بھارتی ایما پر افغان طالبان کی کارروائیوں سے پورا خطہ کس طرح متاثر ہو رہا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT
بھارتی ایما پر متحرک اور بھارتی پراکسی وار لڑنے والے افغان طالبان اپنے ملک کے غریب عوام کے لیے سخت مشکلات پیدا کررہے ہیں۔ گزشتہ دنوں افغان قائم مقام وزیرخارجہ امیر خان متقی نے بھارت میں یہ دعویٰ کیاکہ خطے کے باقی ممالک افغانستان کے ساتھ خوش جبکہ صرف پاکستان ہی کو مسائل ہیں۔ جبکہ حقیقت افغان وزیر خارجہ کے اس بیان سے بالکل مختلف ہے جس کا ہم ذیل میں جائزہ لیں گے۔
پاکستان کے ساتھ حالات کی کشیدگی کے بعد افغانستان کی تجارت جس کا 41 سے 43 فیصد انحصار پاکستان پر ہے وہ رک گئی ہے جس سے افغانستان کو سالانہ 2 ارب ڈالر کا نقصان پہنچتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے اٹھنے والی دہشتگردی کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے: پاک فوج
لیکن سوال یہ ہے کہ آیا خطے کے دیگر ممالک جیسا کہ وسطی ایشیائی ریاستیں خصوصی طور پر ازبکستان، تاجکستان اور ترکمانستان افغانستان میں جاری بدامنی سے کس طرح متاثر ہو رہی ہیں اور اِس کے علاوہ ایران اور چین کس طرح سے اپنا ردعمل دے رہے ہیں۔
اس وقت قطر کے دارالحکومت دوحہ میں پاکستانی اور افغان وفود بات چیت کے لیے موجود ہیں جبکہ پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ افغانستان کو پاکستان پر حملے کرنے والی اپنی مسلح پراکسیز کو لگام ڈالنی چاہیے۔
دہشتگردوں کو ملک میں پناہ دینے اور انہیں پڑوسی ممالک کے خلاف متحرک کرنے سے افغانستان کے اپنے اندرونی مسائل بڑھ سکتے ہیں اور مستقبل کے لیے خطرات بھی بڑھ سکتے ہیں۔
علاقائی تنہائی اور تنازعاتاگر پانی اور دہشتگردی کے مسائل حل نہ ہوئے تو ایران اور وسطی ایشیا کے ساتھ جھڑپیں بڑھ سکتی ہیں، جیسے ایران کے ساتھ 2023 کی طرح، پاکستان کے ساتھ تناؤ (ٹی ٹی پی حملے) سے فضائی حملے اور تجارتی پابندیاں ممکن، جو افغانستان کی معیشت (جو 2021 سے 21% سکڑ چکی) کو مزید تباہ کر سکتی ہیں۔
معاشی اور انسانی بحرانبین الاقوامی پابندیاں اور دہشتگردی کے خلاف عدم تعاون سے جی ڈی پی مزید گر سکتا ہے، غربت بڑھے گی، اور امداد رک جائے گی۔ افغانستان کو بھارت کے ساتھ تعلقات سے کچھ فائدہ جیسا کہ 3 ارب ڈالر کی سابقہ سرمایہ کاری ملنا ممکن ہے، لیکن اگر علاقائی طاقتیں جیسا کہ چین اور پاکستان مخالف ہوتے ہیں تو افغانستان کے اندر پراکسی وارز شروع ہو سکتی ہیں۔
افغانستان کا داخلی عدم استحکامدہشتگرد گروپس کی پناہ سے افغانستان میں داخلی حملے بڑھ سکتے ہیں، جو طالبان کی حکمرانی کو کمزور کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی سے پانی کے بحران شدت اختیار کر سکتے ہیں، جو جنگوں کا سبب بن سکتے ہیں۔
مجموعی طور پر افغانستان دہشتگردی کے معاملے پر اگر تعاون نہیں بڑھاتا تو افغانستان ایک ناکام ریاست بن سکتا ہے، جس سے خطے میں دہشتگردی اور مہاجرین کا بحران پیدا ہوگا۔
ایرانایران افغانستان کا ایک انتہائی اہم پڑوسی ملک ہے اور پاکستان کی طرح افغانیوں کے ایران کے ساتھ مذہبی، لسانی اور ثقافتی رشتے ہیں۔ افغان سرزمین سے دہشتگردی خاص طور پر اسلامی ریاست خراسان (آئی ایس کے پی) جیسی تنظیموں کی طرف سے، ایران کو شدید طور پر متاثر کر رہی ہے۔ یہ گروپ افغانستان میں طالبان کی حکمرانی کے باوجود فعال ہے اور ایران میں شیعہ آبادی اور حکومتی تنصیبات کو نشانہ بنا رہا ہے۔
