پاکستان پر افغانستان کی جانب سے بلا اشتعال فائرنگ اور دونوں جانب سے ہونے والی خونریز جھڑپوں کے بعد عارضی سیز فائر ہو گیا ہے لیکن تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ اس جنگ بندی کو دیرپا بنانے اور آئندہ جھڑپوں کو روکنے کے لیے جلد مذاکراتی عمل شروع کرنا اشد ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی افغان پالیسی کتنی درست، افغانستان پر ہمارا کنڑول کتنا تھا، سابق کور کمانڈر پشاور کا تبصرہ

پاکستانی حکام کے مطابق 9 اکتوبر سے 15 اکتوبر کے دوران افغانستان نے پاکستان میں دراندازی کی اور بلا اشتعال فائرنگ کی۔

حکام کے مطابق افغانستان نے چترال ارندو بارڈر سے لے کر بلوچستان تک مختلف سرحدی علاقوں میں پاکستان کو نشانہ بنایا جبکہ افغانستان میں موجود دہشتگردوں نے بھی افغان طالبان کا ساتھ دیا۔

پاکستان نے اس دراندازی کا بروقت اور بھرپور جواب دیا۔ پاکستانی حکام کے مطابق فورسز نے افغان جارحیت کے جواب میں بھاری ہتھیاروں سے دشمن کی پوسٹوں کو نشانہ بنایا اور کئی کو تباہ کیا۔

کئی دنوں تک جھڑپیں جاری رہنے کے بعد افغان طالبان کی درخواست پر پاکستان نے 15 اکتوبر سے 48 گھنٹوں کے لیے عارضی سیز فائر پر اتفاق کیا۔ فائرنگ رک گئی تاہم صورتِ حال بدستور کشیدہ ہے۔

مزید پڑھیے: امید ہے کہ افغانستان کی قیادت بھارت کی چال میں نہیں آئے گی، احسن اقبال

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ افغانستان کی جانب سے پاکستان پر بلا اشتعال فائرنگ کی گئی ہو۔ ماضی میں بھی ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں مگر تجزیہ کاروں کے نزدیک اس بار صورت حال زیادہ سنگین اور پیچیدہ ہے۔

حالیہ کشیدگی اور سیز فائر پر بات کرنے سے پہلے ایک نظر ماضی کے واقعات پر ڈالتے ہیں۔

پاک افغان سرحد پر جھڑپیں، کب اور کہاں؟

پاکستان اور افغانستان نہ صرف اہم پڑوسی ہیں بلکہ افغانستان کئی حوالوں سے پاکستان پر انحصار کرتا ہے۔

افغانستان میں خانہ جنگی اور بیرونی حملوں کے باعث سب سے زیادہ افغان مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا جو اب بھی بڑی تعداد میں یہاں مقیم ہیں۔

علاج، دواؤں، خوراک اور روزمرہ اشیا کے لیے بھی افغانستان کا انحصار پاکستان پر ہے۔ اس کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان اکثر سرحدی جھڑپیں ہوتی رہی ہیں جو افغانستان کے سابق صدور حامد کرزئی سے لے کر اشرف غنی اور پھر اب طالبان دور حکومت تک جاری ہیں۔

مزید پڑھیں: افغانستان نے پاکستان سے تنازع بطور پراکسی بھارت کے اشارے پر شروع کیا، خواجہ آصف

سنہ2007  سے سنہ 2011 کے دوران پاکستان اور افغانستان کی سرحدی فورسز کے درمیان کئی جھڑپیں ہوئیں۔ افغان فورسز نے کئی بار دراندازی کی کوششیں کیں اور چیک پوسٹوں پر تنازعات کے باعث تصادم ہوا جس سے جانی نقصان بھی ہوا۔

نومبر 2015 میں جنوبی وزیرستان انگور اڈہ کے مقام پر افغان علاقے سے بلا اشتعال فائرنگ اور راکٹ حملے کیے گئے۔ پاکستان نے اس پر سرکاری احتجاج درج کرایا۔

مئی 2017 میں چمن بارڈر پر مردم شماری ٹیم کے تنازع پر شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے نتیجے میں 10 شہری جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔

15 اگست 2021 کو طالبان نے کابل پر دوبارہ قبضہ کر لیا تو پاکستان میں خوشی منائی گئی مگر طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان کے لیے مشکلات بڑھ گئیں۔ دہشتگردی اور سرحد پار حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

دسمبر 2022 میں طورخم سرحد پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے بعد سرحد کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے: افغانستان کی درخواست پر سیز فائر کا آغاز، پاکستان کو پڑوسی ملک پر اعتبار نہیں، خواجہ آصف

