عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے پیش گوئی کی ہے کہ آئندہ پانچ سالوں میں پاکستان کو محصولات میں کمی اور پنشن اخراجات میں اضافے جیسے مالی دباؤ کا سامنا ہوسکتا ہے۔

نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ پاکستان کے مالیاتی اشاریوں میں آئندہ پانچ سالوں کے دوران بتدریج بہتری آئے گی، جس میں مالیاتی خسارے میں کمی اور قرض سے جی ڈی پی کے تناسب میں کمی شامل ہے، تاہم ادارے نے محصولات کی مسلسل کمی اور پنشن و صحت کے اخراجات میں اضافے سے بھی خبردار کیا ہے۔

آئی ایم ایف کی فِسکل مانیٹر 2025 رپورٹ کے مطابق جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سالانہ اجلاس کے دوران جاری کی گئی، پاکستان کا موجودہ مالی سال میں مالی خسارہ جی ڈی پی کا 4.

1 فیصد رہے گا، یہ پچھلے سال کے 5.3 فیصد سے کم ہے، مگر حکومت کے مقرر کردہ ہدف 3.9 فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔

آئی ایم ایف نے پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ دفاع، انفرااسٹرکچر یا مسابقت بڑھانے کے لیے دی جانے والی سبسڈی جیسے اخراجات کے دباؤ سے گریز کرے اور ٹیکس کے خلاف مزاحمت کو کم کر کے مالیاتی استحکام پیدا کرے تاکہ قرض کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کیا جا سکے۔

آئی ایم ایف نے اس حکمتِ عملی پر عمل کی صورت میں پیش گوئی کی ہے کہ مالیاتی خسارہ آئندہ سال جی ڈی پی کے 3.9 فیصد، 2028 میں 3.3 فیصد، 2029 میں 3.1 فیصد اور 2030 میں 2.8 فیصد تک کم ہو جائے گا۔

اسی طرح آئی ایم ایف نے پاکستان کے پرائمری بیلنس (یعنی سود کی ادائیگیوں کے بغیر محصولات اور اخراجات کے درمیان فرق) کا تخمینہ موجودہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی کے 2.5 فیصد کے برابر لگایا ہے، جو گزشتہ سال کے 2.4 فیصد سے کچھ بہتر ہے۔

آئندہ مالی سال میں یہ شرح 2 فیصد رہنے کی توقع ہے، جب کہ آئی ایم ایف کے مطابق اگلے تین سالوں تک یہ سطح تقریباً مستحکم رہے گی۔

آئی ایم ایف کے مطابق گزشتہ دو بجٹوں میں 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے تحت کیے گئے سخت ٹیکس اقدامات کی بدولت حکومت کی مجموعی آمدن میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کی مجموعی حکومتی آمدن 2024 میں جی ڈی پی کے 12.7 فیصد سے بڑھ کر 2025 میں 15.7 فیصد ہو جائے گی اور اس کے بعد مزید بڑھ کر 16.2 فیصد ہونے کا امکان ہے۔

تاہم، ادارے نے پیش گوئی کی ہے کہ آئندہ سال ٹیکس سے حاصل شدہ آمدن کا تناسب جی ڈی پی کے لحاظ سے 15.7 فیصد تک گر جائے گا، لیکن 2028 سے 2030 کے دوران 15.9 فیصد پر مستحکم رہے گا۔

دوسری جانب حکومت کے مجموعی اخراجات موجودہ مالی سال میں جی ڈی پی کے 20.4 فیصد تک رہنے کا امکان ہے، جو گزشتہ سال کے 21.1 فیصد سے کم ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ سود کی شرح میں کمی کے باعث قرض کی ادائیگیوں کے اخراجات میں کمی بتائی گئی ہے۔

آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ حکومتی اخراجات اگلے سال 19.6 فیصد، 2028 میں 19.2 فیصد، 2029 میں 19 فیصد اور 2030 میں 18.8 فیصد تک کم ہو جائیں گے۔

ادارے کے مطابق پاکستان کا قرض سے جی ڈی پی کا تناسب 2024 میں 70.4 فیصد سے بڑھ کر 2025 میں 71.6 فیصد ہو گیا ہے، لیکن 2030 تک اس میں مجموعی طور پر 10 فیصد سے زائد کمی متوقع ہے۔

رپورٹ کے مطابق موجودہ مالی سال کے دوران یہ تناسب معمولی کمی کے ساتھ 71.3 فیصد رہے گا، آئندہ سال 69.2 فیصد تک گر جائے گا، پھر 2028 میں 66.2 فیصد، 2029 میں 63.1 فیصد اور 2030 میں مزید کم ہو کر 60.2 فیصد تک پہنچ جائے گا، جو اب بھی قانونی حد 60 فیصد سے کچھ زیادہ ہے، جس کی خلاف ورزی گزشتہ 16 سال سے زائد عرصے سے مسلسل ہو رہی ہے۔

