Islam Times:
2025-12-04@07:06:04 GMT

پاک افغان جنگ کے حوالے سے قبائل رضاکاروں کی دفاعی تیاریاں

اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT

پاک افغان جنگ کے حوالے سے قبائل رضاکاروں کی دفاعی تیاریاں

اسلام ٹائمز: کرم کے سرحدی علاقوں، تری منگل، بغدے، خرلاچی، شنہ درگہ (جھنڈو سر) اور شورکی بارڈر پر جھڑپیں سامنے آرہی ہیں۔ پہلے دن حملے میں دو مقامات پر پاکستانی چیک پوسٹوں پر رات کو حملہ ہوا۔ ایک تری کے علاقے میں، دوسرا مالی خیل کے علاقے میں واقع تھا۔ تری کے قریب چیک پوسٹ میں 7 فوجی جان بحق ہوئے، جبکہ جھنڈو سر مالی خیل چیک پوسٹ میں دو افراد جاں بحق جبکہ ایک زخمی ہوگیا۔ دونوں پر طالبان نے قبضہ کرلیا۔ تاہم مقامی رضاکاروں کی فوری امداد پر دونوں چیک پوسٹوں پر دوبارہ قبضہ کرلیا گیا۔ تحریر: ایس این حسینی

وطن عزیز پاکستان کے مغربی بارڈر پر گذشتہ ایک ہفتے سے تعلقات کشیدہ ہیں۔ جگہ جگہ جھڑپوں کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ کے پی کے تمام قبائلی علاقہ جات اس صورتحال سے متاثر ہوچکے ہیں۔ کے پی کے علاوہ بلوچستان کا بارڈر بھی متاثر ہے۔ دونوں جانب سے اپنی کامیابی اور فریق مخالف کے نقصان کے دعوے سامنے آرہے ہیں، جبکہ عوام کو حقیقت کا کوئی علم نہیں ہوتا، وہ میڈیا ہی کے توسط سے معلومات حاصل کرتے ہیں۔ کونسی خبر درست، کونسی غلط ہے، اس کا صحیح اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔

کرم بارڈر کے حالات:
آتے ہیں کرم کے سرحدی حالات کی جانب، کرم کے سرحدی علاقوں، تری منگل، بغدے، خرلاچی، شنہ درگہ (جھنڈو سر) اور شورکی بارڈر پر جھڑپیں سامنے آرہی ہیں۔ پہلے دن حملے میں دو مقامات پر پاکستانی چیک پوسٹوں پر رات کو حملہ ہوا۔ ایک تری کے علاقے میں، دوسرا مالی خیل کے علاقے میں واقع تھا۔ تری کے قریب چیک پوسٹ میں 7 فوجی جان بحق ہوئے، جبکہ جھنڈو سر مالی خیل چیک پوسٹ میں دو افراد جاں بحق جبکہ ایک زخمی ہوگیا۔ دونوں جگہوں پر طالبان نے قبضہ کرلیا۔ تاہم مقامی رضاکاروں کی فوری امداد پر دونوں چیک پوسٹوں پر دوبارہ قبضہ کرلیا گیا۔ جھنڈو سر چیک پوسٹ کے ساتھ باڑ لگی ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق طالبان نے آدھی رات کو سیڑھی لگا کر باڑ کراس کی۔ چیک پوسٹ کے اندر نفری کم ہونے کی وجہ سے کما حقہ مزاحمت نہ ہوسکی۔ دو افراد نے قریب واقع مالی خیل کی آبادی میں آکر حالات کی اطلاع پہنچائی، مالی خیل نے 40 جوانوں کا لشکر لیکر مورچہ طالبان سے واپس لیا۔

اسی دوران حکومت نے کرم کے طوری بنگش قبائل کے عمائدین خصوصاً انجمن اور تحریک حسینی کے ساتھ مشترکہ جرگے رکھے اور ان سے رضاکاروں کی فوری فراہمی کی گزارش کی۔ 17 اکتوبر کو خرلاچی بارڈر کے قریب طالبان کی بھاری نفری کے ساتھ نقل و حرکت اور انٹیلی جنس کے توسط سے اندازہ لگایا گیا کہ خرلاچی این ایل سی پر حملہ ہونے والا ہے، جبکہ وہاں پر تعینات فوجی نفری ان کے مقابلے کے لئے ناکافی ہے، چنانچہ کچکینہ، شنگک، بوڑکی، بغدے اور خرلاچی سے تقریباً 2000 رضاکار فورس تشکیل دیکر بارڈر پہنچائی گئی۔ سرحد پر مضبوط دفاعی پوزیشن پاکر رات کا ممکنہ خطرہ ٹل گیا اور کوئی جھڑپ نہیں ہوئی۔

