data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251022-03-6

 

میر بابر مشتاق

’’یہ چند نوجوان تھے جو اپنے ربّ پر ایمان لائے اور ہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کردیا‘‘۔ (کہف: 13) بنگلا دیش میں طلبہ سیاست کی نئی بیداری، چھاترو شبر کی فتوحات کا تسلسل بنگلا دیش کی جامعات میں اسلامی چھاترو شبر کی حالیہ مسلسل کامیابیاں ایک فکری و سیاسی بیداری کی علامت بن چکی ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران جامعہ ڈھاکا، جامعہ جہانگیر نگر، جامعہ چاٹگام اور اب جامعہ راجشاہی میں چھاترو شبر نے طلبہ یونین انتخابات میں نمایاں فتوحات حاصل کر کے یہ ثابت کر دیا کہ نظریاتی سیاست آج بھی نوجوانوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ جامعہ راجشاہی میں چھاترو شبر نے 23 میں سے 20 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، سینیٹ کی پانچ میں سے تین نشستیں جیتیں، جبکہ خواتین امور کی دونوں نشستیں بھی اپنے نام کیں۔ اس سے قبل جامعہ ڈھاکا میں چھاترو شبر نے تاریخی انداز میں بڑی طلبہ جماعتوں کو پیچھے چھوڑا، جامعہ جہانگیر نگر میں نظریاتی بنیادوں پر اتحاد قائم کیا، اور جامعہ چاٹگام میں مسلسل دوسرے سال نمایاں کامیابی حاصل کی۔ یہ فتوحات اس بات کا ثبوت ہیں کہ بنگلا دیش کے تعلیمی اداروں میں نوجوان طبقہ نظریاتی، اخلاقی اور جمہوری شعور کے ساتھ سیاسی عمل میں بھرپور شرکت کر رہا ہے۔ یہ صرف انتخابی نتائج نہیں، بلکہ ایک فکری رجحان کی واپسی ہے۔ ایک ایسا رجحان جو نوجوانوں کو مقصد، نظریہ، اور قیادت کے شعور سے ہم آہنگ کر رہا ہے۔

یہ منظر پاکستان کے تعلیمی و سیاسی تناظر میں گہرا سوال اٹھاتا ہے: کیا پاکستان کے نوجوان بھی اپنی خاموشی توڑنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا یہاں بھی وہ وقت آنے والا ہے جب کیمپسوں سے پھر وہی صدائیں بلند ہوں گی جو کبھی ایوبی آمریت کے خلاف گونجتی تھیں؟ پاکستان کی تاریخ میں طلبہ یونینز محض تنظیمی ادارے نہیں بلکہ سماجی و سیاسی تربیت گاہیں رہی ہیں۔ 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں جب ملک سیاسی انتشار کا شکار تھا، طلبہ سیاست نے ایک نئی توانائی پیدا کی۔ ایوب خان کی آمریت کے خلاف 1968-69 کی عوامی تحریک ہو یا بھٹو کے ابتدائی سیاسی عروج کا زمانہ ہر جگہ طلبہ یونینز نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ لاہور، کراچی، ڈھاکا، پشاور اور کوئٹہ کی سڑکیں نوجوانوں کے نعروں سے گونجتی تھیں۔ یہ وہ دور تھا جب یونیورسٹی کی دیواریں صرف علم کی نہیں، شعور کی علامت بھی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کی سیاست کو عوامی رنگ دینے میں سب سے اہم کردار نوجوانوں کا تھا۔ طلبہ یونینز نے ملک کے سیاسی اُفق پر قیادت پیدا کرنے کی نرسری کا کردار ادا کیا۔ لیکن جب یہ قوت طاقتور ہوئی تو اقتدار کے ایوانوں میں خوف پیدا ہوا۔ 1984ء میں جنرل ضیاء الحق نے طلبہ یونینز پر پابندی لگا دی۔ یہ فیصلہ محض انتظامی نہیں بلکہ سیاسی تھا۔ آمریت کو احساس تھا کہ اگر نوجوان متحد ہوئے تو وہ اقتدار کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن جائیں گے۔ یوں ایک ایسے عمل کا آغاز ہوا جس نے پاکستان کو قیادت کی تربیت سے محروم کر دیا۔

