آئی ایم ایف کی پاکستان کی ٹیکس وصولیوں میں کمی ہونے کی پیشن گوئی
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 17 اکتوبر2025ء) آئی ایم ایف نے پاکستان کی ٹیکس وصولیوں میں کمی ہونے کی پیشن گوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ دفاع، انفرااسٹرکچر یا مسابقت بڑھانے کے لیے دی جانے والی سبسڈی جیسے اخراجات کے دباو سے گریز کیا جائے اور ٹیکس کے خلاف مزاحمت کم کر کے مالیاتی استحکام پیدا کیا جائے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے سالانہ اجلاس کے دوران جاری کردہ فسکل مانیٹر 2025ء رپورٹ کے مطابق پاکستان کارواں مالی سال 2025-26ء میں مالی خسارہ جی ڈی پی کا 4.
(جاری ہے)
اس حوالے سے آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ اگر ان سفارشات پر عمل درآمد کیا جاتا ہے تو آئندہ سال مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 3.9فیصد، 2028میں 3.3فیصد، 2029میں 3.1فیصد اور 2030میں 2.8فیصد تک کم ہو جائے گا،اسی طرح آئی ایم ایف نے پاکستان کے پرائمری بیلنس (یعنی سود کی ادائیگیوں کے بغیر محصولات اور اخراجات کے درمیان فرق)کا تخمینہ موجودہ مالی سال کیلئے جی ڈی پی کے 2.5فیصد کے برابر لگایا ہے، جو گزشتہ سال کے 2.4فیصد سے کچھ بہتر ہے۔
آئندہ مالی سال میں یہ شرح 2فیصد رہنے کی توقع ہے جب کہ آئی ایم ایف کے مطابق اگلے تین برسوں تک یہ سطح تقریبا مستحکم رہے گی۔آئی ایم ایف کے مطابق گزشتہ دو بجٹوں میں 7ارب ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیج کے تحت کئے گئے سخت ٹیکس اقدامات کی بدولت حکومت کی مجموعی آمدن میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان کی مجموعی حکومتی آمدن 2024میں جی ڈی پی کے 12.7 فیصد سے بڑھ کر 2025میں 15.7فیصد ہو جائے گی اور اس کے بعد مزید بڑھ کر 16.2فیصد ہونے کا امکان ہے۔آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ آئندہ سال ٹیکس سے حاصل شدہ آمدن کا تناسب جی ڈی پی کے لحاظ سے 15.7فیصد تک گر جائے گا لیکن 2028سے 2030کے دوران 15.9فیصد پر مستحکم رہے گا۔دوسری جانب حکومت کے مجموعی اخراجات موجودہ مالی سال میں جی ڈی پی کے 20.4فیصد تک رہنے کا امکان ہے، جو گزشتہ سال کے 21.1فیصد سے کم ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ سود کی شرح میں کمی کے باعث قرض کی ادائیگیوں کے اخراجات میں کمی بتائی گئی ہے۔آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ حکومتی اخراجات اگلے سال 19.6فیصد، 2028میں 19.2فیصد، 2029میں 19فیصد اور 2030میں 18.8فیصد تک کم ہو جائیں گے اور قرض سے جی ڈی پی کا تناسب 2024کے 70.4فیصد سے بڑھ کر 2025میں 71.6فیصد ہو گیا ہے لیکن 2030تک اس میں مجموعی طور پر 10 فیصد سے زائد کمی متوقع ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ موجودہ مالی سال کے دوران یہ تناسب معمولی کمی کیساتھ 71.3فیصد رہے گا، آئندہ سال 69.2فیصد تک گر جائے گا، پھر 2028میں 66.2فیصد، 2029میں 63.1فیصد اور 2030 میں مزید کم ہو کر 60.2فیصد تک پہنچ جائے گا، اب بھی قانونی حد 60فیصد سے کچھ زیادہ ہے اور اس کی خلاف ورزی گزشتہ 16سال سے زائد عرصے سے مسلسل ہو رہی ہے۔آئی ایم ایف نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ پنشن کے اخراجات 2030تک جی ڈی پی کے 0.1فیصد کے برابر بڑھ جائیں گے حالانکہ حکومت نے حال ہی میں اصلاحات متعارف کرائی ہیں مزید یہ کہ پنشن کے اخراجات کی خالص موجودہ قیمت 2050تک جی ڈی پی کے 6.2فیصد کے برابر بڑھنے کا امکان ہے۔ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ہے آئی ایم ایف نے جی ڈی پی کے مالی سال جائے گا
پڑھیں:
عالمی ادارہ صحت نے بانجھ پن پر پہلی عالمی ہدایات جاری کر دیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جنیوا: عالمی ادارہ صحت (WHO) نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں بانجھ پن (Infertility) سے ہر چھ میں سے ایک شخص متاثر ہے, ادارے نے اس ضمن میں اپنی پہلی عالمی ہدایت نامہ بھی جاری کی ہے، جس میں بانجھ پن کی روک تھام، تشخیص اور علاج کے لیے سفارشات شامل ہیں۔
WHO کے مطابق بانجھ پن کے علاج تک رسائی اب بھی شدید محدود ہے, بہت سے ممالک میں ٹیسٹ اور علاج زیادہ تر خود ادائیگی پر مبنی ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے متاثرہ افراد پر مالی بوجھ پڑتا ہے, کچھ ممالک میں IVF کا ایک راؤنڈ عام گھرانوں کی سالانہ آمدنی سے دگنا خرچ رکھتا ہے۔
WHO کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ادھانوم گھیبریسوس نے کہاکہ بانجھ پن آج کے وقت کے سب سے زیادہ نظر انداز کیے جانے والے صحت کے چیلنجز میں سے ایک ہے اور یہ عالمی سطح پر ایک اہم مساواتی مسئلہ ہے، لاکھوں افراد علاج کے لیے مالی طور پر محدود ہیں، سستی مگر غیر یقینی علاج کی طرف مائل ہیں یا بچوں کی امید اور مالی تحفظ کے درمیان انتخاب کرنے پر مجبور ہیں۔
ہدایت نامے میں 40 سفارشات شامل ہیں، جن میں بانجھ پن کی عام وجوہات کی تشخیص، مشورہ اور وقت کی ترتیب، اور علاج کے مراحل جیسے انٹرا یوٹیرین انسیمنیشن (IUI) یا IVF شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ہدایت نامے میں نفسیاتی معاونت، طرزِ زندگی کی بہتری، صحت مند غذا، جسمانی سرگرمی، تمباکو نوشی ترک کرنا اور دیگر اقدامات کی بھی تاکید کی گئی ہے۔
WHO نے بانجھ پن کے سماجی دباو، مالی مشکلات اور اس سے پیدا ہونے والے ذہنی تناؤ پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے کا حل صنفی مساوات اور تولیدی حقوق کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔
پاسکل ایلویٹی، WHO کے شعبہ جنسی، تولیدی، ماں و بچے کی صحت اور عمر رسیدگی کی ڈائریکٹر نے کہا کہ بانجھ پن کی روک تھام اور علاج کے لیے نہ صرف طبی بلکہ سماجی اور حقوقی پہلوؤں پر بھی توجہ ضروری ہے۔