ادھر پیواڑ علی منگولہ قلعے میں فوجی افسران کی پیواڑ کے مقامی عمائدین کے ساتھ مشترکہ میٹنگ ہوئی اور گوی سرحد پر پیواڑ کے طوری قبائل کی کمک طلب کی گئی، تاہم اہلیان پیواڑ نے اس خاص مقام پر کمک سے معذرت کرتے ہوئے وضاحت کی، کہ یہ علاقہ منگل کے وسط میں واقع ہے۔ منگل ایک طرف افغان اور طالبان نواز قبیلہ ہے، دوسری جانب پیواڑ کے طوری قبیلے کے ساتھ ان کی دیرینہ دشمنی رہی ہے۔ چنانچہ اس وقت انہیں افغان طالبان سے کچھ زیادہ ان مقامی منگلان سے خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ تاہم اہلیان پیواڑ نے فوج کو یہ پیشکش کی کہ گوی کے علاوہ ملکی دفاع کیلئے جہاں کہیں ضرورت پڑے، وہ ہر دم تیار ہونگے۔

موجودہ سرحدی معاملات کے حوالے سے کنج علی زئی میں بھی عمائدین اور کمیٹی ممبران کا مشترکہ جرگہ ہوا اور خرلاچی تا بغدے ملکی سرحد کی حفاظت کے لئے روزانہ کی بنیاد پر 40 تا 50 رضاکاروں کا شیڈول ترتیب دیا گیا۔ دوسری جانب اہم اور ذمہ دار افراد نے طوری قبیلہ سے کمک کی خصوصی گزارش کرتے ہوئے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ طالبان کے مقابلے میں طوریوں کے علاوہ دیگر قبائل پر اتنا اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا آپ اپنی نفری چوبیس گھنٹے آمادہ اور چوکس رکھیں۔ طوری بنگش عمائدین نے ملکی دفاع کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اپنی سرحدوں کا دفاع ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ خدا نخواستہ اگر فوج یہاں سے پسپائی اختیار کرتی ہے، یا یہ علاقہ چھوڑتی ہے، تو بھی بیرونی حملہ آوروں سے ہم اپنے علاقے کا دفاع کریں گے۔ خیال رہے کہ کل سے سرحدی حالات پرسکون ہیں۔ تاہم تجارت کیلئے سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ سامان سے لدی بڑی گاڑیاں مالی کلے سے لیکر شنگک تک سڑک پر کھڑی ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: چیک پوسٹوں پر کے علاقے میں چیک پوسٹ میں رضاکاروں کی قبضہ کرلیا مالی خیل جھنڈو سر کے ساتھ کرم کے تری کے

پڑھیں:

طالبان حکومت وسطی ایشیا اور عالمی امن کیلئے شدید خطرہ بن چکی

واشنگٹن(ویب زڈیسک) افغان طالبان رجیم نہ صرف وسطی ایشیا بلکہ عالمی امن کے لیے بھی شدید خطرہ بن چکی، افغانستان فتنہ الخوارج، فتنہ الہندوستان، داعش، القاعدہ جیسی عالمی کالعدم دہشت گرد تنظیموں کا گڑھ بن چکا۔

26 نومبر 2025ء کو امریکا کے وائٹ ہاؤس پر فائرنگ کے واقعہ میں افغان نژاد رحمان اللہ لاکانوال ملوث تھا، اس افسوسناک واقعہ میں نیشنل گارڈز کے دو اہلکار ہلاک بھی ہوئے۔

سی این این کے مطابق گرفتار دہشتگرد اس سے قبل افغانستان میں CIA کے لئے کام کر چکا ہے، سی آئی اے کے ڈائریکٹر کے مطابق نیشنل گارڈ پر حملہ کرنے والا دہشتگرد افغانستان میں شدت پسند تنظیموں سے مسلسل رابطے میں تھا۔

