data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251022-08-18
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک ) پاکستان ڈیجیٹل لٹیروں کے نشانے پر آگیا، جہاں صارفین کو ہر سال 9 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچ رہا ہے۔بین الاقوامی الائنس کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کو مالیاتی فراڈ سے 9.

3 ارب ڈالر کا سالانہ نقصان ہونے سے جی ڈی پی کا 2.5 فیصد حصہ ضائع ہو رہا ہے۔ ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ عوامی آگاہی ہی مالی اسکیمز سے بچاؤ کا مؤثر ذریعہ ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت کو مالیاتی فراڈ اور ڈیجیٹل اسکیمز کے باعث ہر سال تقریباً 9.3 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے، جو ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا 2.5 فیصد بنتا ہے۔ یہ نقصان آئی ایم ایف کے 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام سے 33 فیصد زیادہ ہے۔یہ انکشاف گلوبل اسٹیٹ آف اسکیمز رپورٹ 2025 ء میں کیا گیا ہے، جو گلوبل اینٹی اسکیم الائنس اور فیڈزائی نے مشترکہ طور پر جاری کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان اْن ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے، جہاں مالیاتی فراڈ معیشت کے لیے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔یہ رپورٹ 42 ممالک کے 46 ہزار بالغ افراد کے سروے پر مبنی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ہر 10 میں سے 7 بالغ افراد گزشتہ سال کسی نہ کسی اسکیم کا شکار ہوئے جب کہ 13 فیصد افراد روزانہ اسکیم کی کوششوں کا سامنا کرتے ہیں۔پاکستان میں اگرچہ فی کس نقصان دیگر ممالک کے مقابلے میں کم یعنی اوسطاً 139 ڈالر فی متاثرہ فرد ہے لیکن مجموعی طور پر یہ نقصان اربوں روپے کے مالیاتی اخراج کا باعث بنتا ہے۔دنیا بھر میں گزشتہ سال کے دوران ایسے اسکیمز سے 442 ارب ڈالر کا نقصان رپورٹ ہوا، جس سے عالمی مالیاتی نظام پر اس کے تباہ کن اثرات نمایاں ہوئے۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ آن لائن خریداری کے فراڈ (54 فیصد)، سرمایہ کاری اسکیمیں (48 فیصد) اور جعلی انعامی اسکیمیں (48 فیصد) دنیا بھر میں سب سے زیادہ عام ہیں۔ اسکیمز کے ذریعے سب سے زیادہ رقوم بینک ٹرانسفرز (29فیصد) اور کریڈٹ کارڈز (18 فیصد) کے ذریعے لوٹی گئیں۔پاکستان ایشیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو ڈیجیٹل اسکیمرز کے لیے آسان ہدف بن چکے ہیں۔ یہاں فراڈیے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں تاکہ صارفین کی محنت کی کمائی لوٹ سکیں۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سینئر جوائنٹ ڈائریکٹر سائبر رسک مینجمنٹ ریحان مسعود کے مطابق مالیاتی فراڈ اور اسکیم میں فرق سمجھنا ضروری ہے۔ ڈیجیٹل بینکنگ اور والٹ اکاؤنٹس کے غلط استعمال کے امکانات اب نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں، کیونکہ اسٹیٹ بینک نے سائبر سیکورٹی کا فریم ورک مزید مضبوط بنا دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اب کوئی بھی بینک اکاؤنٹ غیر شناخت شدہ ڈیوائس سے استعمال نہیں کیا جا سکتا، حتیٰ کہ قانونی و مجاز صارفین کو بھی نئی ڈیوائس پر دو مرحلہ جاتی توثیق اور بائیومیٹرک تصدیق مکمل کرنا ہوتی ہے۔ریحان مسعود کے مطابق ان اقدامات سے اکاؤنٹس کے غلط استعمال کے ذریعے مالیاتی فراڈز کے امکانات 90 فیصد سے زائد کم ہو چکے ہیں، جو آنے والے عرصے میں 100 فیصد تک ختم ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر دھوکا دہی کی وارداتیں اْس وقت کامیاب ہوتی ہیں جب صارفین خود ہی اپنے پن کوڈز یا تصدیقی کوڈز اسکیمرز کے ساتھ شیئر کر دیتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر متاثرین خود اپنی حساس معلومات، جیسے بینک اکاؤنٹس، والٹس اور کارڈ تفصیلات، فراڈیوں کو فراہم کرتے ہیں۔ یہ معلومات بعد میں غیر مجاز لین دین کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔پاکستان میں ڈیجیٹل لین دین کے بڑھتے رجحان کے ساتھ مالیاتی فراڈ کے کیسز میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ملک میں ایس ایم ایس، واٹس ایپ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے جعلی سرمایہ کاری، انعامی اسکیموں اور آن لائن خریداری کے نام پر شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ماہرین کے مطابق دھوکے بازوں کے عام حربوں میں جعلی پارسل کالز، بینک نمائندوں کے نام پر فون کالز یا اکاؤنٹ بند ہونے کی دھمکی والے پیغامات شامل ہیں، جن کے ذریعے صارف سے جلد بازی میں اکاؤنٹ کی تفصیلات، او ٹی پی یا پاس ورڈ حاصل کر کے رقم منتقل کر لی جاتی ہے۔

