کیا پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیزفائر دیرپا ثابت ہوگا؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
پاکستان پر افغانستان کی جانب سے بلا اشتعال فائرنگ اور دونوں جانب سے ہونے والی خونریز جھڑپوں کے بعد عارضی سیز فائر ہو گیا ہے لیکن تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ اس جنگ بندی کو دیرپا بنانے اور آئندہ جھڑپوں کو روکنے کے لیے جلد مذاکراتی عمل شروع کرنا اشد ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی افغان پالیسی کتنی درست، افغانستان پر ہمارا کنڑول کتنا تھا، سابق کور کمانڈر پشاور کا تبصرہ
پاکستانی حکام کے مطابق 9 اکتوبر سے 15 اکتوبر کے دوران افغانستان نے پاکستان میں دراندازی کی اور بلا اشتعال فائرنگ کی۔
حکام کے مطابق افغانستان نے چترال ارندو بارڈر سے لے کر بلوچستان تک مختلف سرحدی علاقوں میں پاکستان کو نشانہ بنایا جبکہ افغانستان میں موجود دہشتگردوں نے بھی افغان طالبان کا ساتھ دیا۔
پاکستان نے اس دراندازی کا بروقت اور بھرپور جواب دیا۔ پاکستانی حکام کے مطابق فورسز نے افغان جارحیت کے جواب میں بھاری ہتھیاروں سے دشمن کی پوسٹوں کو نشانہ بنایا اور کئی کو تباہ کیا۔
کئی دنوں تک جھڑپیں جاری رہنے کے بعد افغان طالبان کی درخواست پر پاکستان نے 15 اکتوبر سے 48 گھنٹوں کے لیے عارضی سیز فائر پر اتفاق کیا۔ فائرنگ رک گئی تاہم صورتِ حال بدستور کشیدہ ہے۔
مزید پڑھیے: امید ہے کہ افغانستان کی قیادت بھارت کی چال میں نہیں آئے گی، احسن اقبال
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ افغانستان کی جانب سے پاکستان پر بلا اشتعال فائرنگ کی گئی ہو۔ ماضی میں بھی ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں مگر تجزیہ کاروں کے نزدیک اس بار صورت حال زیادہ سنگین اور پیچیدہ ہے۔
حالیہ کشیدگی اور سیز فائر پر بات کرنے سے پہلے ایک نظر ماضی کے واقعات پر ڈالتے ہیں۔
پاک افغان سرحد پر جھڑپیں، کب اور کہاں؟پاکستان اور افغانستان نہ صرف اہم پڑوسی ہیں بلکہ افغانستان کئی حوالوں سے پاکستان پر انحصار کرتا ہے۔
افغانستان میں خانہ جنگی اور بیرونی حملوں کے باعث سب سے زیادہ افغان مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا جو اب بھی بڑی تعداد میں یہاں مقیم ہیں۔
علاج، دواؤں، خوراک اور روزمرہ اشیا کے لیے بھی افغانستان کا انحصار پاکستان پر ہے۔ اس کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان اکثر سرحدی جھڑپیں ہوتی رہی ہیں جو افغانستان کے سابق صدور حامد کرزئی سے لے کر اشرف غنی اور پھر اب طالبان دور حکومت تک جاری ہیں۔
مزید پڑھیں: افغانستان نے پاکستان سے تنازع بطور پراکسی بھارت کے اشارے پر شروع کیا، خواجہ آصف
سنہ2007 سے سنہ 2011 کے دوران پاکستان اور افغانستان کی سرحدی فورسز کے درمیان کئی جھڑپیں ہوئیں۔ افغان فورسز نے کئی بار دراندازی کی کوششیں کیں اور چیک پوسٹوں پر تنازعات کے باعث تصادم ہوا جس سے جانی نقصان بھی ہوا۔
نومبر 2015 میں جنوبی وزیرستان انگور اڈہ کے مقام پر افغان علاقے سے بلا اشتعال فائرنگ اور راکٹ حملے کیے گئے۔ پاکستان نے اس پر سرکاری احتجاج درج کرایا۔
مئی 2017 میں چمن بارڈر پر مردم شماری ٹیم کے تنازع پر شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے نتیجے میں 10 شہری جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔
15 اگست 2021 کو طالبان نے کابل پر دوبارہ قبضہ کر لیا تو پاکستان میں خوشی منائی گئی مگر طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان کے لیے مشکلات بڑھ گئیں۔ دہشتگردی اور سرحد پار حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
دسمبر 2022 میں طورخم سرحد پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے بعد سرحد کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے: افغانستان کی درخواست پر سیز فائر کا آغاز، پاکستان کو پڑوسی ملک پر اعتبار نہیں، خواجہ آصف
