data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے  2 سینئر ججز، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا گیا ایک اہم خط منظر عام پر آ گیا۔

یہ خط 17 اکتوبر کو ججز کوڈ آف کنڈکٹ میں مجوزہ ترامیم کے تناظر میں تحریر کیا گیا، جس میں دونوں ججز نے نہ صرف کونسل کے طریقہ کار پر سوال اٹھائے بلکہ آئینی حدود کی وضاحت بھی کی۔

خط میں کہا گیا ہے کہ دونوں ججز نے اجلاس سے ایک روز قبل اپنے تحریری کمنٹس جمع کروائے تھے اور اجلاس کے دوران ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے، تاہم انٹرنیٹ کے مسائل کے باوجود اپنی رائے دینے کی پوری کوشش کی۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خط کی دستخط شدہ کاپی 20 اکتوبر کو اجلاس کے بعد جمع کروانے کا فیصلہ پہلے ہی کیا جا چکا تھا۔

دونوں ججز نے واضح کیا کہ قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس میں پیش آنے والی پیشرفت آئینی تقاضوں کے منافی تھی، کیونکہ ججز کوڈ آف کنڈکٹ کا معاملہ مکمل طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ ان کے مطابق کمیٹی میں اس معاملے پر بحث آئینی دائرے سے تجاوز کے مترادف ہے۔

خط کے مطابق کونسل کے اجلاس کے دوران دونوں ججز نے مؤقف اختیار کیا کہ پہلے 13 اکتوبر کو لکھے گئے ان کے سابقہ خط پر غور کیا جائے، جس میں جوڈیشل کونسل کے اجلاس کو مؤخر کرنے یا اس کی تشکیلِ نو کی تجویز دی گئی تھی۔ جب تک کونسل کی آئینی حیثیت اور ارکان کی شمولیت سے متعلق سوالات حل نہیں ہوتے، تب تک اس کے فیصلوں کی قانونی حیثیت متنازع رہے گی۔

دونوں معزز ججز نے اپنے خط میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے خلاف زیر سماعت کیس کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے اور اس کا فیصلہ براہِ راست جوڈیشل کونسل کی تشکیل اور اس کی کارکردگی کو متاثر کر سکتا ہے۔

خط میں یہ نکتہ بھی اجاگر کیا گیا ہے کہ اگر کونسل کی آئینی حیثیت طے کیے بغیر فیصلے کیے گئے تو نہ صرف عدلیہ کی ساکھ متاثر ہو گی بلکہ آئینی نظام میں بھی ابہام پیدا ہو گا۔ ججز کا کہنا ہے کہ عدالتی اداروں کے مابین اختیارات کی حدود کا احترام ہی آئین کی بالادستی کی ضمانت ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جوڈیشل کونسل کونسل کے

پڑھیں:

26ویں آئینی ترمیم کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے اہم سوالات اٹھادیے 

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔

بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال بھی شامل ہیں۔

گزشتہ سماعت پر درخواست گزار وکیل اکرم شیخ نے دلائل مکمل کیے تھے، سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ الگ ہے اور آئینی بینچ الگ؟ سپریم کورٹ سے سوموٹو اختیارات واپس لے لیے گئے، مگر بینچ کے پاس سوموٹو کا اختیار ہے؟

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آئین میں اور آرٹیکل 191 اے میں ترمیم ہوچکی ہے،
ہم 191 اے کو کیسے اور کس طرح بائی پاس کرسکتے ہیں؟  جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 
اگر آپ کی بات مان لی جائے کہ سپریم کورٹ اور بینچ الگ الگ ہیں، قانون میں تو پھر سپریم کورٹ کا اختیار لیا گیا ہے، بینچ کا نہیں، یہ تو آپ نے اچھی بات کی، بینچ کے اختیارات میں اضافہ کروا دیا۔

وکیل شبر رضوی نے کہا کہ نئے بینچ کو کچھ اختیارات دیئے گئے ہیں لیکن سپریم کورٹ سے اختیارات چھینے نہیں گئے، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آئین میں ترمیم ہوچکی ہے، اسکے مطابق آئینی بینچ بن چکا ہے،  آپ چاہ رہے ہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم کو ہمیں پہلے معطل کرنا پڑے گا؟ 191 اے کو کیسے بائی پاس کریں گے؟

وکیل شبر رضا رضوی نے مؤقف اپنایا کہ191 اے کو آئین کی دیگر شقوں سے ملا کر پڑھنا ہوگا، 191 اے کو اکیلے نہیں پڑھا جا سکتا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ یہاں تو واضح لکھا ہے کہ آئینی بینچ کے علاوہ کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں، آرٹیکل 184/3 کے اختیارات آئینی بینچ کو منتقل ہوچکے ہیں۔

