WE News:
2025-10-14@06:00:52 GMT

افغانوں کی عسکری حقیقت

اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT

لوگ حیران ہی نہیں ششدر بھی ہیں کہ سنا تو یہ تھا کہ افغانوں نے منگولز سے لے کر نیٹو تک سب کو شکست دی، پھر یہ 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب مورچے چھوڑ کر بھاگ کیسےگئے؟ مگر ہمیں کوئی حیرت نہ ہوئی، ہم اب بھی مسکرا رہے ہیں، کیونکہ ہم موجودہ افغانستان کو اندر تک جانتے بھی ہیں، اور اس کی تاریخ بھی بہت احتیاط کے ساتھ پڑھ رکھی ہے۔ ہم ماضی بعید کی تفصیل میں نہیں جائیں گے اس سے متعلق ہم بس ایک ہی پہاڑ سائز اشارے پر اکتفا کریں گے۔ اگر افغانوں نے واقعی سب کو شکست دی ہے تو پھر یہ ڈیورنڈ لائن کہاں سے آگئی؟ وہی ڈیورنڈ لائن جس کی افغانستان والی جانب ایک کروڑ 83 لاکھ پشتون جبکہ پاکستان والی جانب 4 کروڑ سے زیادہ پشتون آباد ہیں، خود ہی اندازہ لگا لیجیے کہ برٹش آرمی نے ان کی پشتون آبادی کا تناسب کس بری طرح بگاڑ دیا تھا۔

حیران ہونے والوں کی حیرت کو ہم آخری افغان جنگ یعنی وار آن ٹیرر کے تناظر میں دور کر دیتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں وہ جنگ 20 سال چلی، ایک ہی وقت میں وہاں امریکا کی زیادہ سے زیادہ فوجی موجودگی ایک لاکھ 20 ہزار تھی۔ 44 مزید ممالک کی فوج اس کے علاوہ تھی، جن میں برطانیہ، کینیڈا، فرانس اور جرمنی جیسے بڑے ممالک کی افواج بھی شامل تھیں۔ گوریلا جنگ کا سطحی سا شعور رکھنے والا بھی جب اس بڑی تعداد کو دیکھے گا تو یہ کہے بغیر نہیں رہ سکے گا کہ یہ صورتحال گوریلے کے لیے نہایت آئیڈیل تھی، کیونکہ جتنی قابض کی فوجی موجودگی زیادہ اور پھیلی ہوئی ہو اتنا ہی اسے بھاری نقصان پہنچانا آسان ہوتا ہے۔

ایسا کیوں ہوگا؟ کیونکہ قابض کا روز ہر اس جگہ خوش قسمت ثابت ہونا ضروری ہوگا جہاں اس کی فوجی موجودگی ہوگی، جبکہ گوریلے کا اس وسیع و عریض میدان جنگ میں دن میں کسی ایک جگہ ہی خوش قسمت ثابت ہونا بہت ہوگا، کیونکہ اس سے قابض کو روز کسی نہ کسی مقام پر جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اب آجاتا ہے ملین ڈالر کا سوال، بلکہ دفع کیجیے زوال پذیر ڈالر کو، ملین یو آن کا سوال یہ ہے کہ کیا امریکا اور اس کے اتحادیوں کو یومیہ ایک فوجی کا نقصان ہوا؟ آئیے اعداد و شمار سے جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

امریکا 20 سال افغانستان میں رہا، یعنی 7300 دن، ان 7 ہزار 300 ایام میں آفیشل ریکارڈ کے مطابق 2459 امریکی فوجی مارے گئے، اگر اس عدد کو 7 ہزار 300 ایام پر تقسیم کیا جائے تو ہر چوتھے دن ایک امریکی فوجی مارا گیا، یہ عدد افغان طالبان کے لیے کتنا شرمناک ہے اس کا اندازہ آپ کو تب ہوگا جب آپ عراق جنگ کے اعداد و شمار دیکھیں گے۔ عراق جنگ 8 سال چلی، یعنی 3200 دن۔ ان 3 ہزار 200 ایام میں 4431 امریکی فوجی مارے گئے۔ اگر یہ تعداد آپ ایام والی تعداد پر تقسیم کریں تو ہر 17 گھنٹے بعد ایک امریکی فوجی مارا گیا۔ جس کا مطلب ہوا کہ امریکی وہاں فی دن ایک فوجی کا نقصان اٹھا رہے تھے۔

