جواب دہی کے بغیر امن ایک سراب بن کر رہ جاتا ہے،پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
جواب دہی کے بغیر امن ایک سراب بن کر رہ جاتا ہے،پاکستان WhatsAppFacebookTwitter 0 10 October, 2025 سب نیوز
اقوام متحدہ (آئی پی ایس )پاکستان نے اقوام متحدہ کی کمیٹی میں اس بات کا اعادہ کیا کہ ایک منصفانہ اور پرامن عالمی نظام کا انحصار بین الاقوامی قانون کے مستقل اور عالمگیر اطلاق پر ہے تاہم خبردار کیا کہ جموں و کشمیر یا فلسطین کا معاملہ ہو استثنی اور قانونی اصولوں پر چنا کی بنیاد پر عمل درآمد سے قانون کی حکمرانی کمزور پڑ رہی ہے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے اقوام متحدہ کی ششم کمیٹی کیایجنڈا آئٹم 84 قومی اور بین الاقوامی سطح پر قانون کی حکمرانی پر بحث سے خطاب کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ قانون کی حکمرانی انسانی تہذیب کی اساس اور سماجی و اقتصادی ترقی و خوش حالی کے لیے قوتِ افزا عنصر ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ صرف ایک قانونی تصور نہیں بلکہ عالمی امن اور پائیدار ترقی کے فروغ کے لیے ایک لازمی اخلاقی اور ادارہ جاتی ستون ہے۔
بڑھتی ہوئی جغرافیائی رقابتوں اور بین الاقوامی قانون سے انحراف کے تناظر میں انہوں نے خبردار کیا کہ قانون کی حکمرانی کو طاقت کی سیاست اور یک طرفہ اقدامات کے ذریعے مجروح کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسے دانستہ اقدامات اس قانونی ڈھانچے کو متزلزل کر رہے ہیں جو کبھی ناقابل تردید سمجھا جاتا تھا اور اس سے عالمی نظام کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔عاصم افتخار نے کہا کہ ہم علاقائی توسیع پسندی اور ان اصولوں کے زوال کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو کبھی مقدس سمجھے جاتے تھے۔
پاکستانی سفیر نے جموں و کشمیر اور فلسطین میں طویل قابضانہ تسلط اور جبر کی مثال دی جہاں قانون کی حکمرانی کی صریح پامالی سب سے نمایاں ہے اور کہا کہ استثنی کے خاتمے اور دہائیوں پر محیط قبضوں کے خاتمے کی ابتدا حقیقی معنوں میں بین الاقوامی قانون کی پاسداری سے ہونی چاہیے کیونکہ جواب دہی کے بغیر امن ایک سراب بن کر رہ جاتا ہے۔بھارت کی مئی 2025 کی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے سفیر عاصم افتخار نے اسے بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی اور پاکستان کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا، جس میں 54 بے گناہ شہری شہید ہوئے۔انہوں نے زور دیا کہ بین الاقوامی قانون کے سخت تر نفاذ کی اشد ضرورت ہے،
پاکستان کی دفاعی کارروائی مکمل طور پر متناسب، قانونی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے مطابق تھی جو اشتعال انگیزی کے باوجود پاکستان کے قانونی اصولوں پر غیر متزلزل عزم کا مظہر ہے۔پاکستانی سفیر نے کہا کہ امن اور ترقی کا براہ راست تعلق قانون کی حکمرانی سے ہے، اس تناظر میں انہوں نے پاکستان کی جانب سے رواں سال سلامتی کونسل کی صدارت میں متفقہ طور پر منظور ہونے والی قرارداد 2788 کا حوالہ دیا، جو تنازعات کے پرامن حل کے اصول کو فروغ دیتی ہے۔انہوں نے زور دیا کہ سلامتی کونسل کی قراردادیں خود بین الاقوامی قانون کا حصہ ہیں اور رکن ممالک پر ان کا پابند اثر ہوتا ہے، اس لیے ان کے مثر نفاذ کے ذریعے ان کی ساکھ کا تحفظ تمام معاملات میں یقینی بنایا جانا چاہیے۔
