پاکستان طالبان رجیم سے مذاکرات ضرور کرے مگر بارڈر پر بھی نظر رکھے، اعزاز احمد چوہدری
اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT
پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اور امریکا میں سابق سفیر اعزاز احمد چوہدری نے خبردار کیا ہے کہ افغان طالبان قابل اعتبار نہیں ہیں لہٰذا پاکستان کو چاہیے کہ ان کے ساتھ مذاکرات کے دوران اپنی سرحد کی حفاظت پر بھی مکمل توجہ رکھے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان پر افغانستان میں رجیم چینج کی کوششوں کا الزام بے بنیاد ہے: وزیر دفاع خواجہ آصف
وی نیوز ایکسکلیوسیو میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان کا ماضی کے معاہدوں کا ریکارڈ تسلی بخش نہیں رہا۔ انہوں نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ سنہ 2020 میں طالبان نے امریکا کے ساتھ معاہدہ کیا مگر اس کی بڑی شقوں پر عمل نہیں کیا۔
اعزاز چوہدری نے کہا کہ خواہ تجارت ہو یا مہاجرین کی میزبانی پاکستان نے برسوں تک افغانستان کے ساتھ فراغ دلی دکھائی لیکن اب ان پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو بطور خودمختار ملک تسلیم کرنے کے باوجود پاکستان کے خدشات بجا ہیں کیونکہ بھارت کے اثر و رسوخ نے دونوں ممالک کے درمیان بدگمانی پیدا کی ہے۔
مزید پڑھیے: پاکستان نے قطر اور ترکیہ کی ضمانت پر سیز فائر کیا، طالبان اب ٹھیک ہوجائیں گے، سابق سفیر طارق رشید
تاریخی تناظر بیان کرتے ہوئے اعزاز چوہدری نے بتایا کہ سنہ 1893 میں عبدالرحمان خان نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کیا تھا اور ان کے بعد آنے والی افغان حکومتوں نے بھی اس فیصلے کی توثیق کی مگر وقت کے ساتھ افغانستان میں ایک غلط فہمی پیدا کر دی گئی کہ یہ علاقہ ان کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی غلط فہمی نے دونوں ممالک کے تعلقات کو نقصان پہنچایا۔
’افغانستان نے بھارت سے ہمیشہ اچھے تعلقات رکھے‘ان کے مطابق ماضی سے اب تک افغانستان کی حکومتیں بھارت کے ساتھ قریبی روابط رکھتی آئی ہیں اور بھارت نے ہمیشہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کی۔ انہوں نے جعفر ایکسپریس حملے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس سانحے میں ملوث افراد کے بھارت سے روابط تھے۔
اعزاز چوہدری نے واضح کیا کہ بھارت اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں بلوچستان میں بدامنی پھیلانے میں شامل رہی ہیں جس کے شواہد مختلف عالمی رپورٹس میں موجود ہیں۔
چک ہیگل اور ابی ناشت پالی وال کی تحریروں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت کئی سالوں سے افغانستان کے ذریعے پاکستان کے لیے مسائل پیدا کرتا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: عمران خان کے کہنے پر دہشتگردوں سے مذاکرات نہیں کریں گے، وزیر دفاع خواجہ آصف
اعزاز چوہدری نے افغان حکومت کو دہشتگردی کے مسئلے میں ’پارٹ آف دی پرابلم‘ قرار دیا۔
