پاک افغان جنگ کے حوالے سے قبائل رضاکاروں کی دفاعی تیاریاں
اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: کرم کے سرحدی علاقوں، تری منگل، بغدے، خرلاچی، شنہ درگہ (جھنڈو سر) اور شورکی بارڈر پر جھڑپیں سامنے آرہی ہیں۔ پہلے دن حملے میں دو مقامات پر پاکستانی چیک پوسٹوں پر رات کو حملہ ہوا۔ ایک تری کے علاقے میں، دوسرا مالی خیل کے علاقے میں واقع تھا۔ تری کے قریب چیک پوسٹ میں 7 فوجی جان بحق ہوئے، جبکہ جھنڈو سر مالی خیل چیک پوسٹ میں دو افراد جاں بحق جبکہ ایک زخمی ہوگیا۔ دونوں پر طالبان نے قبضہ کرلیا۔ تاہم مقامی رضاکاروں کی فوری امداد پر دونوں چیک پوسٹوں پر دوبارہ قبضہ کرلیا گیا۔ تحریر: ایس این حسینی
وطن عزیز پاکستان کے مغربی بارڈر پر گذشتہ ایک ہفتے سے تعلقات کشیدہ ہیں۔ جگہ جگہ جھڑپوں کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ کے پی کے تمام قبائلی علاقہ جات اس صورتحال سے متاثر ہوچکے ہیں۔ کے پی کے علاوہ بلوچستان کا بارڈر بھی متاثر ہے۔ دونوں جانب سے اپنی کامیابی اور فریق مخالف کے نقصان کے دعوے سامنے آرہے ہیں، جبکہ عوام کو حقیقت کا کوئی علم نہیں ہوتا، وہ میڈیا ہی کے توسط سے معلومات حاصل کرتے ہیں۔ کونسی خبر درست، کونسی غلط ہے، اس کا صحیح اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔
کرم بارڈر کے حالات:
آتے ہیں کرم کے سرحدی حالات کی جانب، کرم کے سرحدی علاقوں، تری منگل، بغدے، خرلاچی، شنہ درگہ (جھنڈو سر) اور شورکی بارڈر پر جھڑپیں سامنے آرہی ہیں۔ پہلے دن حملے میں دو مقامات پر پاکستانی چیک پوسٹوں پر رات کو حملہ ہوا۔ ایک تری کے علاقے میں، دوسرا مالی خیل کے علاقے میں واقع تھا۔ تری کے قریب چیک پوسٹ میں 7 فوجی جان بحق ہوئے، جبکہ جھنڈو سر مالی خیل چیک پوسٹ میں دو افراد جاں بحق جبکہ ایک زخمی ہوگیا۔ دونوں جگہوں پر طالبان نے قبضہ کرلیا۔ تاہم مقامی رضاکاروں کی فوری امداد پر دونوں چیک پوسٹوں پر دوبارہ قبضہ کرلیا گیا۔ جھنڈو سر چیک پوسٹ کے ساتھ باڑ لگی ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق طالبان نے آدھی رات کو سیڑھی لگا کر باڑ کراس کی۔ چیک پوسٹ کے اندر نفری کم ہونے کی وجہ سے کما حقہ مزاحمت نہ ہوسکی۔ دو افراد نے قریب واقع مالی خیل کی آبادی میں آکر حالات کی اطلاع پہنچائی، مالی خیل نے 40 جوانوں کا لشکر لیکر مورچہ طالبان سے واپس لیا۔
اسی دوران حکومت نے کرم کے طوری بنگش قبائل کے عمائدین خصوصاً انجمن اور تحریک حسینی کے ساتھ مشترکہ جرگے رکھے اور ان سے رضاکاروں کی فوری فراہمی کی گزارش کی۔ 17 اکتوبر کو خرلاچی بارڈر کے قریب طالبان کی بھاری نفری کے ساتھ نقل و حرکت اور انٹیلی جنس کے توسط سے اندازہ لگایا گیا کہ خرلاچی این ایل سی پر حملہ ہونے والا ہے، جبکہ وہاں پر تعینات فوجی نفری ان کے مقابلے کے لئے ناکافی ہے، چنانچہ کچکینہ، شنگک، بوڑکی، بغدے اور خرلاچی سے تقریباً 2000 رضاکار فورس تشکیل دیکر بارڈر پہنچائی گئی۔ سرحد پر مضبوط دفاعی پوزیشن پاکر رات کا ممکنہ خطرہ ٹل گیا اور کوئی جھڑپ نہیں ہوئی۔
ادھر پیواڑ علی منگولہ قلعے میں فوجی افسران کی پیواڑ کے مقامی عمائدین کے ساتھ مشترکہ میٹنگ ہوئی اور گوی سرحد پر پیواڑ کے طوری قبائل کی کمک طلب کی گئی، تاہم اہلیان پیواڑ نے اس خاص مقام پر کمک سے معذرت کرتے ہوئے وضاحت کی، کہ یہ علاقہ منگل کے وسط میں واقع ہے۔ منگل ایک طرف افغان اور طالبان نواز قبیلہ ہے، دوسری جانب پیواڑ کے طوری قبیلے کے ساتھ ان کی دیرینہ دشمنی رہی ہے۔ چنانچہ اس وقت انہیں افغان طالبان سے کچھ زیادہ ان مقامی منگلان سے خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ تاہم اہلیان پیواڑ نے فوج کو یہ پیشکش کی کہ گوی کے علاوہ ملکی دفاع کیلئے جہاں کہیں ضرورت پڑے، وہ ہر دم تیار ہونگے۔