ایران پر اثرات حملوں کی شدت اور نوعیتآئی ایس کے پی نے افغانستان سے منصوبہ بندی کرکے ایران میں متعدد حملے کیے ہیں۔ مثال کے طور پر جنوری 2024 میں کرمان شہر میں قاسم سلیمانی کی یادگاری تقریب پر 2 خودکش بم دھماکے کیے گئے، جن میں 94 سے زیادہ افراد ہلاک اور 280 زخمی ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری آئی ایس کے پی نے قبول کی، اور حملہ آوروں کا تعلق افغانستان سے تھا۔
اکتوبر 2022 میں شیراز کی شاہ چراغ مسجد پر حملہ ہوا، جس میں 15 افراد ہلاک ہوئے۔ حملہ آور ایک تاجک شہری تھا جو افغانستان سے آیا تھا۔ یہ حملہ شیعہ مذہبی مقامات کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی کا حصہ تھا۔
گزشتہ دو سالوں کے دوران ایران میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا، جیسے مساجد، پولیس اسٹیشنز اور سرکاری عمارتوں پر حملے۔ یہ حملے ایران کی داخلی سیکیورٹی کو کمزور کررہے ہیں، خاص طور پر سیستان بلوچستان اور کرمان جیسے علاقوں میں، جہاں شیعہ سنی تناؤ بڑھ رہا ہے۔
عالمی رپورٹس کے مطابق افغانستان کے ننگرہار اور کنڑ صوبے میں آئی ایس کے پی کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں جو ان حملوں کی منصوبہ بندی کا مرکز ہیں۔
معاشی اور سماجی اثرات: یہ حملے ایران کی معیشت کو متاثر کر رہے ہیں، جیسے سیاحتی اور مذہبی مقامات پر لوگوں کی کمی، اور داخلی تناؤ سے شیعہ اور افغان مہاجرین کے درمیان جھڑپیں۔ قریباً 30 لاکھ افغان مہاجرین ایران میں رہتے ہیں، اور دہشتگردی کے الزامات سے ان پر تشدد بڑھ رہا ہے، جو انسانی بحران کا سبب بن رہا ہے۔ مجموعی طور پر یہ دہشتگردی ایران کی علاقائی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے، کیونکہ یہ امریکا اور اسرائیل کو مورد الزام ٹھہرانے کا موقع دیتی ہے۔
ایران کے اقداماتایران نے دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کے لیے کثیر جہتی حکمت عملی اپنائی ہے، جو سفارتی، فوجی اور داخلی سطح پر ہے۔ تاہم طالبان کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے یہ اقدامات پیچیدہ ہیں۔
ایران طالبان کو تسلیم نہیں کرتا لیکن عملی طور پر تعاون کر رہا ہے۔ ایران نے طالبان پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ آئی ایس کے پی کو کچلیں۔ اپریل 2024 میں ایران نے طالبان کو اجازت دی کہ وہ ایرانی فورسز کو افغان سرزمین پر آئی ایس کے پی کے کیمپوں پر حملے کرنے دیں۔ یہ ’عملی تعاون‘ کی مثال ہے، جہاں ایران طالبان کو ہتھیار اور انٹیلی جنس فراہم کررہا ہے۔
پاکستان کی طرح ایران بھی افغان مہاجرین کی بڑے پیمانے پر ملک بدری، جو 2025-2023 میں شدت اختیار کر گئی۔ بعض اوقات تشدد کے ساتھ، جیسے پاسپورٹ پھاڑنا یا گرفتاریاں، کیونکہ ایران انہیں دہشتگردی کا ممکنہ ذریعہ سمجھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران نے دہشتگردی کے خلاف قوانین کو سخت کیا، جیسے 2023 کا ترمیمی قانون جو دہشتگردوں کو وسائل سے محروم کرنے پر مرکوز ہے۔