ستمبر 2023 میں طورخم بارڈر پر ایک بڑی جھڑپ ہوئی جس کے نتیجے میں تجارت اور آمدورفت کئی دن معطل رہی۔

مارچ 2024 میں کرّم کے علاقے میں پاکستان اور افغان طالبان گارڈز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔

اور حالیہ 9 اکتوبر 2025 کی جھڑپیں جو سب سے شدید سمجھی جا رہی ہیں جن میں پاکستان کی جوابی کارروائی میں 20 طالبان ہلاک ہوئے۔

کیا سیز فائر دیرپا ہوگا؟

تجزیہ کاروں اور پاک افغان تعلقات پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق حالیہ کشیدگی کو روکنے کے لیے سیز فائر ایک اہم پیشرفت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اب دونوں ممالک کو بات چیت کا آغاز کرنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: پیرول پر رہا کریں، افغانستان کا مسئلہ حل کر دوں گا، عمران خان کی پیشکش

افغان امور کے ماہر صحافی شمیم شاہد کے مطابق جلد مذاکرات شروع ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے دشمن جتنے ہیں اس سے کہیں زیادہ اس کے خیر خواہ ہیں اور انہوں نے ہی حالیہ کشیدگی میں اہم کردار ادا کیا۔

ان کے مطابق سعودی عرب، چین اور ترکی نے اس عارضی سیز فائر کے قیام میں اہم کردار ادا کیا ہے اور افغان طالبان کو بھی اندازہ ہو گیا ہے کہ مذاکرات ناگزیر ہیں۔

شمیم شاہد نے کہا کہ یہ عارضی سیز فائر دیرپا ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ تینوں دوست ممالک بیک ڈور سفارتی کردار ادا کر رہے ہیں اور روابط برقرار ہیں۔

سینیئر صحافی فدا عدیل کا بھی یہی خیال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لگتا ہے ایک بار پھر دوحہ طرز کے مذاکرات ہونے جا رہے ہیں جہاں پاکستان اور افغان حکام کسی تیسرے ملک میں بیٹھ کر بات چیت کریں گے تاکہ کشیدگی ختم ہو سکے۔

مزید پڑھیں: بھارت کبھی آپ کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا، حافظ نعیم الرحمان کا افغانستان کو مشورہ

ان کا کہنا تھا کہ اگلے چند گھنٹے انتہائی اہم ہیں کیونکہ کچھ عناصر سیز فائر اور مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

فدا عدیل نے کہا کہ موجودہ کشیدگی دونوں ممالک کے لیے نقصان دہ ہے اور کچھ حلقے چاہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان فاصلے بڑھیں۔

شمیم شاہد نے مزید کہا کہ ان حالات میں سفارت خانے کھلے رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بیک ڈور روابط قائم ہیں۔

پاک افغان کشیدگی کی اصل وجہ کیا ہے؟

افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ پاکستان میں دہشتگردی کا خاتمہ ہو جائے گا اور افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے اٹھنے والی دہشتگردی کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے: پاک فوج

تاہم حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ سرحد پار سے دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغانستان اپنی زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔

شمیم شاہد کے مطابق بارڈر تنازعات کے علاوہ اصل مسئلہ تحریک طالبان پاکستان ہے جو پاکستان کے مطابق افغانستان سے سرگرم ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان بارہا مطالبہ کر چکا ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں، مگر اس پر افغان حکومت خاموش ہے۔

مسئلہ سلجھانے کے لیے 2 اہم کام

شمیم شاہد کے مطابق مذاکراتی عمل جلد شروع ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ جرگہ سفارت کو بھی بحال کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان سے ایک ایسا جرگہ افغانستان جائے جو بااختیار ہو اور جس کے اراکین بااثر اور معزز قبائلی عمائدین ہوں نہ کہ رسمی نمائندے۔

ان کے مطابق دونوں جانب کے قبائل کو متحرک کر کے اعتماد سازی پر زور دینا ہو گا تاکہ آئندہ ایسے واقعات دوبارہ پیش نہ آئیں۔

مزید پڑھیے: افغانستان سے علاقائی و عالمی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق، اقوام متحدہ کا انتباہ

تجزیہ کاروں کا آئندہ جھڑپوں کو روکنے کے لیے جلد مذاکراتی عمل شروع کرنے اور بااختیار جرگہ افغانستان بھیجنے کی ضرورت پر زور۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغانستان پاک افغان سیزفائر پاک افغان کشیدگی پاک افغان مسئلے کا حل پاکستان سیزفائر دیرپا یا عارضی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغانستان پاک افغان سیزفائر پاک افغان کشیدگی پاک افغان مسئلے کا حل پاکستان سیزفائر دیرپا یا عارضی پاکستان اور افغانستان بلا اشتعال فائرنگ پاکستان اور افغان عارضی سیز فائر افغانستان کی مذاکراتی عمل کہ افغانستان افغان طالبان دونوں ممالک تجزیہ کاروں ہے کہ افغان کہ پاکستان فائر دیرپا پاکستان پر پاکستان کے کے درمیان شمیم شاہد پاک افغان نے کہا کہ انہوں نے کے مطابق کے لیے کے بعد

