ہم نے افغان طالبان کیساتھ بات کی ہے ٹی ٹی پی سے نہیں، خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
فائل فوٹو۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ہم نے افغان طالبان کے ساتھ بات کی ہے ٹی ٹی پی کے ساتھ نہیں کی۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔
جیو کے پروگرام ’’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاک افغان مذاکرات کے ماحول میں تلخی نہیں تھی، قطر اور ترکیہ کے حکام نے مذاکراتی عمل کو قابل اعتبار بنایا، معاہدے پر عمل درآمد کی بات ترکیہ میں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ اگر معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی تو برادر ملک کو کہا جائے گا، مکینزم کے تحت معاہدے پر عمل درآمد ہوگا۔
یہ بھی پڑھیے پاکستان افغانستان سرحدی کشیدگی کے خاتمے کیلئے معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہیں: سعودی عرب پاکستان اور افغانستان متفق ہیں کہ دہشت گردی کا فوری خاتمہ ضروری ہے: خواجہ آصف پاکستان اور افغانستان فوری جنگ بندی پر راضی ہوگئےوزیر دفاع نے کہا کہ ٹی ٹی پی کی قیادت افغانستان میں ہے اس کے شواہد موجود ہیں، افغان سر زمین پر دہشت گرد شہری آبادی میں گھل مل کر رہتے ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ترکیہ اور قطر کا افغان طالبان پر اچھا خاصا اثر ورسوخ ہے، ایک صفحے پر چار پیراگراف پر مشتمل مختصر معاہدہ ہے، کل افغان طالبان یہ نہ کہیں کہ فلاں شہر والے نہیں مان رہے۔
انھوں نے کہا ہم ٹی ٹی پی کے ساتھ قطعی طور پر مذاکرات نہیں کریں گے، ثبوت ہیں کہ دہشت گردوں کو افغانستان کے اندر سے احکامات ملتے ہیں۔
وزیر دفاع نے مزید کہا کہ ہوسکتا ہے ترکیہ میں مذاکرات 25 سے 27 اکتوبر تک جاری رہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: افغان طالبان نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ
پڑھیں:
پاک افغان معاہدہ: دہشتگردی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ کہنے والوں کا ٹی ٹی پی کی حمایت ترک کرنے کا وعدہ
پاکستان اور افغانستان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ ہوگیا جس میں طالبان نے تسلیم کیا کہ وہ پاکستان مخالف عناصر کی حمایت نہیں کریں گے۔ ’دوسرے لفظوں میں طالبان حکومت نے تحریکِ طالبان پاکستان کی سرپرستی کو تسلیم کیا۔‘
معاہدے پر پاکستان کے دوست ممالک جیسا کہ قطر، ترکیہ، عمان اور چین نے مبارکباد دی جبکہ بھارتی وزارتِ خارجہ نے بیان جاری کیا کہ وہ طالبان حکومت کی ٹھوس حمایت جاری رکھیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: پاک افغان جنگ بندی معاہدہ کا عالمی سطح پر خیرمقدم، سیاسی رہنماؤں کی جانب سے بھی تعریف
ایک طرف اِس چیز کو پاکستان کی سفارتی کامیابی سمجھا جا رہا ہے تو دوسری طرف یہ سوالات بھی اُٹھائے جا رہے ہیں کہ افغان تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے معاہدے کو حتمی نہیں سمجھا جا سکتا اور اگر پاکستان کے دشمن ممالک جنگ کے وقفے میں افغانستان کو ہتھیار سپلائی کرتے ہیں تو پاکستان کو ایسی صورتحال سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
افغان وزارتِ داخلہ آج ایک ٹوئٹ کے ذریعے بتایا کہ افغان انسدادِ دہشت گردی پولیس نے افغانستان کے صوبے پراوان میں آپریشن کر کے بڑی تعداد میں اسلحہ اور گولہ بارود ضبط کر لیا۔ افغان انسدادِ دہشتگردی پولیس کی کاروائی ظاہر کرتی ہے کہ افغان طالبان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کو سنجیدگی سے لینا شروع کردیا ہے۔
اس سے قبل قائم مقام افغان وزیرِخارجہ امیر خان متقی نے بھارت میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہشتگردی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور افغانستان کا پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی سے کوئی واسطہ نہیں۔