موجودہ سرحدی معاملات کے حوالے سے کنج علی زئی میں بھی عمائدین اور کمیٹی ممبران کا مشترکہ جرگہ ہوا اور خرلاچی تا بغدے ملکی سرحد کی حفاظت کے لئے روزانہ کی بنیاد پر 40 تا 50 رضاکاروں کا شیڈول ترتیب دیا گیا۔ دوسری جانب اہم اور ذمہ دار افراد نے طوری قبیلہ سے کمک کی خصوصی گزارش کرتے ہوئے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ طالبان کے مقابلے میں طوریوں کے علاوہ دیگر قبائل پر اتنا اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا آپ اپنی نفری چوبیس گھنٹے آمادہ اور چوکس رکھیں۔ طوری بنگش عمائدین نے ملکی دفاع کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اپنی سرحدوں کا دفاع ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ خدا نخواستہ اگر فوج یہاں سے پسپائی اختیار کرتی ہے، یا یہ علاقہ چھوڑتی ہے، تو بھی بیرونی حملہ آوروں سے ہم اپنے علاقے کا دفاع کریں گے۔ خیال رہے کہ کل سے سرحدی حالات پرسکون ہیں۔ تاہم تجارت کیلئے سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ سامان سے لدی بڑی گاڑیاں مالی کلے سے لیکر شنگک تک سڑک پر کھڑی ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: چیک پوسٹوں پر کے علاقے میں چیک پوسٹ میں رضاکاروں کی قبضہ کرلیا مالی خیل جھنڈو سر کے ساتھ کرم کے تری کے
پڑھیں:
امریکہ۔سعودی عرب دفاعی معاہدے کے پس منظر میں، ریاض کا چاہتا ہے؟
اپنی ایک رپورٹ میں نیوز ویک کا کہنا تھا کہ ریاض کے ساتھ دوحہ کی طرز کا معاہدہ، امریکہ کی علاقائی پالیسی میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ جو برسوں کی کشیدگی کے بعد امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان روایتی سلامتی کے تعلقات کو بحال کریگا۔ اسلام ٹائمز۔ سعودی عرب ایک جامع دفاعی معاہدے پر امریکہ کی ٹرامپ انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔ جس کی رو سے ریاض پر ہونے والا کوئی بھی حملہ امریکی سلامتی کے لئے خطرہ تصور کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ، گزشتہ مہینے امریکہ اور قطر کے درمیان ہونے والے معاہدے کی طرز پر ہے۔ جو امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان سیکورٹی و فوجی تعاون کو گہرا کرے گا۔ نیز مشرق وسطیٰ کے استحکام اور دنیا میں امریکہ کی اسٹریٹجک پوزیشن پر دور رس اثرات بھی مرتب کرے گا۔
یہ معاہدہ کیوں اہم ہے؟ تجویز کردہ معاہد، محمد بن سلمان کی طویل المدت امریکی حمایت و حفاظت برقرار رکھنے کی کوششوں کا آئینہ دار ہے۔ سعودی عرب کی سیاسی و عسکری فیصلہ سازی انہی کے کندھوں پر ہے۔ انہوں نے ہی امریکہ کے ساتھ باضابطہ سیکورٹی معاہدے کو ریاض کے لئے کلیدی ترجیح بنایا۔ اس بارے میں نیوز ویک نے فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کے لئے یہ معاہدہ، توانائی، سرمایہ کاری اور سلامتی کے شعبوں میں شراکت داری کے ذریعے، خطے میں چین اور روس کے بڑھتے ہوئے کردار کے مقابلے میں امریکی اثر و رسوخ کو مضبوط بناتا ہے۔ یہ معاہدہ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی کی کوششوں پر بھی اثر انداز ہوگا، جس میں ابراہیم اکارڈ کے ذریعے سعودی عرب کی شراکت بھی شامل ہے۔ ڈونلڈ ٹرامپ نے حال ہی میں اس امید کا اظہار کیا کہ دنیا جلد ہی ابراہیم معاہدے میں توسیع کا مشاہدہ کرے گی۔ انہوں نے اس بابت سعودی عرب کو اس عمل میں ایک اہم ملک قرار دیا۔ دوسری جانب ریاض امید کر رہا ہے کہ اگلے مہینے سعودی ولی عہد کے دورہ وائٹ ہاؤس کے دوران، دونوں ممالک کے درمیان مذکورہ سیکورٹی معاہدہ حتمی شکل میں آ جائے گا۔