صرف یہی نہیں بلکہ ذرا یہ بھی دیکھیے کہ افغانستان میں امریکی فوج کے ہاتھوں 7300 دنوں میں افغان کتنے مارے گئے؟ ان کی کل تعداد 176000 ہے۔ اور عراق میں 3200 دنوں میں امریکی فوج کے ہاتھوں 5 سے 10 لاکھ عراقی مارے گئے۔ عراقی کہتے ہیں ہمارا جانی نقصان 10 لاکھ ہوا، جبکہ غیر جانبدار ذرائع کہتے ہیں 5 لاکھ تھے۔ ہم کہتے ہیں 10 لاکھ چھوڑیے 5 لاکھ والا عدد ہی لے لیجیے۔ کیا 8 سال میں 5 لاکھ عراقیوں اور 20 سال میں ایک لاکھ 76000 افغانیوں کا یہ بڑا فرق چیخ چیخ کر کچھ کہہ نہیں رہا؟ آئیے اب اس چیخ کی حقیقت تک رسائی کی کوشش کرتے ہیں۔

چیخ کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے بیک گراؤنڈ سمجھنا ضروری ہے، یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ افغانی پاکستان کو یہ طعنہ دیتے ہیں کہ اس نے امریکا کا ساتھ دیا، مدد کی۔ ہم نے امریکا کی کتنی مدد کی یہ امریکی خود درجنوں ڈاکیومنٹریز میں بتا چکے کہ پاکستان نے ہمیں ڈبل کراس کیا اور امریکا جنگ طالبان نہیں پاکستان سے ہارا ہے۔ لیکن کچھ دیر کے لیے مان لیجیے کہ پاکستان نے دودھ کے دھلے افغانوں کے خلاف امریکا کا ساتھ دیا، اور اس کے بعد آئیے سوویت جنگ کی جانب۔ کسی کو یاد ہے جب ایک لاکھ سے زیادہ سوویت فوج افغانستان میں داخل ہوئی تھی تو کس طرح داخل ہوئی تھی؟ کیا پہلے سوویت افغان سرحد پر زبردست جنگ ہوئی جس میں افغان فوج شکست سے دوچار ہوئی اور یوں سوویت آرمی کو افغانستان پر قبضے کا موقع مل گیا؟ نہیں، یہ خود افغانی تھے جنہوں سوویت فوج کو دعوت نامہ بھیجا اور جب وہ بغیر کسی مزاحمت کے کابل تک پہنچ گئے تو بانہیں پھیلا کر سوویت کمانڈر کو پخیر راغلے کہا گیا۔

صرف یہی نہیں بلکہ جب امریکا نے نائن الیون کے بعد افغانستان آنا چاہا تو شمالی افغانستان کے راستے آیا، ہم مانتے ہیں کہ طالبان نے مزاحمت کی، لیکن اسی امریکی فوج کی سہولت کاری کرکے اسے کابل تک رسائی دینے والے کون تھے؟ وہ کون تھے جو امریکی فوج کے ٹینکوں کے کابل میں داخلے کے وقت ان کے استقبال میں ناچ ناچ کر گھونگرو توڑ رہے تھے؟ کیا وہ پاکستانی تھے؟ وہ کون تھے جنہوں نے اسی امریکا کا تسلط قبول کرکے اس کا کٹھ پتلی بننا قبول کیا؟ کیا وہ بھی پاکستانی تھے؟ ہم فقط حامد کرزئی کی بات نہیں کر رہے۔ سوویت جنگ والی پگڑیاں تو یاد ہوں گی؟ یعنی استاد برہان الدین ربانی، استاد عبدالرب رسول سیاف، پیر صبغت اللہ مجددی، ہرات والا اسماعیل توران اور آخر میں مجاہد اکبر گلبدین حکمت یار۔ یہ سب امریکا پر فدا ہوئے کہ نہیں؟ کیا یہ سب بھی پاکستانی تھے؟ اس پس منظر کو ذہن میں رکھ کر آئیے اصل نکتے یعنی عراقی و افغانی اعداد و شمار والے بڑے فرق کی چیخ کی جانب۔

