نئی پالیسی کے تحت آنے والی امپورٹڈ گاڑیوں کی قیمتیں کیا ہوں گی؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, October 2025 GMT
حکومت پاکستان نے کمرشل بنیادوں پر 5 سال تک پرانی یا استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دے دی۔
یہ بھی پڑھیں: نئی پالیسی کے بعد امپورٹڈ گاڑیوں کی قیمتوں میں کیا فرق پڑے گا؟
ابتدائی طور پر صرف وہ گاڑیاں درآمد کی جا سکیں گی جو 30 جون 2026 تک 5 سال سے زیادہ پرانی نہ ہوں۔
مذکورہ تاریخ کے بعد گاڑیوں کی عمر کی حد ختم کر دی جائے گی۔ ان گاڑیوں کی کمرشل درآمد پر موجودہ کسٹمز ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ 40 فیصد اضافی ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔
یہ اضافی 40 فیصد ڈیوٹی 30 جون 2026 کے بعد ہر سال 10 فیصد پوائنٹس کم کی جائے گی اور مالی سال 2029-30 تک مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔
اس حوالے سے آٹو انڈسٹری کے ماہر مشہود علی خان کا کہنا ہے کہ اگر ہم 7 ہزار ڈالر کی ایک ہزار گاڑیاں امپورٹ کرتے ہیں تو سالانہ 1 بلین ڈالر ملک سے باہر چلا جائے گا۔
مزید پڑھیے: 5 سال پرانی امپورٹڈ گاڑیوں پر پابندی ختم ہونے سے عوام کو کیا فائدہ ہوگا؟
مشہود علی خان نے کہا کہ کوئی بھی گاڑی اگر سڑک پر آتی ہے تو وہ مینٹیننس مانگتی ہے اور اگر 25 فیصد اگر میں مینٹیننس کا لے لوں مہینے کا تو یہ 300 ملین ڈالر مہینے کا بنے گا تو ایک سال کا 1 بلین سے زائد کا ڈالر ملک سے باہر جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 میں پاکستان میں صنعت کاروں کے لیے ایک ایسا وقت آگیا تھا کہ ایل سی کھولنا مشکل ہو گیا تھا، ایکسپورٹ بڑھ نہیں رہی زرمبادلہ اتنے نہیں بڑھ رہے جتنے بڑھنے چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ سال 2026 کے بجٹ میں مشکلات آتی نظر آرہی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بات کی جائے صارفین کی تو ان کے پاس آپشنز کیا کیا ہیں اس وقت پاکستان میں 15 کے قریب کمپنیاں گاڑیاں فراہم کر رہی ہیں اس وقت پاکستان میں 45 کے قریب مختلف گاڑیوں کے ماڈلز موجود ہیں تو صارفین کے پاس تو آپشنز موجود ہیں۔
مشہود علی خان کا کہنا تھا کہ اگر ہم صارفین کو امپورٹڈ گاڑیاں دے رہے ہیں تو کیا یہ گاڑیاں قابل خرید ہوں گی؟ اس وقت پاکستان میں امپورٹڈ گاڑیوں کی قیمتیں 30 لاکھ سے 2 کروڑ روپے تک جا رہی ہیں تو ہم کون سے لوگوں کو ٹارگٹ ہر رہے ہیں ہمارا مڈل اور لوور مڈل کلاس تو آج بھی موٹر سائکل پر ہے۔
مزید پڑھیں: گاڑیوں میں حفاظتی اقدامات: پاکستان میں کمپنیاں قانون پر کتنے فیصد عمل کرتی ہیں؟
اگر موٹر سائیکل والوں کو گاڑی پر لانا ہے تو ٹیکسوں کو دیکھنا پڑے گا، اس وقت جو گاڑی ہم خرید رہے ہیں اس میں 45 فیصد حکومت کو ٹیکس دیا جا رہا ہے، مطلب یہ گاڑیاں مخصوص طبقے کے لیے ہیں نا کہ عام شہریوں کے لیے، جب آپ 5 سال پرانی گاڑی مارکیٹ میں لا رہے ہیں تو ان کے پارٹس کو بھی دیکھنا ہوگا یہاں تو صورت حال یہ ہے کہ 3 سال پرانی امپورٹڈ گاڑیوں کے ہارٹس موجود نہیں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ لوکل اسمبلرز کے پارٹس موجود ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے لوکل انڈسٹری کو پروان چڑھا کر قرض ختم کرنا ہے یا ہم نے امپورٹ کرکے مزید قرض لینا ہے؟
انہوں نے کہا کہ یہ پالیسی ایک سال تک بھی چلتی نظر نہیں آرہی پالیسی ایسی ہونی چاہیے جو ملک کا قرض ختم کرے نہ کہ ایسی کہ قرض ختم کرنے کے لیے مزید قرض لیا جائے۔
چیئرمین آل پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن حاجی محمد شہزاد کا کہنا ہے کہ ہم تو اس پالیسی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں یہ گاڑیاں مہنگی آئیں گی۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے کہا تھا کہ آپ ڈیوٹی اور ٹیکس کم کریں اور یہاں اس کے برعکس ہو رہا ہے، ایک تو ٹیکس اتنا اور دوسرا امپورٹ کرنے والے پر شرائط اتنی ڈال دی گئی ہیں کہ نہیں لگتا کہ پاکستان میں کوئی یہ گاڑی امپورٹ کر پائے گا۔
یہ بھی پڑھیے: امپورٹ ڈیوٹی میں تخفیف کے بعد پاکستان میں لگژری گاڑیوں کی قیمت میں بڑی کمی