اقوامِ متحدہ کی 80ویں سالگرہ کے موقع پر انہوں نے زور دیا کہ بین الاقوامی قانون کو زیادہ جمہوری بنایا جائے تاکہ ابھرتے ہوئے اصول منصفانہ اور مساوی ہوں، نہ کہ استثنائی، محدود یا امتیازی ہوں۔انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اصولوں خودمختاری کی مساوات، حق خودارادیت، عدم استعمال طاقت اور عدم مداخلت کو اپنی سفارت کاری کی اخلاقی اور قانونی بنیاد سمجھتا ہے۔ عاصم افتخار نے کہا کہ پاکستان ایک ضابطہ قانون پر مبنی عالمی نظام کے فروغ کے لیے پرعزم ہے اور اس بات پر زور دیا کہ قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانا ناگزیر ہے تاکہ دنیا کو انارکی، تنازع اور انتشار سے نکال کر تعاون، امن، ترقی اور استحکام کی جانب گامزن کیا جا سکے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراے پی پی کے ریٹائرڈ ملازمین اپنے جائز حق کے حصول کے لیے دربدرہیں، جاوید اختر کمیٹی نے امن پر سیاست کو ترجیح دی، نوبیل انعام پر وائٹ ہا ئو س برہم جتھوں کی سیاست کے ذریعے مطالبات منوانے کی کوئی گنجائش نہیں: حکومت جنگ بندی کے بعد اسرائیلی انخلا، بے گھر فلسطینی تباہ شدہ گھروں کی طرف لوٹنے لگے جرمن کے چانسلر کا غزہ کی تعمیر نو کیلئے کانفرنس بلانے کا مطالبہ انڈونیشیا کا عالمی ایونٹ کیلئے اسرائیلی کھلاڑیوں کو ویزے دینے سے انکار فیض حمید پر الزامات سے متعلق انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے، ترجمان پاک فوجCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
آئی ایم ایف رپورٹ یا چوروں کی چارج شیٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251125-03-5
(1)
جس طرح مچھروں کو پتا چل جاتا ہے کہ ہمیں کب نیند آرہی ہے اسی طرح آئی ایم ایف کو پتا چل جاتا ہے دنیا میں کہاں چوری ہورہی ہے اور کتنی ہورہی ہے کیونکہ وہ اس نظام کی خالق ہے جو خود چوری کو فروغ دیتا ہے۔ آئی ایم ایف کا کام ہے مسائل کو برقرار رکھنے کے لیے مسائل کی نشاندہی کرنا۔ چوری ڈھونڈ کر اس کو چور نظروں سے دیکھنا اور پھر چوروں جیسے حل پیش کرنے کے فن کار آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر کہلاتے ہیں۔ چوری کو پہلے دیانت داری سے چوری کہا جاتا تھا پھر چوری کرنے والے زور آور ہوئے تو رشوت کہی جانے لگی۔ رشوت میں سیاست آئی تو بدعنوانی اور جب آئی ایم ایف آئی تو چوری کو رکھنے اور چلانے کے لیے دھیمے سے کرپشن کہا جانے لگا تاکہ ضمیر باضمیر رہے اور اسے چوری کی گراں باری زیادہ اذیت نہ دے۔
