data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ڈی جی آئی ایس پی آر کی حالیہ پریس کانفرنس کا اگر خلاصہ کیا جائے تو وہ ایک جملے میں سمٹ آتا ہے: ’’سندھ کی گورننس بہترین ہے‘‘۔ یہ جملہ نہ صرف ایک سیاسی تاثر کو جنم دیتا ہے بلکہ پورے بیانیے کی معنویت اور اثر پذیری کو بھی متاثر کرتا ہے۔ یہ وہ جملہ ہے جس نے عوامی رائے، سیاسی شعور اور زمینی حقائق کے درمیان موجود خلیج کو پوری شدت کے ساتھ عیاں کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ ’’بہترین گورننس‘‘ کہاں پائی جاتی ہے؟ کیا یہ وہی سندھ ہے جہاں عوام پینے کے صاف پانی، صحت، تعلیم اور بنیادی حقوق کے لیے برسوں سے ترس رہے ہیں؟ یا یہ کوئی اور مملکت ہے جہاں سب کچھ آئیڈیل ہے اور ہم دیکھ نہیں پا رہے؟ اگر اس ’’بہترین گورننس‘‘ کو کراچی کے آئینے میں دیکھا جائے تو تصویر کسی المیے سے کم نہیں۔ کراچی، جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا، آج ٹوٹی سڑکوں، اُبلتے گٹروں، کچرے کے ڈھیروں اور بدحالی کا مرقع ہے۔ یہ وہی شہر ہے جو ملک کی معیشت میں سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے، لیکن شہری سہولتوں میں سب سے پیچھے ہے۔ جہاں بارش ہو تو شہر ڈوب جاتا ہے، گرمی بڑھے تو بجلی غائب ہو جاتی ہے، اور روزگار ڈھونڈنا گویا خواب بن چکا ہے۔ اگر یہی بہترین گورننس ہے تو پھر ناکامی کسے کہتے ہیں؟

کراچی کے عوام کے سامنے حقیقت یہ ہے کہ شہر کے گلی کوچوں میں گندگی، بدبودار پانی، ٹوٹی ہوئی سڑکیں اور جرائم کا راج ہے۔ صحت کے مراکز خستہ حالی کا شکار ہیں، تعلیمی ادارے زوال پذیر ہیں اور شہریوں کو سب سے بنیادی سہولتوں کے لیے بھی ترسنا پڑتا ہے۔ یہی وہ صورتحال ہے جس نے عوام کے دلوں میں حکومتی دعووں پر اعتماد کو ختم کر دیا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود اگر یہی ’’بہترین گورننس‘‘ ہے تو پھر یہ بیانیہ عوامی حقیقت کے منہ پر ایک طمانچہ محسوس ہوتا ہے۔ حکمران طبقے کے لیے بیانیہ ہمیشہ حقیقت سے زیادہ اہم رہا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ عوام کو حقیقت سے زیادہ مؤثر طریقے سے قابو بیانیہ کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا صوبہ جہاں صحت، تعلیم، صاف پانی، انفرا اسٹرکچر اور عوامی فلاح کے تمام اشاریے زوال کا شکار ہیں، وہاں ’’بہترین گورننس‘‘ کا دعویٰ دراصل زمینی سچائی پر بیانیے کا پردہ ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ وہی سندھ ہے جہاں دیہی علاقوں میں آج بھی بنیادی صحت کے مراکز خالی ہیں، اسپتالوں میں ڈاکٹرز نہیں، اسکولوں میں اساتذہ نہیں، اور شہروں میں صفائی کا کوئی نظام نہیں۔ یہ محض کوئی انتظامی ناکامی نہیں بلکہ ایک منظم سیاسی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے جس کے ذریعے طاقت کے مراکز اور اقتدار کے ایوان ایک دوسرے کا تحفظ کرتے ہیں۔ جب بیانیہ حقیقت پر غالب آ جاتا ہے تو عوام کا اعتماد کمزور پڑ جاتا ہے، اور یہ کمزوری دراصل جمہوریت کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتی ہے۔

