پاک افغان طورخم بارڈر 9 ویں روز بھی بند، تاجر اور ٹرانسپورٹرز پریشان
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
کوئٹہ ( نیوزڈیسک) کشیدگی اور تناؤ کی صورتحال کے باعث پاک افغان طورخم بارڈر کی بندش کو 9 روز گزر گئے۔
پاک افغان بارڈر طورخم بندش سے دو طرفہ تجارت اور پیدل آمدورفت تاحال معطل ہے، بارڈر بندش سے سرحد کے دونوں جانب اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا، پاک افغان شاہراہ پر گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں۔
حالیہ کشیدگی اور تناؤ کی صورتحال سے دونوں جانب کے تاجر اور ٹرانسپورٹرز انتہائی پریشان ہیں، مال بردار گاڑیوں میں لدا سامان خراب اور مزید سامان خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
تاجر اور ٹرانسپورٹرز کا کہنا ہے کہ پاک افغان بارڈر تناؤ کو بامعنی مذاکرات کے ذریعے حل نکالا جائے، پاک افغان بارڈر پر کشیدگی کسی ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پاک افغان
پڑھیں:
پاک افغان جنگ کے حوالے سے قبائل رضاکاروں کی دفاعی تیاریاں
اسلام ٹائمز: کرم کے سرحدی علاقوں، تری منگل، بغدے، خرلاچی، شنہ درگہ (جھنڈو سر) اور شورکی بارڈر پر جھڑپیں سامنے آرہی ہیں۔ پہلے دن حملے میں دو مقامات پر پاکستانی چیک پوسٹوں پر رات کو حملہ ہوا۔ ایک تری کے علاقے میں، دوسرا مالی خیل کے علاقے میں واقع تھا۔ تری کے قریب چیک پوسٹ میں 7 فوجی جان بحق ہوئے، جبکہ جھنڈو سر مالی خیل چیک پوسٹ میں دو افراد جاں بحق جبکہ ایک زخمی ہوگیا۔ دونوں پر طالبان نے قبضہ کرلیا۔ تاہم مقامی رضاکاروں کی فوری امداد پر دونوں چیک پوسٹوں پر دوبارہ قبضہ کرلیا گیا۔ تحریر: ایس این حسینی
وطن عزیز پاکستان کے مغربی بارڈر پر گذشتہ ایک ہفتے سے تعلقات کشیدہ ہیں۔ جگہ جگہ جھڑپوں کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ کے پی کے تمام قبائلی علاقہ جات اس صورتحال سے متاثر ہوچکے ہیں۔ کے پی کے علاوہ بلوچستان کا بارڈر بھی متاثر ہے۔ دونوں جانب سے اپنی کامیابی اور فریق مخالف کے نقصان کے دعوے سامنے آرہے ہیں، جبکہ عوام کو حقیقت کا کوئی علم نہیں ہوتا، وہ میڈیا ہی کے توسط سے معلومات حاصل کرتے ہیں۔ کونسی خبر درست، کونسی غلط ہے، اس کا صحیح اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔
کرم بارڈر کے حالات:
آتے ہیں کرم کے سرحدی حالات کی جانب، کرم کے سرحدی علاقوں، تری منگل، بغدے، خرلاچی، شنہ درگہ (جھنڈو سر) اور شورکی بارڈر پر جھڑپیں سامنے آرہی ہیں۔ پہلے دن حملے میں دو مقامات پر پاکستانی چیک پوسٹوں پر رات کو حملہ ہوا۔ ایک تری کے علاقے میں، دوسرا مالی خیل کے علاقے میں واقع تھا۔ تری کے قریب چیک پوسٹ میں 7 فوجی جان بحق ہوئے، جبکہ جھنڈو سر مالی خیل چیک پوسٹ میں دو افراد جاں بحق جبکہ ایک زخمی ہوگیا۔ دونوں جگہوں پر طالبان نے قبضہ کرلیا۔ تاہم مقامی رضاکاروں کی فوری امداد پر دونوں چیک پوسٹوں پر دوبارہ قبضہ کرلیا گیا۔ جھنڈو سر چیک پوسٹ کے ساتھ باڑ لگی ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق طالبان نے آدھی رات کو سیڑھی لگا کر باڑ کراس کی۔ چیک پوسٹ کے اندر نفری کم ہونے کی وجہ سے کما حقہ مزاحمت نہ ہوسکی۔ دو افراد نے قریب واقع مالی خیل کی آبادی میں آکر حالات کی اطلاع پہنچائی، مالی خیل نے 40 جوانوں کا لشکر لیکر مورچہ طالبان سے واپس لیا۔
