پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان دوحا میں جاری مذاکرات کااختتامی مرحلہ بھی مکمل کر لیا گیا ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق بات چیت کا ماحول سنجیدہ مگر نازک نوعیت کا تھا، اور دونوں جانب سے سیکیورٹی تحفظات کو کھل کر بیان کیا گیا۔
پاکستانی وفد کی قیادت وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کر رہے ہیں، جب کہ ان کے ہمراہ اعلیٰ سطحی سیکیورٹی اور انٹیلیجنس حکام بھی مذاکرات میں شریک تھے۔ افغان طالبان کی جانب سےوزیر دفاع ملا یعقوب وفد کی سربراہی کر رہے ہیں۔
ریڈ لائنز واضح: پاکستان کا دوٹوک پیغام
سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان نے افغان وفد کے سامنےدوٹوک انداز میں اپنی ریڈ لائنز رکھ دیں۔ سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ افغان سرزمین پر کالعدم دہشتگرد گروہوں — خصوصاً ٹی ٹی پی (تحریکِ طالبان پاکستان) — کی موجودگی کو پاکستان کسی صورت قبول نہیں کرے گا۔
پاکستانی وفد نے زور دیا کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں کی جانے والی دہشتگردی، سرحد پار دراندازی اور سیکیورٹی اہلکاروں پر حملے ناقابلِ برداشت ہیں، اور اگر آئندہ ایسے کسی حملے کی کوشش کی گئی تو پاکستان اسی شدت اور انداز میں جواب دے گا۔
یک نکاتی ایجنڈا: سرحد پار دراندازی کی روک تھام
پاکستانی وفد نے اس بات پر بھی زور دیا کہ موجودہ مذاکرات کا بنیادی مقصدسرحد پار دراندازی کی روک تھام ہے، تاکہ خطے میں پائیدار امن قائم ہو سکے۔ افغان حکومت سے کہا گیا کہ وہ اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اپنی سرزمین کو دہشتگرد عناصر کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ بننے دے۔
مذاکرات کی پیش رفت اور مستقبل کی حکمت عملی
ذرائع کے مطابق، فریقین کے درمیان ابتدائی طور پر ایک ہفتے بعد مذاکرات کا اگلا دور منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، تاہم موقع کی حساسیت اور حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے دونوں فریقین نے فیصلہ کیا ہے کہ مزید بات چیت کل ہی دوبارہ ہو گی، تاکہ باقی نکات پر بھی مفاہمت ہو سکے۔
پس منظر: کشیدہ سرحدی صورتحال
یہ مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ حالیہ مہینوں میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے، جن میں درجنوں سیکیورٹی اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی اور معاونت افغانستان میں موجود عناصر کی جانب سے کی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ اور بین الاقوامی دباؤ
یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ عالمی برادری، خصوصاً چین، قطر اور اقوام متحدہ، ان مذاکرات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ خطے میں دہشتگردی کے خلاف اجتماعی کوششوں اورافغانستان میں عبوری حکومت کی بین الاقوامی تنہائی کو ختم کرنے کے لیے، ایسے مذاکرات کو ایک اہم موقع تصور کیا جا رہا ہے۔
آئندہ کا لائحہ عمل
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ مذاکرات میں سرحدی میکانزم، انٹیلیجنس شیئرنگ، مہاجرین کی واپسی اور دیگر سیکیورٹی امور پر تفصیلی بات چیت کی جائے گی۔ فریقین کی کوشش ہے کہ سفارتی چینل کو فعال رکھا جائے تاکہ خطے میں امن قائم کیا جا سکے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: مذاکرات کا کے درمیان

پڑھیں:

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی میں کمی، مذاکرات پر اتفاق

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی میں کمی کے بعد دونوں ممالک نے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ سیکیورٹی ذرائع نے بعض میڈیا ذرائع کو تصدیق کی کہ یہ بات چیت آئندہ دنوں میں متوقع ہے۔

گزشتہ ہفتے دونوں ممالک کی سرحد پر ہونے والی مہلک جھڑپوں اور عارضی 48 گھنٹے کی جنگ بندی کے بعد مذاکرات کا فیصلہ سامنے آیا ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان نے پاکستان سے تنازع بطور پراکسی بھارت کے اشارے پر شروع کیا، خواجہ آصف

وزیرِاعظم شہباز شریف نے جمعرات کو وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ اب گیند افغان طالبان کے کورٹ میں ہے اور اگر وہ 48 گھنٹوں میں پاکستان کے جائز تحفظات دور کرنا چاہتے ہیں تو اسلام آباد مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔

پاک فوج کی کارروائیاں، درجنوں دہشتگرد ہلاک

فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے مطابق، پاکستان آرمی نے سرحدی علاقوں میں انسدادِ دہشتگردی کی کارروائیوں میں 80 سے زائد شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا۔

ایک اہم کارروائی میں خیبر پختونخوا کے ضلع مہمند میں دراندازی کی کوشش ناکام بنائی گئی، جس میں 45 سے 50 دہشتگرد مارے گئے۔ فوج کے مطابق، یہ حملہ آور افغانستان سے سرحد پار کر کے پاکستان کے اندر اہداف کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔

گزشتہ کارروائیوں (13 تا 15 اکتوبر) کے دوران شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان اور بنوں میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر حملے کیے گئے، جن میں 34 دہشتگرد ہلاک ہوئے۔ شمالی وزیرستان کے سپین وام علاقے میں 18، جنوبی وزیرستان میں 8، اور بنوں میں 8 دہشتگرد مارے گئے۔

فوج کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں  دشمن انٹیلی جنس نیٹ ورکس کی پشت پناہی کرنے والے گروہوں کے خلاف جاری مہم کا حصہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیے کیا پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیزفائر دیرپا ثابت ہوگا؟

حالیہ جھڑپیں گزشتہ کئی ماہ کی بدترین سرحدی کشیدگی قرار دی جا رہی ہیں، جن میں دونوں جانب درجنوں فوجی اور شہری جاں بحق ہوئے۔

یہ لڑائی 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب شروع ہوئی، جب افغان طالبان جنگجوؤں اور اتحادی شدت پسندوں نے سرحد کے متعدد سیکٹروں پر ہم آہنگ حملے کیے۔
پاکستانی فورسز نے جوابی کارروائی میں 200 سے زائد حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا، جبکہ 23 پاکستانی فوجی شہید ہوئے۔

حکومتی ذرائع کے مطابق، مذاکرات سے قبل پاکستان کا مؤقف واضح ہے کہ پائیدار امن اسی صورت ممکن ہے جب کابل حکومت اپنی سرزمین پاکستان مخالف دہشتگرد گروہوں کے استعمال سے روکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغانستان طالبان

متعلقہ مضامین

  • دہشتگردی برداشت نہیں کریں گے؛پاکستان  کے طالبان ریجیم سےمذاکرات مکمل
  • دوحا میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور مکمل، دوسرا مرحلہ کل ہوگا
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کیلئے مذاکرات کا پہلا دور مکمل
  • دوحہ میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان اہم مذاکرات جاری
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوحہ میں باضابطہ مذاکرات شروع ہو گئے
  • پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان دوحا میں اہم مذاکرات آج ہوں گے
  • قطر میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان امن مذاکرات
  • قطر کی ثالثی، پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات آج دوحہ میں ہوں گے
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی میں کمی، مذاکرات پر اتفاق