سپریم کورٹ کے دو ججز کا اہم خط: چیف جسٹس اور جسٹس سرفراز پر تحفظات کا اظہار
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
سپریم کورٹ کے سینئر ججز، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے ایک تفصیلی خط میں عدالتی ضابطہ اخلاق میں مجوزہ ترامیم اور سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل پر سنجیدہ اعتراضات اٹھائے ہیں۔ خط چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور سپریم جوڈیشل کونسل کے تمام ارکان کو ارسال کیا گیا ہے۔
اہم نکات:
دونوں ججز نے خط میں کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کی سپریم جوڈیشل کونسل میں شمولیت غیر موزوں ہے، کیونکہ ان کے خلاف ایک اپیل زیرِ التوا ہے۔
اسی طرح، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی تعیناتی کے خلاف بھی ایک مقدمہ عدالت میں زیر غور ہے، اس لیے وہ خود بھی ضابطہ اخلاق میں ترامیم کے عمل سے علیحدہ رہیں تو بہتر ہوگا۔
خط میں الزام عائد کیا گیا کہ اس بار سپریم جوڈیشل کونسل کا آئینی طریقہ کارنظرانداز کیا گیا۔ نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی میں شامل تین چیف جسٹسز نے پہلے ترامیم کی منظوری دی، پھر سپریم جوڈیشل کونسل میں بھی انہی ترامیم کو منظور کیا — جو بقول ججز، آئینی اصولوں کے خلاف ہے۔
ججز کی تشویش:
جسٹس منصور اور جسٹس منیب نے خبردار کیا کہ:
مجوزہ ترامیم سےعدلیہ کی آزادی کو خطرہ ہے۔
ان سےشفافیت متاثر ہوگی اور اختیارات چند افراد تک محدود ہو جائیں گے۔
ترامیم کو بعض مخصوص ججز کی آواز دبانے کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
خط کے آخر میں دونوں ججز نے لکھا کہ ملک اس وقت جمہوری دباؤ اور آئینی بحران کے دور سے گزر رہا ہے، اور ایسے حالات میں صرف ایک بے خوف، آزاد اور اصولوں پر قائم عدلیہ ہی عوام کے اعتماد کا مرکز بن سکتی ہے۔
یہ خط نہ صرف عدلیہ کے اندرونی معاملات کی حساسیت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں آئینی عمل، شفافیت اور آزادی کے اصولوں پر ایک نظریاتی اختلاف موجود ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سپریم جوڈیشل کونسل چیف جسٹس
پڑھیں:
انجینئر مرزا کو گستاخی کا مرتکب قرار دینے کی سی آئی آئی کی رائے پر حکم امتناع برقرار
اسلام آباد ہائیکورٹ نے انجینئر محمد علی مرزا کو گستاخی کا مرتکب قرار دینے کی اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے پر حکمِ امتناع برقرار رکھا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے پر حکمِ امتناع برقرار رہے گا، عدالت اسلامی نظریاتی کونسل کے اختیارات کو معطل نہیں کر رہی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے اٹارنی جنرل منصور اعوان کو عدالتی معاونت کے لیے طلب کر لیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل سے کہیں کہ وہ عدالت میں پیش ہوں، یہ بہت اہم معاملہ ہے، اٹارنی جنرل پیش ہو کر ریاست کا موقف پیش کریں، ہم دیکھ لیں کہ ریاست کی اِس متعلق تشریح کیا ہے۔
ہائیکورٹ کے جسٹس محسن کیانی نے ریمارکس دیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے صدر، گورنر اور پارلیمان کو بھیجی جا سکتی ہے، کونسل کے رولز میں رائے صرف پارلیمان کو بھیجنے کا تذکرہ ہے، پارلیمان کو معاملہ بھیجنا تھا آپ نے ایک ایس ایچ او کو کیسے بھیج دیا؟
وکیل اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ ہماری ہر رائے پارلیمنٹ کو ہی جاتی ہے کوئی بھی چیز ہو وہ وہاں پیش کی جاتی ہے۔
عدالتی روسٹرم پر فون نکالنے پر جسٹس محسن کیانی اسلامی نظریاتی کونسل کے نمائندے پر برہم ہوگئے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اپنا فون بند کریں اور نیچے رکھیں۔
انجینئر محمد علی مرزا کے خلاف مقدمے کا مدعی سماعت کے دوران عدالت میں پیش ہوا۔ مدعی مقدمہ نے کہا کہ میں اِس معاملے پر عدالت کی معاونت کرنا چاہتا ہوں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ آپ کون ہیں؟ مدعی مقدمہ نے بتایا کہ میں محمد علی مرزا کے خلاف مدعی ہوں، میری درخواست پر مقدمہ درج ہوا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ شکریہ، آپ پیچھے بیٹھ جائیں آپ کو اس وقت نہیں سن سکتے، اس وقت ہم اسلامی نظریاتی کونسل کے اختیارات پر بات کر رہے ہیں۔
عدالت نے نمائندہ کونسل سے استفسار کیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے جو رائے دی کیا اُس کے لیے آپ گواہی بھی دیں گے؟ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ کرمنل کیس کی بات کر رہے ہیں، ڈاکٹر بھی اپنی رائے دیتا ہے اور وہ گواہ ہوتا ہے۔
نمائندہ کونسل نے بتایا کہ سپریم کورٹ بھی ایک کیس میں اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے مانگ چکی اور ہم نے رائے دی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کورٹ آپ کو کہہ سکتی ہے اور آپ کورٹ کو بتا بھی سکتے ہیں۔
درخواست گزار وکیل نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس کوئی کام ہے نہیں، یہ اپنا جواز پیش کرنے کے لیے یہ کچھ کرتے ہیں۔
نمائندہ اسلامی نظریاتی کونسل نے بتایا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کا عہدہ خالی ہے، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ کیا عدالت چیئرمین کی تعیناتی کیلئے آرڈر پاس کرے؟ چیئرمین نہیں تو آپ خود اپنا چیئرمین مقرر کرانے کے لیے کوشش کریں۔
عدالت نے کیس کی سماعت موسمِ سرما کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کر دی۔