تاہم قطر معاہدے میں افغان طالبان حکومت نے تسلیم کیا کہ وہ ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد گروہوں کی سرپرستی نہیں کریں گے جو پاکستان کے لیے ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے۔
قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے کو مختلف ماہرین نے مختلف زاویوں سے دیکھا ہے۔ کچھ اسے پاکستان کی حکمت عملی کی کامیابی قرار دیتے ہیں، جبکہ دیگر اسے بغیر کسی فریق کی واضح فتح کے عارضی اور غیر مستحکم سمجھتے ہیں۔ جبکہ پاکستان کے حکومتی عہدیداروں نے معاہدے کو خوش آئند قرار دیا۔
پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان اِس معاہدے کو خوش آئند قرار دیتا ہے اور اِس میں برادر مُلکوں قطر اور ترکیہ کے مثبت کردار کو سراہتا ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم افغانستان کے ساتھ ایک مضبوط اور قابلِ تصدیق نگرانی کا طریقہ کار بنانے کی اُمید رکھتے ہیں، مزید جانوں کے ضیاع کو روکنا ضروری ہے۔
دوسری طرف پاکستان کے وزیردفاع جو اِس معاہدے پر دستخط کر کے آئے ہیں اُن کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین سیز فائر کا معاہدہ طے پاگیا۔ پاکستان کی سرزمین پہ افغانستان سے دہشت گردی کا سلسلہ فی الفور بند ہوگا۔ دونوں ہمسایہ ممالک ایک دوسرے کی سرزمین کا احترام کریں گے۔
انہوں نے کہاکہ 25 اکتوبر کو استنبول میں دوبارہ وفود کی شکل میں ملاقات ہوگی، اور تفصیلی معاملات پر بات ہوگی۔ ہم قطر اور ترکیہ دونوں برادر ممالک کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔
پاکستان کو چوکنا رہنے کی ضروت ہے، خالد نعیم لودھیدفاعی اُمور کے تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد نعیم لودھی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کے پاس صلاحیت ہے کہ وہ طویل عرصے تک روایتی جنگ لڑ سکتا ہے جب کہ افغان طالبان گوریلا جنگ کے ماہر ہیں۔
انہوں نے کہاکہ اگر افغان طالبان کو پاکستان کے دُشمن ممالک نے اسلحے کی فراہمی شروع کر دی تو پھر افغان طالبان بھی طویل جنگ لڑنے کے قابل ہو سکتے ہیں، ایسی صورتحال میں پاکستان کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
معاہدہ خوش آئند لیکن ٹی ٹی پی سے متعلق ذکر ہونا چاہیے تھا، شیریں مزاریپاکستان کی سابق انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے اپنے ایکس پیغام میں کہاکہ دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ خوش آئند ہے لیکن اِس معاہدے میں افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کی حمایت اور اُنہیں محفوظ ٹھکانے مہیّا کرنے کا ذکر نہیں۔
اُنہوں نے کہاکہ کم از کم معاہدے میں افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کی حمایت ختم کرنے کا ذکر ہونا چاہیے تھا۔
دونوں ملکوں کے درمیان مزید بات چیت میں مسئلے کے حل کا میکنزم ڈھونڈا جائےگا، ملیحہ لودھیامریکا میں پاکستان کی سابق سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے معاہدے کو خوش آئند قرار دیا اور کہاکہ قطر اور ترکیہ کی ثالثی سے معاہدہ کامیاب ہوا اور اِس سے پاکستان کو سب سے اہم چیز مل گئی یا مل جائے گی وہ یہ یقین دہانی ہے کہ افغان طالبان اپنی سرزمین سے پاکستان کے خلاف حملہ نہیں ہونے دیں گے اور نہ ہی کسی ایسے گروہ کی حمایت کریں گے جو پاکستان پر حملے کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان کے لیے پاکستان لائف لائن، جنگ کے سبب افغانستان کو کتنا بڑا معاشی نقصان ہورہا ہے؟
انہوں نے کہاکہ دونوں ملکوں کے درمیان ابھی مزید مذاکرات ہوں گے جس میں وہ میکنزم ڈھونڈا جائے گا جس کے تحت اس ساری چیز کی نگرانی کی جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews پاک افغان معاہدہ پاکستان افغانستان جنگ ثالثی ممالک خواجہ آصف دوحہ مذاکرات سیز فائر وزیر دفاع وی نیوز