دنیا کو پتا ہے کہ کمینوں کو منہ نہیں لگانا چاہیے پھر بھی 19 نومبر 2025 کو آئی ایم ایف نے چوروں اور راشیوں کے بارے میں تحقیق اور تفتیش کرنے کے بعد پاکستان کے معاشی اور حکومتی ڈھانچے کا گہرا تجزیہ کرتے ہوئے IMF Governance & Corruption Diagnostic Assessment-Pakistan کے نام سے ایک رپورٹ پیش کی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی قومی پیداوار کا 5 سے 6 فی صد کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے جس کی روک تھام نہ کی گئی تو اس میں اضافہ یقینی ہے۔ پاکستان کی اشرافیہ نے معیشت اور سوسائٹی کو یرغمال بنارکھا ہے۔ رپورٹ پانچ بڑے شعبوں میں کرپشن، خراب حکمرانی، سیاسی مداخلت اور اشرافیہ کے قبضے کے مسائل کی نشاندہی کرتی ہے۔ پانچ بڑے شعبے ہیں: پہلا: مالیاتی نظم ونسق Fiscal Governance، دوسرا: مارکیٹ ریگو لیشن، تیسرا: مالیاتی سیکٹر (بینکنگ، نگرانی)، چوتھا: منی لانڈرنگ ؍ٹیررفنانسنگ، پانچواں: قانون کی حکمرانی، عدلیہ، احتساب کے ادارے۔
رپورٹ قرار دیتی ہے کہ پاکستان میں معیشت کا بہت بڑا حصہ حکومت اور ریاست کے ہاتھ میں ہے جہاں پیچیدہ قوانین، کمزور ادارے، تقسیم شدہ نگرانی، غیر موثر احتساب اور قانون کی محدودیت کی وجہ سے کرپشن بہت گہرے اور وسیع طور پر سرایت کرچکی ہے جس کی وجہ سے معاشی کارکردگی کمزور اور اصلاحات غیر موثر ثابت ہورہی ہیں۔ کرپشن پاکستان کی گورننس کا ایک مستقل اور کھا جانے والا روگ ہے جہاں سیاسی اور معاشی اشرافیہ اپنے فائدے کے لیے پالیسیاں بناتی ہے۔ ٹیکس سسٹم پیچیدہ اور غیر شفاف ہے جس کی وجہ سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب کم ہورہا ہے۔
ٹیکس آفیسر رشوت لیتے ہیں۔ سرکاری خریداری میں بڑے پیمانے پر مالی بے ضابطگیاں پائی جاتی ہیں۔ سیاستدان وزراء اور سیکرٹری اپنے لوگوں کو بھرتی کرتے ہیں۔ اربوں روپے ضائع ہوتے ہیں۔ طاقتور لوگوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا کیونکہ بیوروکریسی خوفزدہ ہے۔ نکاح نامہ، ڈومیسائل، زمین کا ٹرانسفر، پو لیس، بلڈنگ پلان جیسے روزمرہ کے کاموں کے لیے بھی شہریوں کو رشوت دینا پڑتی ہے۔ عام آدمی جب بھی ریاست کے کسی ادارے کے دروازے پر جاتا ہے تو اسے ایک پوشیدہ رقم کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے جسے قانون نہیں مانتا لیکن نظام لازماً تقاضا کرتا ہے جو سفارش، رشوت، چائے پانی یا کام کرنے کی وہ قیمت ہے جسے شہریوں کو لازماً ادا کرنا پڑتا ہے۔
رپورٹ کا یہ حصہ سب سے دلچسپ اور ہمک ہمک کر پڑھنے والا ہے جس میں آئی ایم ایف کے مطابق جنوری 2023 سے دسمبر 2024 کے دوران نیب نے تقریباً 5.3 ٹریلین روپے کے اثاثوں کی بازیابی کی ہے۔ اس عظیم بازیابی کو آئی ایم ایف کرپشن کا ایک معمولی سا حصہ قراردے رہی ہے۔ پاکستان میں کتنی کرپشن ہے اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ یہ بازیابی محض ایک جھلک ہے۔ کوئی معتبر پیمانہ نہیں جو ناپ کر بتاسکے پاکستان میں کتنی کرپشن ہے۔ پاکستانی اداروں میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ مکمل کرپشن کو پکڑ سکیں۔ اگر یہ حقیقت ہے اور یقینا ہے تو یہ بہت سنگین معاملہ ہے جس کا مطلب ہے ریاستی وسائل بڑے پیمانے پر غیر موثر استعمال یا غیرشفاف طور پر تقسیم ہورہے ہیں۔ اب آئیے ’’ہمک ہمک‘‘ پر وہ یہ ہے کہ جب نیب سے سوال کیا جاتا ہے کہ یہ بازیاب شدہ رقم کہاں ہے؟ تو وہ کہتی ہے ’’ہمارے پاس تو نہیں ہے‘‘ حکومت اور اس کے دیگر ادارے بھی ایسا ہی ارشاد فرمارہے ہیں۔ پھر کس سے فریاد کریں؟ کس سے منصفی چاہیں؟ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ نیب کا دعویٰ ہی غلط ہے۔ نیب نے یہ رقم بازیاب نہیں کرائی ہے۔ زیادہ تر رقم ’’ریکوری آن پیپر‘‘ ہے۔ ریکوری کاغذی ہے یا تکنیکی۔ اصل میں کچھ نہیں۔ غالب نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