ملک میں جمہوریت کا راگ ہمیشہ اونچی آواز میں الاپا جاتا ہے۔ لیکن جمہوریت صرف ووٹ ڈالنے کا نام نہیں، بلکہ عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے، جوابدہی کے نظام کو مضبوط کرنے اور عوامی مفاد کو ترجیح دینے کا نام ہے۔ سندھ میں دہائیوں سے ایک ہی سیاسی جماعت حکومت میں ہے، مگر عوام کی حالت زار روز بروز خراب ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود اگر حکومتی کارکردگی کو ’’بہترین گورننس‘‘ قرار دیا جائے تو یہ جمہوریت نہیں بلکہ ایک سیاسی تھیٹر معلوم ہوتا ہے جس میں عوام محض تماشائی ہیں۔

جب حکومتی بیانیہ حقیقت سے الگ ہو جائے تو عوام کے اندر مایوسی جنم لیتی ہے۔ سندھ کے عوام آج اسی مایوسی کا شکار ہیں۔ وہ ووٹ دیتے ہیں، وعدے سنتے ہیں، مگر ان کے گلی محلوں میں کچھ نہیں بدلتا۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں جمہوریت کا راگ الاپنے والے دراصل اس نظام کے محافظ بن جاتے ہیں جو عوامی فلاح کے بجائے طاقت کے توازن کو محفوظ رکھتا ہے۔ یہ کہنا کہ سندھ کی گورننس بہترین ہے، دراصل اْس پالیسی کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے جس کے تحت جماعت اسلامی کو کراچی کی میئرشپ نہیں دی گئی۔

کراچی کے عوام نے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کو واضح اکثریت دی تھی، لیکن سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے اْن کا حق چھین لیا گیا۔ کیوں؟ کیونکہ بہترین گورننس کے اس تاثر کو برقرار رکھنے کے لیے اصل تبدیلی لانے والوں کو راستے سے ہٹانا ضروری سمجھا گیا۔ اگر شہر کا نظم و نسق واقعی عوام دوست قوتوں کے ہاتھ میں آ جاتا تو یہ بیانیہ خود بخود ٹوٹ جاتا۔ اس لیے اسے کسی بھی قیمت پر بچایا گیا — چاہے وہ عوامی مینڈیٹ کی قیمت پر ہی کیوں نہ ہو۔ یہ فیصلہ دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ گورننس عوام کے لیے نہیں، بلکہ ایک مخصوص سیاسی مفاد کے تحفظ کے لیے ہے۔ یہ حقیقت اب ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان میں گورننس صرف منتخب حکومتوں کے ہاتھ میں نہیں ہوتی۔ طاقت کے کئی مراکز ہیں اور ہر مرکز اپنے مفادات کے گرد حکمت ِ عملی ترتیب دیتا ہے۔ جب ان مراکز کے مفادات ایک ہو جائیں تو وہ ایک دوسرے کے بیانیے کو تقویت دیتے ہیں۔ اسی لیے ایک بدحال صوبے کو بھی ’’بہترین گورننس‘‘ کا تمغہ ملتا ہے۔ کیونکہ اس سے موجودہ طاقت کا ڈھانچہ مضبوط رہتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا عوام کے لیے بھی یہی نظام ہے؟ جواب صاف ہے۔ نہیں۔ عوام کے لیے یہ نظام صرف وعدوں اور بیانیوں کا ہے۔ جب عوام کو روٹی، پانی، بجلی اور انصاف نہیں ملتا تو انہیں ایک خوبصورت جملہ دے دیا جاتا ہے۔ ’’ہم بہترین گورننس فراہم کر رہے ہیں‘‘۔ یہ جملہ اخبارات کے فرنٹ پیجز اور ٹی وی اسکرینز پر خوب بکتا ہے۔ مگر وہ ماں جو بیمار بچے کو سرکاری اسپتال میں دوائی کے بغیر تڑپتے دیکھتی ہے، وہ نوجوان جو نوکری کے لیے مارا مارا پھر رہا ہے، وہ بزرگ جو بارش میں گندے پانی میں ڈوبا گھر بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اْن کے لیے یہ بیانیہ ایک طنز بن جاتا ہے۔ یہی طنز اس پورے سیاسی و حکومتی ڈھانچے کا اصل چہرہ ہے۔ اس کے پیچھے عوامی بے بسی، بدحالی اور محرومی چھپی ہوتی ہے۔ سندھ کے عوام دہائیوں سے ان زخموں کے ساتھ جی رہے ہیں۔تھرپارکر میں بچے بھوک اور بیماری سے مر رہے ہیں، لاڑکانہ میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے، حیدرآباد میں پانی آلودہ ہے، سکھر میں روزگار ناپید ہے، اور کراچی میں شہری سہولتیں خواب بن چکی ہیں۔