آئی ایم ایف نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ پنشن کے اخراجات 2030 تک جی ڈی پی کے 0.1 فیصد کے برابر بڑھ جائیں گے، حالانکہ حکومت نے حال ہی میں اصلاحات متعارف کرائی ہیں۔

مزید یہ کہ پنشن کے اخراجات کی خالص موجودہ قیمت 2050 تک جی ڈی پی کے 6.2 فیصد کے برابر بڑھنے کا امکان ہے۔

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: نے پیش گوئی کی ہے کہ موجودہ مالی سال رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف نے کے اخراجات جی ڈی پی کے کے دوران کا امکان کمی اور فیصد سے فیصد تک جائے گا سال کے

پڑھیں:

مصنوعی ذہانت آئندہ برسوں میں کتنی بڑی بے روزگاری کا سبب بن سکتی ہے؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مصنوعی ذہانت اور آٹومیشن کے تیزی سے پھیلتے استعمال نے عالمی روزگار کے منظرنامے پر سنگین خدشات کھڑے کر دیے ہیں۔

نیشنل فاؤنڈیشن فار ایجوکیشن ریسرچ (این ایف ای آر) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اگر موجودہ رفتار برقرار رہی تو آئندہ دس برسوں میں برطانیہ میں تقریباً 30 لاکھ افراد اپنی ملازمتوں سے محروم ہو سکتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ٹیکنالوجی کی اس پیش قدمی سے نمٹنے کے لیے ملکی سطح پر ہنرمندی اور تربیت کے شعبے میں بڑے پیمانے پر اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں۔

تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایسے شعبے جہاں روزمرہ کام زیادہ تر ترتیب وار، دفتری یا مشینی نوعیت کے ہوتے ہیں، آٹومیشن کی زد میں سب سے پہلے آئیں گے۔ ان میں ایڈمنسٹریٹو اسٹاف، سیکریٹریل اسسٹنٹس، کسٹمر سروس کے نمائندے اور مشین آپریٹرز نمایاں طور پر شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ان شعبوں میں انسانی کردار تیزی سے اسکینرز، سافٹ ویئر اور خودکار نظاموں سے تبدیل کیا جا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں نوکریاں ختم ہونے کا خدشہ ہے۔

این ایف ای آر کا کہنا ہے کہ یہ خطرہ صرف ان افراد تک محدود نہیں جو پہلے سے ملازمت کر رہے ہیں، بلکہ ان نوجوانوں کے لیے بھی انتہائی تشویشناک ہے جو ہنر حاصل کیے بغیر تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔

تحقیق میں کہا گیا کہ ایسے نوجوان مستقبل کے خودکار نظاموں سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ طبقہ بے روزگاری کے شدید دباؤ کا سامنا کرے گا۔

رپورٹ نے حکومت اور متعلقہ اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کے بدلتے چیلنجز کے مطابق قومی سطح پر اسکل اپ گریڈیشن، جدید تربیت اور فنی تعلیم کے مؤثر پروگرام متعارف کرائیں، تاکہ آنے والے دور میں مزدور طبقہ اپنی جگہ برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھ سکے

ویب ڈیسک دانیال عدنان

متعلقہ مضامین

  • اگر ہمت ہے تو گورنر راج لگا کر دیکھیں، سہیل آفریدی کا انتباہ
  • سالوں سے کھدا یونیورسٹی روڈ حادثات اور اموات کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، ایم کیو ایم
  • سالوں سے کھدا یونیورسٹی روڈ حادثات، اموات کی آماجگاہ بن گیا ہے، ایم کیو ایم
  • علمدار رضا کا پاکستان اسٹیل کے حق دار پنشنر کے لیے مطالبہ
  • مصری وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان، دونوں مملالک کن شعبہ جات میں ساتھ آگے بڑھنے کا خواہاں ہیں؟
  • ٹیٹو بنانے سے جلد کے کینسر کا خطرہ 29 فیصد بڑھنے کا انتباہ
  • سری لنکا میں تباہی پھیلانے کے بعد سمندری طوفان بھارت کی طرف بڑھنے لگا
  • جی بی کے آئندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی جیت یقینی ہے، کلثوم مہدی
  • مصنوعی ذہانت آئندہ برسوں میں کتنی بڑی بے روزگاری کا سبب بن سکتی ہے؟
  • سندھ میں آئندہ ہفتے سے نوکریاں دینے کا اعلان