پڑھیں:

چین کی پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی کی حمایت، امن کیلئے کردار ادا کرنے کی پیشکش


چین نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان 48 گھنٹے کی فائر بندی کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے دونوں ممالک سے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور دیرپا امن کے لیے اقدامات کرنے کی اپیل کی ہے۔

چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لن جیان نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ چین ہمیشہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کیلئے تعمیری کردار ادا کرتا رہا ہے اور مستقبل میں بھی اس کردار کو جاری رکھے گا۔

پاکستانی دفترِ خارجہ نے بدھ کے روز اعلان کیا تھا کہ اسلام آباد اور افغان طالبان حکومت نے باہمی اتفاقِ رائے سے 48 گھنٹوں کیلئے عارضی فائر بندی پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ ترجمان کے مطابق اس دوران دونوں ممالک ’’مثبت اور تعمیری مذاکرات‘‘ کے ذریعے سرحدی تنازع کے حل کی کوشش کریں گے۔

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی ایک بیان میں تصدیق کی کہ افغان افواج کو فائر بندی کا احترام کرنے کی ہدایت دی گئی ہے، ’’البتہ اگر کوئی جارحیت کی جاتی ہے تو اس کا جواب دیا جائے گا۔‘‘

سرحدی حکام کے مطابق رات کے دوران کسی قسم کے جھڑپ یا فائرنگ کی اطلاع نہیں ملی اور فائر بندی بدستور نافذ ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ عام شہریوں کو نقصان سے بچائیں اور جنگ بندی کو مستقل امن میں بدلنے کی کوشش کریں۔

یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب پاکستانی افواج نے افغانستان کے صوبہ قندھار اور دارالحکومت کابل میں ’’دہشت گردوں کے ٹھکانوں‘‘ پر ’’اہم کارروائیاں‘‘ کیں۔ اس سے قبل پاک فوج نے بلوچستان کی سرحد پر افغان طالبان کے حملے کو ناکام بناتے ہوئے 15 سے 20 جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

گزشتہ ایک ہفتے کے دوران پاکستان اور افغانستان کے درمیان یہ تیسری بڑی جھڑپ تھی۔ چند روز قبل افغان طالبان کے حملے میں 23 پاکستانی فوجی شہید اور 29 زخمی ہوئے تھے۔

افغانستان نے اس حملے کو ’’جوابی کارروائی‘‘ قرار دیتے ہوئے پاکستان پر الزام لگایا کہ اس نے پہلے افغان سرزمین پر فضائی حملے کیے۔ پاکستان نے اس کی تصدیق نہیں کی، تاہم اس بات پر زور دیا کہ وہ اپنی سرزمین اور عوام کے دفاع کا مکمل حق رکھتا ہے۔

اسلام آباد نے ایک بار پھر کابل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو تحریک طالبان پاکستان (TTP) جیسے دہشت گرد گروہوں کے لیے استعمال ہونے سے روکے، تاہم افغان حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔

ماہرین کے مطابق سرحدی کشیدگی اور دہشت گردوں کے افغان علاقوں میں سرگرم ہونے کا مسئلہ دونوں ممالک کے تعلقات میں طویل عرصے سے رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان امن مذاکرات آج دوحہ میں ہوں گے
  • پاکستان اور افغان طالبان رجیم کے درمیان جنگ بندی برقرار رکھنے پر اتفاق ہوگیا
  • قطر کی ثالثی، پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات آج دوحہ میں ہوں گے
  • چین کا پاک افغان جنگ بندی پر خیرمقدم، دیرپا امن کے لیے تعاون کی پیشکش
  • چین کی پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی کی حمایت، امن کیلئے کردار ادا کرنے کی پیشکش
  • پاکستان اور  افغان طالبان کے درمیان عارضی جنگ بندی پر  چین کا خیر مقدم  
  • افغان طالبان نے جنگ بندی کی اپیل قطر اور سعودی عرب کے ذریعے کی: ذرائع
  • پاکستان کا امن کی طرف قدم , افغان طالبان کی درخواست پر 48 گھنٹے کی سیزفائر پر رضامندی
  • طالبان کی درخواست پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان 48 گھنٹوں کے لیے جنگ بندی کا اعلان