ستمبر 2023 میں طورخم بارڈر پر ایک بڑی جھڑپ ہوئی جس کے نتیجے میں تجارت اور آمدورفت کئی دن معطل رہی۔
مارچ 2024 میں کرّم کے علاقے میں پاکستان اور افغان طالبان گارڈز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔
اور حالیہ 9 اکتوبر 2025 کی جھڑپیں جو سب سے شدید سمجھی جا رہی ہیں جن میں پاکستان کی جوابی کارروائی میں 20 طالبان ہلاک ہوئے۔
کیا سیز فائر دیرپا ہوگا؟تجزیہ کاروں اور پاک افغان تعلقات پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق حالیہ کشیدگی کو روکنے کے لیے سیز فائر ایک اہم پیشرفت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اب دونوں ممالک کو بات چیت کا آغاز کرنا چاہیے۔
مزید پڑھیں: پیرول پر رہا کریں، افغانستان کا مسئلہ حل کر دوں گا، عمران خان کی پیشکش
افغان امور کے ماہر صحافی شمیم شاہد کے مطابق جلد مذاکرات شروع ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے دشمن جتنے ہیں اس سے کہیں زیادہ اس کے خیر خواہ ہیں اور انہوں نے ہی حالیہ کشیدگی میں اہم کردار ادا کیا۔
ان کے مطابق سعودی عرب، چین اور ترکی نے اس عارضی سیز فائر کے قیام میں اہم کردار ادا کیا ہے اور افغان طالبان کو بھی اندازہ ہو گیا ہے کہ مذاکرات ناگزیر ہیں۔
شمیم شاہد نے کہا کہ یہ عارضی سیز فائر دیرپا ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ تینوں دوست ممالک بیک ڈور سفارتی کردار ادا کر رہے ہیں اور روابط برقرار ہیں۔
سینیئر صحافی فدا عدیل کا بھی یہی خیال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لگتا ہے ایک بار پھر دوحہ طرز کے مذاکرات ہونے جا رہے ہیں جہاں پاکستان اور افغان حکام کسی تیسرے ملک میں بیٹھ کر بات چیت کریں گے تاکہ کشیدگی ختم ہو سکے۔
مزید پڑھیں: بھارت کبھی آپ کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا، حافظ نعیم الرحمان کا افغانستان کو مشورہ
ان کا کہنا تھا کہ اگلے چند گھنٹے انتہائی اہم ہیں کیونکہ کچھ عناصر سیز فائر اور مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
فدا عدیل نے کہا کہ موجودہ کشیدگی دونوں ممالک کے لیے نقصان دہ ہے اور کچھ حلقے چاہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان فاصلے بڑھیں۔
شمیم شاہد نے مزید کہا کہ ان حالات میں سفارت خانے کھلے رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بیک ڈور روابط قائم ہیں۔
پاک افغان کشیدگی کی اصل وجہ کیا ہے؟
افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ پاکستان میں دہشتگردی کا خاتمہ ہو جائے گا اور افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے اٹھنے والی دہشتگردی کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے: پاک فوج
تاہم حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ سرحد پار سے دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغانستان اپنی زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔
شمیم شاہد کے مطابق بارڈر تنازعات کے علاوہ اصل مسئلہ تحریک طالبان پاکستان ہے جو پاکستان کے مطابق افغانستان سے سرگرم ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان بارہا مطالبہ کر چکا ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں، مگر اس پر افغان حکومت خاموش ہے۔
مسئلہ سلجھانے کے لیے 2 اہم کامشمیم شاہد کے مطابق مذاکراتی عمل جلد شروع ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ جرگہ سفارت کو بھی بحال کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سے ایک ایسا جرگہ افغانستان جائے جو بااختیار ہو اور جس کے اراکین بااثر اور معزز قبائلی عمائدین ہوں نہ کہ رسمی نمائندے۔
ان کے مطابق دونوں جانب کے قبائل کو متحرک کر کے اعتماد سازی پر زور دینا ہو گا تاکہ آئندہ ایسے واقعات دوبارہ پیش نہ آئیں۔
