ پاکستان تھے۔ انہوں نے صاف فرمایا ہے کہ ہمارا اصل تشخص پنجابی، پشتون اور بنگالی ہونا نہیں ہمارا اصل تشخص پاکستانی ہونا ہے۔ مجدّد وقت سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اسلام اور پاکستان کے باہم منسلک ہونے کی بنیاد ہی پر پاکستان کو مسجد سے تشبیہ دی تھی۔ چنانچہ جو شخص پاکستان میں کھڑا ہو کر اپنی پنجابیت، پشتونیت، بلوچیت، سندھیت، مہاجریت پر اصرار کرتا ہے وہ مسجد میں رہ کر گویا زنا کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس لیے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں کسی بھی قومیت پر اصرار ایک کبیرہ گناہ کی طرح ہے۔

بدقسمتی سے پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز اور پیپلز پارٹی ان دنوں پنجابی اور سندھی عصبیت کو ہوا دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ مریم نواز فرما رہی ہیں کہ کوئی پنجاب یا پنجابی کو برا کہے گا تو میں اسے دیکھ لوں گی۔ وہ ’’میرے پیسے‘‘ اور ’’میرے پانی‘‘ کی گردان کررہی ہیں۔ دوسری طرف بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی ہے، بلاول فرماتے ہیں مرسوں، مرسوں، سندھ نہ ڈیسوں۔ یعنی میں مرجائوں گا مگر سندھ نہیں دوں گا۔ پیپلز پارٹی سندھ میں سندھی ٹوپی اور اجرک کا دن مناتی ہے۔ لیکن اس وقت عصبیت کے دائرے میں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان جو معرکہ برپا ہے وہ ذرائع ابلاغ میں شہہ سرخیاں تخلیق کررہا ہے۔ پنجاب کی وزیر اطلاعات و ثقافت عظمیٰ بخاری نے فرمایا ہے کہ مرسوں مرسوں کے نعرے والے صوبائی کارڈ کھیل رہے ہیں۔ ان کے بقول کراچی سے کچرا اٹھانے یا سولر منصوبے میں کرپشن کی بات کی جائے تو پیپلز پارٹی صوبائیت کا کارڈ اٹھالیتی ہے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے رہنما کہہ رہے ہیں کہ پنجاب حکومت ہماری آڑ میں وزیراعظم کو نشانہ بنارہی ہے۔ سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن فرمارہے ہیں کہ ہم تو پاکستان کھپے کا نعرہ لگانے والے ہیں۔ نواز لیگ والے اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں۔

پیپلز پارٹی کی عصبیت پرستی کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان کی تخلیق کی دو بنیادیں تھیں۔ اسلام اور اردو۔ اگر اسلام نہ ہوتا تو پاکستان تخلیق نہ ہوتا۔ اسی طرح اگر اردو نہ ہوتی تو بھی پاکستان وجود میں نہ آتا اس لیے کہ پاکستان کیا پورے برصغیر میں اردو کے سوا رابطے کی کوئی زبان موجود ہی نہیں تھی۔ اردو کی اس غیر معمولی تاریخی اور تہذیبی اہمیت کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے سندھ میں اردو کے خلاف لسانی سیاست کی۔ وہ سندھ اسمبلی میں ’’لسانی بل‘‘ لے آئے اور انہوں نے سندھی کو اردو کے مقابل لاکھڑا کیا۔ حالانکہ اردو اور سندھی میں کوئی تصادم اور موازنہ تھا ہی نہیں۔ اردو علم ِ تفسیر کی زبان تھی۔ علم ِ حدیث کی زبان تھی۔ فتوے کی زبان تھی۔ اردو میں سیرت طیبہ پر جتنا بڑا کام ہوا سندھی اس کا اعشاریہ ایک فی صد بھی پیش نہیں کرسکتی تھی۔ اردو میں عظیم شاعری تخلیق ہوئی، اردو میں بڑی تنقید لکھی گئی۔ اردو میں بڑا افسانوی ادب تخلیق ہوا۔ اردو میں دو درجن بڑے ناول لکھے گئے اردو حیدر آباد دکن میں میڈیکل کی زبان تھی۔ اردو یوپی کے علاقے رڑکی میں انجینئرنگ کی زبان تھی۔ اردو نے پاکستان بنایا تھا مگر اس کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو سندھی کو اردو کے مقابل لے آئے۔ یہی نہیں انہوں نے اس سے آگے بڑھ کر عصبیت پر مبنی کوٹا سسٹم کی سیاست کی۔ سندھی اور مہاجر دونوں کوٹا سسٹم کے حوالے سے ایماندارانہ بات نہیں کرتے۔ کوٹا سسٹم کے حوالے سے ایماندارانہ بات یہ ہے کہ مہاجر نوجوان سندھی نوجوانوں سے بہت زیادہ پڑھے لکھے تھے اور سندھی نوجوان ملازمتوں کے سلسلے میں مہاجر نوجوانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ کوٹا سسٹم سندھ کے لیے ضروری تھا مگر اسے پندرہ بیس سال کے لیے ’’عارضی‘‘ ہونا چاہیے تھا تا کہ سندھی نوجوان اپنی علمی اہلیت کو بہتر بنا کر مہاجر نوجوانوں کے برابر آجائیں اور علمی دائرے میں مہاجر نوجوانوںکا میرٹ پر مقابلہ کرسکیں، مگر بدقسمتی سے پیپلز پارٹی نے سندھ میں عصبیت کا شکار ہو کر کوٹا سسٹم کو دائمی بنا کر مہاجر نوجوانوں پر بیروزگاری کا مستقل عذاب مسلط کردیا۔ پیپلز پارٹی کی عصبیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ کراچی سندھ کی آمدنی کا 95 فی صد پیدا کرتا ہے مگر پیپلز پارٹی اس آمدنی کا 30 فی صد بھی کراچی پر صرف کرنے کے لیے تیار نہیں اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ کراچی ابھی تک ’’مہاجروں کا شہر‘‘ ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی اپنے آغاز سے آج تک ایک متعصب ’’سندھی جماعت‘‘ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کی ’’وفاقیت‘‘ محض پنجاب کے لیے تراشا ہوا ایک افسانہ ہے۔

