پاکستان کوسٹ گارڈز کی بلوچستان میں کارروائیاں؛ ایک ماہ میں 136 ملین ڈالر مالیت کی منشیات ضبط
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
کوئٹہ:
پاکستان کوسٹ گارڈز نے گزشتہ ایک ماہ کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں میں منشیات اسمگلنگ کے خلاف کامیاب کارروائیاں کرتے ہوئے بھاری مقدار میں منشیات برآمد کرلی۔
ترجمان کے مطابق تمام کارروائیاں انٹیلی جنس ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر کی گئیں۔
مختلف آپریشنز میں مجموعی طور پر 140.
بیان میں مزید بتایا گیا کہ پکڑی جانے والی منشیات کی عالمی مارکیٹ میں مالیت تقریباً 136.528 ملین امریکی ڈالر ہے۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان کوسٹ گارڈز منشیات سمیت ہر قسم کی غیر قانونی اشیا کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے ہمہ وقت سرگرم عمل ہے اور ملکی معیشت کو مستحکم بنانے میں اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پاک افغان تجارتی بندش: پاکستان کو فائدہ، افغانستان کو بھاری نقصان
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی بندش نے جہاں پاکستان کے لیے فوائد پیدا کیے ہیں، وہیں افغانستان کو بھاری نقصان کا سامنا ہے۔
ذرائع کے مطابق، پاکستان نے اپنے راستے بند کر دیے ہیں جو کہ اسمگلنگ، منشیات، غیر قانونی اسلحہ اور دہشت گردی کے بنیادی ذرائع تھے۔ اس فیصلے کا مقصد قومی سلامتی، معاشی استحکام اور ریاستی رٹ کو مضبوط بنانا تھا، اور یہ فیصلہ طویل مدت میں پاکستان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔
افغانستان، جس کی معیشت اور تجارت پاکستان کی سڑکوں اور بندرگاہوں پر منحصر ہے، اس بندش سے شدید متاثر ہوا ہے۔ افغانستان کی 70 سے 80 فیصد تجارت پاکستان کے راستوں سے ہوتی تھی۔ کراچی کے راستے سامان 3 سے 4 دن میں پہنچتا تھا، جب کہ ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کے راستوں سے یہ عمل کئی گنا سست ہو جاتا ہے، اور سامان کو افغانستان پہنچنے میں 30 دن تک لگ جاتے ہیں۔
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے اسمگلنگ کا سامان پاکستان میں آ رہا تھا، جس سے پاکستان کو سالانہ 3.4 کھرب روپے کا نقصان ہوتا تھا، اور افغان ٹرانزٹ سے تقریباً 1 کھرب روپے کا سامان واپس آ جاتا تھا، جو اضافی نقصانات کا سبب بنتا تھا۔ طورخم کی بندش کے بعد افغانستان کو ایک ماہ میں 45 ملین ڈالر کا نقصان ہوا، اور چند ہفتوں میں یہ نقصان 200 ملین ڈالر سے تجاوز کر گیا۔
بارڈر پر 5,000 سے زائد ٹرک پھنسے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں افغان فصلیں اور پھل ضائع ہو گئے جو پاکستان کی منڈی میں آنے والے تھے۔ ایران کے راستے تجارتی لاگت 50 سے 60 فیصد بڑھ گئی، اور ہر کنٹینر پر اضافی کرایہ 2,500 ڈالر لگا۔ افغانستان کی 50 فیصد سے زائد ادویات پاکستان کے راستے آتی تھیں، اور اب متبادل راستے سست، مہنگے اور غیر محفوظ ہیں، جس سے افغانستان کی معیشت پر مزید دباؤ پڑا ہے۔
اسمگلنگ رک جانے سے 2 لاکھ سے زائد خاندان بے روزگار ہو گئے، جو اسمگلنگ، بیک فلو اور انڈر انوائسنگ کے ذریعے روزگار حاصل کرتے تھے۔ افغانستان سے تجارتی بندش کا پاکستان پر تقریباً کوئی اثر نہیں پڑا، کیونکہ اسمگل ہو کر آنے والی اشیاء لگژری سامان تھیں، جو کہ عوامی ضرورت کی چیزیں نہیں تھیں۔ پاکستان کے پاس CPEC اور چین کے ساتھ براہِ راست زمینی راستے موجود ہیں، جو اسمگلنگ نیٹ ورک کو توڑنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
یہ تجارتی بندش افغانستان کے مشرقی صوبوں (پکتیا وغیرہ) کی تجارت کو ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کی طرف موڑنے میں مدد دے گی، جس سے افغانستان کی معیشت میں تنوع آئے گا اور اس کی اقتصادی شمولیت بڑھے گی۔ طویل المدتی طور پر، یعنی 5 سے 10 سال میں، پاکستان بھی اس بندش سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
اب افغان طالبان کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ دہشت گردوں کو تحفظ دیتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ مل کر ترقی کے سفر میں شریک ہوتے ہیں۔