1947ء میں قائم ہونے والی اسلامی جمعیت طلبہ نے پاکستان میں طلبہ سیاست کو ایک فکری و اخلاقی جہت دی۔ جمعیت نے نوجوانوں کو یہ سبق دیا کہ تعلیم صرف نوکری کے حصول کا ذریعہ نہیں بلکہ کردار سازی، خودی کی تعمیر اور قیادت کی تیاری کا میدان ہے۔ جمعیت نے کیمپس میں مطالعہ، مکالمہ، خدمت اور نظم و ضبط کا وہ ماحول پیدا کیا، جس نے ہزاروں نوجوانوں کو فکری طور پر بیدار اور عملی طور پر منظم کیا۔ اسی جمعیت کے تربیت یافتہ نوجوان بعد میں سیاست، صحافت، تدریس، ادب، اور سماجی خدمت کے میدانوں میں نمایاں ہوئے۔ ان کی سوچ میں اجتماعیت، کردار میں ضبط، اور گفتار میں نظریاتی وضاحت پائی جاتی تھی۔ جمعیت نے نوجوانوں کو ’’میں‘‘ سے ’’ہم‘‘ بننے کا درس دیا اور یہی درس ہر فکری تحریک کی روح ہے۔ یہ محض ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک طرزِ حیات تھا، جو طلبہ کو فرد سے جماعت، اور جماعت سے امت کی سطح پر سوچنے کا ہنر سکھاتا تھا۔ 1984ء کے بعد سے طلبہ یونینز پر پابندی نے پاکستانی سماج پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ نوجوان نسل قیادت کی مشق سے محروم ہوگئی۔ جامعات میں وہ فکری مکالمہ جو کبھی معاشرتی تبدیلی کی بنیاد بنتا تھا، بتدریج ختم ہوگیا۔ طلبہ سوسائٹیوں اور غیر سیاسی گروپوں میں بٹ گئے۔ قیادت کا تسلسل ٹوٹا، اور یوں ایک ایسا خلا پیدا ہوا جسے بعد میں خاندانی سیاست، موروثی قیادت، اور مفاداتی گروہوں نے پْر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں سیاسی قیادت کا معیار گر چکا ہے۔ نوجوان جو قیادت کے حقدار تھے، وہ صرف تماشائی بن گئے۔ جبکہ وہی نوجوان جو ماضی میں نظریاتی پلیٹ فارم سے قیادت سیکھتے تھے، آج ان کے لیے سیاست محض ’’نعرہ بازی‘‘ بن کر رہ گئی ہے۔

2008 کے بعد مختلف حکومتوں نے طلبہ یونینز کی بحالی کے اعلانات ضرور کیے، مگر عملی اقدامات سے ہمیشہ گریز کیا۔ حکمران طبقے کو علم ہے کہ اگر نوجوانوں کو متحد پلیٹ فارم میسر آگیا تو وہ کرپٹ سیاسی نظام کو چیلنج کریں گے۔ اسی خوف نے طلبہ کو ہمیشہ خاموش رکھنے کی پالیسی کو جاری رکھا۔ آج جب ہم بنگلا دیش، بھارت اور مغربی ممالک کو دیکھتے ہیں تو ایک واضح تضاد سامنے آتا ہے۔ بھارت میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی جیسے اداروں میں طلبہ یونینز نہ صرف فعال ہیں بلکہ قومی قیادت کی نرسری سمجھی جاتی ہیں۔ بنگلا دیش کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں اسلامی چھاترو شبر جیسے نظریاتی طلبہ گروہ مسلسل کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ جامعہ راجشاہی کی کامیابی نے یہ ثابت کر دیا کہ نوجوان اگر نظریے، نظم و ضبط، اور خدمت کے جذبے سے سرشار ہوں تو وہ انتخابی میدان میں بھی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ راجشاہی کی یہ کامیابی دراصل ایک پیغام ہے؛ پاکستان کے لیے۔ وہی پاکستان جس نے ماضی میں جمعیت کے تربیت یافتہ نوجوانوں کو قومی سطح کی قیادت دی، آج خاموشی میں ڈوبا ہوا ہے۔ لیکن یہ خاموشی دائمی نہیں۔ یہ توقف شاید کسی نئے آغاز سے پہلے کا لمحہ ہے۔ جیسے موسمِ بہار سے پہلے خاموش برف زمین کو ڈھانپ لیتی ہے، مگر اس کے نیچے زندگی سانس لے رہی ہوتی ہے۔

