چھبیسویں آئینی ترمیم کیس، ہمارا تحمل دیکھئے، ہم مسلسل بیٹھے یہاں جھوٹ سن رہے ہیں، جسٹس امین الدین خان WhatsAppFacebookTwitter 0 21 October, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (سب نیوز)سپریم کورٹ آئینی بینچ میں زیر سماعت 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف کیس میں درخواست گزار وکیل کی جانب سے آئینی بینچز کی تشکیل میں حکومتی کردار کی بات کی گئی تو جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہمارا تحمل دیکھئے، ہم مسلسل بیٹھے یہاں جھوٹ سن رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ نے 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل شبر رضا رضوی عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نئے آئینی بینچ کو کچھ اختیارات دیے گئے ہیں لیکن سپریم کورٹ سے اختیارات چھینے نہیں گئے۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آئین میں ترمیم ہوچکی ہے، اس کے مطابق آئینی بینچ بن چکا ہے، آپ چاہ رہے ہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم کو ہمیں پہلے معطل کرنا پڑے گا، 191 اے کو کیسے بائی پاس کرینگے؟۔
وکیل شبر رضا رضوی نے جواب دیا کہ 191(اے)کو آئین کی دیگر شقوں سے ملا کر پڑھنا ہوگا، آرٹیکل 191(اے)سے سپریم کورٹ کا 184(تھری(کا اختیار ختم نہیں ہوگیا۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ یہاں بینچ کے اختیارات کا سوال ہے ہی نہیں، سوال یہ ہے کہ غیر آئینی بینچ ججز کو آئینی بینچ کا حصہ کیسے بنایا جائے؟وکیل شبر رضوی نے موقف اپنایا کہ آپ کے پاس دو عہدے ہیں، آپ سپریم کورٹ بھی ہیں اور آئینی بینچ بھی، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ریگولر بینچ اور آئینی بینچ دونوں ایک ہی درخت کی دو شاخیں ہیں، کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ آئینی بینچ سپریم کورٹ سے اوپر ہے یا نیچے۔جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ آپ شاید یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بینچز کا اختیار نہیں، فل کورٹ کا ہے، یعنی ریگولر بینچز آئینی معاملات نہیں سن سکتے لیکن فل کورٹ میں تمام ججز بیٹھ کر آئینی معاملات سن سکتے ہیں؟۔
وکیل شبر رضا رضوی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواست گزار انس احمد کے وکیل ڈاکٹر عدنان خان روسٹرم پر آئے اور فل کورٹ کی تشکیل کے حوالے سے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ بارہا دوہرایا جا چکا ہے کہ فل کورٹ بینچز سے الگ ہے، بینچ تشکیل دیا جاتا ہے، فل کورٹ تشکیل نہیں دیا جاتا، بینچ فل کورٹ کا ہی حصہ ہوتا ہے لیکن فل کورٹ ایک مستقل باڈی ہوتی ہے۔جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ فل کورٹ کا وجود پہلے سے ہی ہے، وہاں بس معاملہ ریفر کرنا ہے؟۔
وکیل عدنان خان نے کہا کہ بالکل، فل کورٹ ہمیشہ موجود رہتا ہے، وکیل عدنان خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آئینی بینچ بنانے میں میرے حریف کا غالبانہ کردار ہے۔اس موقع پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ چلیں آج اس پر بھی بات کرلیتے ہیں، بار بار یہ معاملہ آتا ہے۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہمارا تحمل دیکھئے، ہم مسلسل بیٹھے یہاں جھوٹ سن رہے ہیں، بتائیے بینچز کی تشکیل میں ان کا کیا غالبانہ کردار ہے؟۔
وکیل عدنان خان نے موقف اپنایا کہ ہمیں اس بینچ میں شامل کسی جج پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے، تاہم میں کہنا چاہ رہا ہوں کہ آئینی بینچز کی تشکیل میں ہمارا کوئی کردار نہیں ہے۔