Juraat:
2025-10-22@03:30:38 GMT

سیاست سیرت نبوی ۖ کی روشنی میں

اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT

سیاست سیرت نبوی ۖ کی روشنی میں

محمدآصف

سیاست ایک ایسا علم اور عمل ہے جس کا تعلق معاشرے کے نظم و نسق، اقتدار کی تقسیم اور فیصلہ سازی کے عمل سے ہوتا ہے ۔ یہ حکومت، قوانین اور پالیسیوں کے ذریعے معاشرے کو چلانے کا ایک نظام ہے جس کا بنیادی مقصد عوامی مفاد کو یقینی بنانا ہوتا ہے ۔ سیاست میں مختلف گروہوں،جماعتوں اور اداروں کے درمیان طاقت کی کشمکش بھی شامل ہوتی ہے ، جہاں لوگ اپنے خیالات اور مفادات کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاست کے ذریعے ہی قومی اور بین الاقوامی مسائل پر بحث ہوتی ہے ، قوانین بنائے جاتے ہیں اور معاشرتی انصاف کو یقینی بنایا جاتا ہے ۔ اچھی سیاست وہ ہوتی ہے جو شفافیت، ذمہ داری اور عوامی خدمت پر مبنی ہو، جبکہ خراب سیاست طاقت کے غلط استعمال، کرپشن اور اقلیتی مفادات کو ترجیح دینے کا باعث بن سکتی ہے ۔ اس لیے معاشرے میں سیاسی شعور اور فعال شہری شرکت انتہائی ضروری ہے تاکہ صحیح راستے پر فیصلے کیے جا سکیں۔لغوی طور پر”سیاست”کا مطلب ہے :اصلاح کرنا، امور کی تدبیر کرنا، اور نظام کو بہتر انداز سے چلانا۔
اصطلاحاً سیاست سے مراد وہ علم و فن ہے جو انسانی معاشرے کو نظم و ضبط میں لانے ، قیادت کرنے اور عدل و انصاف قائم کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔
اسلامی سیاست ایک ایسا نظام حکمرانی ہے جو قرآن و سنت کی تعلیمات پر مبنی ہوتا ہے ۔ اس نظام کا بنیادی مقصد معاشرے میں عدل، انصاف اور اللہ کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنا یقینی بنانا ہے ۔ اسلامی سیاست میں حکمرانی کو ایک مقدس امانت سمجھا جاتا ہے جس میں حکمران پر لازم ہے کہ وہ عوام کے حقوق کا تحفظ کرے ، شفافیت سے کام لے اور فیصلوں میں شوریٰ کے اصول کو اپنائے ۔ اسلامی نظام حکومت میں حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ہوتی ہے ، جبکہ حکمران کو عوام کی بھلائی کے لیے کام کرنا ہوتا ہے ۔ یہ نظام خلافت راشدہ کے دور میں اپنی مثالی شکل میں موجود تھا، جہاں حکمرانوں نے عدل، مساوات اور رعایا کے حقوق کو اولین ترجیح دی۔ اسلامی سیاست کا بنیادی فرق جدید جمہوری نظاموں سے یہ ہے کہ یہاں عوامی رائے کو شریعت کے دائرے میں ہی اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔ آج کے دور میں بھی کئی مسلم ممالک اپنے نظام حکومت میں اسلامی اصولوں کو شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم حقیقی اسلامی سیاست وہی ہے جو قرآن و سنت
کے مطابق ہو اور جس میں حکمرانی کو خدمت خلق کا ذریعہ سمجھا جائے ۔
