Jasarat News:
2025-10-15@23:45:54 GMT

ٹنڈوالٰہیارمیں بھی سفید چھڑی کا عالمی دن منایا گیا

اشاعت کی تاریخ: 15th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ٹنڈوالٰہیار(نمائندہ جسارت)پاکستان سمیت دنیا بھر میں 15اکتوبرکو سفید چھڑی کا عالمی دن منایا گیا۔اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام ہر سال 15 اکتوبر کو سفید چھڑی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، اس دن کا آغاز 1964 کو ہوا تھا جب اقوام متحدہ نے پہلی مرتبہ سفید چھڑی کو نابینا افراد کیلئے بطور امید اور سہارا منتخب کیا جس کے بعد ہر برس اس دن کی مناسبت سے بلائینڈ اسکول راشدآباد میں ایک سادہ تقر یب کا انعقاد کیا گیا اس موقعے ایڈ منسٹریٹر شہناز پر وین خاصخیلی نے کہا کہ۔یہ دن منانے کا مقصد نابینا افراد کو درپیش مسائل اور مشکلات کے متعلق معاشرے کو آگاہی فراہم کرنا ہے تاکہ عام لوگوں کو یہ باور کروایا جا سکے کہ بصارت سے محروم افراد بھی تھوڑی سی توجہ کے ساتھ ذمہ دار اور مفید شہری ثابت ہو سکتے ہیں۔بیٹن کہلانے والی خاکی چھڑی کسی عہدے اور ذمہ داریوں کی علامت ہے، اسی طرح سفید چھڑی نابینا افراد کی بے بسی و محتاجی کی علامت ہے تاکہ اسے دیکھنے والے افراد ان کی ہر ممکن مدد کریں، سفید چھڑی کے حامل نابینا افراد کو راستہ بتائیں، ان کو پہلے گزرنے دیں۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں نابینا افراد کی تعداد تقریبا تین کروڑ 60 لاکھ سے زائد ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ 2050 میں یہ تعداد تین گنا بڑھ کر 11 کر وڑ 50 لاکھ تک پہنچ جائے گی، اس وقت جنوبی ایشیا میں ایک کروڑ 17 لاکھ افراد آنکھوں کے مرض کا شکار ہیں جبکہ مشرقی ایشیا میں یہ تعداد 60 لاکھ 20 ہزار ہے اور جنوب مشرقی ایشیا کی 30 لاکھ 50 ہزار آبادی متاثر ہے۔پاکستان میں تقریبا 20 لاکھ افراد بینائی سے مکمل طور پر محروم ہیں، جبکہ پاکستان میں جزوی طور پر نابینا افراد کی تعداد تقریبا 60 لاکھ کے قریب ہے، پاکستان کی 17 فیصد آبادی ذیابیطس کی شکار ہے جو اندھے پن کی ایک اہم وجہ ہے جس سے آنکھ کے عدسے کے متاثر ہونے یعنی آنکھ میں موتیا آجانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔پاکستان میں نابینا افراد کو کار آمد بنانے کے ادارے ناپید ہیں اور ان خصوصی افراد کو کسی قسم کی سہولت بھی میسر نہیں، ان افراد کو روز مرہ کے کاموں کی انجام دہی میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تاہم کچھ نجی ادارے اس کارِ خیر میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ دنیا بھر میں اس دن کے موقع پر نابینا افراد کے معاشرتی مسائل کو سنجیدگی سے سوچا جاتا ہے، ان افراد کی زندگی میں آنے والے معاشرتی مسائل اور ان کے حقوق کو شفافیت کے ساتھ پیش کرنا اہم ہوتا ہے، یہاں پر ان کے معاشرتی مسائل پر توجہ کی اشد ضرورت ہے، تعلیم کا دستور، روزگار کی فراہمی اور صحت کی دیکھ بھال ان کی اولین ضروریات ہیں۔نابینا افراد کے لئے معاشرتی شمولیت کی فراہمی مہمان نوازی اور مسائل کی اجتماعی تشہیر اہم ہوتی ہے۔

اسٹاف رپورٹر.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: نابینا افراد کی سفید چھڑی افراد کو

پڑھیں:

عصبی امراض سے سالانہ 1 کروڑ 10 لاکھ اموات، دنیا کی 40 فیصد آبادی متاثر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

