مودی حکومت مزدور مخالف اور لیبر کوڈز ملازمتوں کی سلامتی کو خطرہ ہے، کانگریس
اشاعت کی تاریخ: 3rd, December 2025 GMT
ملکارجن کھرگے نے کہا کہ مقررہ مدت ملازمت میں توسیع سے بہت سی مستقل ملازمتیں ختم ہوجائیں گی اور کمپنیاں اب طویل مدتی فوائد کو چھوڑ کر قلیل مدتی معاہدوں پر کارکنوں کی خدمات حاصل کرسکتی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس کمیٹی کے صدر ملکارجن کھرگے نے بدھ کے روز مودی حکومت پر مزدور مخالف اور سرمایہ دارانہ ہونے کا الزام لگاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حال ہی میں لاگو کئے گئے چار لیبر ضابطوں نے مزدوروں کی ملازمت کی سلامتی اور استحکام کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ملکارجن کھرگے کانگریس پارلیمانی پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی، پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے لیڈر راہل گاندھی اور کئی دیگر اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ نے بدھ کو پارلیمنٹ کے احاطے میں لیبر کوڈ کے خلاف احتجاج کیا۔ ملکارجن کھرگے نے بعد میں ایکس پر پوسٹ کیا مودی حکومت مزدور مخالف، ملازم مخالف اور سرمایہ دارانہ حامی ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے آج پارلیمنٹ میں مودی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نئے نافذ کردہ لیبر کوڈ پر سخت اعتراض کیا، نئے کوڈز کے ساتھ کچھ سنگین خدشات ہیں۔
ملکارجن کھرگے نے دعویٰ کیا کہ چھنٹی کی حد کو 100 سے بڑھا کر 300 مزدوروں تک کر دیا گیا ہے، مطلب یہ ہے کہ ہندوستان میں 80 فیصد سے زیادہ فیکٹریاں اب حکومتی منظوری کے بغیر مزدوروں کو فارغ کر سکتی ہیں، جس سے ملازمت کی سلامتی کو نقصان پہنچتا ہے۔ ملکارجن کھرگے نے کہا کہ مقررہ مدت ملازمت میں توسیع سے بہت سی مستقل ملازمتیں ختم ہو جائیں گی اور کمپنیاں اب طویل مدتی فوائد کو چھوڑ کر قلیل مدتی معاہدوں پر کارکنوں کی خدمات حاصل کر سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوڈ کاغذ پر آٹھ گھنٹے کام کے اوقات کو لازمی قرار دیتا ہے، لیکن 12 گھنٹے کی شفٹوں کو بھی لاگو کیا جا سکتا ہے، اس سے تھکاوٹ اور حفاظتی خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
کانگریس کے صدر نے کہا کہ کوڈ تارکین وطن کے لئے حفاظتی اقدامات کو بڑھانے، نقل مکانی کے الاؤنسز کو ہٹانے اور 18 ہزار روپئے کی محدود آمدنی کی حد کو برقرار رکھنے میں ناکام رہتا ہے، جس سے بہت سے تارکین وطن کو تحفظ نہیں ملتا ہے، یہ یقیناً سماجی تحفظ کے اندراج میں رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔ 21 نومبر کو مودی حکومت نے 2020ء سے زیر التواء چار لیبر کوڈز کو نافذ کیا، جس میں مزدور دوست اقدامات جیسے کہ بروقت کم از کم اجرت اور سب کے لئے عالمی سماجی تحفظ شامل ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ملکارجن کھرگے نے مودی حکومت نے کہا کہ لیبر کوڈ
پڑھیں:
بھارتی وزیر دفاع کی ہرزہ سرائی
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی سے لے کر بھارتی حکومت کے وزیروں اور مشیروں کے درمیان پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کا ایک مقابلہ لگا رہتا ہے۔ سب ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے پاکستان کے خلاف بڑھکیں مارتے رہتے ہیں۔
بھارت کے خلاف حالیہ جنگ میں پاکستان کی شاندار فتح نے مودی حکومت کو عالمی سطح پر جس بدنامی اور رسوائی سے دوچارکیا ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مختلف عالمی فورمز پر پاکستان کی فتح، 7 بھارتی طیارے گرانے اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیرکی پیشہ وارانہ فوجی و جنگی مہارت کو خراج تحسین پیش کرتے رہتے ہیں۔ اس نے مودی حکومت کو مزید خجالت و شرمندگی سے دوچار کر رکھا ہے۔