سیرت نبویۖ کی روشنی میں اسلامی سیاست ایک مکمل ضابطہ حیات اور رہنمائی کا نظام پیش کرتی ہے جو عدل، رحمت اور انسانی فلاح پر مبنی ہے ۔ حضور نبی اکرمۖ نے مدینہ منورہ میں قائم کی جانے والی پہلی اسلامی ریاست میں سیاسی نظام کے جو اصول وضع فرمائے ، وہ آج بھی انسانی معاشروں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ آپۖ نے سب سے پہلے مدینہ کے معاہدے کے ذریعے ایک دستوری نظام قائم فرمایا جس میں تمام شہریوں کے حقوق و فرائض واضح کیے گئے ۔ اس معاہدے میں مسلمانوں، یہودیوں اور دیگر اقلیتوں کے درمیان باہمی حقوق و ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا۔ سیاسی نظام میں آپۖ نے شوریٰ کے اصول کو نافذ فرمایا، جیسا کہ غزوہ بدر اور غزوہ خندق جیسے اہم معاملات میں صحابہ کرام سے مشورہ لیا۔ عدل و انصاف کے میدان میں آپۖ نے خود بھی اور اپنے والیوں کو بھی ہدایت فرمائی کہ امیر و
غریب، مسلم و غیر مسلم سب کے ساتھ یکساں انصاف کیا جائے ۔
اقتصادی نظام میں آپۖ نے زکوٰة، صدقات اور دیگر مالی ذمہ داریوں کو منظم شکل دی۔ آپۖ نے فرمایا:”تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور ہر شخص سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھاجائے گا”۔(بخاری) یہی وجہ ہے کہ آپۖ کے دور میں عوام کے حقوق کی پاسداری کو اولیت حاصل تھی۔ خارجہ پالیسی کے معاملات میں آپۖ نے صلح حدیبیہ جیسے معاہدات کے ذریعے مسالمت پسندی کا درس دیا، جبکہ ضرورت پڑنے پر دفاعی اقدامات بھی کیے ۔
سیرت نبویۖ سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی سیاست کا بنیادی مقصد اللہ کی رضا کے ساتھ ساتھ عوامی بھلائی اور معاشرتی عدل کو یقینی بنانا ہے ۔ آج بھی اگر اسلامی ممالک سیرت نبویۖ کے ان سیاسی اصولوں کو اپنائیں تو معاشرے میں استحکام، خوشحالی اور عدل قائم ہو سکتا ہے ۔ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں انفرادی، اجتماعی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی تمام پہلوؤں کی رہنمائی موجود ہے ۔ رسول اللہ ۖ کی سیرتِ طیبہ ہمیں نہ صرف عبادات و اخلاقیات سکھاتی ہے بلکہ ایک عادل، منصف، اور فلاحی حکمران کے طور پر آپ کی سیاست و حکمرانی کا بھی مکمل نمونہ فراہم کرتی ہے ۔
نبی کریم ۖ کی سیاسی زندگی کے ادوار:
(الف) مکی دور:
مکہ میں آپ ۖ نے ظلم، جاہلیت، طبقاتی نظام اور سیاسی استحصال کے خلاف آواز بلند کی۔ دعوت و اصلاح کے ذریعے ذہن سازی فرمائی۔
(ب) مدنی دور:
مدینہ میں ریاست کا قیام کیا، جس کی بنیاد تقویٰ، مساوات، شوریٰ اور عدل پر رکھی گئی۔ آپ ۖ سربراہِ مملکت، سپہ سالار، منصف اور مصلح کی حیثیت سے نمایاں ہوئے ۔
سیاسی اصول سیرتِ نبوی ۖ کی روشنی میں
(الف) مشاورت:
”وَشَاوِرْہُمْ فِی الْأَمْرِ” (آلِ عمران:159)
آپ ۖ نے تمام اہم معاملات میں صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا، مثلاً بدر، احد، خندق وغیرہ۔
(ب) عدل و انصاف:
”ِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ ”النحل: 90
آپ ۖ نے اپنے قریبی رشتہ داروں پر بھی قانون نافذ کیا۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے
فرمایا:”اگر فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اُس کا ہاتھ کاٹ دیتا”۔
(ج) اقلیتوں کے حقوق:
مدینہ میثاق میں یہود و نصاریٰ کے ساتھ مساوی حقوق طے کیے گئے ۔مذہبی آزادی دی گئی۔
(د) بین الاقوامی تعلقات:
مختلف بادشاہوں کو خطوط لکھ کر دعوتِ اسلام دی گئی۔ جنگوں میں بھی امن کی خواہش ظاہر کی گئی۔
(ہ) اخلاقی قیادت:
”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَة حَسَنَة”الاحزاب: 21
آپ ۖ کی سیاست میں جھوٹ، دھوکہ، منافقت، مفاد پرستی یا ظلم کا کوئی شائبہ نہ تھا۔
1 ۔نبوی سیاست کا تصور:
رسول اللہ ۖ کی سیاست کا مقصد اقتدار یا غلبہ نہیں تھا، بلکہ اللہ کے دین کی بالادستی، عدل وانصاف کا قیام، مظلوموں کا دفاع، اور انسانیت کی فلاح تھا۔ آپ ۖ نے مدینہ میں ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی جو اخوت، مساوات، عدل اور رواداری پر قائم تھی۔قرآن میں فرمایا گیا:
”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَة حَسَنَة”۔۔(الاحزاب 33:21)
ترجمہ:”یقیناً رسول اللہ ۖ تمہارے لیے بہترین نمونہ ہیں”۔
2۔ مدینہ کی ریاست:
سیرتِ طیبہ میں ریاستِ مدینہ پہلی اسلامی حکومت کی مثال ہے :
میثاقِ مدینہ: یہ ایک باقاعدہ تحریری معاہدہ تھا جو مسلمانوں، یہودیوں اور دیگر قبائل کے درمیان طے پایا۔ اس معاہدے سے رسول ۖ نے سیاسی حکمت، بین المذاہب ہم آہنگی، اور سماجی انصاف کی بنیاد رکھی۔ ریاستِ مدینہ میں قانون، امن، اقلیتوں کے حقوق، اور شہری مساوات کو اولین ترجیح دی گئی۔
3۔ عدل و مساوات:
رسول اللہ ۖ کی سیاست عدل پر مبنی تھی۔ آپ نے فرمایا:”تم سے پہلی قومیں اسی لیے تباہ ہوئیں کہ جب ان میں کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیاجاتا، اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد جاری کی جاتی”۔(صحیح بخاری)
4۔ عوامی مشاورت (شوریٰ):
رسول اللہ ۖ ہر اہم فیصلہ مشورے سے کرتے تھے ۔قرآن میں فرمایا گیا:
”وَشَاوِرْہُمْ فِی الْأَمْرِ”۔۔۔(آل عمران 3:159)
ترجمہ: ”اور ان سے مشورہ لیا کرو کاموں میں”۔
غزوہ بدر، احد، اور خندق میں شوریٰ کی مثالیں موجود ہیں۔
5۔ رواداری اور بین المذاہب تعلقات:
رسول اللہ ۖ نے غیر مسلموں کے ساتھ امن، معاہدے ، اور حسن سلوک کی بنیاد پر تعلقات قائم کیے ۔
صلح حدیبیہ اور میثاقِ مدینہ اس کی روشن مثالیں ہیں۔
6۔ حکمت اور تدبر:
نبوی سیاست جذبات نہیں بلکہ حکمت و تدبر پر مبنی تھی۔ مکہ سے مدینہ کی ہجرت، کفارِ مکہ کے
ساتھ معاہدات، اور صلح حدیبیہ ایسے سیاسی فیصلے تھے جن کے دور رس اثرات ہوئے ۔
7۔ قیادت کی صفات:
رسول اللہ ۖ کی قیادت میں یہ صفات نمایاں تھیں:
دیانت و امانت
فہم و تدبر