قوموں کی تاریخ اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ نوجوان ہمیشہ تبدیلی کے علمبردار ہوتے ہیں۔یورپ کی نشاۃ ثانیہ، ایران کا انقلاب، اور عرب دنیا کی بیداری؛ ہر جگہ نوجوانوں نے قیادت کی۔ تحریک ِ پاکستان بھی اسی اصول پر قائم ہوئی۔ مسلم طلبہ فیڈریشن کے نوجوانوں نے برصغیر کے سیاسی افق پر وہ طوفان برپا کیا جس نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ آج پاکستان ایک بار پھر ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں قیادت کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔ سیاسی جماعتیں عوامی اعتماد کھو چکی ہیں، نظام زوال کا شکار ہے، اور نوجوان مایوسی کی دلدل میں دھنس رہے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی طبقہ ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے تو وہ نوجوان ہی ہیں۔ مگر یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب انہیں قیادت کا پلیٹ فارم، اظہارِ رائے کی آزادی، اور اجتماعی تربیت کا موقع دیا جائے۔ اسلامی جمعیت طلبہ جیسے ادارے اسی ضرورت کا جواب ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ طلبہ یونینز پر پابندی غیر آئینی، غیر جمہوری، اور غیر اخلاقی ہے۔ یہ صرف طلبہ کا نہیں، قوم کا نقصان ہے۔ کیونکہ جب نوجوان سیاست سے کٹ جاتے ہیں تو ملک مستقبل کی قیادت سے محروم ہو جاتا ہے۔

آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں پر ازسرنو غور کریں۔ طلبہ یونینز کی بحالی محض ایک انتظامی فیصلہ نہیں، بلکہ ایک فکری انقلاب کی شروعات ہوگی۔ یہ نوجوانوں کو ذمے داری، قیادت، اور اجتماعی شعور کا احساس واپس دے گی۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے ہمیشہ نوجوانوں کو یہ سبق دیا کہ انفرادی کامیابی سے بڑھ کر اجتماعی کامیابی ہے۔ ’’میں‘‘ سے ’’ہم‘‘ بننے کا یہی سفر دراصل قوم کی تعمیر کا راستہ ہے۔ اگر ہم نے اپنے نوجوانوں کو یہ موقع فراہم نہ کیا تو ان کی توانائی یا تو مایوسی میں ضائع ہوگی یا غلط سمت اختیار کر لے گی۔

پاکستان کی تقدیر نوجوانوں سے جڑی ہے۔ وہ دن زیادہ دور نہیں جب خاموشی کی چادر چاک ہوگی، اور پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پھر سے نظریہ، عزم اور عمل کی صدائیں بلند ہوں گی۔ اس وقت ان کے نعروں میں صرف ’’میں‘‘ نہیں بلکہ ’’ہم‘‘ کی گونج ہوگی اور یہی وہ لمحہ ہوگا جب پاکستان اپنی اصل منزل کی طرف بڑھنا شروع کرے گا۔ بنگلا دیش کی جامعات میں چھاتروشبر کی فتوحات دراصل ایک اعلان ہیں کہ نوجوان اگر نظریے پر یقین رکھتے ہوں تو وہ تاریخ بدل سکتے ہیں۔ اب یہ پاکستان پر ہے کہ وہ اپنے نوجوانوں کو یہ حق دیتا ہے یا انہیں مزید خاموشی کے اندھیروں میں دھکیلتا ہے۔ فیصلہ قوم کے ہاتھ میں ہے۔ ہم اپنے نوجوانوں پر اعتماد کرنے کے لیے تیار ہیں؟

 

میر بابر مشتاق.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسلامی جمعیت طلبہ نے نوجوانوں کو نوجوانوں کو یہ طلبہ یونینز میں چھاترو چھاترو شبر پاکستان کے نہیں بلکہ بنگلا دیش قیادت کی قیادت کا ایک فکری ہیں بلکہ دیا کہ

پڑھیں:

نوجوانوں کیلئے اسپیشلائزڈ ڈیجیٹل اسکلز پروگرام کا آغاز

وزیراعظم یوتھ پروگرام کے تحت ملک بھر میں نوجوانوں کیلئے اسپیشلائزڈ ڈیجیٹل سکلز ٹریننگ آف ٹرینرز پروگرام کا آغاز کردیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق وزیراعظم یوتھ پروگرام کے چیئرمین رانا مشہود احمد خان نے کہا ہے کہ اسپیشلائزڈ ڈیجیٹل سکلز ٹریننگ آف ٹرینرز پروگرام کے ابتدائی مرحلے میں 200 ٹرینرز کو آن لائن مصنوعی ذہانت، ای کامرس، ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور ڈیٹا اینالٹکس جیسے جدید شعبوں میں تربیت دی جائے گی۔

چیئرمین رانا مشہود نے قومی کمیشن برائے پیشہ ورانہ و تکنیکی تربیت (نیوٹیک) کے ہیڈ کوارٹر میں وزیرِاعظم کے ڈیجیٹل پاکستان وژن کے تحت ’’اسپیشلائزڈ ڈیجیٹل سکلز ٹریننگ آف ٹرینرز ‘‘ پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ پروگرام نوجوانوں کو عالمی معیار کی ڈیجیٹل مہارتیں فراہم کرنے کی طرف بڑا قدم ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام نیوٹیک، یونی سروسز انٹرنیشنل اور آئی ٹی ایم سی چائنا کے اشتراک سے شروع کیا گیا ہے جو پاکستان میں ڈیجیٹل اسکلز کے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ابتدائی مرحلے میں 200 ٹرینرز کو آن لائن تربیت دی جائے گی جنہیں مصنوعی ذہانت، ای کامرس، ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور ڈیٹا اینالٹکس جیسے جدید شعبوں میں سکھایا جائے گا، تربیت مکمل کرنے والوں کو پاکستان اور چین کے معروف اداروں کی مشترکہ اسناد دی جائیں گی۔

رانا مشہود احمد خان نے کہا کہ ’’پریکٹس آف سکلز‘‘ پلیٹ فارم کے ذریعے پاکستانی نوجوانوں اور فری لانسرز کو مفت ڈیجیٹل لرننگ اکاؤنٹس بھی فراہم کیے جائیں گے جس سے ملک میں ڈیجیٹل خواندگی کو فروغ ملے گا۔ انہوں نے نیوای ٹی سی سی اور چینی اداروں کی شراکت کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام پاکستان اور چین کے درمیان ڈیجیٹل تعاون اور انسانی وسائل کی ترقی کو مزید مضبوط کرے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پروگرام پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت پاکستان کے ٹیوٹ کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرے گا۔

تقریب میں یوتھ پروگرام، نیوٹیک ، ٹیوٹ قومی و بین الاقوامی شراکت داروں اور وزارت تعلیم و تربیت کے اعلیٰ ٰحکام نے بھی شرکت کی۔

Tagsپاکستان

متعلقہ مضامین

  • ملک میں جاری بحران فرسودہ نظام اورکرپٹ قیادت کا نتیجہ ہے‘کاشف شیخ
  • جمعیت اتحاد العلما ضلع غربی کا اجلاس مولانا عبدالوحید کی زیر صدارت ہو رہا ہے ، امیر جماعت اسلامی ضلع غربی مدثر انصاری ودیگر بھی شریک ہیں
  • بلوچستان پاکستان کا فخر ہے،ترقی میں نوجوانوں اور عوام کا کردار کلیدی ہے،آرمی چیف
  • پاکستان کو ذمہ دار قیادت اور سنجیدہ سیاسی سوچ کی ضرورت ہے، وزیر مملکت برائے داخلہ
  • حکومت کا 200 نوجوانوں کو مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل مہارتوں کی تربیت دینے کا اعلان
  • نوجوانوں کیلئے اسپیشلائزڈ ڈیجیٹل اسکلز پروگرام کا آغاز
  • نوجوان ووٹرز :سیاست اور جمہوریت کی نئی طاقت
  • سینیٹر مشتاق احمد سے غزہ اور سیاسی صورتحال پر خصوصی انٹرویو
  • کراچی میں سیاسی ہلچل، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے کونسلرز مسلم لیگ (ن) میں شامل