چینچین اور افغانستان کے درمیان شمال مشرقی حصے میں واقع واخان کوریڈور کے ذریعے ایک مختصر مگر نہایت اہم سرحد موجود ہے جو چین کے صوبے سنکیانگ سے ملتی ہے۔ چین کے حکام اس امر پر گہری تشویش ظاہر کر چکے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین سے دہشتگرد اور علیحدگی پسند گروہ خصوصاً ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ چین کے صوبے سنکیانگ کے اندر سرگرم ہو سکتے ہیں جس سے نہ صرف دہشتگردی بلکہ سرحدی جرائم، اسلحہ و منشیات کی اسمگلنگ اور انتہا پسندی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
یہ تمام عوامل چین کی داخلی سلامتی اور اس کی سنکیانگ پالیسی کے لیے براہِ راست خطرہ ہیں۔ علاوہ ازیں افغانستان میں بدامنی چین کے اقتصادی اور علاقائی ترقیاتی منصوبوں خاص طور پر بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے لیے بھی چیلنج بن سکتی ہے، کیونکہ افغانستان اس منصوبے میں ایک ممکنہ راہداری اور شراکت دار ملک ہے۔
چین کے اقداماتچین نے اس خطرے کے پیش نظر متعدد اقدامات کیے ہیں، جن میں افغان حکومت کے ساتھ مشترکہ بیانات، سہ فریقی چین، افغانستان، پاکستان مکالماتی فورم کا قیام، اور دہشتگردی و علیحدگی پسندی کے خلاف تعاون کو مضبوط بنانا شامل ہے۔
اس کے علاوہ دونوں ممالک نے سرحدی کنٹرول، معلوماتی تبادلے، منشیات و انسانی اسمگلنگ کی روک تھام اور دہشتگرد عناصر کی حوالگی کے لیے قانونی تعاون پر اتفاق کیا ہے۔ چین افغانستان کے ساتھ اقتصادی شراکت بڑھانے، انفراسٹرکچر اور زرعی تعاون کے منصوبے شروع کرنے اور امن و استحکام کے بعد افغانستان کو علاقائی تجارت سے جوڑنے کے لیے بھی پرعزم ہے۔
چین نے پاکستان اور افغانستان کے ساتھ سیکیورٹی روابط کو مزید مضبوط کرنے پر زور دیا ہے تاکہ افغانستان کی سرزمین سے چین کے خلاف سرگرمیوں کا خطرہ کم سے کم کیا جا سکے۔
ازبکستانازبکستان افغانستان سے ہونے والی دہشتگردی اور بدامنی سے براہِ راست متاثر ہو رہا ہے، کیونکہ اس کی شمالی افغان سرحد خصوصاً امرُو دریا کے کنارے واقع علاقے، دہشت گردوں، غیر قانونی دراندازی، ہتھیاروں اور منشیات کی اسمگلنگ کے لیے حساس گزرگاہ سمجھے جاتے ہیں۔
ازبکستان حکومت کے مطابق افغانستان وسطی ایشیا کا حصہ ہے، لہٰذا وہاں کا عدم استحکام پورے خطے بشمول ازبکستان کی سلامتی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ علاقائی دہشت گرد تنظیمیں جیسے ’اسلامک موومنٹ آف ازبکستان‘ افغانستان میں سرگرم ہیں، جس کے باعث تاشقند اپنی سرحدی نگرانی اور سلامتی کے معاملات میں محتاط اور متحرک ہے۔
ان خطرات کے مقابلے میں ازبکستان نے افغانستان کے ساتھ بارڈر سیکیورٹی، داخلہ و خارجہ چیک پوائنٹس اور ثقافتی و معاشی تعاون کو فروغ دیا ہے۔
اس کے علاوہ ازبکستان شنگھائی تعاون تنظیم جیسے پلیٹ فارمز کے ذریعے سے دہشتگردی کے خلاف تعاون بڑھا رہا ہے۔
تاجکستانتاجکستان افغانستان سے ہونے والی دہشتگردی اور بدامنی سے گہرا متاثر ہو رہا ہے کیونکہ اس کی قریباً 1300 کلومیٹر طویل سرحد افغانستان سے ملتی ہے، جو اسے دہشتگردی، انتہا پسندی، غیر قانونی دراندازی، منشیات اور اسلحہ کی اسمگلنگ جیسے خطرات کے سامنے لاتی ہے۔
طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد انتہا پسند گروہ بالخصوص داعش یا آئی ایس کے پی نے شمالی افغانستان میں اپنی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں جس سے تاجکسان کے لیے عسکریت پسندی اور سرحدی مداخلت کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔
تاجک حکام کے مطابق صرف 2025 کی پہلی ششماہی میں سرحدی علاقوں میں منشیات اسمگلنگ کے دوران 10 سے زیادہ مسلح جھڑپیں ہوئیں، جو خطرے کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہیں۔ مجموعی طور پر افغانستان میں شدت پسندی کے پھیلاؤ اور منشیات کی تجارت میں اضافے نے تاجکستان کی داخلی سلامتی، سرحدی نظم و نسق اور سماجی استحکام کو براہِ راست متاثر کیا ہے۔
ترکمانستانترکمانستان جو افغانستان کے ساتھ قریباً 800 کلومیٹر طویل سرحد رکھتا ہے، افغان سرزمین سے ہونے والی دہشتگردی، انتہا پسندی، منشیات اور اسلحہ کی اسمگلنگ جیسے خطرات سے متاثر ہو رہا ہے۔ شمالی افغانستان میں سرگرم شدت پسند گروہ خصوصاً اسلامک موومنٹ آف ازبکستان اور داعش خراسان کے نیٹ ورکس ترکمانستان کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
افغانستان میں عدم استحکام کے باعث ترکمانستان نے اپنی سرحدوں پر نگرانی سخت کردی ہے اور دفاعی تیاریوں میں اضافہ کیا ہے، جن میں بکتر بند گاڑیوں کی تعیناتی، فوجی گشت اور سرحدی فورسز کی تربیت شامل ہے۔
ساتھ ہی ترکمانستان نے افغانستان کے ساتھ سفارتی روابط کو فعال رکھا ہے اور ’امن، ترقی و سلامتی‘ کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی اپنانے پر زور دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہوں نے پاکستان کو دہشتگردی کا شکار بنا دیا، طارق فاطمی
اس نے بین الاقوامی اداروں اور شراکت داروں مثلاً اقوام متحدہ اور امریکا سے سرحدی سلامتی میں تعاون اور تربیتی امداد بھی حاصل کی ہے۔ اگرچہ ترکمانستان کی پالیسی غیر جانب دار ہے، لیکن افغانستان کی بدلتی صورتِ حال نے اسے دفاعی اور سیکیورٹی لحاظ سے زیادہ محتاط بنا دیا ہے تاکہ شدت پسندی اور سرحد پار دہشت گردی کے خطرات کو روکا جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews افغان مہاجرین افغانستان دہشتگردی پاک افغان کشیدگی پڑوسی ممالک چین دوحہ مذاکرات وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغان مہاجرین افغانستان دہشتگردی پاک افغان کشیدگی پڑوسی ممالک چین دوحہ مذاکرات وی نیوز افغانستان کے ساتھ متاثر ہو رہا ہے افغانستان میں والی دہشتگردی افغان مہاجرین اور دہشتگردی افغانستان کی افغانستان سے افغانستان کو آئی ایس کے پی کہ افغانستان دہشتگردی کے کی اسمگلنگ اور افغان ایران میں ایران نے سکتے ہیں کے خلاف چین کے کے لیے اور اس ہے اور دیا ہے
پڑھیں:
جھوٹ کا چیمپئن بھارتی میڈیا
ریاض احمدچودھری
معرکہ حق کے بعد بھارتی میڈیا پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے ایک بارپھر جھوٹی خبروں کا پرچار کرنے لگ گیاہے۔بھارتی میڈیا پاکستان مخالف خبریں چلانے کا شوقین اور پاکستان دشمنی میں تمام حدیں پار کرگیاہے۔اس نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ کے دوبارہ آغاز کی خبریں چلانی شروع کر دیں۔بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان پھر سے جنگ شروع ہو گئی ہے اور دونوں اطراف سے قندھار کے قریب بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔بھارتی میڈیا نے یہ جھوٹا دعویٰ بھی کیا ہے کہ مقامی ذرائع نے ان جھڑپوں کی تصدیق کی ہے۔سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی میڈیا پر آنے والی خبر بے بنیاد اور جھوٹی ہے۔ اپنے عوام کو خوش کرنے کے لیے جھوٹی خبریں پھیلانابھارتی میڈیا کی عادت بن گئی ہے۔