سیف اللہ

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مالیاتی فراڈ کے مطابق کا نقصان ارب ڈالر کے ذریعے رہا ہے

پڑھیں:

واشنگٹن میں پاکستانی اور ترک وزرائے خزانہ کی ملاقات، پاکستان میں معاشی اصلاحات پر گفتگو

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے آج واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والے آئی ایم ایف-ورلڈ بینک سالانہ اجلاس کے موقع پر ترکی کے وزیر خزانہ و خزانہ امور، مہمت شیمشیک سے ملاقات کی۔

ملاقات کے دوران دونوں وزراء نے پاکستان اور ترکی کی قیادت کے درمیان قریبی اور مسلسل رابطوں کا حوالہ دیتے ہوئے دو طرفہ گہرے تعلقات اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔

سینیٹر محمد اورنگزیب نے پاکستان میں جاری مختلف کلیدی شعبوں میں اصلاحاتی اقدامات پر روشنی ڈالی، جن میں ٹیکس نظام، توانائی کا شعبہ، سرکاری ادارے (SOEs)، نجکاری، اور عوامی مالیاتی نظم و نسق شامل ہیں۔

انہوں نے ورلڈ بینک کے زیر اہتمام ایف بی آر (فیڈرل بورڈ آف ریونیو) کی اصلاحات پر ہونے والے خصوصی پروگرام کا بھی حوالہ دیا، جس میں پاکستان کے ٹیکس نظام کی جدید کاری اور شفافیت کو اجاگر کیا گیا۔

دونوں وزراء نے اتفاق کیا کہ پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح بڑھانے اور مختلف سرکاری اداروں کے درمیان ڈیٹا انٹیگریشن بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ مالیاتی نظم و نسق اور گورننس میں بہتری لائی جا سکے۔

اشتہار

متعلقہ مضامین

  • محض ایک ٹوئٹ نے گوگل کو 100 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا دیا، مگر کیسے؟
  • مشرق وسطیٰ کی معروف کمپنی کی پاکستان کے مالیاتی شعبے میں تاریخی سرمایہ کاری
  • آئی ایم ایف کا انتباہ: حالیہ سیلاب سے پاکستانی معیشت پر منفی اثرات کا خدشہ
  • پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں، درآمدات میں اضافہ برآمدات پر بھاری
  • آن لائن مالیاتی فراڈ سے پاکستان کو سالانہ 9.3 ارب ڈالر کا نقصان
  • ڈیجیٹل لوٹ مار؛ پاکستانی صارفین کو ہر سال 9 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان
  • سیلاب زدہ علاقوں میں30 کروڑ سے زاید کے بجلی بل موخر
  • آئی ایم ایف سے 1.2 ارب ڈالر کی قسط دسمبر تک ملنے کی توقع، وزیر خزانہ کا اعلان
  • واشنگٹن میں پاکستانی اور ترک وزرائے خزانہ کی ملاقات، پاکستان میں معاشی اصلاحات پر گفتگو