واشنگٹن میں افغان شہری جمال ولی نے ورجینیا کے دو پولیس اہلکاروں کو فائرنگ کرکے زخمی کیا، امریکی ہوم لینڈ سیکیورٹی کے مطابق بہت سی افغان شہری اس سے قبل بھی مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے جن کو بائیڈن انتظامیہ کی طرف قانونی حیثیت دی گئی تھی۔

افغان شہری عبداللہ حاجی زادہ اور ناصر احمد توحیدی کو 2024ء کے الیکشن کے دن دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا افغان شہری محمد خروین جو دہشت گردی کی واچ لسٹ میں شامل تھا، اسے 2024ء میں گرفتار کیا تھا افغان شہری جاوید احمدی کو 2025ء میں گرفتار کیا تھا اور اسے دوسرے درجے کے حملے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔

افغان شہری بحراللہ نوری کو مجرمانہ سرگرمیوں پر گرفتار کیا گیا تھا اسی طرح افغان شہری ذبیح اللہ مہمند کو مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

27 نومبر 2025ء کو افغان سرزمین سے ڈرون حملے میں تاجکستان میں تین چینی مزدور ہلاک ہو گئے تھے،یکم دسمبر کو تاجک حکام نے تصدیق کی کہ افغانستان کے ساتھ جھڑپ میں مزید دو چینی مزدور ہلاک ہوئے، افغان شہریوں کی جانب سے یہ دہشت گردانہ حملے وسطی ایشیا، یورپ اور اب امریکا تک پھیل چکے ہیں۔

پاکستان سمیت بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل افغان طالبان رجیم کی دہشت گردوں کے لئے پشت پناہی پر خدشات ظاہر کر چکی ہیں رواں سال پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاک اور گرفتار دہشت گردوں کا تعلق افغانستان ہی سے تھا۔

کے مطابق” اگست 2021ء میں طالبان کے دوبارہ برسراقتدار میں آنے کے بعد سے خطہ بھر میں دہشت گردی کا خطرہ بڑھ گیا۔ آسٹریلوی جریدے کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے شمال و مشرقی علاقوں میں موجود شدت پسند نیٹ ورکس نے اپنے مراکز قائم کر رکھے ہیں امریکی ادارہ برائے امن نے بھی طالبان کی واپسی کے بعد افغانستان کو بین الاقوامی امن کے لئے خطرہ قرار دیا تھا۔

فاکس نیوز کے مطابق 29 نومبر 2025ء کو ٹیکساس میں افغان نژاد محمد داؤد نے سوشل میڈیا پر بم دھماکے کی دھمکی دی، اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم اور SIGAR رپورٹس مسلسل افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی نشاندہی کرتی رہی ہیں اس سے قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں ڈنمارک اور روس نے بھی فتنہ الخوارج کے مذموم عزائم سے عالمی برادری کو خبردار کیا تھا۔

ایران، جرمنی اور دنیا بھر کے بیشتر ممالک شدت پسندی اور دہشت گردی کے باعث افغانیوں کو ملک بدر کر رہے ہیں دنیا بھر میں موجود افغان شدت پسند نظریات عالمی امن کے لئے خطرے کا باعث بن گئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • افغان طالبان نے سرعام پھانسی کا چاند چڑھا دیا
  • طالبان حکومت وسطی ایشیا اور عالمی امن کیلئے شدید خطرہ بن چکی
  • افغان طالبان حکومت وسطی ایشیا اور عالمی امن کے لیے شدید خطرہ بن چکی
  • ایران میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے 10 افغان شہری ایرانی بارڈر گارڈز کی فائرنگ سے ہلاک
  • ایران میں غیر قانونی طور پر داخل ہونیوالے 10 افغان شہری ایرانی بارڈر گارڈز کی فائرنگ سے ہلاک: افغان حکام کا دعویٰ
  • دنیا بھر میں افغان طالبان کے خلاف ماحول بنتا جا رہا ہے
  • پاک افغان کشیدگی، خواب ریزہ ریزہ
  • سعودی عرب میں پاک افغان مذاکرات ؟
  • تاجکستان نے افغانستان سے حملوں میں 5 چینی شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کر دی
  • افغان طالبان کی پالیسیاں درست نہیں، دہشتگرد نیٹ ورکس سے روابط کا خاتمہ ضروری قرار