یہ وہ سندھ ہے جو حکمرانوں کے بیانیے میں ترقی یافتہ ہے اور حقیقت میں زخموں سے چور۔ یہ زخم صرف غربت کے نہیں، بے بسی کے ہیں۔ وہ بے بسی جو تب جنم لیتی ہے جب آپ کا ووٹ تو ہوتا ہے مگر آواز نہیں سنی جاتی، جب آپ ٹیکس دیتے ہیں مگر سڑکیں پھر بھی ٹوٹی رہتی ہیں، جب آپ اسپتال جاتے ہیں مگر علاج کے لیے پیسے اور تعلقات درکار ہوتے ہیں۔ یہ سوال اب مزید دبایا نہیں جا سکتا۔ اگر جمہوریت عوام کے مفاد کے لیے ہوتی تو سندھ کے عوام آج اس حال میں نہ ہوتے۔ یہ جمہوریت دراصل ایک طبقاتی مفادات کے تحفظ کا آلہ بن چکی ہے، جس میں عوام محض اعداد و شمار ہیں، حقیقی طاقت نہیں۔ جب ایک صوبہ دہائیوں سے بدحال ہو اور پھر بھی اسے ’’بہترین گورننس‘‘ کا سرٹیفکیٹ ملے تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ جمہوریت نہیں بلکہ سیاسی اسٹیج شو ہے۔

جس دن عوامی نمائندگی اور فیصلہ سازی حقیقی معنوں میں عوام کے ہاتھ میں آ گئی، اس دن یہ بیانیے خود بخود زمین بوس ہو جائیں گے۔ اسی لیے ان بیانیوں کو زندہ رکھا جاتا ہے تاکہ عوام کے اندر سوال اٹھانے کی جرات نہ پیدا ہو۔ سندھ کی گورننس کو ‘‘بہترین’’ کہنا دراصل ایک سیاسی مصلحت ہے، حقیقت نہیں۔یہ بیانیہ عوام کے زخموں پر مرہم نہیں بلکہ نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔

سوال صرف اتنا ہے کہ آخر کب تک بیانیہ حقیقت کو دبا سکے گا؟ کب تک عوام کو جملوں سے بہلایا جائے گا؟ کب تک ایک ناکام گورننس کو بہترین کہا جاتا رہے گا؟ یہ ملک جب تک عوام کے لیے نہیں، بلکہ چند مراکز کے مفاد کے لیے چلتا رہے گا، تب تک ایسے جملے آتے رہیں گے اور عوام زخم سہتے رہیں گے۔ لیکن تاریخ کا سبق یہ ہے کہ بیانیے ہمیشہ حقیقت کے سامنے ہار جاتے ہیں۔ اور وہ دن آئے گا جب سندھ کے عوام اپنے زخموں کو بیانیے کے شور میں گم ہونے نہیں دیں گے۔