امریکی روزنامہ دی واشنگٹن پوسٹ نے انکشاف کیاہے کہ بھارتی میڈیا اور مودی حکومت آپریشن سندور میں کامیابی سے متعلق عوام کو گمراہ کرنے کیلئے ان سے مسلسل جھوٹ بولتی رہی۔ دی واشنگٹن پوسٹ نے آپریشن سندور سے متعلق بھارتی پروپیگنڈے کو عالمی سطح پر بے نقاب کیاہے جس سے بھارت کو بین الاقوامی سطح پر شرمندگی کاسامنا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی میڈیا نے بی جے پی حکومت کے اشارے پرپاک بھارت جنگ سے متعلق جھوٹی خبریں پھیلائیں، پاکستان کے تمام بڑے شہروں پر بمباری ،قبضے اور فتح کے جھوٹے دعوے کیے گئے جو کہ حقیقت کے برعکس تھے۔اے آئی کے ذریعے جنگ کی جھوٹی اور فرضی ویڈیوز،تصاویراور من گھڑت خبریں اورتصاویریں بنا کر عوام میں پھیلائی گئیں۔اخبار کے مطابق یہ صحافت نہیں بلکہ بھارتی ریاستی سرپرستی میں تیار کردہ فکشن تھا، جس کا مقصد بھارت کی عوام اور عالمی برادری کو گمراہ کرنا اور خطے میں کشیدگی کو سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرنا تھا۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں مودی حکومت کے نام نہاد دعوئوں کو بے نقاب کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ بھارتی میڈیا نے پاکستان کے ساتھ جنگ کے دوران جھوٹی جنگی خبریں پھیلائیں۔ فلاڈیلفیا میں طیارہ حادثہ، ویڈیو گیمز کے مناظرکو "پاکستان پر حملے”کے مناظر کے طورپرپیش کیاگیا۔ زی نیوز، این ڈی ٹی وی، آج تک اور ٹائمز نائو جیسے بھارتی چینلز نے جھوٹی ویڈیوز چلائیں۔ غزہ اور سوڈان کی ویڈیوز کو پاکستان پر حملے کی ویڈیوز کے طورپرپیش کیا گیا۔بی جے پی کے زیر اثر بھارتی میڈیا چینلز نے کراچی پر حملے اور پاکستانی وزیراعظم کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کے جھوٹے دعوے کئے گئے جن کا دور دور تک سچائی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ بھارتی بحریہ اور فضائیہ نے کسی حملے کی تصدیق نہیں کی مگر نیوز چینلز نے جنگی جنون کو ہوا دینے کیلئے پاکستان کے بیشتر شہروں پر حملوں اور قبضے اور پاکستانی فضائیہ کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے کے من گھڑت دعوے نشر کیے۔ گودی میڈیا نے ریٹائرڈ بھارتی فوجی افسران کوجنگ سے متعلق جھوٹی خبروں کو سچائی پر مبنی قراردینے کے لیے بطور ترجمان استعمال کیا۔ بی جے پی حکومت کے واٹس ایپ گروپوں کے ذریعے اینکرز کوجھوٹی خبریں پہنچائی گئیں اور انہوں نے تصدیق کرنے کی زحمت گوارا کئے بغیر انہیں اسی طرح نشر کردیا۔
بھارتی ”ٹی وی چینلز جھوٹی کہانیاں گھڑنے والوں کے زیر تسلط ہیں”۔ پاک بھارت جنگ سے متعلق بھارتی عوام کو گمراہ کیا گیا جس سے خود عالمی سطح پر بھارت کی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک بھارتی سکیورٹی عہدیدارنے اعتراف کیاہے کہ جھوٹی معلومات عوام تک پہنچانا ایک جنگی حکمت عملی تھی، لیکن اس کا نقصان بھارت کو ہی اٹھانا پڑا۔ ریاستی پروپیگنڈا حقائق پر غالب آ گیا: سچائی کی جگہ سیاسی وفاداری نے لے لی۔ بھارتی وزیر خارجہ نے اس تمام صورتحال پر خاموشی اختیار کی اور مودی نے سیز فائر کے دو دن بعد بیان دیا لیکن اس دوران خلا کو جھوٹ سے پر کیا گیا۔