حاجی محمد شہزاد کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی لوکل اسمبلر کے فائدے میں ہے اور مجھے تو لگتا ہے کہ استعمال شدہ گاڑیاں بھی لوکل اسمبلرز ہی باہر سے منگوائیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امپورٹڈ گاڑیاں پرانی گاڑیوں کی امپورٹ گاڑیوں کی درآمد.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پرانی گاڑیوں کی امپورٹ گاڑیوں کی درا مد امپورٹڈ گاڑیوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ان کا کہنا گاڑیوں کی امپورٹ کر یہ گاڑی رہے ہیں ہیں تو تھا کہ کے بعد کے لیے
پڑھیں:
افغانستان کے بارے میں حقیقت پسندانہ پالیسی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251016-03-5
متین فکری
افغانستان اور پاکستان محض ہمسایہ ملک ہی نہیں، اسلام کے مضبوط رشتے میں بندھے ہوئے دو برادر ملک بھی ہیں جن کے تعلقات کی جڑیں بہت گہری ہیں لیکن افسوس حالیہ دنوں میں ان تعلقات میں بہت سی دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ یہاں تک کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے ہیں۔ ایک دوسرے پر حملے کررہے ہیں اور خون بہا رہے ہیں افسوسناک ہی نہیں انتہائی تشویشناک بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی ابتدا افغانستان کی طرف سے ہوئی ہے اور پاکستان کو بھی جوابی کارروائی کرنی پڑی ہے۔ افغانستان سے امریکا کے انخلا کے بعد عمومی خیال یہی تھا کہ پاکستان اور افغانستان مل جل کر رہیں گے۔ پاکستان افغانستان کی تعمیر نو اور بحالی و آبادکاری میں مدد دے گا اور افغانستان پاکستان کو دہشت گردی کے عفریت سے نجات دلائے گا۔ پاکستان نے تو افغانستان کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھایا لیکن افغانستان پاکستان کی توقعات پر پورا نہ اُترا۔ ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) جو قبائلی علاقوں میں بیٹھ کے اندرونی ملک دہشت گردی کررہی تھی جب پاکستان نے اس کے خلاف کارروائی کرکے اسے قبائلی علاقوں سے نکلنے پر مجبور کیا تو اِن لوگوں نے فرار ہو کر افغانستان میں پناہ لے لی، محض پناہ لینا تو ایسا قابل اعتراض نہیں تھا لیکن ان لوگوں نے افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف دہشت گردی شروع کردی اور افغانستان میں طالبان حکومت ان کی سرپرستی کرنے لگی۔ پاکستان کے وزرائے خارجہ نے بار بار کابل کا دورہ کیا، افغان حکام سے مذاکرات کیے، انہیں بتایا کہ ٹی ٹی پی ان کے ملک میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی کررہی ہے۔ انہیں دہشت گردی کے ثبوت بھی فراہم کیے گئے لیکن افغان حکومت نے سنی اَن سنی کردی اور ٹی ٹی پی کی سرپرستی جاری رکھی۔ بالآخر پاکستان اِن دہشت گردوں کے خلاف براہِ راست کارروائی کرنے پر مجبور ہوگیا۔
یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب افغان وزیر خارجہ بھارت کے دورے پر تھے اور وہاں سے پاکستان کے خلاف بیانات جاری کررہے تھے۔ انہوں نے اس مشترکہ اعلامیہ پر بھی دستخط کیے جس میں مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دیا گیا ہے، حالانکہ یہی افغانستان ہے جب مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد شروع ہوئی تو کشمیری نوجوان یہاں آکر عسکری تربیت حاصل کیا کرتے تھے اور یہ تاثر عام تھا کہ افغان مجاہدین سوویت یونین سے نجات حاصل کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر کا رُخ کریں گے اور اسے بھارت سے آزاد کرائیں گے۔ اب ایسا کیا ہوا کہ افغانستان ایڑیوں کے بل اُلٹا پلٹ گیا ہے اور اس نے پاکستان کے خلاف محاذ جنگ کھول لیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کی حالیہ جھڑپ میں بھی پاکستان کے خلاف اس کا رویہ منفی رہا۔ شاید افغانوں میں وفاداری اور احسان شناسی کی حِس بہت کمزور ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ پاکستان چالیس سال تک ان کی مہمانداری کرتا رہا، سوویت یونین کے حملے کے بعد پچاس لاکھ افغان باشندے اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ پاکستان نے اپنی سرحدیں کھول دیں، افغان مہاجرین کا مہمانوں کی طرح استقبال کیا، مہاجر کیمپوں میں بسانے کے بجائے شہری بستیوں میں جگہ دی، انہیں جائداد خریدنے اور کاروبار کرنے کی سہولت دی، اس طرح پاکستان نے انہیں اپنے جسم کا حصہ بنالیا اب افغان حکومت کی حرکتوں کی وجہ سے پاکستان افغان باشندوں کو واپس بھیج رہا ہے تو انہیں محسوس ہورہا ہے کہ وہ دوبارہ مہاجر بن رہے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کو منظم کرنے اور حملہ آور کو افغانستان سے نکالنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ہمیں یاد ہے کہ جب سابق سوویت یونین افغانستان میں اپنی پٹھو حکومتوں کے ذریعے کمیونزم کی آبیاری کررہا تھا اور اسلامی جذبے سے سرشار افغان نوجوان اس کے خلاف مسلح جدوجہد کی تیاری کررہے تھے تو قاضی حسین احمد بروئے کار آئے انہوں نے افغان نوجوانوں سے رابطہ کیا انہیں پشاور میں اپنے مکان پر مدعو کیا ان کی دامے درمے قدمے سخنے ہر اعتبار سے مدد کی اور باہمی مشاورت اور صلاح مشورے کے لیے اپنا مکان ان کے حوالے کردیا اور خود اپنی فیملی کے ساتھ دوسری جگہ شفٹ ہوگئے۔ سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس کے مقابلے کے لیے افغان مجاہدین کا گروپ تیار ہوچکا تھا۔ اس کا کریڈٹ براہ راست قاضی حسین احمد کو جاتا ہے۔ وہ بلاشبہ افغان جہاد کے اولین معمار ہیں۔ یہ پاکستان میں بھٹو کا دور تھا انہوں نے بھی گلبدین حکمت یار کو پاکستان آنے کی دعوت دی تھی۔ جنرل ضیا الحق اقتدار پر قابض ہوئے تو انہوں نے سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا، امریکا بھی ان کی پشت پر آکھڑا ہوا اس نے افغان مجاہدین کے لیے ڈالروں کی بوری کے منہ کھول دیے اور اسلحے کے ڈھیر ان کے قدموں میں ڈھیر کردیے، پھر مغربی دنیا اور عرب ممالک بھی ان کی مدد کو آگئے اس لیے یہ کہنا کہ افغانوں نے سوویت یونین کو شکست دی، حقیقت واقعہ کے خلاف ہے، پوری دنیا نے ان کا ساتھ دیا اور پاکستان کا کردار اس میں بنیادی رہا۔
جب امریکا نے نائن الیون کے واقعے کے بعد افغان طالبان کی حکومت کو جارحیت کا نشانہ بنایا اور ناٹو ممالک کی افواج کے ساتھ افغانستان پر چڑھ دوڑا تو اگرچہ پاکستان میں برسراقتدار جنرل پرویز مشرف نے امریکا کے آگے سرنڈر کردیا اور پاکستان کی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دے دی، لیکن آئی ایس آئی درپردہ افغان طالبان کی مدد کرتی رہی اور اس نے امریکی جارحیت کو ناکام بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ امریکا کو اندازہ تھا کہ پاکستان اس کے ساتھ ڈبل گیم کررہا ہے لیکن اس کا اس کے پاس کوئی علاج نہ تھا۔ آخر بیس سال تک افغانستان میں ہر قسم کا حربہ آزمانے کے بعد امریکا کو بے نیل و مرام افغانستان سے نکلنا پڑا۔ اس نے اپنی شکست کا ذمے دار برملا پاکستان کو قرار دیا۔ کہنے کا مطب یہ ہے کہ پاکستان ہر حال میں افغانستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے، اس نے افغانستان کو کبھی بے یار و مددگار نہیں چھوڑا، لیکن شاید احسان شناسی افغانوں کی سرشت میں ہی نہیں ہے انہوں نے پاکستان سے ایسے آنکھیں پھیرلی ہیں جیسے وہ اسے جانتے ہی نہیں۔ وہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ دوستی گانٹھ رہے ہیں لیکن بھارت کبھی ان کا دوست ثابت نہیں ہوگا اور انہیں منجدھار میں چھوڑ کر چلا جائے گا۔ افغانستان کو بالآخر پاکستان کی طرف پلٹنا پڑے گا کہ یہ اس کا دوست بھی ہے اور بھائی بھی۔ افغانستان کے بارے میں پاکستان کی حقیقت پسندانہ پالیسی کا تقاضا یہی ہے کہ اگر وہ مذاکرات پر آمادہ ہو تو اس سے بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کیے جائیں اگر وہ شرانگیزی پر تُلا رہے تو طاقت کے ذریعے اس کا سدباب کیا جائے جیسا کہ پاکستان نے چند روز پہلے کیا۔ وہ یہ شرانگیزی بھارت کی شہ پر کررہا ہے جو پاکستان سے دو تین ماہ پہلے پٹ چکا ہے اور اب اس کی کسر افغانستان کے ذریعے نکالنا چاہتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی اور محاذ آرائی بھارت کے مفاد میں تو ہوسکتی ہے ان دونوں ملکوں کے مفاد میں ہرگز نہیں ہے۔