فاروق ستار کا انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ میں 30 نومبر تک توسیع کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 15th, October 2025 GMT
سینئر رہنما ایم کیو ایم پاکستان نے کہا کہ حکومت بغیر کسی جرمانے کے ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع کرے تاکہ کاروباری برادری کو سہولت ملے، یہ اقدام نہ صرف حکومت اور تاجروں کے درمیان اعتماد سازی کو فروغ دے گا بلکہ ملکی معیشت کے استحکام میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ سالانہ انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع کا مطالبہ سامنے آگیا۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ تاریخ 15 اکتوبر سے بڑھا کر 30 نومبر کی جائے۔ تفصیلات کے مطابق کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے حکومت سے سالانہ ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے وزیراعظم، وزیر خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی آخری تاریخ 15 اکتوبر سے بڑھا کر 30 نومبر کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ معاشی حالات اور غیر معمولی مون سون بارشوں کے باعث کاروباری طبقہ اپنے مالی معاملات بروقت مکمل نہیں کر پایا، اس لیے حکومت کو تاجروں کو ریلیف فراہم کرنا چاہیئے۔ رہنما ایم کیو ایم نے مطالبہ کیا کہ حکومت بغیر کسی جرمانے کے ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع کرے تاکہ کاروباری برادری کو سہولت ملے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام نہ صرف حکومت اور تاجروں کے درمیان اعتماد سازی کو فروغ دے گا بلکہ ملکی معیشت کے استحکام میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع فاروق ستار نے کہا کہ
پڑھیں:
سپرٹیکس کیس: مسئلہ یہ ہے حق میں فیصلہ دیں تو خوش، خلاف دیں تو ناراض ہوجاتے ہیں، جج سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ مسلئہ یہ ہے کہ ہم کسی کے حق میں فیصلہ دیں تو خوش ہوتے ہیں خلاف دیں تو ناخوش ہو جاتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کتنا ٹیکس نافذ ہو گا اسکا فیصلہ گزشتہ سال کے اثاثوں پر ہوتا ہے؟، وکیل فروغ نسیم نے جواب دیا کہ انکم ٹیکس میں یہ تصور ہے کہ جیسے جیسے آمدن میں اضافہ ہو گا ویسے ویسے ٹیکس بڑھے گا۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ایف بی آر کا مائنڈ سیٹ یہی ہے کہ آمدن کے حساب سے انکم ٹیکس نافذ کیا جائے گا، 1979 آرڈیننس میں ٹیکس سے متعلق دو تصور تھے، ایک تشخیصی ٹیکس اور دوسرا انکم ٹیکس ہوتا ہے، تشخیصی ٹیکس سالانہ ہوتا ہے اور انکم ٹیکس گزشتہ سال کے موازنے میں نافذ کیا جاتا یے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ تشخیصی ٹیکس کب نافذ ہو گا کب نہیں، فروغ نسیم نے کہا کہ آرڈیننس میں لکھا ہے کہ تشخیص ایک سال بعد ہوگی، آپ معزز جج صاحبان آئین کے محافظ ہیں، میں خود بھی پارلیمنٹ کا حصہ رہا ہوں اور وہاں بھی میں یہی کہتا رہا ہوں، پارلیمنٹ سپریم ہے لیکن سپریم کورٹ انصاف فراہم کرنے والا ادارہ ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ مسلئہ یہ ہے کہ ہم کسی کے حق میں فیصلہ دیں تو خوش ہوتے ہیں خلاف دیں تو ناخوش ہو جاتے ہیں، فروغ نسیم نے کہا کہ بشر ہیں فیصلہ حق میں آئے تو ہم خوش ہوجاتے ہیں، خلاف آئے تو برا کہتے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ٹیکس نافذ کرتے ہوئے آپ کس طرح کے انصاف کی توقع رکھتے ہیں، فروغ نسیم نے مؤقف اپنایا کہ آرٹیکل 10 اے قدرتی انصاف کے برابر ہے، قدرتی انصاف سے مراد صرف یہ نہیں کہ سننے کا حق دیا جائے۔
سپریم کورٹ نے کیس کی مزید کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