جانتے ہیں عراق سے صرف 8 سال میں بھاگنے پر مجبور ہونے والا امریکا افغانستان میں 20 سال تک کیوں بیٹھا رہا اور اس کا فقط اتنا ہی جانی نقصان کیوں ہوا جتنا حالت امن میں کسی بھی ملک میں 20 سال میں پولیس کا ہوجاتا ہے؟ کیونکہ افغانی دونوں جانب سے امریکا سے مال کھا رہے تھے۔ کرزئی اور اس کا ٹولہ الگ امداد لیتا، اور طالبان انہیں ٹارگٹ نہ کرنے کا الگ سے بھتہ لیتے۔ وہ جو 2459 امریکی فوجی مارے گئے تھے ان کی اکثریت شروع کے سالوں میں ماری گئی۔ جب بھتہ سسٹم طے پا گیا تو اس کے بعد کوئی امریکی فوجی تب مارا جاتا جب بھتہ پہنچنے میں تاخیر ہوجاتی۔ اس کی تائید میں ہم آپ کے سامنے چند کڑیاں رکھتے ہیں۔ جوڑ آپ خود لیں گے۔ انشااللہ۔

ہم سب جانتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے جنگی قوانین اور اسلامی تعلیمات دونوں کی رو سے دشمن ملک کے سویلینز کو نشانہ بنانا جرم ہے، اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ طالبان خود کو اسلام کا اتنا پابند ظاہر کرتے ہیں کہ نامحرم عورت دیکھ کر ان کے ایمان کو اینٹی وائرس کی حاجت پیش آجاتی ہے۔ وہ الگ بات کہ خاتون اگر قطری شہزادی ہوتو یہ استقبال کرنے ایئرپورٹ پہنچ جاتے ہیں۔ مگر کچھ دیر کے لیے مان لیجیے کہ یہ واقعی اسلامی قوانین کے سخت پابند ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو افغانستان میں امریکا کے جو تعمیراتی پراجیکٹس چل رہے تھے۔ جس کے ٹھیکے سویلین امریکیوں نے حاصل کیے تھے۔ طالبان نے ان میں سے 1800 سے زیادہ ٹھیکدار کیوں قتل کیے؟ ان کا قتل تو شرعاً حرام تھا۔ بھتہ! جان عزیز! بھتہ ہی اس کی بھی وجہ تھا۔ کسی نے بھتہ دینے سے انکار کیا تو مارا گیا، اور کسی نے بھتہ دینے میں تاخیر کی تو مارا گیا۔ چلتے چلتے یہ بھی سن لیجیے کہ ان کا جو امیر بلوچستان ڈرون حملے میں مارا گیا تھا، اس نے کراچی کے علاقے گلشن معمار میں مکان خریدا تو روایت کے مطابق ڈیل کروانے والے پراپرٹی ڈیلر کو مٹھائی بھی تو دینی تھی، جو ڈیل کی خوشی میں سب دیتے ہیں۔ حضرت امیر صاحب نے مٹھائی کے نام پر 60 ہزار روپے کیش دیے تھے، کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔

اب آئیے دوسری کڑی کی جانب، یاد کیجیے وار آن ٹیرر کے دوران امریکا بس دو ہی قوتوں کا رونا روتا تھا۔ ایک پاکستان کا کہ یہ ہمیں ڈبل کراس کر رہا ہے۔ دوسری قوت افغانستان میں تھی، جس کا نام ہے ’حقانی نیٹ ورک‘۔ میران شاہ جا کر کسی سے بھی تصدیق کروا لیجیے، حقانی فیملی سوویت جنگ سے بھی قبل میران شاہ میں آباد تھی۔ حقانی صاحب کا مشہور زمانہ مدرسہ ’منبع العلوم‘ بھی افغانستان نہیں میران شاہ میں تھا۔ اپنے خوست والے گھر تو یہ فیملی کبھی کبھی جایا کرتی، مستقل قیام پاکستان میں تھا۔ حقانی صاحب زدران قبیلے کے تھے جو سرحد کے اس پار پکتیا، پکتیکا اور خوست جبکہ ہماری جانب وزیرستان اور سابقہ کرم ایجنسی میں پھیلا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان لیڈروں میں صرف یہی فیملی ہے جو پاکستان کی آج بھی مکمل وفادار ہے۔ اب نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ امریکا کو جو شکایت پاکستان اور حقانی نیٹ ورک سے تھیں وہ کسی گردیزی، غزنوی یا قندھاری سے تھی؟