مذاکرات سے واقف افراد توقع کرتے ہیں کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک تعاون، مشترکہ دفاعی منصوبہ بندی اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کو مضبوط کرے گا۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فنانشل ٹائمز کو ایک امریکی حکومتی اہلکار نے اس امر کی تصدیق کی کہ سعودی ولی عہد کے دورہ امریکہ کے دوران ایک معاہدے پر دستخط کرنے کے بارے میں بات چیت جاری ہے، تاہم وائٹ ہاؤس اور امریکی محکمہ خارجہ نے اس سلسلے میں کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا۔ حالانکہ امریکی خارجہ پالیسی کے ادارے نے ہمیشہ واشنگٹن و ریاض کے درمیان دفاعی تعاون کو اپنی علاقائی حکمت عملی کی مضبوط بنیاد قرار دیا۔ واشنگٹن نے اعلان کیا کہ وہ اختلافات کو دور کرنے، علاقائی یکجہتی میں مدد کرنے اور دہشت گردوں کے لئے محفوظ پناہ گاہوں کے قیام کو روکنے کے لئے سعودی عرب کے ساتھ کام جاری رکھے گا۔ حالیہ ممکنہ اسٹریٹجک معاہدے کے بارے میں نیوز ویک کی رپورٹ پر، واشنگٹن میں سعودی سفارت خانے نے کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔
قطر معاہدہ
گزشتہ مہینے، امریکہ اور قطر نے ایک دفاعی معاہدے کے ذریعے عہد باندھا کہ قطر پر کسی بھی قسم کے حملے کو امریکی امن و سلامتی کے لئے خطرہ سمجھا جائے گا۔ یہ معاہدہ دوحہ میں حماس کے سیاسی رہنماؤں پر حملے کے چند دن بعد ہوا، جس نے خطے میں کشیدگی کے پھیلاؤ کے خدشات کو بڑھا دیا۔ نیوز ویک نے لکھا کہ ریاض کے ساتھ دوحہ کی طرز کا معاہدہ، امریکہ کی علاقائی پالیسی میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ جو برسوں کی کشیدگی کے بعد امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان روایتی سلامتی کے تعلقات کو بحال کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ 2020ء میں اسرائیل اور کئی عرب ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لئے امریکی ثالثی کے فریم ورک کے طور پر، ابراہیم معاہدوں کے امکانات کو بھی زندہ کرے گا۔
ناکام سعودی کوششیں
قبل ازیں سعودی عرب، سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرنے کی کوشش کر چکا ہے، لیکن یہ کوششیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی پر منحصر تھیں۔ جو حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد ناکام ہو گئیں۔ خاص طور پر غزہ کی جنگ کے بعد، سعودی عرب نے اسرائیل پر نسل کشی کا الزام لگایا اور تل ابیب کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے مشروط کر دیا۔ البتہ صیہونی وزیراعظم نتین یاہو نے اس شرط کی مخالفت کی۔
آئندہ کیا ہوگا؟
رپورٹ کے مطابق توقع ہے کہ محمد بن سلمان کے امریکہ پہنچنے سے پہلے، مذاکرات میں تیزی آئے گی۔ دونوں ممالک کے عہدیدار ایسے رسمی معاہدے پر پہنچنا چاہتے ہیں جو خلیج فارس میں امریکی فوجی عہدوں کو مضبوط کرے اور خطے کی سلامتی کے حتمی ضامن کے طور پر واشنگٹن کے کردار کی توثیق کرے۔ سعودی عرب کے لئے یہ معاہدہ امریکہ کے ساتھ اس کی اسٹریٹجک شراکت کو مضبوط کرے گا اور اس کے عالمی مقام کو بلند کرے گا۔ یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ میں ڈونلڈ ٹرامپ کی نئی پالیسی کی بنیاد ہوگا۔ ایسی پالیسی جو آئندہ سال خطے میں اتحاد کی نئی تعریف پیش کر سکتی ہے۔