حلم و برداشت
عدل و مساوات
رحم دلی
آپ نے فرمایا:
”تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہو”۔
مسند احمد
سیرتِ نبوی ۖ ہمیں ایک ایسا سیاسی نمونہ فراہم کرتی ہے جو عدل، امن، خدمت، مشاورت، رواداری،
اور حکمت پر مبنی ہے ۔ نبی کریم ۖ کی سیاست نہ صرف اہلِ اسلام بلکہ پوری انسانیت کے لیے فلاح
و نجات کا ذریعہ ہے ۔ آج کے دور میں اگر ہم نبوی سیاست کے اصولوں کو اپنا لیں تو دنیا بھر میں
عدل و امن قائم ہو سکتا ہے ۔
8۔ فلاحی ریاست کا قیام:
رسول اللہ ۖ نے مدینہ کو صرف ایک سیاسی ریاست نہیں بلکہ ایک فلاحی اسلامی معاشرہ بنایا:
یتیموں، بیواؤں اور غریبوں کی کفالت۔
بیت المال کا قیام اور تقسیمِ زکٰوة۔
تعلیم و تربیت کے لیے صفہ قائم کی گئی۔
عوامی بھلائی کے لیے کنوؤں، راستوں اور بازاروں کی نگرانی۔
قرآن میں فرمایا گیا:
”وَیُؤْثِرُونَ عَلَیٰ أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَة۔۔”۔(الحشر 59:9)
ترجمہ: ”وہ دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں، خواہ خود تنگی میں ہوں”۔
9۔ اقلیتوں کے ساتھ حسنِ سلوک:
سیاستِ نبوی میں اقلیتوں کے حقوق کو مکمل تحفظ حاصل تھا:یہودیوں، عیسائیوں اور مشرکین کے ساتھ معاہدات کیے گئے ۔مذہبی آزادی دی گئی، جب تک وہ ریاست کے خلاف بغاوت نہ کریں۔
آپ ۖ نے فرمایا:
”جس نے کسی ذمی پر ظلم کیا۔۔۔ تو قیامت کے دن میں اس کا مخالف ہوں گا”۔(ابو داؤد)
10۔ حکمران کی ذمہ داری اور جوابدہی:
رسول اللہ ۖ نے حکمرانوں کو عوام کی خدمت گزار کہا، آقا نہیں۔آپ ۖ نے فرمایا:”تم میں سے ہر ایک نگران ہے ، اور اس سے اس کی نگرانی کے متعلق پوچھا جائے گا”۔(صحیح بخاری)
اسلامی سیاست میں حکمران کو ”خادمِ خلق” سمجھا جاتا ہے ، ”بادشاہ”نہیں۔
11۔ اخلاقِ نبوی اور سیاست:
نبی کریم ۖ کی سیاست مکمل اخلاقی بلندی پر قائم تھی:
دشمنوں کے ساتھ بھی وعدے کی پاسداری۔
فتح مکہ پر عام معافی سیاست میں انتقام نہیں، اصلاح و عفو تھا۔
منافقین کے فتنوں کو صبر و حکمت سے قابو میں رکھا۔
12۔ بین الاقوامی سفارت کاری:
رسول ۖ نے دنیا کی بڑی سلطنتوں روم، فارس، حبشہ کے بادشاہوں کو خطوط ارسال کیے اور اسلام کی دعوت دی۔ یہ سفارتی حکمت عملی، عالمی سیاسی شعور کی علامت ہے ۔سفیروں کو مکمل عزت دی گئی، خواہ وہ کفار سے ہی کیوں نہ ہوں۔
13۔ جہاد اور امن کی سیاست:
نبوی سیاست میں جہاد صرف مدافعانہ (defensive)تھا:
مظلوموں کی حمایت، ظلم کے خلاف مزاحمت۔
صلح اور امن کو ترجیح دی گئی ۔صلح حدیبیہ اس کی روشن مثال ہے ۔
جنگ میں بچوں، عورتوں، عبادت گاہوں، فصلوں کو نقصان پہنچانے کی سخت ممانعت۔
14۔ نظمِ حکومت:
رسول اللہ ۖ نے انتظامی امور کے لیے گورنرز، قاضی، عامل (زکٰوة وصول کرنے والے )مقرر کیے ۔
خطوط، حکم نامے ، اور معاہدات کے ذریعے حکومت کو منظم کیا۔
مرکز (مدینہ) اور اطراف کے علاقوں میں عادلانہ نظامِ حکومت قائم کیا۔
15۔ تعلیم اور سیاسی شعور:
سیاست کو علم و فہم کے بغیر نہیں چلایا جا سکتا آپ ۖ نے ہر قبیلے میں معلمینِ دین بھیجے ۔
مسجد نبوی صرف عبادت کی جگہ نہیں، سیاسی مشوروں اور فیصلوں کا مرکز بھی تھی۔
عوام کو سیاسی شعور، حق و باطل کی پہچان اور دین کی حکمت سکھائی۔
16۔ 4۔ نبی کریم ۖ کی سیاست کی نمایاں خصوصیات
مقصدیت پر مبنی قیادت
عوامی فلاح کی جدوجہد
خدمت، شفقت اور تواضع پر مبنی طرزِ حکمرانی
ریاستی اداروں کی تشکیل (معاشی، عدالتی، انتظامی)
16 سیرتِ نبوی ۖ کی روشنی میں موجودہ سیاست کے لیے رہنما اصول