اب لیجیے تیسری کڑی، جب امریکا افغانستان سے نکلا تو نکلتے ہوئے وہ بھاری مقدار میں اربوں ڈالر کا زیرو میٹر اسلحہ کیوں چھوڑ گیا؟ اور کس کے خلاف استعمال کے لیے چھوڑ گیا؟ اگر کسی کو لگتا ہے کہ یہ محض انتظامی کمزوری کے سبب رہ گیا ہوگا تو یاد کیجیے جون 2014 کا عراقی شہر موصل۔ داعش کے بالکل شروع شروع کے دن تھے۔ موصل میں امریکی اسلحے کی بھاری کھیپ اتری، جس میں بکتر بند، ہموی جیپیں، فوجی ٹرک، بھاری مشین گنیں، میزائل اور ٹینک تک شامل تھے۔ پھر اس شہر کے سینٹرل بینک میں 500 ملین ڈالر پہنچے اور ایک ہفتے بعد داعش نے بغیر کسی مزاحمت کے یہ شہر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد کی تاریخ آپ جانتے ہی ہیں، امریکا نے 2021 میں افغانستان میں بھی یہی تاریخ دہرائی ہے۔

اب لیجیے لطف آخری کڑی کا، یاد کیجیے جنرل حمید گل مرحوم کا وہ شہرہ آفاق جملہ

’نائن الیون بہانہ ہے، افغانستان ٹھکانہ ہے، پاکستان نشانہ ہے‘

اس تاریخی جملے کی گہرائی یہ واضح کرنے کے لیے کافی سے بھی زیادہ ہے کہ عراق سے محض 8 سال میں بھاگنے پر مجبور ہوجانے والا امریکا افغانستان میں 20 سال کیوں بیٹھا رہا اور اس عرصے میں طالبان نے اسے اوسطاً ہر چوتھے دن ایک فوجی کا نقصان کیوں پہنچایا؟ کیا جنگ ایسی ہوتی ہے؟ بلکہ کیا اسے جنگ کہا بھی جاسکتا ہے؟ جنگ تو 7 مئی کی رات جیسی ہوتی ہے کہ 7 انڈین طیارے زمین پر آگرے، یا پھر 12 اکتوبر کی رات جیسی ہوتی ہے کہ 4 گھنٹوں میں 200 سے سے زیادہ طالبان دہشتگرد ہلاک جبکہ پاکستان کے 23 فوجی جوان شہید ہو گئے۔ افغانی اگر نیٹو یا سپر طاقتوں کو شکست دینے لائق ہوتے تو 12 اکتوبر کی رات مورچے چھوڑ کر بھاگتے؟ افغانیوں کا کل تجربہ گوریلا جنگ کا ہے۔ گوریلا جنگ یہی ہے ناں کہ حریف پر چھپ کر پشت سے وار کرو، اور جب وہ پلٹ کر وار کرنے لگے تو میدان چھوڑ کر دم دبا کر بھاگ جاؤ؟۔ افغانیوں کی اوقات بس ایسی ہی جنگ لڑنے کی ہے۔ ریگولر جنگ افغانیوں نے آخری بار آج سے کوئی 130 سال قبل لڑی تھی، اور اس میں یہ موجودہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی پشتون بیلٹ سے برٹش آرمی کے ہاتھوں ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اور جب 130 سال بعد صرف چند گھنٹوں کے لیے ایسی ہی جنگ پھر پیش آئی تو اپنے 21 مورچوں پر پاکستانی پرچم لہروا بیٹھے، مسخرے پن کی حد دیکھیے کہ نمکین ڈش میں کشمش ڈالنے والے جب چیک پوسٹوں سے بھاگے تو پاکستانیوں کی فیس بک پوسٹیں فتح کرنے پہنچ گئے۔ حد ہے بے شرمی کی!

