چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا ایک سال مکمل، سپریم کورٹ میں کیا کچھ بدلا؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT
سال 2025 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے قرار دیا کہ پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے حصول کی اہل نہیں، سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے، صدرِ مملکت ہائیکورٹ کے جج صاحبان کو ٹرانسفر کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بانی پاکستان تحریکِ انصاف عمران خان کو 9 مئی سے متعلق 8 مقدمات میں ضمانت دی گئی۔
پہلے علی امین گنڈاپور اور اب سہیل آفریدی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر چکے ہیں کہ ان کی عمران خان سے ملاقات کرائی جائے۔ اس کے علاوہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف کیس آئینی بینچ سنے گا یا فُل کورٹ؟ اس پر سماعت جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام صحافیوں کی عالمی تنظیم کا خط، مسئلہ کیا ہے؟
سپریم کورٹ فیصلوں کی خبروں سے ججوں کی خبروں تک2005 میں جب سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے عدلیہ کو غیر فعال کیا گیا تو اُس کے نتیجے میں چلنے والی تحریک اور بعد ازاں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے چیف جسٹس بن جانے کے بعد پاکستان کی سپریم کورٹ اپنے فیصلوں کی وجہ سے مسلسل شہ سرخیوں میں رہتی تھی۔
لیکن 2018 میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے دباؤ کی شکایات، بعدازاں برطرفی اور جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنسز کے بعد سے اِس ضِمن میں یہ تبدیلی آئی کہ فیصلوں کے علاوہ ججز بھی خبروں میں رہنے لگے۔
ججز کے درمیان اختلافات اس قدر شدت اختیار کر گئے کہ ایک دوسرے کے خلاف لکھے جانے والے خطوط، بینچز میں بیٹھنے سے انکار اور سینیارٹی پر شکوے شکایتیں، یہ سب میڈیا کی زینت بنتا رہا۔
گزشتہ سال اکتوبر میں 26ویں آئینی ترمیم کے بعد بھی عدلیہ میں تناؤ کی کیفیت برقرار رہی لیکن آئینی بینچ کے بننے سے پہلے والے تنازعات ختم ہو گئے، جب بینچ میں مخصوص ججوں کی موجودگی پر اعتراضات اُٹھائے جاتے تھے۔
ججز کوڈ آف کنڈکٹ میں تبدیلی کتنی مؤثر18 اکتوبر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت سپریم جوڈیشل کونسل اجلاس میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے لیے ضابطہ اخلاق یا کوڈ آف کنڈکٹ میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں۔
بظاہر یہ ساری تبدیلیاں سپریم کورٹ کی گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئیں۔ ان تبدیلیوں میں ججز کی میڈیا سے بات چیت پر مکمل پابندی، دباؤ کے حوالے سے شکایات پر اندرونی میکنزم اور ساتھی جج صاحبان کے ساتھ ہم آہنگی کا ماحول بنائے رکھنے کے بارے میں بات کی گئی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو جسٹس یحییٰ آفریدی کے سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بننے کے بعد یہ ایک غیر معمولی تبدیلی ہے۔ ججز کوڈ آف کنڈکٹ میں تبدیلیوں کے ذریعے اِس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ججز کو پیدا ہونے والی مشکلات کا ازالہ ادارہ جاتی انصرام کے ذریعے سے کیا جائے اور ججز اپنے مسائل کے حوالے سے میڈیا یا بار کونسل کے پلیٹ فارم استعمال نہ کریں۔
