حکومت کا ادویات کی برآمدات کو 30 ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
وفاقی حکومت نے ادویات کی برآمدات کو 5 سال کے اندر 30 ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف مقرر کرلیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیرِ صحت مصطفیٰ کمال کی زیرِ صدارت ڈریپ کا اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں فیڈرل سیکرٹری ہیلتھ ، ایڈیشنل سیکرٹری اور ڈریپ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر بھی شریک ہوئے۔
اجلاس میں پانچ سال کے اندر 30 ارب امریکی ڈالر کی ادویات کی برآمدات کے ہدف پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ مصطفی کمال کا کہنا تھا کہ ادویات کی ایکسپورٹ کو بڑھانے کا پختہ عزم کر رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اہداف کے حصول کیلیے تمام تر ممکن اقدامات کو یقینی بنارہے ہیں۔ ڈریپ کی ٹیم اور وزارتِ صحت اس منصوبے کی پیش رفت کا جائزہ لے رہی ہے۔ پاکستانی ادویات کو دنیا کے بڑے تجارتی بلاکس میں رسائی کیلئے تمام تر ضروری اقدامات کو یقینی بنائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ منصوبہ محض ایک عددی ہدف نہیں بلکہ پاکستان کے معاشی استحکام کی علامت ہے۔ ہم اس شعبے کو ایکسپورٹ انڈسٹری میں تبدیل کر کے قومی معیشت کو مضبوط کریں گے۔
مصطفی کمال کا مزید کہنا تھا کہ منصوبے کی نگرانی اور پیش رفت کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے باقاعدہ فالو اپ میٹنگز کی جایں گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ادویات کی
پڑھیں:
پاکستان کا 150 ارب ڈالر کا معدنی خزانہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251013-03-2
برطانوی جریدہ اکانومسٹ کی تازہ رپورٹ نے ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ پاکستان کی سرزمین صرف جغرافیائی لحاظ سے نہیں بلکہ قدرتی وسائل کے اعتبار سے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے پاس تقریباً 150 ارب ڈالر مالیت کے غیر دریافت شدہ معدنی ذخائر موجود ہیں۔ بلوچستان کا ریکو ڈیک منصوبہ اس سلسلے میں سب سے نمایاں ہے، جب کہ شمالی علاقوں میں موجود لیتھیم، تانبے اور دیگر کرٹیکل منرلز کے ذخائر جدید ٹیکنالوجی، برقی گاڑیوں اور توانائی کے نئے نظاموں کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ ذخائر دراصل پاکستان کے لیے ایک غیر معمولی موقع ہیں کہ وہ جنوبی ایشیا میں ’’کرٹیکل منرلز ہب‘‘ کے طور پر ابھرے، مگر افسوس کہ بدعنوانی، انتظامی کمزوری، سیاسی عدم استحکام اور سیکورٹی خدشات اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ماضی میں ہم نے کئی مواقع اس لیے ضائع کیے کہ قومی وسائل کو امانت سمجھنے کے بجائے ذاتی مفادات کا ذریعہ بنایا گیا۔ اگر یہی روش جاری رہی تو ریکو ڈیک جیسے منصوبے بھی محض عالمی سرمایہ کاروں کے منافع تک محدود رہ جائیں گے، اور عوام کے حصے میں صرف وعدے اور قرضوں کا بوجھ آئے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایک جامع اور شفاف معدنی پالیسی تشکیل دے، جس میں صوبوں کا کردار واضح ہو، غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں کی تفصیلات عوامی کی جائیں، اور مقامی ماہرین و افرادی قوت کو ترجیح دی جائے۔ اگر ان معدنی ذخائر سے حاصل ہونے والی آمدنی کو دیانتداری سے قومی ترقی، تعلیم، صحت اور توانائی کے منصوبوں میں لگایا گیا تو یہ شعبہ واقعی پاکستان کی معیشت کا ’’گیم چینجر‘‘ ثابت ہو سکتا ہے۔ قدرت نے خزانہ عطا کر دیا ہے، اب یہ قوم کے حکمرانوں اور اداروں پر ہے کہ وہ اسے امانت سمجھ کر قوم کی تقدیر بدلنے کا ذریعہ بنائیں، یا ماضی کی طرح اسے بھی سیاسی بداعتمادی اور بدانتظامی کی نذر کر دیں۔