مزید پڑھیے: افغانستان سے علاقائی و عالمی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق، اقوام متحدہ کا انتباہ
تجزیہ کاروں کا آئندہ جھڑپوں کو روکنے کے لیے جلد مذاکراتی عمل شروع کرنے اور بااختیار جرگہ افغانستان بھیجنے کی ضرورت پر زور۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان پاک افغان سیزفائر پاک افغان کشیدگی پاک افغان مسئلے کا حل پاکستان سیزفائر دیرپا یا عارضی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان پاک افغان سیزفائر پاک افغان کشیدگی پاک افغان مسئلے کا حل پاکستان سیزفائر دیرپا یا عارضی پاکستان اور افغانستان بلا اشتعال فائرنگ پاکستان اور افغان عارضی سیز فائر افغانستان کی مذاکراتی عمل کہ افغانستان افغان طالبان دونوں ممالک تجزیہ کاروں ہے کہ افغان کہ پاکستان فائر دیرپا پاکستان پر پاکستان کے کے درمیان شمیم شاہد پاک افغان نے کہا کہ انہوں نے کے مطابق کے لیے کے بعد
پڑھیں:
طالبان حکام دہشت گردوں کی سہولت کاری بند کریں،ترجمان پاک فوج
پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت کی بندش کا مسئلہ ہماری سیکیورٹی اور عوام کے جان و مال کے تحفظ سے جڑا ہے ،خونریزی اور تجارت اکٹھے نہیں چل سکتے ،بھارتی آرمی چیف کا آپریشن سندور کو ٹریلر کہنا خود فریبی ہے
خیبرپختونخوا میں سرحد پر موجودہ صورتحال میں آمد و رفت کنٹرول کرنا چیلنج ہے ، دنیا میں بارڈر مینجمنٹ دونوں اطراف کے ممالک مل کر کرتے ہیں، طالبان حکام دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہے ہیں،ڈی جی آئی ایس پی آر
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ طالبان رجیم کا یہ دعویٰ کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے لوگ ہجرت کرکے آئے ہیں، مہمان ہیں، غیر منطقی ہیں، اگر وہ پاکستانی ہیں تو انہیں ہمارے حوالے کریں،افغانستان میں دہشتگردی کے مراکز اور دہشتگرد قیادت موجود، طالبان سہولت کاری بند کریں، رواں سال ملک میں مجموعی طور پر ایک ہزار 873 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا، جن میں 136 افغان باشندے شامل ہیں، خیبرپختونخوا میں سرحد پر موجودہ صورتحال میں آمد و رفت کنٹرول کرنا چیلنج ہے ، دنیا میں بارڈر مینجمنٹ دونوں اطراف کے ممالک ملکر کرتے ہیں، طالبان حکام دہشت گردوں کی سرپرستی اور سہولت کاری کر رہے ہیں،پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت کی بندش کا مسئلہ ہماری سیکیورٹی اور عوام کے جان و مال کے تحفظ سے جڑا ہے ،خونریزی اور تجارت اکٹھے نہیں چل سکتے ،بھارتی آرمی چیف کا آپریشن سندور کو ٹریلر کہنا خود فریبی ہے ، 7 جہازوں کی تباہی، اسلحہ ڈپو، دفاعی نظام ایس 400 کا خاتمہ ان کیلئے ہارر مووی بن چکا ہے ،آپریشن سندور کی شکست پر بار بار جھوٹے ہندوستانی بیانات عوامی غصے کو تحلیل کرنے کیلئے ہیں،کسی بھی بیرونی جارحیت کا جواب سخت اور شدید ہوگا،بیرون ملک سے آپریٹ ہونے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پاکستان کیخلاف بیانیہ بنانے میں مصروف ہیں،تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہے کہ دہشتگردی کا حل نیشنل ایکشن پلان میں ہے ۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر کی سینئر صحافیوں سے ملکی سلامتی کے امور پر مزید تفصیلات سامنے آئی ہے جس کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 4نومبر 2025 سے اب تک دہشت گردی کے خلاف 4 ہزار 910 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے ۔ رواں سال خیبر پختونخوا میں 12 ہزار 857 اور بلوچستان میں 53 ہزار 309 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے گئے ۔ ان آپریشنز کے دوران 206 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ رواں سال مجموعی طور پر 1873 دہشت گرد جہنم واصل ہوئے ، جن میں 136 افغانی بھی شامل ہیں۔ پاک افغان بارڈر انتہائی مشکل اور دشوار گزار راستوں پر مشتمل ہے ۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں پاک افغان سرحد 1229 کلومیٹر پر محیط ہے ، جس میں 20 کراسنگ پوائنٹس ہیں، پاک افعان بارڈر پر پوسٹوں کا فاصلہ 20 سے 25 کلومیٹر تک بھی ہے ۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ بارڈر فینس اس وقت تک مؤثر نہیں ہوسکتی اگر وہ آبزرویشن اور فائر سے کور نہ ہو، اگر 2 سے 5 کلومیٹر کے بعد قلعہ بنائیں اور ڈرون سرویلنس کریں تو اس کے لیے کثیر وسائل درکار ہوں گے ۔انہوںنے کہاکہ پنجاب اور سندھ کے برعکس خیبر پختونخوا میں بارڈر کے دونوں اطراف منقسم گاؤں ہیں، ایسی صورتِ حال میں آمد و رفت کو کنٹرول کرنا ایک چیلنج ہے ۔انہوں نے کہا کہ دنیا میں بارڈر مینجمنٹ ہمیشہ دونوں ممالک مل کر کرتے ہیں، اس کے برعکس افغانستان سے دہشت گردوں کی پاکستان میں دراندازی کے لیے افغان طالبان مکمل سہولت کاری کرتے ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اگر افغان بارڈر سے متصل علاقے دیکھیں بمشکل موثر انتظامی ڈھانچہ گورننس کے مسائل میں اضافے کا باعث ہے ، ان بارڈر ایریاز میں انتہائی مضبوط پولیٹیکل ٹیرر کرائم گٹھ جوڑ ہے ، سہولت کاری فتنہ الخوارج کرتے ہیں، اگر سرحد پار سے دہشت گردوں کی تشکیلیں یا اسمگلنگ، تجارت ہو تو اندرون ملک اس کو روکنا کس کی ذمے داری ہے ؟لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ اگر لاکھوں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں آپ کے صوبے میں گھوم رہی ہیں تو انہیں کس نے روکنا ہے ؟ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں اس پولیٹیکل ٹیرر کرائم نیکسز کا حصہ ہیں جو خودکش حملوں میں استعمال ہوتی ہیں، افغانستان کے ساتھ دوحہ معاہدے کے حوالے سے پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے ،پاکستان کا موقف ہے کہ افغان طالبان رجیم دہشت گردوں کی سہولت کاری بند کریں۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردی کے مراکز اور القاعدہ، داعش اور دہشت گرد تنظیموں کی قیادت موجود ہے ، افغانستان سے انہیں اسلحہ اور فنڈنگ بھی ملتی ہے جو پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی ہے ، ہم نے افغانستان کے سامنے تمام ثبوت رکھے جنہیں وہ نظرانداز نہیں کرسکتے ۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کا افغان طالبان رجیم سے مطالبہ ہے کہ وہ ایک قابلِ تصدیق میکانزم کے تحت معاہدہ کریں، اگر قابلِ تصدیق میکنزم تھرڈ پارٹی نے رکھنا ہے تو پاکستان کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا، پاکستان کے اس مو قف کی مکمل آگاہی ثالث ممالک کو بھی ہے ۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فتنہ الخوراج کے بارے میں طالبان رجیم کا دعویٰ کہ وہ پاکستانی ہیں، طالبان رجیم کا دعویٰ ہے کہ وہ ہجرت کر کے آئے ہیں، ہمارے مہمان ہیں غیر منطقی ہے ، اگر وہ پاکستانی شہری ہیں تو ہمارے حوالے کریں، ہم ان کو اپنے قانون کے مطابق ڈیل کریں گے ، یہ کیسے مہمان ہیں جو مسلح ہو کر پاکستان آتے ہیں؟لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ افغان رجیم ناصرف پاکستان بلکہ پورے خطے اور دنیا کے لیے ایک خطرہ بن چکا ہے ، افغانستان میں 2021 کے بعد ریاست اور حکومت کا قیام ہونا تھا جو ممکن نہ ہوسکا، طالبان رجیم نے اس وقت نان اسٹیٹ ایکٹرز پالے ہوئے ہیں۔ نان اسٹیٹ ایکٹرز خطے کے مختلف ممالک کے لیے خطرہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مطالبہ واضح ہے کہ افغان طالبان کا طرز عمل ایک ریاست کی طرح ہونا چاہیے ، دوحہ مذاکرات میں افغان طالبان نے بین الاقوامی برادری سے اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے کا وعدہ کیا، افغان طالبان نے اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے کے وعدہ پر اب تک عمل نہیں ہوا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغان طالبان رجیم افغانیوں کا نمائندہ نہیں ہے کیونکہ یہ تمام قومیتوں کی نمائندگی نہیں کرتا، افغانستان کی 50 فیصد خواتین کی نمائندگی کا اس رجیم میں کوئی وجود نہیں، ہمارا افغانیوں کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں، بلکہ ہمارا مسئلہ افغان طالبان رجیم کے ساتھ ہے ، پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت کی بندش کا مسئلہ ہماری سیکیورٹی اور عوام کے جان و مال کے تحفظ سے جڑا ہے ،خونریزی اور تجارت اکٹھے نہیں چل سکتے ، ہمارے لیے اچھے یا برے دہشت گرد میں کوئی تفریق نہیں، ہمارے لیے اچھا دہشت گرد وہی ہے جو جہنم واصل ہو چکا، ہمیشہ حق باطل پر غالب آتا ہے ، ہم حق پر ہیں اور حق ہمیشہ فتحیاب ہوتا ہے ۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی کے عمل کے تحت 2024 میں 366704 افراد کو واپس بھیجا جا چکا ہے ، 2025 میں 971604 کو افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجا جا چکا ہے ، صرف رواں ماہ یعنی نومبر کے دوران 239574 افراد کو واپس بھیجا گیا۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں خود فریبی کی سوچ رکھنے والی قیادت کی اجارہ داری ہے ، انڈین آرمی چیف کا یہ بیان کہ ہم نے آپریشن سندور کے دوران ایک ٹریلر دکھایا خود فریبی کی حامل سوچ کا عکاس ہے ، جس ٹریلر میں7 جہاز گریں، 26 مقامات پر حملہ، ایسـ400 کی بیٹریاں تباہ ہوں تو ایسے ٹریلر پر مبنی فلم ان کے لیے ڈراؤنی فلم بن جائیگی،سندور میں ہوئی شکست پر بار بار کے جھوٹے ہندوستانی بیانات عوامی غم وغصے کو تحلیل کرنے کے لیے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ کوئی بھی ملک اگر افغان طالبان رجیم کو فوجی سازو سامان مہیا کرتا ہے تو یہ دہشت گردوں کے ہاتھ ہی لگے گا، ریاست پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف زہریلا بیانیہ بنانے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بیرون ملک سے چلتے ہیں، پاکستان سے باہر بیٹھ کر یہاں کی سیاست اور دیگر معاملات میں زہر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ بیرون ملک سے آپریٹ ہونے والے سوشل میڈیا کے یہ اکاؤنٹس لمحہ بہ لمحہ پاکستان کے خلاف بیانیہ بنانے میں مصروف ہیں، یہ بات واضح ہے کہ جو سوشل میڈیا پاکستان میں چل رہا ہے درحقیقت اس کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہیں، دہشت گردی پر تمام حکومتوں اور سیاسی پارٹیوں کا اتفاق ہے کہ اس کا حل نیشنل ایکشن پلان میں ہے ، اس پلان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بلوچستان میں ایک مربوط نظام وضع کیا گیا جبکہ کے پی میں اس کی کمی نظر آتی ہے ۔ اس نظام کے تحت ضلعی، ڈویڑنل اور صوبائی سطح پر اسٹیئرنگ، مانیٹرنگ اور ایمپیلیمنٹیشن کمیٹیاں بنائی گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ غیرقانونی اسپیکٹرم کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے ، اس مد میں حاصل ہونے والی رقم دہشت گردی کے فروغ کے لیے استعمال کی جاتی ہے ، ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ پر کریک ڈاؤن سے پہلے 20.5 ملین لیٹر ڈیزل کی یومیہ اسمگلنگ ہوتی تھی۔ یہ مقدار کم ہو کر 2.7 ملین لیٹر یومیہ پر آچکی ہے ۔انہوںنے کہاکہ ایران سے اسمگل ہونے والے ڈیزل کی مد میں حاصل ہونے والی رقم بی ایل اے اور بی وائی سی کو جاتی ہے ، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے باعث بلوچستان کے 27 ضلعوں کو پولیس کے دائرہ اختیار میں لایا جاچکا ہے ، بلوچستان کے 27 ضلعے بلوچستان کا 86 فیصد حصہ ہے ، بلوچستان میں صوبائی حکومت، سیکیورٹی فورسز مقامی لوگوں سے مسلسل انگیجمنٹ کر رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ اس طرح کی 140 یومیہ اور 4000 ماہانہ انگیجمنٹ ہو رہی ہیں جسکے بہت دورس نتائج ہیں،ان حکومتی اقدامات کے بغیر دہشت گردی کو قابو نہیں کیا جا سکتا۔