پاکستان کی عدالتی اور سیاسی تاریخ ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور عام طور پر عدلیہ خاص طور پر سپریم کورٹ سے صادر ہونے والے فیصلے ملک کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے گزشتہ سال 26 اکتوبر کو اپنے عہدے کا حلف لیا اور اس مہینے 26 اکتوبر کو ان کے عہدہ کا ایک سال پورا ہو جائے گا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی ترجیحات کیا رہیں؟چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس عرصے میں بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ خود کو سیاسی معاملات سے الگ کرکے انتظامی معاملات پر زیادہ توّجہ مرکوز کی ہے اور انتظامی سطح پر کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں جیسا کہ کیس مینجمنٹ سسٹم میں تبدیلی، جیل اصلاحات، فوجداری مقدمات کی جلد شنوائی، سائلین کے لیے سہولت مرکز وغیرہ۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی ترجیحات کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس میں سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد میں خاطر خواہ کمی، عدالتی نظام کی جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے ساتھ منسلکی، پیپر لیس عدالتی نظام، عدالتی اصلاحات کے حوالے سے وسیع پیمانے پر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت، لا اینڈ جسٹس کمیشن میں غیر سرکاری اراکین کے طور پر ریٹائرڈ ججز کے ساتھ ساتھ وکلا کی نمائندگی، عدلیہ میں احتساب کا نظام اور جیل اصلاحات شامل ہیں۔
کچھ حلقوں کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ بدلاؤ ایک اچھا فیصلہ ہے جب کہ کچھ حلقے اس امر پر شاکی نظر آتے ہیں کہ سیاسی حوالوں سے اہم مقدمات جو کہیں نہ کہیں عدالتی فیصلوں کے ذریعے ملک میں بے چینی کی فضا کو ختم کرنے کے لیے لازمی ہیں، اُن پر توجہ دیے جانے کی ضرورت ہے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ آئینی نوعیت کے سیاسی اثرات کے حامل مقدمات اب سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے پاس زیرِ سماعت آتے ہیں اور اُن کے فیصلوں میں براہِ راست چیف جسٹس کا عمل دخل نہیں ہوتا۔
26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سے جسٹس یحییٰ آفریدی کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا اور پھر چیف جسٹس نے 26 ویں آئینی ترمیم میں دیے گئے آئینی بینچ کی تشکیل کی جس نے 14 نومبر 2024 سے باقاعدہ سماعتوں کا آغاز کیا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی عدالتی اصلاحات کتنی کارگر؟21 مئی کو جاری کیے گئے سپریم کورٹ اعلامیے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے 7 ماہ میں 52 فیصد سزائے موت کے مقدمات نمٹا دیے اور چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی قیادت میں سپریم کورٹ نے اس تیزی سے کام کیا ہے جس کی اس سے پہلے مثال نہیں ملتی۔
چیف جسٹس کے 28 اکتوبر 2024 سے لے کر 21 مئی 2025 تک لگ بھگ 7 ماہ کے اندر عدالت عظمیٰ نے سزائے موت کے 238 مقدمات کے فیصلے کیے ہیں جو 454 زیر التوا مقدمات کا 52 فیصد بنتے ہیں۔
جب چیف جسٹس نے حلف لیا تو سزائے موت کی 410 اپیلیں زیر التوا تھیں، بعد میں 44 اور دائر ہوئیں لیکن جلد فیصلوں کی بدولت اس وقت زیر التوا اپیلوں کی تعداد 216 ہے۔
’چیف جسٹس کے پہلے 100 دن‘چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے پہلے 100 دنوں کے اندر عدالتی نظام کو سہل بنانے کے لیے جو سب سے اہم کام کیا وہ الیکٹرانک بیان حلفی یا ای ’ایفی ڈیوٹ‘ کا اجرا اور فوری مصدقہ نقل کا حصول تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے احتساب کے نظام کو مؤثر بنانے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کے لیے علیحدہ سیکریٹریٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے اپنے پہلے 100 دن میں زیر التوا مقدمات میں 3 ہزار کی بڑی کمی کی۔ سپریم کورٹ نے 8 ہزار ایک سو چوہتر (8174) مقدمات کا فیصلہ کیا جبکہ چار ہزار نو سو تریسٹھ (4963) نئے مقدمات کا اندراج ہوا۔