مزید کہا کہ آخری گزارش یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی اجتماعی دانش کو پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش کو پرکھنے دیں، دوران سماعت وکیل عدنان خان نے دلائل مکمل کرلیے، عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسلام آباد کے نجی شاپنگ مال میں خاتون کے ساتھ مبینہ اجتماعی زیادتی، دوملزمان گرفتار اسلام آباد کے نجی شاپنگ مال میں خاتون کے ساتھ مبینہ اجتماعی زیادتی، دوملزمان گرفتار سعودی عرب میں اعضا عطیہ کرنے والے 200شہریوں کو خصوصی اعزازات دینے کا اعلان وفاقی حکومت نے گندم کی قیمت کا اعلان کرکے پیپلزپارٹی کا اعتماد بحال کردیا ہے ، شرجیل میمن محسن نقوی کی مفتی منیب سے ملاقات، علما کے جائز مطالبات حل کرنے پر اتفاق وزیراعظم انسداد ہیپاٹائٹس پروگرام، مصر کا پاکستان کو ادویات کا عطیہ کسی ایک تنظیم کے خلاف نہیں، جو مسلح ہوگا اس کیخلاف کارروائی ہوگی، وزیر داخلہ TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: جسٹس امین الدین خان نے ہمارا تحمل دیکھئے نے ریمارکس دیے کہ وکیل عدنان خان نے سپریم کورٹ وکیل شبر کی تشکیل کورٹ کا فل کورٹ کہا کہ ہیں کہ

پڑھیں:

۔26 ویں ترمیم کیس:ہم سب حلف کے پابند اور قوم کو جواب دہ ہیں،سربراہ آئینی بینچ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) جسٹس امین الدین خان نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہم سب اپنے حلف کے پابند ہیں اور ہم سب قوم کو جوابدہ ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 8 رکنی آئینی بینچ نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ
ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان، جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔ کیس کی گزشتہ سماعت پر 6 سابق صدور سپریم کورٹ بارز کے وکیل عابد زبیری نے اپنے دلائل مکمل کرلیے تھے۔ درخواست گزار اکرم شیخ نے آج اپنے دلائل کا آغاز کردیا تو جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کی طرف سے تو لطیف کھوسہ نے درخواست دائر کردی ہے، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ نہیں لطیف کھوسہ میرے وکیل نہیں ہیں، عدالت نے استفسار کیا کہ اس کا مطلب ہے لطیف کھوسہ نے آپ کی اجازت کے بغیر درخواست دائر کردی؟ اکرم شیخ نے دلائل کے آغاز پر شعر پڑھ کر سنایا۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ ہم اپنے حلف کے پابند ہیں، ہم سب قوم کو جواب دہ ہیں، ہم آئین کے ماتحت ہیں اور ان کی گائیڈنس چاہیے۔ اکرم شیخ نے مؤقف اختیار کیا کہ 26 ویں آئینی ترمیم سے پہلے اور بعد والے تمام ججز کو فل کورٹ کا حصہ بنایا جائے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ 24 ججز بیٹھ جائیں، مگر اسے آئینی بینچ نہ کہا جائے؟ جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ آپ کی رائے میں فل کورٹ کیا ہے؟ ایک نے کہا تمام ججز فل کورٹ ہیں اور ایک رکن نے کہا کہ 16 ججز فل کورٹ ہیں۔ وکیل اکرم شیخ نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ آئینی بینچ اس کیس کو نہیں سن سکتا، جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ سوال ہے کہ جو آئینی بینچ میں شامل نہیں ہے وہ کیسے بیٹھ سکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ بے شک 24 ججز بیٹھیں مگر ان کو آئینی بینچ نہ کہا جائے ، عدالت عظمیٰ کہلائے؟ وکیل اکرم شیخ نے جواب دیا کہ 26ویں آئینی ترمیم ایک متنازع ترمیم ہے، کسی ڈکٹیٹر نے بھی آئین میں اتنا ڈینٹ نہیں ڈالا جتنا 26ویں ترمیم نے ڈالا ہے، وکیل نے 26 ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس کے لیے پہلے ہمیں بینچ کا فیصلہ تو کرنے دیں۔ اکرم شیخ نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہ معاملہ فل کورٹ کا ہے ، 8 ججز اس کیس کو نہیں سن سکتے، جسٹس امین نے اس موقع پر کہا کہ پچھلے 15 منٹ سے آپ آئین پر بات نہیں کررہے تو وکیل نے جواب دیا کہ میں آئین ہی پر بات کررہا ہوں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کہہ رہے کہ یہ 8 رکنی بنچ مفادات کا ٹکراؤ کی وجہ کیس نہیں سن سکتا، ساتھ ہی آپ کہہ رہے کہ 24 کے 24 ججز بیٹھ کر 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف کیس سنیں، جس پر وکیل اکرم شیخ نے جواب دیا کہ پرنسپل ہے کہ ایک لارجر بینچ کا فیصلہ ایک چھوٹا بینچ کالعدم قرار نہیں دے سکتا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اب معاملہ نیا ہے، آئینی بنچ بن چکا ہے، آپ نئے حالات کے مطابق دلائل دیں، آپ کہتے ہیں کہ یہ آئینی بنچ 26ویں ترمیم کو کالعدم