ایران نے 2015 کے تاریخی جوہری معاہدے کی میعاد ختم ہونے کے بعد کہا ہے کہ وہ اب اس معاہدے کی تمام پابندیوں سے آزاد ہے۔

عالمی میڈیا کے مطابق ایران نے 2015 کے جوہری معاہدے کو سرکاری طور پر ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے، جسے جوائنٹ کمپری ہنسو پلان آف ایکشن (JCPOA) کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ایران کی وزارت خارجہ کےجاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ”ایران اب اس معاہدے کے تحت کسی بھی قسم کی پابندیوں کا پابند نہیں ہے اور معاہدے کے تمام اہداف اور میکانیزم ختم ہو چکے ہیں“۔

یہ معاہدہ 2015 میں امریکی صدر باراک اوباما کی حکومت کے دوران ایران، چین، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور امریکا کے درمیان طے پایا تھا۔ معاہدے کے تحت، ایران کے جوہری پروگرام پر پابندیاں عائد کی گئیں، جبکہ ایران کے خلاف عالمی اقتصادی پابندیاں ہٹائی گئیں۔

اس معاہدے کا مقصد مشرق وسطیٰ میں جوہری ہتھیاروں کی پھیلاؤ کو روکنا تھا اور ایران کے ساتھ مغربی دنیا کے تعلقات کو بہتر بنانا تھا۔

تاہم، 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر امریکا کو اس معاہدے سے نکال لیا اور ایران کے خلاف دوبارہ پابندیاں عائد کر دیں۔ ٹرمپ نے اوباما کے معاہدے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ایران کے حریف اسرائیل نے بھی اس معاہدے کی سخت مخالفت کی۔ امریکا کے اخراج کے بعد، ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو تیز کر دیا۔

یورپ نے معاہدے کو بحال کرنے کی متعدد کوششیں کیں، لیکن ان مذاکرات میں کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ اس سال اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے ایران پر بمباری نے معاہدے کے دوبارہ آغاز کی امیدوں کو مزید کم کر دیا۔ جون میں ایران کی پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا جس کے تحت عالمی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ تعاون سے انکار کیا گیا۔

ایران نے معاہدے کی منسوخی کے باوجود کہا کہ وہ ”سختی سے سفارت کاری کے اصولوں پر قائم ہے“ اور عالمی سطح پر مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: اس معاہدے معاہدے کی معاہدے کے ایران نے ایران کے

پڑھیں:

سلامتی کونسل کے نام خط

اسلام ٹائمز: ایران کے قانونی امور اور بین الاقوامی امور کے نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی کے مطابق اہم نکتہ یہ ہے کہ مغربی ممالک اور امریکہ اسنیپ بیک میکنزم کے ذریعے جن پابندیوں کی واپسی کا دعویٰ کرتے ہیں، انکی کوئی قانونی حیثیت نہیں رہی ہے اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو ان پابندیوں پر عملدرآمد نہیں کرنا چاہیئے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ روس کی وزارت خارجہ نے بھی ایک بہت اہم بیان جاری کیا اور ایک اور قدم میں 18 اکتوبر کو تینوں ممالک ایران، چین اور روس مشترکہ طور پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے صدر کو ایک خط بھیجیں گے، جس میں اس حقیقت کو اجاگر کیا جائے گا کہ قرارداد کی میعاد ختم ہوچکی ہے اور یہ ممالک سلامتی کونسل کی ان میعاد ختم ہونے والی پابندیوں کی قراردادوں کے پابند نہیں ہیں۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل آنٹونیوگوترش اور سلامتی کونسل کے موجودہ سربراہ واسیلی نبنزیا کے نام خط میں اٹھارہ اکتوبر دو ہزار پچیس سے سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کی مدت و اعتبار ختم ہونے کا اعلان کیا ہے۔ سید عباس عراقچی نے اس خط میں قرارداد بائیس اکتیس کی شق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ ایران کا ایٹمی معاملہ، دس برس گزرنے کے بعد سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے خارج ہو جانا چاہیئے اور اس کے بعد ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف کسی بھی پابندی کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ انھوں نے دو ہزار پندرہ میں ایٹمی سمجھوتے کی منظوری کی یاد دہانی کراتے ہوئے لکھا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے شروع سے ہی پوری نیک نیتی سے معاہدے کی پابندی کی ہے، لیکن امریکہ نے دو ہزار اٹھارہ میں ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکل کر اور پابندیاں نافذ کرکے بین اقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے منشور کی کھلی خلاف ورزی کی ہے۔

سید عباس عراقچی نے ایٹمی سمجھوتے کے رکن یورپی ممالک کے روییّے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے نہ صرف معاہدے پر عمل نہیں کیا بلکہ ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کر دیں اور اس اقدام سے ایٹمی سمجھوتے کو پہلے سے زیادہ کمزور کر دیا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے خط کے ایک حصے میں تاکید کی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے مغربی ممالک کی بار بار خلاف ورزی کے باوجود نہایت صبر و تحمل سے کام لیا اور صرف سمجھوتے کے دائرے میں دو ہزار انیس سے مرحلہ وار تلافی جویانہ اور قابل واپسی اقدامات کئے ہیں۔ سید عباس عراقچی نے آخر میں تاکید کے ساتھ کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ سفارتکاری کی پابندی کی ہے اور ایٹمی سمجھوتے کے تناظر میں تمام فریقوں سے معاہدے پر مکمل عمل درآمد کا مطالبہ کرتا ہے۔