آئی ایم ایف کو بھی مزہ آگیا ہوگا کہ کن سے واسطہ پڑاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چوروں کا چوروں سے واسطہ پڑ گیا ہے۔ چور، چوروں کو چارج شیٹ کررہے ہیں۔ ایک طرف آئی ایم ایف کہتی ہے ٹیکس کا نظام درست نہیں ہے۔ دوسری طرف ہر سال کہتی ہے ٹیکس میں اضافہ کرو۔ سال تو کجا ہر تین چار مہینے بعد نیا بجٹ آجاتا ہے۔ دولت مند کار ٹیلز، جاگیردار، بیوروکریسی، ریئل اسٹیٹ، شوگر مافیا، بڑے بڑے تاجر سب کے لیے ٹیکس چھوٹ، خصوصی زون، ایمنسٹی اسکیمیں لیکن غریبوں اور تنخواہ دار طبقے پر نئے نئے ٹیکس۔ اصول یہ ہے کہ ایک مرتبہ سوچ سمجھ کرٹیکس لگا دیا جائے پھر اسے چھیڑا نہ جائے۔ روز روز ٹیکس میں اضافے کو ظلم باور کیا جاتا ہے۔ اسلامی مالیات کو دیکھیے! آدمی عش عش کر اٹھتا ہے۔ 1500 سال سے زکواۃ کی شرح 2.5 فی صد ہے عشر 10 فی صد یا 5 فی صد اسے دنیا کی کوئی حکومت کم وبیش کرسکتی ہے اور نہ نجی طور پر ٹیمپرنگ کی جاسکتی ہے۔ اسلام ٹیکس کے نظام کو بے یقینی سے پاک رکھتا ہے۔ ہر سال یا پانچ چھے مہینے بعد کوئی نئی فائل، نئی لیوی نہ نیا بجٹ۔ ثمرات دیکھ لیجیے۔ لوگ کس طرح خوشی خوشی ادا کرتے ہیں۔
حالیہ رپورٹ میں توانائی کے بحران کا کہیں ذکر نہیں کیونکہ اس سے عالمی مالیاتی اداروں کے نسخوں اور فارمولوں کی ناکامی عیاں ہوجاتی ہے۔ 1994 کی توانائی پالیسی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے پاکستان کو تیار کرکے دی تھی جس میں نجی بجلی گھر (IPP,s) بنانے کو نسخہ کیمیا ثابت کیا گیا تھا جس میں کمپنی بجلی بنائے یا نہ بنائے حکومت کو ڈالروں میں کیپیسٹی پیمنٹ اداکرنا لازم تھا۔ یہ بھی ان اداروں کی ڈکٹیٹڈ شرط تھی کہ گردشی قرضہ عوام پر منتقل کرو یعنی بجلی مہنگی کرو تاکہ پرائیوٹ کمپنیاں منافع کما سکیں۔ جس سے ایک ایسا نظام وجود میں آیا جس سے ریاست خسارے میں عوام برباد اور نجی کمپنیوں کی کمائی ڈالروں میں۔ کیپیسٹی پیمنٹ ختم کرنا کبھی آئی ایم ایف کی ترجیح کیوں نہیں رہی؟
یہ بھی حقیقت ہے، بڑی اور بنیادی حقیقت ہے کہ کرپشن صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے سرمایہ دارانہ جمہوری نظام جہاں جہاں بھی جاتا ہے وہاں کرپشن صرف پیدا نہیں ہوئی بلکہ نظام کا حصہ بن جاتی ہے۔ مغربی مفکرین خود اسے Crony Capitalism یعنی اقرپا پرور سرمایہ دارانہ نظام کہتے ہیں جس میں حکمران طبقہ، بیوروکریسی اور چند طاقتور سرمایہ دار مل کر منڈی، قوانین اور ریاستی وسائل کا رُخ اپنے مفاد میں موڑ لیتے ہیں۔ یہ نظام عام شہریوں کے لیے نہیں بلکہ دولت مندوں اور سرمایہ داروں کے لیے کام کرتا ہے۔ اس نظام میں کرپشن حادثاتی نہیں بلکہ نظام کے اندراس طرح ڈیزائن کی گئی ہے کہ مخصوص افراد یا گروہ با آسانی فائدہ اٹھا سکیں۔ قانون، پالیسی اور اختیارات اس طرح تشکیل دیے گئے ہیں کہ کچھ لوگ لوٹ مار کرسکیں اور پکڑ میں بھی نہ آسکیں۔ (جاری ہے)