جہاں تک شریف خاندان اور نواز لیگ کا تعلق ہے تو دونوں گلے گلے تک ’’پنجابیت‘‘ کے تعصب میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ایک زمانے میں میاں نواز شریف ’’اسلامی جمہوری اتحاد‘‘ کی سیاست کررہے تھے۔ اس اتحاد کے دائرے میں کسی ناپاک مہاجریت، کسی ناپاک پنجابیت یا کسی ناپاک سندھیت کی سیاست کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں تھی۔ اسلامی جمہوری اتحاد میں صرف اسلام کے نام پر سیاست کی گنجائش تھی مگر میاں نواز شریف نے اس دور میں بھی پنجاب کے اندر جاگ پنجابی جاگ تیری پگ کو لگ گیا داغ کا نعرہ لگایا۔ میاں نواز شریف کی ’’پنجابی سیاست‘‘ کے ’’اخلاقی معیار‘‘ کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ میاں نواز شریف نے اسلامی جمہوری اتحاد کے عہد میں بے نظیر بھٹو کی خودساختہ جعلی ننگی تصاویر ہیلی کاپٹر کے ذریعے پنجاب کے طول و عرض میں پھنکوائیں۔ میاں نواز جرنیلوں کی ایجاد ہیں اور ان کے خاندان کی ناپاک پنجابیت کی گواہی جرنیلوں نے بھی دی۔ جنرل اسد درانی آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سابق سربراہ ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’دی اسپائی کرونیکلز‘‘ میں لکھا ہے کہ میاں شہباز شریف ایک زمانے میں بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ پاکستانی پنجاب اور بھارتی پنجاب کو ایک کرنے کے امکان پر مذاکرات فرما رہے تھے۔ جہاں تک مریم نواز کا تعلق ہے تو وہ خود کو کبھی ’’اسلام کی بیٹی‘‘ یا ’’پاکستان کی بیٹی‘‘ نہیں کہتیں وہ خود کو ’’پنجاب کی بیٹی‘‘ کہتی ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی اور شریف خاندان دونوں پاکستان کی مسجد میں رہ کر زنا کرنے والے ہیں۔ بدقسمتی سے دونوں خاندانوں کو فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ملک پر مسلط کیا ہوا ہے۔ ویسے تو پاکستانی جرنیل پاکستان پاکستان کرتے نہیں تھکتے مگر ان کا مفاد ہو تو وہ ملک پر ناپاک پنجابیوں، ناپاک سندھیوں اور ناپاک مہاجروں کو بھی مسلط کرسکتے ہیں۔ کراچی پر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی ناپاک مہاجریت کو مسلط کرنے والے جنرل ضیا الحق تھے۔ بدقسمتی سے جنرل عاصم منیر نے ناپاک مہاجریت کی علمبردار ایم کیو ایم کو 2024ء کے انتخابات میں جعلی ووٹوں سے جتوا کر اسے ایک بار پھر کراچی پر مسلط کردیا ہے۔

شاہنواز فاروقی.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مہاجر نوجوانوں میاں نواز شریف فرمایا ہے کہ پیپلز پارٹی کی زبان تھی بدقسمتی سے پاکستان کی کوٹا سسٹم انہوں نے پنجاب کے پارٹی ا کرتا ہے ہی نہیں اردو کے ہیں کہ

پڑھیں:

ن لیگ نمبر پورے کرلے تب بھی پیپلز پارٹی کے بغیر سسٹم نہیں چل سکتا، گورنر پنجاب

لاہور:

گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حمایت سے حکومت بنی ملکی نظام میں بہتری کے لئے ن لیگ کا ساتھ دیا اگر قربانی کو تسلیم نہیں کیا جائے گا تو قیادت سے دراخوست جیالوں کی امنگوں کے مطابق فیصلہ کریں بولے ن لیگ نمبر پورے بھی کر لے پیپلز پارٹی کے بغیر یہ سسٹم نہیں چل سکتا۔

چرچ آف پاکستان کے زیر اہتمام سیلاب متاثرین میں ریلیف پیکیج  تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے کہا آج کے دن تک بہت سے علاقے سیلاب میں ڈوبے ہےاللہ تعالیٰ کی طرف سے مشکل آئی جس سے ہم سب نے مل کر نکلنا ہے۔

انہوں ںے ن لیگ لیگ پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ آفات ہمارے لئے امتحان ہوتے ہے اس میں سیاست کو نہیں لانا چاہے خود سہولیات مل رہی ہوں تو انسان مشکل والے کے دکھ کو محسوس نہیں کرسکتا ہے ہمیں آپس میں جھگڑا نہیں کرنا چاہیے یہ نہیں سمجھنا چاہیے سارا کچھ میں ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اداروں میں خرابیوں کی وجہ سے سروے میرٹ پر نہیں ہوسکے پیپلز پارٹی شامل ہوئی تو حکومت بنی، الیکشن کے بعد ملک جو سکھ کا سانس لے رہا ہے پیپلز پارٹی کی وجہ سے ہے، پیپلز پارٹی کے کارکن پہلے بھی ن لیگ سے اتحاد میں خوش نہیں تھے پیپلز پارٹی کے ورکرز ن لیگ سے کولیشن گورنمنٹ کے لئے اب بھی تیار نہیں، پیپلز پارٹی نے ن لیگ سے کولیشن کے بعد بہت نقصان اٹھایا، مگر افسوس ہوتا جب ہماری قربانی کو تسلیم بھی نہیں کیا جاتا۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات کے بعد پی ٹی آئی سے ہم نے پہلے کوشش کی مل کر حکومت بنائے مگراب انہوں نے ساتھ دینے کا اعلان کیا مگر بے اعتبار جماعت کی وجہ سے یہ مشکل فیصلہ ہے، اسد قیصر نے جو پیپلز پارٹی کے حوالے سے بات کی اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے، جب عوام پیپلز پارٹی کو اکثریت دے گی تو بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنائیں گے۔

انہوں ںے کہا کہ میں اپنی قیادت سے کہوں گا کہ اب پارٹی ورکرز کی بات سننے کا وقت آگیا ہے، ایک کردار کی وجہ سے یہ سارا مسئلہ بنا ہے، ایک بات بہت کلیئر ہے اگر پیپلز پارٹی ساتھ ہوگی تو یہ سسٹم چلے گا ورنہ نہیں چلے گا۔

گورنر سردار سلیم حیدر خان نے کہا کہ بات معافی کی نہیں بات عزت اور وقار کی ہے، جمہوریت میں دس دماغ مل کر جو بات کرتے ہیں وہی بہتر رہتی ہے، بات حرف آخر کی نہیں ہوتی سب کو مل کر چلنا پڑتا ہے اسی میں بہتری ہے

متعلقہ مضامین

  • شہباز شریف کی پارٹی راہنماؤں کو پیپلز پارٹی کے تحفظات افہام و تفہیم سے دور کرنے کی ہدایت
  • ن ،ش، م کو تقسیم کرنے والے ناکام،ہمیشہ منہ کی کھائیں گے، وزیراعلی پنجاب
  • پیپلز پارٹی کی واضح حمایت کے بغیر مسلم لیگ (ن) کو سینیٹ میں مشکلات ہوں گی، شیری رحمٰن
  • ہمارا مقصد کسی کی ناک رگڑنا نہیں، قمر زمان کائرہ
  • پنجاب حکومت سیلاب زدگان کی مدد کرنے میں ناکام ہو چکی ہے، وقار مہدی
  • ن لیگ نمبر پورے کرلے تب بھی پیپلز پارٹی کے بغیر سسٹم نہیں چل سکتا، گورنر پنجاب
  • چچا بھتیجی کی لڑائی میں پی پی کو نہ گھسیٹیں، پلوشہ خان
  • ن لیگ پی پی کشیدگی: سینیٹر پلوشہ خان نے شہباز شریف اور مریم نواز کو نشانے پر رکھ لیا
  • وزیراعلیٰ مریم نواز کے بڑھتے بیانات، پیپلز پارٹی پنجاب کا صوبائی حکومت کے ساتھ مزید چلنے سے انکار