سیاست کو عبادت کا درجہ دینا
ریاست کو امن و عدل کا مرکز بنانا
کرپشن اور ظلم کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات
عوامی شراکت (Participation)اور شوریٰ کی روایت کو فروغ دینا
اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانا
نتیجہ :
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤں کو منظم کرتا ہے ۔ اس میں عبادات کے ساتھ ساتھ سیاست، معیشت، معاشرت اور عدل و انصاف کا بھی مفصل نظام موجود ہے ۔ نبی اکرم ۖ کی حیاتِ طیبہ نہ صرف مذہبی رہنمائی کا ذریعہ ہے بلکہ سیاسی، سماجی اور معاشرتی امور میں بھی اعلیٰ ترین نمونہ ہے ۔ سیرتِ نبوی ۖ سے ہمیں سیاست کے وہ اصول ملتے ہیں جو عدل، رحم، شفافیت، خدمت خلق اور عوامی بھلائی پر مبنی ہیں۔
سیرتِ نبوی ۖ کی روشنی میں سیاست کا ماڈل سراسر عدل، رحمت، مساوات، مشاورت، اور خدمت ِخلق پر مبنی ہے ۔ موجودہ دنیا میں جہاں سیاست اکثر مفاد پرستی اور ظلم پر قائم ہے ، وہاں نبوی ماڈل ایک الہامی نظامِ سیاست کے طور پر اُبھر کر آتا ہے ، جو دنیا و آخرت کی فلاح کی ضمانت دیتا ہے ۔
نبی اکرم ۖ کی سیرت کا ہر پہلو انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے ، خصوصاً سیاست کے حوالے سے آپ ۖ کی زندگی ایک جامع نظام عطا کرتی ہے جو قیامت تک کے لیے قابلِ عمل ہے ۔ اگر آج کے مسلم حکمران، قائدین اور سیاسی جماعتیں سیرتِ نبوی ۖ کو اپنی سیاست کا مرکز بنا لیں تو ظلم، فتنہ، کرپشن، انتشار، اور بدامنی کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے ۔ آج کے دور میں بھی اگرسیرت نبویۖ کے سیاسی اصولوںپر عمل کیا جائے ، تو ایک کامیاب، مستحکم اور عادلانہ ریاست تشکیل دی جا سکتی ہے ۔ البتہ، اس کے لیے حقیقی ایمان، مضبوط ارادے اورعصر حاضر کے تقاضوںکے ساتھ سیرت نبویۖ کوجامع اندازمیں اپنانا ہوگا۔
آج کے جدید دور میں بھی اگر سیرت نبویۖ کے سیاسی اصولوں کو سمجھداری سے اپنایا جائے توایک کامیاب اور فلاحی ریاست تشکیل دی جا سکتی ہے ۔ حضور نبی کریمۖ نے مدینہ منورہ میں جو سیاسی نظام قائم فرمایا، وہ عدل، شفافیت، مشاورت اور انسانی حقوق کا بہترین عملی نمونہ تھا۔ آج بھی اگر حکمران اخلاص کے ساتھ ان اصولوں پر عمل کریں تو معاشرے میں استحکام پیدا ہو سکتا ہے ۔ سیرت نبویۖ سے معلوم ہوتا ہے کہ کامیاب ریاست کے لیے ضروری ہے کہ حکومت امانت سمجھ کر چلائی جائے ، قانون سب پر یکساں لاگو ہو، عوام کے حقوق کا تحفظ کیا جائے اور فیصلے مشورے سے لیے جائیں۔ موجودہ دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ان اصولوں کو جدید اداروں اور ٹیکنالوجی کے ساتھ مربوط کر لیا جائے تو یہ نظام نہ صرف مسلم ممالک بلکہ پوری انسانیت کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ البتہ اس کے لیے حکمرانوں میں دیانت، عوام میں شعور اور اداروں میں مضبوطی کی ضرورت ہے ، تاکہ کرپشن اور خود غرضی جیسے چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: اسلامی سیاست کی روشنی میں عدل و انصاف نبوی سیاست سیاسی اصول اقلیتوں کے سیاسی شعور صلح حدیبیہ ہو سکتا ہے کے دور میں اور سیاسی نے فرمایا سیاست میں کا بنیادی سیرت نبوی رسول اللہ اصولوں کو کو یقینی کے ذریعے کی سیاست کی بنیاد کا ذریعہ سیاست کے سیاست کا ہوتا ہے ہوتی ہے قائم کی کا قیام کرتی ہے کے ساتھ بھی اگر میں بھی کے حقوق اور عدل کیا جا کے لیے اور ان