’افغان طالبان ٹی ٹی پی کے داعش میں شامل ہوجانے کے ڈر سے کوئی کارروائی نہیں کرتے‘ان کے مطابق طالبان انتظامیہ کے پاس صلاحیت کی بھی کمی ہے اور ارادے کی بھی اس لیے وہ ٹی ٹی پی کے خلاف سختی سے کارروائی نہیں کرتی۔ ان کے خیال میں طالبان کو خدشہ ہے کہ اگر وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں گے تو وہ داعش خراسان میں شامل ہو جائیں گے۔
اعزاز چوہدری نے کہا کہ پاکستان کو دو طرفہ حکمت عملی اپنانی ہوگی، ایک طرف سرحدی تحفظ اور دوسری طرف اقتصادی، تعلیمی اور سفارتی معاملات پر محتاط نظر۔
ان کے مطابق دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی نئی حکمت عملی پہلے سے زیادہ مؤثر ہے کیونکہ اب ریاست نے معذرت خواہانہ رویہ چھوڑ کر سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔
اعزاز چوہدری نے کہا کہ آرمی پبلک اسکول پشاور جیسے سانحات نے یہ ثابت کر دیا کہ دہشتگردوں کے ساتھ کسی نرمی کی گنجائش نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’جب تک آپ طاقت کا استعمال نہیں کرتے ڈپلومیسی کامیاب نہیں ہوتی‘۔
’پاک امریکا تعلقات ہمیشہ مفادات کی بنیاد پر رہے‘امریکا کے ساتھ تعلقات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاک امریکا تعلقات ہمیشہ ٹرانزیکشنل نوعیت کے رہے ہیں، یعنی مفادات کی بنیاد پر۔
انہوں نے وضاحت کی کہ جب بھی دونوں ممالک کے مفادات ملے، تعلقات بہتر ہوئے۔ تاہم، بھارت کی حالیہ پالیسیوں نے امریکا کے لیے بھی خدشات پیدا کیے ہیں جس کی وجہ سے واشنگٹن نے دوبارہ پاکستان کی طرف نرم رویہ اختیار کیا ہے۔
اعزاز چوہدری نے کہا کہ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات گہرے، پائیدار اور باہمی احترام پر مبنی ہیں۔
’چین نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا‘ان کا کہنا تھا کہ چین نے ہمیشہ پاکستان کی خودمختاری کا احترام کیا اور مشکل وقت میں سرمایہ کاری کی۔
ان کے مطابق پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی صرف اپنے قومی اور اقتصادی مفادات کی بنیاد پر تشکیل دینی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیے: پاک افغان معاہدہ: دہشتگردی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ کہنے والوں کا ٹی ٹی پی کی حمایت ترک کرنے کا وعدہ
افغان مہاجرین کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اعزاز چوہدری نے کہا کہ سنہ 1980 کی دہائی میں پاکستان نے فراخ دلی دکھاتے ہوئے لاکھوں افغانوں کو پناہ دی لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ان پالیسیوں کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے۔
ان کے مطابق افغانوں کو ملک بھر میں آزادانہ پھیلنے دینا ایک بڑی انتظامی غلطی تھی۔
’افغان طالبان حکومت نہیں رجیم کی طرح برتاؤ کر رہے ہیں‘اعزاز چوہدری نے کہا کہ افغان طالبان ’حکومت‘کے طور پر نہیں بلکہ ’رجیم‘ کے طور پر برتاؤ کر رہے ہیں اور جب تک وہ بین الاقوامی ذمہ داریوں کو قبول نہیں کرتے خطے میں امن ممکن نہیں۔
