ملک میں سب کچھ عاصم لاءکےتحت ہو رہا ہے،عمران خان
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
راولپنڈی: عمران خان کا کہنا ہے کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ ملٹری ڈکٹیٹرز کا صرف بندوق کے زور پر ہر چیز کا حل نکالنے کا فارمولہ کبھی دیرپا اور کامیاب ثابت نہیں ہوا۔
افغانستان کے ساتھ مسئلے کا حل فوجی نہیں سیاسی ہے، لہذا یہ سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاملہ فہمی سے ملک میں دیرپا امن کا قیام یقینی بنائیں۔
اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنے تفصیلی پیغام میں کہا ہے کہ میں سہیل آفریدی کو خیبرپختونخوا کا وزیراعلیٰ بننے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
سہیل آفریدی میرے آئی ایس ایف کے دیرینہ اور وفادار ساتھیوں میں سے ہیں۔ مجھے پوری امید ہے کہ وہ توقعات اور تحریک انصاف کے نظریے کے عین مطابق، بحیثیت چیف منسٹر خیبرپختونخوا میں انقلابی کام کریں گے۔
میں گزشتہ دو سال میں ہونے والے قتلِ عام کے چار بڑے واقعات جن میں 9 مئی، 26 نومبر، آزاد کشمیر اور مریدکے قتلِ عام شامل ہیں، پر جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ دہراتا ہوں۔
ان تمام واقعات میں بڑی تعداد میں نہتے شہریوں کو شہید کیا گیا۔ 9 مئی فالس فلیگ کے حوالے سے میرا شروع سے یہی موقف ہے کہ واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج پیش کی جائے اور آزادانہ و شفاف تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے۔
افسوس ہے کہ کوئی عملدرآمد نہیں ہوا بلکہ الٹا متاثرہ فریق کیخلاف ہی جھوٹے مقدمات بنا کر بغیر شفاف تحقیقات اور ثبوت کے ملٹری کورٹس اور کینگرو کورٹس سے 10، 10 سال قید کی سزائیں سنائی گئیں، حالانکہ اس دن نہتے شہریوں اور سپورٹرز کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ قتلِ عام کی یہی واردات 26 نومبر کو دہرائی گئی جب نہتے پرامن مظاہرین پر سیدھی گولیاں برسائی گئیں۔
آج ملک میں سب کچھ عاصم لاءکے تحت ہو رہا ہے۔ ساری عدالتیں فوجی عدالتوں میں بدل چکی ہیں، جیسے فوجی عدالتوں کو چلایا جاتا ہے ویسے ہی عام عدالتوں کو بھی چلایا جا رہا ہے۔
26ویں غیر آئینی ترمیم کے بعد عدالتوں سے انصاف کی توقع تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ ملک میں بڑھتی لاقانونیت اور ناانصافی اسی ترمیم کا نتیجہ ہے- جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس امین الدین، جج عامر فاروق، اور جج ڈوگر سب کے پاس ہمارے کیسز اور پٹیشن گئیں مگر کہیں سے انصاف نہیں ملا۔
عاصم منیر، قاضی فائز عیسٰی اور سکندر سلطان راجا نے ہمارا مینڈیٹ چوری کر کے فارم 47 کی نااہل اور ناجائز حکومت پاکستان پر مسلط کی جن کے پاس پاکستان کو درپیش مسائل سے نکالنے کا نہ ہی کوئی وژن ہے، نہ اہلیت ہے اور نہ ہی کوئی اختیار۔
ان کی دہشتگردی کے مسئلے، امن کے قیام اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بھی اپنی کوئی سوچ اور پالیسی نہیں ہے۔
تاریخ سے ثابت ہے کہ ملٹری ڈکٹیٹرز کا صرف بندوق کے زور پر ہر چیز کا حل نکالنے کا فارمولہ کبھی دیرپا اور کامیاب ثابت نہیں ہوا۔ افغانستان کے ساتھ مسئلے کا حل فوجی نہیں سیاسی ہے۔ لہذا یہ سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاملہ فہمی سے ملک میں دیرپا امن کا قیام یقینی بنائیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ملک میں
پڑھیں:
عدالتوں میں انصاف فراہم نہ کرنے والے ججز عہدہ چھوڑ دیں: علیمہ خان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی ائی) اور سابق وزیراعظم عمران خان کی بہن علیمہ خان نے عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ججوں پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ جو ججز انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہیں، انہیں اپنے عہدے چھوڑ دینا چاہیے۔
بانی پاکستان تحریک انصاف کی بہن علیمہ خان نے عمران خان کی مبینہ آئیسولیشن پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے مطابق بانی پی ٹی آئی کو ہفتہ وار فیملی، وکلاء اور رشتہ داروں سے ملاقات کی اجازت حاصل ہے، مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔
انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ان کی اپیلوں کی سماعت مقرر نہیں کر رہی، کیونکہ اگر اپیل سنی گئی تو عدالت کو انہیں ضمانت دینا پڑے گی، موجودہ صورتحال میں صرف سزا سنانے میں جلدی ہے اور آئندہ 10 سے 12 دن میں فیصلہ سنانے کا ارادہ ہے، تاہم وہ احتجاج سے پیچھے نہیں ہٹیں گی۔
علیمہ خان نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کے نام سے بھارت میں ایک جعلی انٹرویو تیار کیا گیا، جس میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا گیا، اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جعلسازی پاکستان میں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی میڈیا ان کے انٹرویوز نشر نہیں کرتا، جبکہ بین الاقوامی میڈیا مسلسل رابطے میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قانون کے تحت عمران خان کے لیے منگل کو چھ فیملی ممبرز اور چھ وکلاء، جبکہ جمعرات کو چھ دوست یا رشتہ دار ملاقات کر سکتے ہیں۔ بشریٰ بی بی کے لیے بھی چھ فیملی ممبرز کو ملاقات کا حق حاصل ہے۔
علیمہ خان کے بیانات نے عدالت اور قانونی نظام پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے شائقین سیاست میں ایک بار پھر بحث کو جنم دیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اور حکومتی ادارے قانونی تقاضوں کے مطابق عمل کر رہے ہیں یا نہیں۔