میر بابر مشتاق.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بہترین گورننس سندھ کے عوام عوام کے لیے یہ بیانیہ نہیں بلکہ یہ حقیقت یہ ہے کہ عوام کو سندھ کی ہے جہاں رہے ہیں جائے تو جاتا ہے یہ وہی ا جاتا

پڑھیں:

آئی ایم ایف کا مطالبہ، حکومت نے کرپشن اینڈ گورننس رپورٹ شائع کرنے کیلئے مہلت مانگ لی

سیلاب کے باعث صوبوں کی زرعی آمدن پر انکم ٹیکس نافذ کرنے کیلئے مزید مہلت طلب ،معاشی ٹیم نے اسٹرکچرل بنچ مارکس پر نرمی کی درخواست کی ہے تاکہ معاہدہ جلد از جلد مکمل ہو سکے، ذرائع
سیلاب سے زرعی معیشت متاثر ہونے کے سبب صوبے فوری طور پر ایگریکلچر انکم ٹیکس نافذ کرنے پر آمادہ نہیں ،اسٹاف لیول معاہدے کیلئے 4 اہم نکات پر ورچوئل مذاکرات جاری،وزارت خزانہ

حکومت نے آئی ایم ایف سے کرپشن اینڈ گورننس رپورٹ پبلش کرنے کے لیے مہلت مانگ لی۔وزارت خزانہ ذرائع کے مطابق سیلاب کے باعث صوبوں نے زرعی آمدن پر انکم ٹیکس نافذ کرنے کے لیے مزید مہلت طلب کی ہے۔ سیلاب سے زرعی معیشت متاثر ہونے کے سبب صوبے فوری طور پر ایگریکلچر انکم ٹیکس نافذ کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف لیول معاہدے کے لیے 4 اہم نکات پر ورچوئل مذاکرات جاری ہیں۔ اس سلسلے میں وزارتِ خزانہ ذرائع کے مطابق سرکاری افسران کے اثاثے ظاہر کرنے اور کرپشن اینڈ گورننس ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ رپورٹ کے نکات بھی مذاکرات کا حصہ ہیں۔ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومت نے کرپشن اینڈ گورننس رپورٹ پبلش کرنے کے لیے مہلت طلب کی ہے جب کہ آئی ایم ایف کی جانب سے سرکاری سطح پر گندم خریداری کے لیے اوپن مارکیٹ یا نجی شعبے سے خریداری کا میکنزم فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق معاشی ٹیم نے اسٹرکچرل بنچ مارکس پر نرمی کی درخواست بھی کی ہے تاکہ معاہدہ جلد از جلد مکمل ہو سکے۔

متعلقہ مضامین

  • افغانوں کی عسکری حقیقت
  • عوام کراچی میں افراتفری سے متعلق افواہوں پر کان نہ دھریں، وزیر داخلہ سندھ
  • سیاسی انتشار ملک و قوم کے مفاد میں نہیں، کاشف سعید شیخ
  • ادویات کی برآمدات میں اضافہ، حکومت کا 30 ارب ڈالر کا ہدف
  • حکومت کا ادویات کی برآمدات کو 30 ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف
  • سیاست کو بند گلی سے نکالنے کے لیے سیاسی قیادت اپنا کردار ادا کرے‘ کاشف سعید شیخ
  • کراچی کے تاجروں کو بھتے کی پرچیاں ملنا سندھ حکومت کی گورننس پر طمانچہ ہے، ایم کیو ایم
  • آئی ایم ایف کا مطالبہ، حکومت نے کرپشن اینڈ گورننس رپورٹ شائع کرنے کیلئے مہلت مانگ لی
  • جعلی ملک ‘ٹورینزا’ کا پاسپورٹ لے کر خاتون کے امریکا پہنچنے کی وائرل ویڈیو کی حقیقت سامنے آگئی