پڑھیں:

سیاست! حکمت کا ہنر یا جہالت کا شور؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251021-03-3

 

عبید مغل

سیاست دراصل وہ فن ہے جس میں دشمن کو مسکرا کر زیر کیا جاتا ہے، اور قومی مفاد کی حفاظت بغیر تلوار چلائے کی جاتی ہے، مگر یہ فن سب کے بس کی بات نہیں۔ کچھ رہنما اپنی زبان سے قوموں کا وقار بڑھاتے ہیں، اور کچھ اپنی انا سے اسے مجروح کر دیتے ہیں۔ دنیا آج وزیراعظم پاکستان کی سیاست اور حکمت کو داد دے رہی ہے۔ برطانیہ کے گارڈین نے لکھا کہ: ’’ڈونلڈ ٹرمپ کے مغرورانہ رویّے سے دنیا کے تمام رہنما پریشان تھے، مگر اسے جس شخص نے حکمت کے ساتھ سنبھالا، وہ شہباز شریف تھے‘‘۔

یہ تعریف کسی فردِ واحد کی نہیں بلکہ پاکستان کے وقار کی تھی۔ ایک طرف ہمارا ازلی دشمن بھارت ہے جو اس بات پر تلملا رہا ہے کہ پہلے تو پاکستان نے اسے میدانِ جنگ میں دھول چٹائی، اور اب سفارتی محاذ پر بھی کامیابیاں حاصل کر رہا ہے، ساتھ ہی ہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ ہے جسے بھارت کی طرح پاکستان کی ہر کامیابی پر غصہ آتا ہے۔ بھارتی جارحیت کے دوران اس گروہ کے یوٹیوبرز دشمن کے ٹاک شوز میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف مشورے دیتے رہے کہ اے پاکستان دشمنو! تمہارے لیے سنہری موقع ہے، پاکستانی (یعنی پی ٹی آئی کے کارکن) اپنے افواج کے ساتھ نہیں بلکہ ہمارے مجرم لیڈر نمبر 804 کے ساتھ ہے۔ آزاد کشمیر میں بے چینی کی لہر اٹھی تو ان لوگوں نے وہاں بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پاک افغان جنگ سے قبل اسد قیصر نے اپنے ’’کپتان‘‘ جیسی زبان استعمال کرتے ہوئے یہ بڑھک ماری کہ: ’’تمہارا باپ بھی افغانستان پر حملہ نہیں کرسکتا!‘‘، پھر ایک ایسے وقت میں جب پاکستان نے اپنی حکمت ِ  سے عالمی فورم پر مرکز ِ نگاہ بننے کا اعزاز حاصل کیا، تو انھی لوگوں نے اپنے لیڈر کے امریکا اور ٹرمپ نواز بیانات کے گٹر میں جھانکنے کے بجائے وزیراعظم ِ پاکستان پر طعن و تشنیع شروع کر دی جس سے صاف ظاہر ہوا کہ شہباز شریف کے شرم الشیخ کانفرنس میں خطاب پر تنقید کسی سیاسی اختلاف نہیں بلکہ ذاتی عناد کا مظہر تھی۔

اگر امیر ِ جماعت ِ اسلامی حافظ نعیم الرحمن شہباز شریف کے اس عمل پر تنقید کریں تو یہ ان کے شایانِ شان بھی ہے اور جماعت ِ اسلامی کی اْس پْرعزم روایت کا تسلسل بھی، جس نے ہمیشہ دنیا کے سب سے بڑے شیطان کے خلاف کلمہ ٔ حق بلند کیا۔ مگر جس سیاسی گروہ کی ساری امیدیں ہی ٹرمپ سے وابستہ ہیں وہ کس منہ سے وزیراعظم پر تنقید کرسکتے ہیں جب کہ اْن کی اپنی حالت یہ ہے کہ اْن کے ’’کپتان‘‘ کے بچے امریکا میں ٹرمپ سے فریاد کر رہے تھے کہ: ڈونلڈ انکل! ہمارے ابّو کو جیل سے نکال دو!

اب اْن کے پیروکار شہباز شریف پر طنز کر رہے ہیں اور ان کی اصل پریشانی یہ ہے کہ اْنہوں نے پاکستان کے لیے سفارتی کامیابی کیوں حاصل کی! یہی تو اندھی تقلید ہے کہ جس کی وجہ سے ان کو اپنے راہنما کے دوہرے معیار نظر نہیں آتے، وہ وطن کے مفاد میں کی گئی ہر بات میں سازش ڈھونڈ لیتے ہیں۔ یہ ذہنی غلامی کا ایسا خول ہے جس سے وہ باہر ہی نہیں آنا چاہتے۔ انہیں وہی عمل برا لگتا ہے جو پاکستان کے مفاد میں ہو، اور وہی بات اچھی لگتی ہے جو قوم کے لیے نقصان دہ ہو۔ یہ وہ طبقہ ہے جو آئین کی بالادستی، حق گوئی، سچائی اور حقائق پر نہیں بلکہ اپنے کپتان کے پرفریب نعروں کے جادو پر ایمان رکھتا ہے۔