ان کے پاس اپنی ناکامی، شکست اور رسوائیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے منطق و دلیل سے بات کرنے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں۔ مودی حکومت کے پاس اب دو ہی راستے رہ گئے ہیں، اول وہ ہر مقابلے سے راہ فرار اختیار کریں یا پھر شکست کا ذائقہ چکھنے کے لیے تیار رہیں۔ جیساکہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں پاکستانی و بھارتی طلبا کے درمیان ہونے والے مقابلے میں پاکستان کے ذہین و ہونہار طلبا نے زمینی حقائق اور مضبوط دلائل سے بھارتی طلبا سے مقابلہ جیت کر ثابت کر دیا کہ پاکستان ہر مقابلے میں بھارت کو شکست دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
اس مقابلے میں بھارت کے سیاسی پینل نے ’’ ٹاکرہ‘‘ کرنے راہ فرار اختیار کر کے اپنی شکست تسلیم کر لی۔ بھارت کی مودی حکومت کے پاس اپنی خفت مٹانے کا دوسرا راستہ یہ رہ گیا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزامات لگائیں، جھوٹے پروپیگنڈے کریں اور بے سرو پا بیانات دے کر اپنی جھوٹی انا کی تسکین کریں۔ جیساکہ بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ نے اپنے ایک حالیہ اشتعال انگیز بیان میں کہا تھا کہ’’ آج شاید سندھ کی سرزمین انڈیا کا حصہ نہیں، لیکن تہذیبی طور پر سندھ ہمیشہ انڈیا کا حصہ رہے گا اور جہاں تک زمین کی بات ہے تو سرحدیں بدل بھی سکتی ہیں۔ کیا پتا کل پھر سندھ انڈیا میں واپس آ جائے۔‘‘
بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ کے اس بیان پر پاکستان میں سیاسی، سفارتی اور عوامی سطح پر سخت ردعمل ظاہرکیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی قومی اور سندھ اسمبلی میں بھارتی وزیر دفاع کے متذکرہ اشتعال انگیز بیان کے خلاف جمعرات کو مذمتی قراردادیں منظور کی گئی ہیں۔ قراردادوں میں کہا گیا ہے کہ ’’ صوبہ سندھ پاکستان کا حصہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ بھارتی وزیر دفاع کا بیان پاکستان کی خود مختاری پر حملہ ہے۔‘‘ سندھ اسمبلی میں منظور کی گئی قرارداد کے حوالے سے اراکین نے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اس قرارداد کو دنیا بھر میں بھیجے اور بتایا جائے کہ بھارت سندھو دریا پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔
پاکستان میں ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ اور ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی کی ہدایت پر ملک بھر کی محب وطن ہندو کمیونٹی نے بھارتی وزیر دفاع کو اپنا بیان واپس لینے کے لیے تین دن کا الٹی میٹم دیا ہے۔
بصورت دیگر بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے دھرنا دیا جائے گا۔ پاکستان ہندو کونسل کے صدر پرشوتم رمانی کی قیادت میں کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا جس میں سول سوسائٹی، طلبا اور میڈیا سمیت مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کرکے ثابت کیا کہ بھارت کے خلاف نہ صرف پاک فوج اور حکومت بلکہ پاکستان کے محب وطن عوام بھی کندھے سے کندھا ملا کر متحد و منظم کھڑے ہیں اور بھارت کے ہر منفی ہتھکنڈے کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ جیساکہ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ملکی سیکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، ہماری سب سے بڑی طاقت قومی یکجہتی ہے اور ہم سب مل کر دشمن کے ناپاک عزائم کو ناکام بنائیں گے۔
بھارت کی مودی سرکار کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر اس نے پاکستان کے خلاف کوئی بھی اشتعال انگیزی کی کوشش کی، تو اسے منہ توڑ اور 10 مئی 2025 سے زیادہ مہلک اور خوفناک جواب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آزاد کشمیر اور سندھ پر قبضے کا خواب دیکھنے والی مودی حکومت کو مقبوضہ کشمیر سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔کشمیریوں پر بھارتی فوج کے مظالم ایک دن 10 مئی جیسے عبرت ناک انجام سے دوچار ہوں گے۔
کشمیریوں کی جدوجہد آزادی ایک دن رنگ لائے گی اور مقبوضہ کشمیر آزاد ہو کر پاکستان کا حصہ بنے گا۔ پاکستان اپنی شہ رگ کے حق سے کبھی دستبردار نہیں ہو سکتا۔ مودی سرکار کے وزیروں اور مشیروں کو اپنے داخلی انتشار پر توجہ دینی چاہیے۔ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی اور اشتعال انگیزی خود بھارت کے لیے نقصان دہ ہوگی۔