data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

غزہ میں جنگ بندی کے پس منظر میں ایک نیا اور تشویشناک پہلو سامنے آیا ہے۔

عرب میڈیا کے مطابق امریکا نے تقریباً 200 فوجی اہلکاروں کو اسرائیل روانہ کرنے کی تیاری مکمل کرلی ہے، جو بظاہر جنگ بندی معاہدے کی نگرانی اور انسانی امداد کے انتظامات کے لیے وہاں جائیں گے، تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اقدام غزہ کے معاملات میں براہِ راست امریکی مداخلت کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔

رپورٹس کے مطابق یہ فوجی امریکی سینٹرل کمانڈ (CENTCOM) کے تحت ایک نئے سول ملٹری کوآرڈینیشن سینٹر میں تعینات کیے جائیں گے، جو اسرائیل کے اندر قائم ہوگا۔

اس مرکز سے نہ صرف انسانی امداد اور تعمیر نو کی سرگرمیوں کی نگرانی کی جائے گی بلکہ سیکورٹی اور لاجسٹکس کے تمام پہلو بھی کنٹرول کیے جائیں گے۔ بظاہر مقصد “غزہ کی بحالی” بتایا جا رہا ہے، مگر عرب مبصرین کے نزدیک یہ دراصل قابض اسرائیلی افواج کو تکنیکی اور عملی مدد فراہم کرنے کی ایک نئی شکل ہے۔

امریکی حکام کے مطابق اس منصوبے میں صرف امریکی فوجی ہی نہیں بلکہ مختلف اتحادی ممالک، غیر سرکاری تنظیموں اور نجی اداروں کے ماہرین بھی شریک ہوں گے، تاہم امریکی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ فوجی براہِ راست غزہ میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ اسرائیل میں رہتے ہوئے منصوبہ بندی، انجینئرنگ اور سیکورٹی سے متعلق تعاون فراہم کریں گے۔

یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب غزہ میں جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی فورسز کے حملے اور محاصرے کا سلسلہ جاری ہے۔

فلسطینی حلقوں نے اس امریکی اقدام کو “غزہ کی نگرانی کے بہانے امریکی موجودگی بڑھانے” کی سازش قرار دیا ہے۔

عرب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر امریکا واقعی امن چاہتا ہے تو اسے پہلے اسرائیلی جارحیت اور محاصرے کے خاتمے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے، نہ کہ قابض فوج کے ساتھ مل کر نیا انتظامی ڈھانچہ قائم کرنا۔

یہ معاملہ اب عرب دنیا میں ایک بڑے سیاسی مباحثے کا موضوع بن چکا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ غزہ کے عوام کے نام پر شروع ہونے والا یہ امریکی “مدد مشن” دراصل فلسطینی خودمختاری کو مزید کمزور کرنے کی ایک تازہ کوشش ہو سکتی ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کی نگرانی کے مطابق

پڑھیں:

مشرق وسطیٰ امن عمل فیصلہ کن موڑ پر: ٹرمپ ’اسرائیل حماس معاہدے‘ کی  کامیابی کیلیے پرامید

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ میں امن کے امکانات کو اجاگر کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی کے لیے ایک ’’حقیقی موقع‘‘ موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا خطے میں دیرپا امن کے قیام کے لیے مسلسل کردار ادا کر رہا ہے اور اب یہ عمل فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔

صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں کینیڈین وزیرِ اعظم مارک کارنی کے ساتھ ملاقات کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم مشرقِ وسطیٰ میں امن کے ایک بڑے معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں، جو صرف غزہ تک محدود نہیں بلکہ پورے خطے میں مثبت تبدیلی لا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کی سفارتی کوششیں اب ایک نئے موڑ پر ہیں اور اگر تمام فریق مخلص رہے تو جنگ بندی ممکن ہے۔

عرب میڈیا کے مطابق امریکی صدر نے تصدیق کی کہ امریکی مذاکرات کار مصر میں جاری بالواسطہ مذاکرات کا حصہ ہیں جہاں اسرائیل اور حماس کے نمائندے ثالثی کے ذریعے بات چیت کر رہے ہیں۔ ان مذاکرات میں امریکی صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور داماد جیرڈ کشنر بھی شریک ہیں، جنہیں صدر ٹرمپ نے ذاتی طور پر اس مشن کی نگرانی کی ہدایت دی ہے۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکا چاہتا ہے کہ قیدیوں کی فوری رہائی عمل میں آئے تاکہ انسانی بحران میں کمی ہو اور سیاسی اعتماد کی فضا قائم ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہماری ٹیم اس وقت بھی مصر میں موجود ہے، ایک اور ٹیم روانہ ہو چکی ہے اور دنیا بھر کے کئی ممالک اس امن منصوبے کی حمایت کر رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ امریکی صدر کا یہ بیان امید افزا دکھائی دیتا ہے، لیکن زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں کیونکہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں بمباری اب بھی جاری ہے اور ہزاروں فلسطینی بے گھر یا شہید ہو چکے ہیں۔

حماس کی قیادت نے بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ جنگ بندی صرف اس صورت میں قبول کرے گی جب اسرائیل مکمل انخلا، امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی اور قیدیوں کے منصفانہ تبادلے کی ضمانت دے گا۔

امریکی صدر کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مصر کے شہر شرم الشیخ میں مذاکرات کا دوسرا مرحلہ جاری ہے اور قطری، ترک اور مصری نمائندے بھی ثالثی کے عمل میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود فلسطینی عوام میں خدشہ پایا جاتا ہے کہ امریکا اسرائیل کے لیے نرمی دکھا کر جنگ بندی کو اپنے سیاسی مفادات کے تابع بنا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی کے نفاذ کا باضابطہ اعلان کر دیا، کئی علاقوں سے فوج کا جزوی انخلا شروع
  • امریکا کا غزہ میں جنگ بندی کی نگرانی کے لیے 200 اہلکار تعینات کرنے کا فیصلہ
  • غزہ امن معاہدہ: حماس نے بھی مستقل جنگ بندی کا اعلان کر دیا
  • امریکا کا اسرائیل میں 200 فوجی اہلکار بھیجنے کا فیصلہ
  • جنگ بندی کی نگرانی، امریکی فوجی دستہ غزہ جانے کیلیے تیار، عرب میڈیا کا دعویٰ
  • غزہ امن معاہدہ: عمل درآمد کی نگرانی میں شامل ہوں گے، ترک صدر
  • غزہ جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی میں شامل ہوں گے؛ ترک صدر
  • امن معاہدے پر دستخط کے بعد اسرائیلی فوج کی غزہ سے انخلا کی تیاری
  • مشرق وسطیٰ امن عمل فیصلہ کن موڑ پر: ٹرمپ ’اسرائیل حماس معاہدے‘ کی  کامیابی کیلیے پرامید