’سپریم کورٹ کے اب تک اہم فیصلے‘اپنے اثرات کے اعتبار سے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اس وقت تک جو سب سے اہم فیصلہ کیا ہے وہ سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق ہے جس کو آئینی بینچ نے درست قرار دیا ہے۔ 7 مئی 2025 کو یہ فیصلہ جاری کیا گیا۔
اسی طرح سے جون میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستوں کے لیے نااہل قرار دیا گیا۔
اس کے علاوہ نورمقدم کے قاتل ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھنے کا فیصلہ بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے اہم تھا۔ 20 مئی کو سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے جسٹس نعیم اختر افغان کی سربراہی میں اس مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے ظاہر جعفر کی قتل کے مقدمے میں سزائے موت برقرار جبکہ اغوا کے مقدمے میں سزائے موت کو عمر قید سے تبدیل کردیا۔
ستمبر میں بانی تحریکِ انصاف عمران خان کو 9 مئی سے متعلق 8 مقدمات میں ضمانتیں دی گئیں۔
’سپریم کورٹ رولز 2025 کا نفاذ‘13 مارچ کو سپریم کورٹ نے 1980 سے چلے آ رہے سپریم کورٹ رولز میں ترمیم کا مسودہ تیار کیا، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ رولز 1980 پر نظرثانی کے لیے سپریم کورٹ کے 4 ججز پر مشتمل کمیٹی قائم کی تھی جس نے سپریم کورٹ رولز 2025 کا ڈرافٹ تیار کیا جسے 6 اگست کو نافذ کر دیا گیا۔
کمیٹی جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل ہے، سپریم کورٹ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ رولز پر مکمل نظرثانی کا مقصد عدالتی کارروائی کو مزید فعال، مؤثر اور شفاف بنانا تھا۔
ابتدائی طور پر اس کمیٹی نے سپریم کورٹ ججز، سپریم کورٹ رجسٹرار، بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز سے اس سلسلے میں تجاویز طلب کیں۔ اس کے بعد اس کمیٹی کے کئی اجلاس ہوئے جس میں سپریم کورٹ رولز کو جدید زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر مشاورت کی گئی۔ جبکہ 6 اگست کو یہ رولز نافذ العمل کر دیے گئے۔
’چیف جسٹس کی غیر ملکی وفود سے ملاقاتیں‘11 فروری کو آئی ایم ایف وفد نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات کی جو کہ ملکی تاریخ کے تناظر میں ایک نیا واقعہ تھا کیونکہ اس سے قبل کسی چیف جسٹس نے کبھی آئی ایم ایف وفد سے ملاقات نہیں کی۔
ملاقات کے بعد چیف جسٹس نے صحافیوں سے ملاقات کے دوران بتایا کہ آئی ایم وفد نے کچھ قوانین کے حوالے سے اُن سے بات چیت کی۔ بعد ازاں آئی ایم ایف وفد نے ایک بار پھر چیف جسٹس سے ملاقات بھی کی، اور اُس کے بعد 14 فروری کو اس وفد نے پاکستان بار کونسل سے بھی ملاقات کی۔
17 فروری کو چیف جسٹس نے اٹلی کی سفیر سے ملاقات کی، اس کے بعد 14 اپریل کو ایران اور ترکیے کے سفیروں نے بھی چیف جسٹس سے ملاقات کی۔ 28 اپریل کو چیف جسٹس سے ایک امریکی وفد نے بھی ملاقات کی۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی 26 اپریل کو ترکیے اور چین کے دورے بھی مکمل کرکے واپس آئے۔
31 جنوری کو چیف جسٹس نے یورپی یونین کے نمائندہ خصوصی انسانی حقوق سے ملاقات کی، جس میں جوڈیشل بیک لاگ کے ساتھ ساتھ عدلیہ کی سالمیت اور آزادی کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔
20 جون کو انہوں نے پاکستان میں تعینات سعودی عرب کے سفیر سے ملاقات کی اور عدالتی تعاون بڑھانے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔
’جیل اصلاحات اور فوجداری قوانین میں اصلاحات‘چیف جسٹس نے گزشتہ ماہ 16 مئی کو بنوں کی ضلعی عدلیہ اور بنوں جیل کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے قیدیوں سے ملاقاتیں کیں، ان کے مسائل دریافت کیے اور اس سے قبل وہ پشاور ہائیکورٹ بنوں بینچ بھی گئے۔
اس سے قبل گزشتہ برس دسمبر میں چیف جسٹس نے رحیم یار خان جیل کا دورہ بھی کیا، چیف جسٹس اب تک جیل اصلاحات کے حوالے سے کمیٹیاں قائم کر چکے ہیں اور گزشتہ برس نومبر میں چیف جسٹس نے پنجاب میں جیل اصلاحات کے حوالے سے ایک مشاورتی اجلاس کی صدارت کی جس میں جیل اصلاحات کے حوالے سے ایک کمیٹی قائم کی گئی جس میں 9 مئی مقدمات میں ضمانت پر رہا خدیجہ شاہ کو بھی بطور رکن شامل کیا گیا۔
جیل اصلاحات اور فوجداری قوانین میں اصلاحات کے حوالے سے چیف جسٹس نے چاروں صوبوں میں کمیٹیاں قائم کر رکھی ہیں جن کی رپورٹس کا جائزہ لینے کے بعد اقدامات کا جائزہ لیا جائےگا۔
’چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے دور کے تنازعات‘موجودہ چیف جسٹس کے ایک سال کے عرصے میں سامنے آنے والے تنازعات کا تعلق زیادہ تر 26ویں آئینی ترمیم سے ہے، وہ چاہے بینچز دائرہ اختیار کا معاملہ ہو یا مقدمات کو سماعت کے لیے مقرر کیے جانے کا معاملہ، اس پر تنازعات سامنے آئے۔
ایسا ہی ایک معاملہ 21 جنوری کو سامنے آیا جب جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے ایک بینچ کے سامنے کسٹم ایکٹ کا ایک معاملہ زیرسماعت آیا تو اُس پر سرکاری وکیل کی جانب سے کہا گیا کہ یہ مقدمہ آئینی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جانا چاہیے تھا۔
اُس کے بعد مقدمے کو جسٹس منصور علی شاہ کے بینچ سے ہٹا دیا گیا تو سوال اُٹھا کہ بینچ کی منظوری کے بغیر یہ اقدام کیسے کیا گیا جس پر ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذرعباس کو معطل کرکے اُن کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی بھی کی گئی لیکن بعد ازاں 28 جنوری کو اُن کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی واپس لیتے ہوئے اُنہیں بحال کردیا گیا۔
اسی طرح سے 10 فروری کو وکلا نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف ملک گیر احتجاج کیا اور یہ مطالبہ کیاکہ 26 ویں آئینی ترمیم مقدمے کے فیصلے تک جوڈیشل کمیشن ججز کی تقرری کے عمل کو روک دے۔ لیکن وکلا احتجاج کے باوجود جوڈیشل کمیشن نے چاروں صوبائی ہائیکورٹس میں ججز کو تعینات کیا۔
24 فروری کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں پاکستان بار کونسل کے نمائندہ اختر حسین نے عدلیہ میں ہونے والی تقرریوں پر احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔
26 اپریل کو بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے چیف جسٹس کے نام ایک خط میں اپنے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں پرایکشن لینے کی استدعا کی۔
خط پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجا نے چیف جسٹس کے چیمبر میں پہنچایا۔ اس موقع پر عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان اور دیگر قیادت بھی ان کے ہمراہ تھی۔
’سپریم کورٹ اب مرکز نگاہ نہیں‘سپریم کورٹ آف پاکستان کبھی تمام پاکستانی میڈیا کا مرکز نگاہ ہوتی تھی اور ملکی میڈیا کی زیادہ تر ہیڈلائنز وہیں سے آتی تھیں۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ عملی طور پر 2 حصوں میں بٹ چکی ہے۔ عام نوعیت کے مقدمات سپریم کورٹ جبکہ آئینی نوعیت کے مقدمات اب آئینی بینچ سماعت کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 4 ماہ میں کیسز نمٹانے کے احکامات پر ناانصافی نہیں ہونی چاہیے، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی
اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو اس وقت موجودہ چیف جسٹس، جسٹس یحییٰ آفریدی اُس طرح سے مرکز نگاہ نہیں جس طرح ان کے پیشرو چیف جسٹسز ہوا کرتے تھے۔ اُن کے پیشرو چیف جسٹس صاحبان کے زمانے تک وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہر وقت سپریم کورٹ کی جانب دیکھتی تھیں کہ نجانے کب کون سا فیصلہ آ جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی بینچ جسٹس یحییٰ آفریدی چیف جسٹس پاکستان سیاسی فیصلے.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جسٹس یحیی ا فریدی چیف جسٹس پاکستان سیاسی فیصلے اصلاحات کے حوالے سے ویں ا ئینی ترمیم کے سپریم کورٹ رولز میں سپریم کورٹ سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یحیی سے ملاقات کی سپریم کورٹ ا جیل اصلاحات چیف جسٹس کے چیف جسٹس نے مقدمات میں ا فریدی کی کی جانب سے زیر التوا بار کونسل سزائے موت کے علاوہ نوعیت کے فروری کو کا فیصلہ اپریل کو کے ذریعے ا ئی ایم س کے بعد دیا گیا بینچ کے کے ساتھ کیا گیا نے والے کے خلاف ججز کو کے لیے سے اہم کی گئی وفد نے
پڑھیں:
سپر ٹیکس؛ سپریم کورٹ میں ٹیکس پر سینیٹ کی تجاویز اور قومی اسمبلی کے اختیارات پر بحث
اسلام آباد:سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کیس کی سماعت کے دوران کمپنیوں کے وکیل نے اپنے دلائل دیے جب کہ سینیٹ کی تجاویز اور قومی اسمبلی کے اختیارات پر بحث بھی ہوئی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق مختلف درخواستوں پر سماعت کی، جس میں مختلف ٹیکس دہندہ کمپنیوں کے وکیل عابد شعبان نے اپنے دلائل مکمل کیے۔
سماعت کے دوران وکیل عابد شعبان نے مؤقف اپنایا کہ سینیٹ ترمیم کے لیے تجاویز دیتا ہے، ترامیم کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔ سینیٹ نے 4 فیصد ٹیکس کی تجویز دی تھی جب کہ قومی اسمبلی نے 10 فیصد ٹیکس عائد کر دیا۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ قومی اسمبلی کو اختیار حاصل ہے کہ وہ تجاویز شامل کرے یا نہ کرے۔
عابد شعبان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ٹیلی کام کمپنیز کے وکیل نعمان حیدر نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے موکل انٹرنیٹ سروس مہیا کرتے ہیں اور وہ کوشش کریں گے کہ وہ دلائل دہرانے سے گریز کریں۔
نعمان حیدر نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے فوجی فرٹیلائزر کیس میں کہا تھا کہ پاکستانی انڈسٹریز تباہ ہو رہی ہیں۔ وکیلوں کی فیس سے ایڈوانس ٹیکس کٹتا ہے اور پھر سپر ٹیکس بھی دینا پڑتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کیا سپر ٹیکس اپنی انکم سے دینا ہوتا ہے؟ جس پر عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ انکم ٹیکس سمیت تمام کٹوتیاں ہو چکی ہوتی ہیں، اس کے بعد سپر ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔
جسٹس مظہر نے استفسار کیا کہ آیا ان کے موکل نے فیس پوری ادا کی ہے؟ اگر ٹیکس والے فیس میں سے ٹیکس مانگ رہے ہیں تو کیا وہ غلط کر رہے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ نہیں، ٹیکس والے غلط نہیں کر رہے۔
نعمان حیدر نے مزید دلائل میں بتایا کہ بھارت میں 1961 کا ٹیکس قانون اپنایا جا رہا تھا لیکن اب انہوں نے پاکستان کا موجودہ ماڈل اپنا لیا ہے۔ بھارت میں ٹیکس ایئر یکم اپریل سے شروع ہوتا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی، جس میں ٹیلی کام کمپنیز کے وکیل نعمان حیدر کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