وکیل شبر رضا رضوی نے مؤقف اپنایا کہ اگر سارے اختیارات یہاں منتقل کرنے تھے تو یہ واضح طور پر لکھا کیوں نہیں گیا؟ آرٹیکل 191 اے سے سپریم کورٹ کا 184 تھری کا اختیار ختم نہیں ہوگیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ 184 تھری آرٹیکل 191 اے سے مستثنیٰ ہے؟ آرٹیکل 191 اے کے تحت 184 تھری کا اختیار آئینی بینچ کو منتقل ہوچکا ہے، 191 اے میں اس بات کا صاف ذکر موجود ہے کہ 184 تھری کا اختیار آئینی بینچ کو دیا گیا ہے۔

وکیل شبر رضا رضوی نے مؤقف اپنایا کہ آئینی بینچ صرف بھارت میں ہے، باقی دنیا میں آئینی عدالتیں ہوتی ہیں، بھارت میں چیف جسٹس کے پاس ہی تمام اختیارات ہیں، آپ اسے آئینی بینچ نہیں بلکہ آئینی عدالت ہی سمجھ لیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ ویسے اچھا مشورہ دیتے ہیں،  جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہم آئین کے پابند ہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ریگولر بینچ اور آئینی بینچ دونوں ایک ہی درخت کی دو شاخیں ہیں، کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ آئینی بینچ سپریم کورٹ سے اوپر ہے یا نیچے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار  کیا کہ آپ شاید یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بینچز کا اختیار نہیں، فل کورٹ کا ہے، آپ کہہ رہے کہ  بینچز نہیں سن سکتے لیکن فل کورٹ میں تمام ججز بیٹھ کر سن سکتے ہیں؟

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ نے بھارت کی بات کی، وہاں بھی آئینی بینچ کا کیس ریگولر بینچ میں نہیں جاتا، بھارت میں بینچ چیف جسٹس اس لیے بناتے ہیں کہ وہاں وہ ماسٹر آف روسٹر ہیں، پاکستان میں اب قانون بن گیا، دو کمیٹیاں بن گئیں، چیف جسٹس ماسٹر آف روسٹر نہیں رہے۔

شبر رضوی  نے مؤقف اپنایا کہ یہاں بن تو کورٹ رہی تھی مگر بن گیا آئینی بینچ، جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دیے کہ آپ مشورہ اچھا دے رہے ہیں، 184 میں ترمیم کردی جاتی تو واضح ہوجاتا مگر یہاں سپریم کورٹ اور آئینی بینچ کے لیے 184 کی تشریح ایک ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر  نے کہا کہ اگر چیف جسٹس کو ریفرنس بھیجیں گے تو چیف جسٹس نے 191 اے کے تحت دیکھنا ہے تو انہوں نے اسی بینچ کو بھیج دینا ہے، کل آپ نے آغاز میں ہی دلائل دیے تھے 24 کے 24 ججز کو سننا چاہئے۔

شبر رضوی  نے مؤقف اپنایا کہ میں نے یہی کہا تھا ابھی بھی یہی کہہ رہا ہوں، آپ نے پہلے بھی کہا کہ آپ سپریم کورٹ بھی ہیں، آپ سپریم کورٹ کا بنایا گیا ایک بینچ ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کیا ہمارے پاس اختیار ہے کہ ہم ان کو شامل کریں جو آئینی بینچ کا حصہ نہیں ہیں، وکیل شبر رضوی  نے مؤقف اپنایا کہ آپ 191 اے سے نکل ہی نہیں رہے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ ہمیں اس سے نکلنے کا راستہ بتائیں کیسے نکلیں، وکیل شبر رضوی نے مؤقف اپنایا کہ اگر صدر سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیجے گا تو وہ اس بینچ کو بھیج دیں گے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ وہ جوڈیشل کمیشن کا حصہ ہیں وہ فیصلہ لے سکتے ہیں، وکیل شبر رضوی نے مؤقف اپنایا کہ آپ جب خود کو سپریم کورٹ سمجھیں گے تو مسئلے کا حل نکل آئے گا، آپ یہ سب اس لیے کہہ رہے ہیں کیونکہ آپ 191 اے سے نہیں نکل رہے۔

جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دیے کہ 191 سے نکلنے کا کوئی طریقہ تو بتادیں، وکیل شبر رضا رضوی نے جسٹس مظہر سے مکالمہ کیا کہ میرے سے بہتر آپ جانتے ہیں کہ کیا کرنا ہے، وکیل شبر رضا رضوی نے مؤقف اپنایا کہ صدر مملکت اگر آرٹیکل 186 کے تحت ریفرنس بھیجے گا تو یہ بنچ نہیں سنے گا، صدر مملکت ریفرنس چیف جسٹس کو بھیجتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب! ریفرنس کہاں آتے ہیں؟ جسٹس امین الدین خان نے پوچھا کہ آپ کا مطلب ہے 186 کو بائی پاس کر کے فیصلہ کریں؟

جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل شبر رضا رضوی سے مکالمہ کیا کہ آپ 26ویں آئینی ترمیم پر کب دلائل دیں گے؟ شبر رضا رضوی نے مؤقف اپنایا کہ میں یہ سب اسی لیے بتا رہا ہوں کیونکہ میرے کسی دوست سے سوال پوچھا گیا تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم صحیح ہے یا غلط، مگر آئین کا حصہ ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ نہیں ایسا کچھ نہیں کہا گیا، آپ کو مس انڈر اسٹینڈنگ ہوئی ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آئینی بینچ کے حوالے سے دلائل ہو رہے ہیں، پتہ نہیں آپ۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل شبر رضا رضوی کو دلائل مکمل کرنے کی ہدایت دی، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ جو دلائل دے رہے وہ اچھے ہوسکتے ہیں لیکن آپ یہ مرکزی کیس میں دیجیے گا۔

درخواست گزار وکیل شبر رضا رضوی نے دلائل مکمل کرلیے، درخواست گزار انس احمد کے وکیل ڈاکٹر عدنان خان روسٹرم پر آگئے اور دلائل کا آغاز کردیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ آپ کے دلائل اچھے ہوسکتے ہیں مگر جب ہم کیس کے میرٹ پر جائیں گے، آپ مان چکے ہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم اب آئین کا حصہ ہے۔

بیرسٹر عدنان نے مؤقف اپنایا کہ جب ہم بینچ پر اعتراضات اٹھا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ججز پر اعتراضات ہیں، جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ آپ کی استدعا کیا ہے؟  بیرسٹر عدنان نے مؤقف اختیار کیا کہ فل کورٹ ہی ہماری استدعا ہے، جب ہم بینچ پر اعتراضات اٹھا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ججز پر اعتراضات ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ آپ کی استدعا کیا ہے؟ بیرسٹر عدنان نے مؤقف اپنایا کہ فل کورٹ ہی ہماری استدعا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ بینچ کے باہر فل کورٹ پر کوئی قدغن نہیں؟  جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ہم کیس کو چیف جسٹس کو ریفر کریں؟

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ سے سادہ سوال ہے، کیس منتقلی کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس فل کورٹ نہیں بنا سکتے تھے؟ چیف جسٹس ماسٹر آف دی روسٹر تھے، فل کورٹس کی مثالیں موجود ہیں، آپ نے تو چیف جسٹس کے اختیارات ہی ختم کردیے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں فل کورٹ کے اختیارات ابھی بھی موجود ہیں؟ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ آپ فل کورٹ کس کو کہتے ہیں؟   بیرسٹر عدنان نے مؤقف اپنایا کہ فل کورٹ میں تمام ججز ہونے چاہییں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ جو ججز 26ویں آئینی ترمیم کے بعد آئے، وہ بھی فل کورٹ کا حصہ ہوں گے؟ جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ آپ ڈائریکٹ چیف جسٹس کو فل کورٹ بنانے کا کیوں نہیں کہتے؟  جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا کہ اگر ہم کسی ایک ساتھی جج کو بینچ میں شامل کریں تو آپ کو اعتراض نہیں ہوگا؟ ہمارے کچھ دوست یہاں بھی ہیں اور کچھ نارمل بنچز میں کیسز سنتے ہیں۔

جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ موجودہ بنچ کیس سن سکتا ہے؟ بینچ نے بیرسٹر عدنان سے استفسار کیا کہ آپ کو دلائل مکمل کرنے کے لیے کتنا وقت چاہیے؟ بیرسٹر عدنان نے جواب دیا کہ مجھے دلائل مکمل کرنے کے لیے دس سے پندرہ منٹ درکار ہیں۔

آئینی بینچ نے بیرسٹر عدنان خان کو دلائل مکمل کرنے کی ہدایت دی۔

متعلقہ مضامین

  • ججز کی میڈیا سے گفتگو پر پابندی مناسب نہیں، جسٹس منصور، جسٹس منیب کا جوڈیشل کونسل کو خط
  • ججز کوڈ آف کنڈکٹ میں مجوزہ ترامیم، جسٹس منصور اور جسٹس منیب کا سپریم جوڈیشل کونسل کے نام خط
  • جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کا جوڈیشل کونسل کو لکھا گیا خط سامنے آ گیا
  • جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر  نے کوڈ آف کنڈکٹ میں ترامیم پر اعتراضات اٹھا دیئے
  • جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کا جوڈیشل کونسل کو لکھا گیا خط منظرعام پر آ گیا
  • 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے اہم سوالات اٹھادیے 
  • سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت
  • اب تک ایک بھی وکیل نے آئین کے مطابق دلائل نہیں دیے، جسٹس امین الدین خان
  • ججوں کے کوڈ آف کنڈکٹ مٰن ترمیم منظور : 74شکایات مستر د‘ 3پرکارروائیاں ہوگی