قرآنِ کریم میں سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد ہے: ’’مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور دوست ہرگز مت بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہاں، یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرزِ عمل اختیار کرجائو‘‘۔

یہی وہ اصول ہے جو سیاست میں تقویٰ اور تدبر کا توازن قائم کرتا ہے۔ وزیراعظم ِ پاکستان کا عمل اس قرآنی آیت مبارکہ کے منافی معلوم نہیں ہوتا۔ انہوں نے اسی قرآنی حکمت پر عمل کیا، یعنی نہ دشمنی میں حد سے بڑھے، نہ دوستی میں خودداری بیچ ڈالی۔ اس سے قبل اقوامِ متحدہ میں وزیراعظم کا خطاب، چین سے اظہارِ تشکر، کشمیر و غزہ کے مظلوموں کی وکالت، اور جنگ بندی میں امریکا کے کردار سے متعلق تھا۔ یہ سب اس بات کی مثال ہیں کہ حکمت ہی اصل طاقت ہے اور اسی کا نام سیاست ہے، جہاں کبھی تعریف بھی تلوار سے زیادہ مؤثر ہتھیار بن جاتی ہے۔ مگر دوسری طرف کپتان کی ’’غیرت‘‘ ملاحظہ ہو۔ اب دو برس سے زیادہ گزر گئے مگر اس نے آج تک غزہ کے مظالم پر اپنے سسرال کی مذمت نہیں کی۔ پچھتر ہزار فلسطینی شہید ہو گئے، لاکھوں زخمی اور لاکھوں بے گھر ہو گئے، مگر عمران خان کی زبان یا ٹویٹ پر اسرائیل کے خلاف ایک لفظ نہیں آیا۔ ہاں البتہ! امریکا کے صدر کے لیے تو تعریفی جملے آتے رہے، مگر غزہ کے بچوں کے لیے نہ دکھ، نہ احتجاج، نہ دعا۔

تاریخ خاموش نہیں رہتی۔ وہ پوچھے گی، اور بار بار پوچھے گی: اے کپتان! تْو نے اسرائیل کی مذمت کیوں نہ کی؟ امیر ِ جماعت ِ اسلامی کا یہ سوال اب وقت کے ماتھے پر نقش ہو چکا ہے، اور آنے والی نسلیں عمران خان سے جواب طلب کرتی رہیں گی۔ کیونکہ سیاست صرف کھوکھلے نعروں کا نام نہیں، ذمے داری کا نام ہے۔ قوموں کی عزت جذبات سے نہیں بلکہ حکمت سے بچتی ہے۔ وزیراعظم نے دنیا کو بتایا کہ دشمن سے بھی بات کی جا سکتی ہے، وہ بھی خود جھکے بغیر اور اسے جھکائے بغیر۔ یہی سیاست کا اصل کمال ہے۔

عبید مغل

متعلقہ مضامین

  • بہار اسمبلی انتخابات۔ مودی کا وقار دائو پر
  • آنکھوں میں اندھیرا مگر خواب روشن: حسن ابدال کی اسرا نور کی کہانی
  • نوجوان ووٹرز :سیاست اور جمہوریت کی نئی طاقت
  • سیاست! حکمت کا ہنر یا جہالت کا شور؟
  • دیوالی روشنی اور امید کا تہوار ہے، جو ہمیں باہمی احترام، رواداری اور اتحاد کی اقدار کو فروغ دینے کی یاد دلاتا ہے، سینیٹر اعظم نذیر تارڑ
  • روسی مسلمانوں نے مسجدِ نبوی کے امام کو اعلیٰ ترین اعزاز سے نواز دیا
  • بد انتظامی ،کرپشن و مفادات کی سیاست نے کراچی کو تباہ کردیا،منعم ظفر خان
  • پی پی 148 کے امیدوار چوہدری یونس جٹ کا تحریک لبیک سے علیحدگی کا اعلان
  • آئی سی سی، بھارت کا ترجمان بن گیا،  کھیل کے بجائے سیاست کی زبان بولنے لگا