کوئی بھی فرد جو قومی سلامتی کو خطرہ پہنچائے اسے ملک بدر کیا جائیگا: امریکا
اشاعت کی تاریخ: 2nd, December 2025 GMT
واشنگٹن (نیوزڈیسک) ترجمان وائٹ ہاؤس کیرولین لیویٹ نے کہا کہ کوئی بھی فرد جو قومی سلامتی کو خطرہ پہنچائے اسے ملک بدر کیا جائے گا۔
ترجمان وائٹ ہاؤس کیرولین لیویٹ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ہفتے واشنگٹن ڈی سی میں افغان شہری نے دہشتگرد حملہ کیا، بائیڈن انتظامیہ اس غیر ملکی دہشتگرد کی درست جانچ میں ناکام رہی، صدرٹرمپ افغانستان سے آنے والوں کی درخواستوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔
کیرولین لیویٹ نے کہا کہ اب بڑے پیمانے پر لوگوں کو ملک سے نکالنا پہلے سے زیادہ ضروری ہے، صدرٹرمپ نے اقتدار میں آکر ملکی سرحد کو محفوظ بنایا، صدرٹرمپ نے افغانستان سمیت 19 ممالک پر سفری پابندیاں عائد کی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ صدر کے اقدامات سے غیر قانونی امیگریشن میں تاریخی کمی ہوئی، صدر ٹرمپ بالکل ٹھیک ہیں، ایم آر آئی رپورٹ نارمل ہے، پیٹ ہیگسیتھ وینزویلا میں حملوں کے بارے میں کانگردس کے اراکین سے بات کر چکے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کہا کہ
پڑھیں:
امریکہ عالمی امن اور سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے، ایران
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے عالمی امن اور سلامتی کے خلاف امریکہ کے اقدامات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ عالمی امن اور سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے جبکہ اس کی جانب سے وینزویلا کے خلاف طاقت کا ننگا استعمال دیکھا جا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے ہفتہ وار پریس کانفرنس کے دوران اس بات پر زور دیا کہ امریکہ اپنے خطرناک اقدامات کے ذریعے عالمی امن اور سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا: "کسی ملک کی جانب سے دوسرے ملک کی فضائی حدود کو نو فلائی زون قرار دینے کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ نے وینزویلا کے ساتھ ایسا کیا ہے جو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اسی طرح امریکہ نے افریقی ممالک کو دھمکی دی ہے اور ان پر گروپ 20 میں شرکت پر پابندی عائد کر دی ہے جبکہ ہمارے خطے میں غاصب صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات کی بھرپور حمایت کرتا چلا آ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو چاہیے کہ وہ امریکہ کے اقدامات کو عالمی امن اور سلامتی کے خلاف قرار دے۔ امریکہ کے اقدامات کچھ دیگر کھلاڑیوں کے لیے رول ماڈل بنتے جا رہے ہیں اور اس کا نقصان تمام ممالک کو برداشت کرنا پڑے گا۔" انہوں نے غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے درپیش خطرات کے بارے میں کہا: "خطے کا اہم مسئلہ بدستور غاصب صیہونی رژیم کے اقدامات سے درپیش خطرات اور لبنان اور شام میں اس کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی ہے۔"
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا: "لبنان اور غزہ میں جنگ بندی کے باوجود صیہونی رژیم کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں میں تیزی سے شدت آ رہی ہے اور وہ اب تک سینکڑوں خلاف ورزیاں انجام دے چکا ہے۔ غزہ میں اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیاں 600 تک ہو چکی ہیں جبکہ ہر خلاف ورزی کے نتیجے میں بے گناہ انسان قتل ہو رہے ہیں اور بدقسمتی سے بین الاقوامی ادارے اس کی روک تھام کے لیے موثر اقدام انجام دینے سے قاصر ہیں۔" اسماعیل بقائی نے سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ کے دورہ ایران کے بارے میں کہا: "سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ کا دورہ ایران اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جو دو سال پہلے شروع ہوا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ کے حالیہ دورے میں دو طرفہ تعلقات کے ساتھ ساتھ علاقائی مسائل جیسے فلسطین، لبنان اور شام سے متعلق امور زیر بحث لائے گئے ہیں۔ دونوں ممالک باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہیں تاکہ مغربی ایشیا خطے میں استحکام بڑھایا جا سکے۔"
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اسرائیل کی جانب سے لبنان سے جنگ بندی معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "اب تو یہ بات مشہور ہو چکی ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کرتا ہی اس لیے ہے تاکہ بعد میں اس کی خلاف ورزی کرے۔ اقوام متحدہ کے رپورٹرز کے مطابق اسرائیل اب تک لبنان سے جنگ بندی کی 10 ہزار مرتبہ خلاف ورزی کر چکا ہے۔ صیہونی حکمران کسی معاہدے کی پابندی نہیں کرتے اور اعلانیہ طور پر جنگ بندی کی نفی کرتے ہیں۔ اسرائیل نے جنگ بندی کو محض لبنانی عوام کے مزید قتل و غارت کے لیے استعمال کیا ہے۔ صیہونی رژیم نے لبنانی شہریوں کی ترقی اور فلاح و بہبود کو نشانہ بنا رکھا ہے اور موجودہ حالات جنگ بندی کے ضامن ببنے والوں کی ذمہ داریوں میں اضافہ کر دیتے ہیں۔" اسماعیل بقائی نے جوہری توانائی کے پرامن مقاصد کے لیے استعمال کو ایران کا مسلمہ حق قرار دیتے ہوئے کہا: "ایران جو کام کر رہا ہے وہ اس حق سے بہرہ مند ہونے پر زور دینا ہے جو این پی ٹی معاہدے کی روشنی میں اسے حاصل ہے۔ ہمارے مدمقابل کو چاہیے کہ وہ طاقت کے استعمال سے پرہیز کرے۔ ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ این پی ٹی معاہدے کی روشنی میں ایران کے مسلمہ حقوق تسلیم کیے جائیں۔"