اسی دوران حکومت نے کرم کے طوری بنگش قبائل کے عمائدین خصوصاً انجمن اور تحریک حسینی کے ساتھ مشترکہ جرگے رکھے اور ان سے رضاکاروں کی فوری فراہمی کی گزارش کی۔ 17 اکتوبر کو خرلاچی بارڈر کے قریب طالبان کی بھاری نفری کے ساتھ نقل و حرکت اور انٹیلی جنس کے توسط سے اندازہ لگایا گیا کہ خرلاچی این ایل سی پر حملہ ہونے والا ہے، جبکہ وہاں پر تعینات فوجی نفری ان کے مقابلے کے لئے ناکافی ہے، چنانچہ کچکینہ، شنگک، بوڑکی، بغدے اور خرلاچی سے تقریباً 2000 رضاکار فورس تشکیل دیکر بارڈر پہنچائی گئی۔ سرحد پر مضبوط دفاعی پوزیشن پاکر رات کا ممکنہ خطرہ ٹل گیا اور کوئی جھڑپ نہیں ہوئی۔
ادھر پیواڑ علی منگولہ قلعے میں فوجی افسران کی پیواڑ کے مقامی عمائدین کے ساتھ مشترکہ میٹنگ ہوئی اور گوی سرحد پر پیواڑ کے طوری قبائل کی کمک طلب کی گئی، تاہم اہلیان پیواڑ نے اس خاص مقام پر کمک سے معذرت کرتے ہوئے وضاحت کی، کہ یہ علاقہ منگل کے وسط میں واقع ہے۔ منگل ایک طرف افغان اور طالبان نواز قبیلہ ہے، دوسری جانب پیواڑ کے طوری قبیلے کے ساتھ ان کی دیرینہ دشمنی رہی ہے۔ چنانچہ اس وقت انہیں افغان طالبان سے کچھ زیادہ ان مقامی منگلان سے خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ تاہم اہلیان پیواڑ نے فوج کو یہ پیشکش کی کہ گوی کے علاوہ ملکی دفاع کیلئے جہاں کہیں ضرورت پڑے، وہ ہر دم تیار ہونگے۔
موجودہ سرحدی معاملات کے حوالے سے کنج علی زئی میں بھی عمائدین اور کمیٹی ممبران کا مشترکہ جرگہ ہوا اور خرلاچی تا بغدے ملکی سرحد کی حفاظت کے لئے روزانہ کی بنیاد پر 40 تا 50 رضاکاروں کا شیڈول ترتیب دیا گیا۔ دوسری جانب اہم اور ذمہ دار افراد نے طوری قبیلہ سے کمک کی خصوصی گزارش کرتے ہوئے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ طالبان کے مقابلے میں طوریوں کے علاوہ دیگر قبائل پر اتنا اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا آپ اپنی نفری چوبیس گھنٹے آمادہ اور چوکس رکھیں۔ طوری بنگش عمائدین نے ملکی دفاع کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اپنی سرحدوں کا دفاع ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ خدا نخواستہ اگر فوج یہاں سے پسپائی اختیار کرتی ہے، یا یہ علاقہ چھوڑتی ہے، تو بھی بیرونی حملہ آوروں سے ہم اپنے علاقے کا دفاع کریں گے۔ خیال رہے کہ کل سے سرحدی حالات پرسکون ہیں۔ تاہم تجارت کیلئے سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ سامان سے لدی بڑی گاڑیاں مالی کلے سے لیکر شنگک تک سڑک پر کھڑی ہیں۔