دوسری طرف ایٹمی سمجھوتے پر عمل درآمد کو دس سال گزرنے کے بعد ایران کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ اٹھارہ اکتوبر دو ہزار پچیس سے سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس میں درج تمام فوجی اور ایٹمی پابندیاں کالعدم ہوگئی ہیں۔ ایرانی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ اس کے بعد اس قرارداد کے تناظر میں کسی بھی طرح کی پابندی کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے اور ایران کا ایٹمی معاملہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے ختم ہو جانا چاہیئے۔ بیان میں سن دو ہزار اٹھارہ میں ایٹمی سمجھوتے سے غیر قانونی طور پر امریکہ کے باہر نکلنے اور یورپی ممالک کی جانب سے معاہدے کی پابندی نہ کرنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا گیا ہے کہ تین یورپی ممالک کی جانب سے اسنیپ بیک کو فعال کرنے اور پابندیوں کی بحالی کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔

وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ سلامتی کونسل نے اب تک ایران کے خلاف سابقہ پابندیوں کی بحالی کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے اور روس و چین کی جانب سے اس اقدام کی مخالفت نے اس سلسلے میں کسی طرح کے قانونی دعوے کو غیر موثر بنا دیا ہے۔ بیان کے آخر میں ایران کی جانب سے سفارتکاری کی پابندی اور پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی سے استفادے کے جائز حق پر تاکید کی گئی ہے۔ ایران کی جانب سے قرارداد 2231 کی میعاد ختم ہونے کے اعلان کو دنیا کے اکثریتی ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ ناوابستہ ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں ناوابستہ تحریک کے 121 سے زیادہ رکن ممالک نے اس بات پر زور دیا کہ قرارداد 2231 کی میعاد 18 اکتوبر 2025  کو ختم ہو جانی چاہیئے۔ دوسری جانب نیویارک میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے گروپ آف فرینڈز کے 21 رکن ممالک نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ قرارداد 2231، 18 اکتوبر کو ختم ہو جائے گی اور یہ ممالک ان پابندیوں پر عمل درآمد کے پابند نہیں ہیں، جو غیر منصفانہ اور غیر قانونی طور پر واپس کی گئی ہیں۔

ایران کے قانونی امور اور بین الاقوامی امور کے نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی کے مطابق اہم نکتہ یہ ہے کہ مغربی ممالک اور امریکہ اسنیپ بیک میکنزم کے ذریعے جن پابندیوں کی واپسی کا دعویٰ کرتے ہیں، ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں رہی ہے اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو ان پابندیوں پر عمل درآمد نہیں کرنا چاہیئے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ روس کی وزارت خارجہ نے بھی ایک بہت اہم بیان جاری کیا اور ایک اور قدم میں 18 اکتوبر کو تینوں ممالک ایران، چین اور روس مشترکہ طور پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے صدر کو ایک خط بھیجیں گے، جس میں اس حقیقت کو اجاگر کیا جائے گا کہ قرارداد کی میعاد ختم ہوچکی ہے اور یہ ممالک سلامتی کونسل کی ان میعاد ختم ہونے والی پابندیوں کی قراردادوں کے پابند نہیں ہیں۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ یورپی یونین، امریکہ کی خفیہ اور کھلی حمایت کے ساتھ، سنیپ بیک میکانزم کے مبینہ طور پر فعال ہونے کے نتیجے میں اقوام متحدہ کی پابندیوں کے نفاذ پر اپنے موقف پر زور دے رہا ہے۔

اس سلسلے میں، یورپی یونین نے ایرانی جوہری معاملے پر اپنے غیر تعمیری موقف کو جاری رکھتے ہوئے، ایک نیا بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ یونین کے متعدد غیر رکن ممالک نے اسنیپ بیک میکانزم کے نفاذ کے بعد، ایران کے خلاف جوہری پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کے یورپی کونسل کے فیصلے کے ساتھ ہم آہنگی کر لی ہے۔ یورپی یونین کی کونسل نے فیصلہ کیا ہے کہ ایران کے خلاف جوہری پابندیاں دوبارہ عائد کی جائیں گی۔ یورپی یونین کی کونسل نے اپنے نئے فیصلے میں اعلان کیا ہے کہ ایران سے خام تیل، قدرتی گیس، پیٹرو کیمیکلز اور پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کے ساتھ ساتھ ایران میں استعمال ہونے والے اہم آلات کی فروخت اور فراہمی پر بھی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ اس تناظر میں اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ تینوں یورپی ممالک اور امریکہ کی جانب سے ختم شدہ قراردادوں (بشمول قراردادیں 1696، 1737، 1747، 1803، 1835، 1929) کو واپس کرنے کے دعوے پر کان نہ دھریں اور قرارداد 2231 کو منسوخ کرنے پر غور کریں۔

متعلقہ مضامین

  • ایٹمی پروگرام سے متعلق کیا گیا معاہدہ اپنی مدت مکمل کر چکا، اب ہم کسی کے پابند نہیں، ایران
  • جوہری پروگرام کسی عالمی معاہدے کے پابند نہیں ہیں، ایران کا دوٹوک اعلان
  • سلامتی کونسل کے نام خط
  • سلامتی کونسل نے ایرانی جوہری پروگرام پر غور و خوض ختم کر دیا ہے، میخائیل اولیانوف
  • JCPOA ختم ہوگیا، 10 سال بعد ایران کو کیا ملا؟
  • ایران: جوہری معاہدہ ختم، اب کسی پابندی کے پابند نہیں
  • پاک افغان کشیدگی کم کرنےکیلئے تمام وسائل استعمال کریں گے،ایرانی صدر
  • پاک افغان کشیدگی کم کرنےکیلئے تمام وسائل استعمال کریں گے: ایرانی صدر