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

wenews افغان فوجی افغانستان امریکا پاک افغان جنگ دہشتگردی سوویت یونین وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغان فوجی افغانستان امریکا پاک افغان جنگ دہشتگردی سوویت یونین وی نیوز افغانستان میں امریکی فوجی امریکی فوج کہ پاکستان جانتے ہیں مارا گیا کہ افغان جانتے ہی سے زیادہ لیجیے کہ کی فوجی سال میں رہے تھے کی فوج کے لیے ہیں کہ اور اس کے بعد

پڑھیں:

ٹی ٹی پی ،پی ٹی آئی کا عسکری ونگ بن چکی ہے،عطا تارڑ

وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ جیل میں بیٹھ کر آج بھی دہشتگردوں کی حمایت کرتے ہیں اور عوام میں تاثر پایا جاتا ہے کہ ٹی ٹی پی پی ٹی آئی کا عسکری ونگ بن چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا میں امن و امان کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے والے عناصر موجود ہیں اور انتشار پھیلانے والے گروہوں کی کوشش ہوتی ہے کہ حالات خراب کیے جائیں۔
عطا تارڑ نے یاد دلایا کہ پورا ملک دہشتگردی کے خاتمے کے لیے متحد ہوا تھا اور آپریشن ردالفساد و ضربِ عضب کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر کارروائیاں ہوئیں جن کے باعث دہشتگردی میں کمی آئی۔ تاہم ان کا مؤقف تھا کہ کچھ جماعتیں جان بوجھ کر دہشتگردوں کو جگہ دے کر ملک کی سلامتی کے خلاف سازشیں کر رہی ہیں اور جیل میں بیٹھے افراد اس صورتِ حال سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
وزیر اطلاعات نے خیبرپختونخوا کی کابینہ پر بھی تنقید کی، کہا کہ وہاں ٹمبر مافیا اور ڈرگ مافیا کے ملوث ہونے کے تاثر ہیں اور حکومت نے ان کے خلاف مؤثر کارروائی کیوں نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے خلاف بھی کارروائی مؤثر نہیں رہی اور مجموعی طور پر پی ٹی آئی کا گھرانچہ منظم دکھائی نہیں دیتا۔ وہ یہ بھی کہہ چکے کہ بھارتی داب کے سامنے پی ٹی آئی کے بانی دب جاتے ہیں۔
عطا تارڑ نے واضح کیا کہ ریاست نے فیصلہ کر لیا ہے کہ دہشتگردوں کو شکست دی جائے گی اور انہیں پاکستان میں رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی؛ دہشتگردی کی مزید گنجائش برادشت نہیں کی جائے گی اور قانون کے مطابق آخری دہشتگرد کے خاتمے تک کارروائیاں جاری رہیں گی۔ انہوں نے یہ بھی الزام دہرایا کہ پی ٹی آئی کے رہنما جیل سے یا بیرونِ ملک جہاں بھی ہوں، بعض معاملات میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی باتیں کرتے رہے ہیں۔

 

متعلقہ مضامین

  • گریٹ گیم میں پھنسے پاکستان اور افغانستان
  • پاک افغان تعلقات اور موجودہ صورتحال
  • ذبیح اللہ مجاہد کا 58 پاکستانی فوجی شہید کرنے کا دعویٰ
  • جعلی ملک ‘ٹورینزا’ کا پاسپورٹ لے کر خاتون کے امریکا پہنچنے کی وائرل ویڈیو کی حقیقت سامنے آگئی
  • افغانوں کی جرمنی میں جرائم پیشہ سرگرمیاں، ملک بدری کے قدام میں تیزی
  • غزہ جنگ بندی کا پہلا مرحلہ مکمل، امریکا کے 200 فوجی اسرائیل پہنچ گئے
  • افغانستان کی بلااشتعال فائرنگ پر پاک فوج کا بھرپور جواب، متعدد افغان فوجی اور خواج ہلاک، چوکیاں تباہ
  • افغانستان کی پاکستان میں بلااشتعال فائرنگ، پاک فوج کی جوابی کارروائی میں درجنوں افغان فوجی اور خارجی ہلاک
  • ٹی ٹی پی ،پی ٹی آئی کا عسکری ونگ بن چکی ہے،عطا تارڑ