جنیوا: عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں عصبی امراض (Neurological Disorders) سے نمٹنے کے لیے کوئی جامع پالیسی موجود نہیں، حالانکہ یہ بیماریاں اب دنیا کی 40 فیصد آبادی کو متاثر کر رہی ہیں اور ہر سال 1 کروڑ 10 لاکھ سے زائد اموات کا باعث بنتی ہیں۔

عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق ڈبلیو ایچ او کی جانب سے جاری ہونے والی عالمی رپورٹ برائے نیورولوجی کی صورتحال  (Global Status Report on Neurology)  میں بتایا گیا ہےکہ دنیا بھر میں 3 ارب سے زائد افراد کسی نہ کسی نوعیت کے عصبی مرض میں مبتلا ہیں جب کہ صرف ایک تہائی ممالک نے ان امراض کے لیے قومی سطح پر کوئی پالیسی ترتیب دی ہے۔

رپورٹ میں  مزید کہا گیا کہ اموات اور معذوری کی سب سے بڑی 10 وجوہات میں فالج (Stroke)، نوزائیدہ بچوں میں دماغی سوزش (Neonatal Encephalopathy)، مائیگرین، الزائمر اور دیگر ذہنی زوال کے امراض، ذیابطیس سے متعلق اعصابی نقصان (Diabetic Neuropathy)، گردن توڑ بخار (Meningitis)، مرگی (Epilepsy)، اور اعصابی نظام کے سرطان شامل ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے معاون ڈائریکٹر جنرل برائے صحت کے فروغ، بیماریوں کی روک تھام اور کنٹرول ڈاکٹر جیریمی فیرر نے کہا کہ دنیا میں ہر تین میں سے ایک شخص کسی نہ کسی دماغی یا عصبی بیماری میں مبتلا ہے، اس لیے ہمیں فوری طور پر ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جن سے انہیں بہتر علاج اور دیکھ بھال فراہم کی جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ ان میں سے کئی بیماریاں قابلِ علاج یا قابلِ تدارک ہیں، مگر بدقسمتی سے دیہی یا کم ترقی یافتہ علاقوں میں یہ سہولتیں عوام کی پہنچ سے باہر ہیں، جہاں مریض اکثر سماجی بدنامی، معاشی مشکلات اور علاج کی کمی جیسے مسائل کا شکار ہیں۔

رپورٹ کے مطابق کم آمدنی والے ممالک میں ماہرینِ اعصاب (Neurologists) کی تعداد امیر ممالک کے مقابلے میں 80 گنا کم ہے، جب کہ صرف 32 فیصد ممالک کے پاس عصبی امراض سے متعلق قومی پالیسیاں موجود ہیں اور صرف 18 فیصد ممالک نے اس مقصد کے لیے باقاعدہ بجٹ مختص کیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے دنیا بھر کی حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ عصبی امراض کو قومی صحتی ترجیحات میں شامل کریں، یونیورسل ہیلتھ کوریج کے ذریعے علاج کی فراہمی کو عام کریں، اور عالمی مشترکہ ایکشن پلان برائے مرگی و دیگر عصبی امراض (2022–2031) پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں تاکہ دماغی صحت کے عالمی بحران پر قابو پایا جا سکے۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • عالمی اور مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت تاریخ کی نئی بلند ترین سطح پر
  • ہر سال تمباکو نوشی سے دنیا بھر میں 80 لاکھ اموات کا انکشاف
  • عصبی امراض سے سالانہ 1 کروڑ 10 لاکھ اموات، دنیا کی 40 فیصد آبادی متاثر
  • سفید چھڑی بصارت سے محروم افراد کی خودمختاری اور اعتماد کی علامت ہے، گورنرسندھ کامران خان ٹیسوری
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج سفید چھڑی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے
  • بصارت سے محروم افراد کی خودمختاری اولین ترجیح، صدرِ مملکت کا ‘سفید چھڑی کے عالمی دن’ کے موقع پر پیغام
  • سفید چھڑی معذوری نہیں، وقار اور خودمختاری کی علامت ہے صدرِ آصف علی زرداری
  • بصارت سے محروم افراد کو فعال طور پر سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے،صدرِ آصف علی زرداری کا سفید چھڑی کے تحفظ کے عالمی دن کے موقع پر پیغام
  • سی ٹی او لاہور کی جانب سے کاربن کنٹرول اور ٹریفک مسائل کے حل کیلئے اہم تجویز پیش