بھارتی میڈیا نے نام نہاد قوم پرستی کو پراپیگنڈے کیلئے استعمال کیا اور پاکستان پر بے بنیاد الزامات عائد کئے تاہم اس کا نقصان ملک اور میڈیا دونوںکو اٹھانا پڑا۔ بھارتی حکومت اور میڈیا کے جھوٹ کی قلعی کھولنے پر مودی سرکار نے بی بی سی اور ٹی آر ٹی سمیت متعدد عالمی میڈیا پر پابندیاں عائدکردیں۔ بی جے پی کے جھوٹے بیانیہ کو چیلنج کرنے والے مقامی صحافیوں کو گرفتار کر کے انکے خلاف مقدمات درج کئے گئے۔ نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، روئٹرز، ٹی آر ٹی، الجزیرہ اور بی بی سی نے جنگ سے متعلق بھارتی میڈیا کے جھوٹ کوبے نقاب اور پاکستانی میڈیا کو پیشہ ورانہ شفافیت کو سراہا ہے۔
نام نہاد امارات اسلامی کے علمبردار افغان طالبان، بھارت کے ہاتھوں میں کھیلنے لگے ہیں، جو اپنے مذموم مفادات کی تکمیل کے لیے فتنہ الخوارج اور طالبان کو بطور آلہ استعمال کر رہا ہے۔بھارتی میڈیا نے حالیہ دنوں میں پاکستان کے خلاف بے بنیاد اور جھوٹے دعوں کی بھرمار کی ہے، جس کا مقصد پاکستان کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنا اور دنیا کو گمراہ کرنا ہے۔ 15اکتوبر کو افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایکس پر ایک جھوٹا بیان جاری کیا جس میں دعویٰ کیا گیاتھا کہ افغان طالبان نے پاکستانی ٹینک پر قبضہ کیا ہے۔ اس بے بنیاد دعوے کو بھارتی میڈیا نے خوب اچھالا، تاہم فیکٹ چیک پلیٹ فارم ”گروک” نے اس جھوٹ سے پردہ اٹھایا اور واضح کیا کہ ویڈیو میں نظر آنے والا روسی ساختہ ٹینک دراصل پہلے ہی افغان طالبان کے زیر استعمال تھا۔اسی طرح ذبیح اللہ مجاہد نے افغان دوستی گیٹ کو تباہ کرنے کے حوالے سے بھی ایک بیان جاری کیا، جسے بھارتی میڈیا نے توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہوئے پاکستانی علاقے کی طرف کا گیٹ قرار دیا۔در حقیقت دوستی گیٹ افغانستان کی طرف سے طالبان نے آئی ای ڈی لگا کر تباہ کیا جبکہ پاکستانی سمت کا گیٹ اپنی اصلی حالت میں محفوظ ہے اور اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ کابل میں ہونے والے حالیہ دھماکے کو بھارتی اور افغان میڈیا نے آئل ٹینکر کے پھٹنے کا نتیجہ قرار دیا جبکہ درحقیقت یہ دھماکہ پاک فوج کی جانب سے کی گئی ”پریسیڑن اسٹرائیکس” کا نتیجہ تھا۔
بھارتی گودی میڈیا فیک اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے بنائی گئی ویڈیوز سے بھی جھوٹا پروپیگنڈا پھیلانے میں مصروف ہے۔ حال ہی میں شمالی وزیرستان کے شہری عادل داوڑ کو شہید پاکستانی فوجی قرار دیا گیا، جس پر خود عادل داوڑ نے ایک ویڈیو پیغام میں تمام جھوٹے دعوں کو مسترد کرتے ہوئے اپنی شناخت اور موجودگی کی تصدیق کی۔یہ چار بڑے جھوٹ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ افغان طالبان اور فتنہ الخوارج اب بھارت کے جھوٹے بیانیے کا حصہ بن چکے ہیں۔ بھارتی حکومت اور میڈیا، افغان طالبان اور فتنہ الخوارج کے ترجمان بنے ہوئے ہیں، اور مسلسل منظم پروپیگنڈا کے ذریعے حقائق کو مسخ کر رہے ہیں۔پاکستان نے ہمیشہ بھارتی پروپیگنڈے کا جواب شواہد اور حقائق کے ساتھ دیا ہے۔ ماضی میں بھی معرکہ حق کے دوران پاکستان نے عالمی سطح پر بھارت کے جھوٹ کو بے نقاب کیا، اور آج بھی افغان جارحیت کے دوران شواہد کے ساتھ دنیا کو اصل حقائق سے آگاہ کر رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