مزید پڑھیں: افغانستان سے دہشتگردی کا سلسلہ فی الفور بند ہوگا، قطر اور ترکیہ کے مشکور ہیں، خواجہ آصف
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو چاہیے کہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مضبوط، متوازن اور حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی اختیار کرے کیونکہ یہی قومی سلامتی اور علاقائی استحکام کی ضمانت ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان پاک افغان مذاکرات پاکستان ڈیورنڈ لائن سابق سفیر اعزاز احمد چوہدری.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان پاک افغان مذاکرات پاکستان ڈیورنڈ لائن سابق سفیر اعزاز احمد چوہدری اعزاز چوہدری نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ افغان طالبان ان کے مطابق پاکستان کے پاکستان کو کرتے ہوئے ٹی ٹی پی کے ساتھ کے خلاف کے لیے
پڑھیں:
افغانوں کو نہیں، بُرے کو بُرا کہیں
پاکستانی پختون سرکاری دستاویزات میں اپنی قوم افغان لکھتے ہیں۔ افغانستان کی ہر حکومت کی طرح طالبان حکومت کے ساتھ بھی ہمارا بریک اپ چوراہے میں ہوا ہے۔ کوچی جب تھان سے سوٹ پھاڑ کر الگ کرتا ہے تو اک آواز آتی ہے۔ طالبان کےساتھ بریک اپ پر دل پاٹنے کی آواز بھی اس سے ملتی جلتی آئی ہے۔ غصہ اگر افغان طالبان پر ہے تو انہی پر اتاریں سب افغانوں کو ایک لاٹھی سے نہ ہانکیں۔
اپنی شناخت افغان لکھنے والوں کی تعداد افغانستان سے زیادہ پاکستان میں رہتی ہے۔ مسئلے کو بڑھا کر کروڑوں افغانوں تک نہ پھیلائیں۔ اس کو سکیڑ کر 50 ہزار طالبان اور 10، 20 ہزار ٹی ٹی پی تک محدود کریں۔ پاکستان سے بیر رکھنے والے دو، چار فیصد افغانوں کو بھی اس میں شامل کر لیں تو یہ سارے کل ملا کر دو، ڈھائی ملین سے زیادہ نہیں۔ ان میں بھی 98 فیصد منہ سے ہوائی فائرنگ کرنے والوں کی ہے۔ ان میں سے بھی اکثر منہ سے یہ ہوائی فائرنگ ہماری خدمات کے اعتراف میں ہی کرتے ہیں۔
پاکستان کو ایک لفظ میں ڈیفائن کرنا ہو تو یہ ایک سروائیر سٹیٹ ہے۔ ایسی ریاست جس نے ہر حال میں سروائیو کیا ہے۔ ملک کی اکثریتی آبادی الگ ہوئی۔ مارشل لا سہے، جمہوریت کو سر پر لاد کر چلتا رہا۔ اک متفقہ آئین بنایا چلایا۔ جنگیں اور علیحدگی کی تحریکیں بھگتی، دہشتگردی اور مسلح تحریکوں کا سامنا کیا۔ شدت پسندی، فرقہ واریت، نسلی لسانی پنگے دنگے دیکھے۔
یہ وار ہارڈنڈ ملک ہے۔ دنیا میں شاید کوئی دوسری مثال نہیں۔ کسی ملک کی سیکیورٹی فورسز نے اتنی دہائیوں تک ٹھنڈی گرم لڑائیوں کا تجربہ حاصل کر رکھا ہو۔ یہاں آپ کا دل چاہے گا کہ افغانستان کی مثال دیں۔ تو افغانستان کی ریاستی ڈھانچے کا موازنہ کر لیں پاکستان سے۔ وہاں کی اکثریتی آبادی ملک سے باہر بطور مہاجر گھوم رہی ہے اور اب پکڑ پکڑ کر واپس بھی بھجوائی جا رہی ہے۔ دونوں ملکوں کی معیشت کا، رہائشی سہولیات کا، فی کس آمدنی کا، دفاعی قوت کا، ٹیکنالوجی کا، تعلیمی نظام کا، جدت کا کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔
پاکستانیوں نے ایک بات نہیں سیکھی وہ ہے خود پر اعتماد کرنا۔ ہمیں پتہ نہیں کون سی بیماری ہے کہ عدم تحفظ کے وہم جاتے ہی نہیں۔ پاکستان شیعہ آبادی رکھنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ یہ بات ہماری طاقت ہے لیکن ہمارے وہم اور سازشی تھیوریاں اس میں بھی مردانہ کمزوری تلاش کر سکتے۔ پاکستان پختونوں (افغانوں) کی سب سے بڑی آبادی کا حامل ملک ہے، بلوچوں کی سب سے بڑی تعداد کا وطن پاکستان ہے۔ بلوچستان سے زیادہ بلوچ سندھ اور پنجاب میں رہتے ہیں۔ پختوںوں، بلوچوں کا سب سے بڑا شہر کراچی ہے۔ ہم اس طرح آپس میں جڑے ہوئے ہیں کہ ہل جل کر خود دکھا سکتے ہیں لیکن الگ نہیں ہو سکتے۔
افغانستان میں تزویراتی گہرائی کی کھدائی کرنا ہماری خواہش نہیں تھی، حوالدار بشیر کا شوق تھا۔ اب اگر تزویراتی گہرائی والا وظیفہ الٹ گیا ہے اور بھوت پریت نکل کر بے قابو ہیں۔ دیسی طبعیت کا تقاضہ یہی ہے کہ پہلے دل ٹھنڈا کرنے کے واسطے حرام خور نمک حرام وغیرہ وغیرہ کہا جائے اور ٹوں ٹوں بھی کی جائے۔ ایسا کرنا قومی مفاد کا بھی تقاضہ ہے۔ ضرور کریں، کہیں لیکن انہی کو جن کے ساتھ مل کر تزویراتی گہرائی کھود کھود کر گہری کی جا رہی تھی۔ ان باتوں کا فوکس طالبان پر رکھیں افغان پر نہیں۔
طالبان میں بھی کچھ فرق کرنا ضروری ہے۔ کچھ معززین ایسے ہیں جن کو حوالدار بشیر کے ہات اور لات دونوں لگی ہیں۔ ان کی معذوری غصہ اور لاتعلقی سمجھنی چاہیے۔ دوسرے وہ ہیں جو عزت سے پاکستان رہے اور اب بھی ہمارے بارے میں کلمہ خیر کہتے اور اچھا سوچتے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو پاکستان میں پڑھے، اردو سیکھی، ادب پڑھا، پاکستانی اساتذہ کی محبت کے اسیر ہیں اور خاموش ہیں۔ ان کو کسی طرح بولنے اور کردار ادا کرنے پر حوصلہ دینے کی ضرورت ہے۔
آپ جیسے جیسے کیٹیگری بناتے جائیں گے تو اندازہ ہو گا کہ شرپسند کم اور اہل خیر زیادہ ہیں۔ ہمیں ایک اور بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ محمود خان اچکزئی، مولانا فضل الرحمان، اسفندیار ولی خان یا وہ سب جو ریاستی پالیسی سے ہٹ کر بولتے ہیں اور ان کی افغانستان میں سنی جاتی ہے۔ تو یہ سب ہماری طاقت ہیں کمزوری نہیں ہیں۔ ان کا کہیں بھی اثر ہے تو وہ ہم سب کا اثر ہے۔
انڈیا 5 ایمبولینس دے کر افغانستان کو پاکستان کے خلاف کھڑا نہیں کر سکتا۔ ہمیں تھوڑی ہمدردی افغانوں سے بھی کرنی چاہیے۔ لوگوں کی اولاد خراب نکلتی ہے ان کا ابا سوری امیر صاحب پرابلم چائلڈ نکل آئے۔ خواتین کی تعلیم اور کام پر پابندی لگا کر بیٹھے ہیں اور جو سمجھائے اس کہتے ہیں ’نے منم‘ (نہیں مانتا)۔ افغانوں کے دل جیتنے ہیں تو خواتین کے لیے آن لائن تعلیم کا پاکستانی اسکولوں میں انتظام کرا دیں۔ جو لڑکیاں یہاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں، ان کو فیملی سمیت لمبی مدت کے ویزے دے دیں۔ پھر آپ کو بہت سے لوگ افغانستان سے بھی مل جائیں گے جو بتائیں گے کہ صورتحال خراب کرنے والے حرام خور ہیں کون سے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