قرار نہیں دے سکتا کیونکہ مفادات کا ٹکراؤ ہوگا، دوسری جانب آپ کہتے ہیں 24 کے 24 ججز پر مشتمل فل کورٹ بنایا جائے، کیا 24 کے 24 ججز پر مشتمل فل کورٹ میں مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہوگا؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ تو طے ہے کہ چھوٹا بنچ بڑے بنچ کا فیصلہ ختم نہیں کرسکتا، وکیل نے کہا کہ سر آپ نے احسان کیا ایک سال بعد کیس سننے کا، آپ نے فرمایا تھا کہ سارے ججز کو آئینی بنچ کا حصہ ہونا چاہئے، میں نے آپ کا ریفرنس خود پڑھا جس میں آپ نے سارے ججز کو آئینی بنچ کا حصہ بننے کا کہا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے حوالے سے ویسے بھی مشہور ہے کہ زیادہ سوالات کرتا ہوں، جس پر وکیل اکرم شیخ نے جواب دیا کہ سر مجھے اللہ نے خوشامدی کی بیماری سے بچایا ہوا ہے، وکیل نے کہا کہ مجھے جسٹس امین الدین نے راستہ دکھانے کا کہاخ وکیل کتابیں پڑھتے ہیں ابھی تو میں نے کتابیں پڑھی ہی نہیں، اس موقع پر بنچ نے وکیل اکرم شیخ کو کیس پر دلائل دینے کی ہدایت کی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ بات تو واضح ہے کہ چھوٹا بنچ بڑے بنچ کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے سکتا، آپ کہہ رہے ہیں کہ 24 ججز پر مشتمل فل کورٹ بنائیں، کیا ان کے پاس پاور ہوگی ؟ وکیل اکرم شیخ نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے گا پھر اس فیصلے کو ماننا پڑے گا، آپ نے تمام ججز کو آئینی بینچ میں شامل کرنے کا کہا تھا۔ وکیل اکرم شیخ نے جسٹس محمد علی مظہر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے سامنے ایک کمرشل کیس لگا، آپ نے دو سال بعد فیصلہ دیا مگر انگلینڈ سے ایک کتاب لایا آپ نے اس کا ریفرنس نہیں دیا کہ وہ کتاب میں لایا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس بار آپ جو بھی ریفرنس دیں گے، ججمنٹ میں آپ کا نام لکھیں گے۔ وکیل اکرم شیخ نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہمارے ملک میں ایک الیکشن ہوا، کچھ لوگوں کو خیال گزرا کہ الیکشن کی سکروٹنی ہوجائے گی، پھر ایک کمیشن بن گیا، ا سکروٹنی اور احتساب کو روکنے کے لیے، اسی کے نتیجے میں یہ آئینی ترمیم آگئی، اتنی سی تو داستان ہے، پس منظر انتہائی اہم ہے۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ دنیا جہان کی باتیں کیں، مگر آئینی بنچ پر بات نہیں کرنی، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آئینی بنچ کیس نہیں سن سکتا تو چیف جسٹس کے پاس جائیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے پاس دو رْول ہیں، آئینی بینچ اور سپریم کورٹ کے ممبر بھی، جب چیف جسٹس آرڈر کریں گے ہم یہ ٹوپی اتار کر دوسری ٹوپی پہن لیں گے۔ جسٹس شاہد بلال نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کہہ دیا کہ مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے یہ 8 رکنی بنچ کیس نہیں سکتا، آپ کے خیال میں وہ کونسا بنچ ہونا چاہئے جو 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف کیس کو سن سکتا ہے؟ جس پر وکیل اکرم شیخ نے جواب دیا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف کیس سپریم کورٹ آف پاکستان سنے، کوئی آئینی بنچ نہیں۔ وکیل اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ آپ سپریم کورٹ کے قابل عزت ججز ہیں، آئینی بنچ کے نہیں، میں نے کوئی پوزیشن لی نہیں کہ کون سے ججز بینچ میں بیٹھے اور کون نہیں، میں یہی کہہ رہا ہوں کہ سارے ججز پر مشتمل فل کورٹ بنایا جائے، اس موقع پر عدالت نے وکیل اکرم شیخ کو آرٹیکل 191 پڑھنے کی ہدایت کی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ یہ دلائل بعد میں پیش کریں، پہلے تو ہم نے بینچ کا فیصلہ کرنا ہے۔ آپ کہتے ہیں یہ بینچ نہیں سن سکتا، چلیں فرض کریں ہم نے آپ کی بات مان لی، ہم یہاں سے اْٹھ جائیں گے، فل کورٹ میں جا کر بیٹھ جائیں گے، فل کورٹ کا آرڈر کون کرے گا، یہ بتا دیں، فل کورٹ کون بنائے گا؟۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ جب تک آپ یہ ثابت نہیں کریں گے کہ یہ بنچ اس مقدمے کو سننے کا اہل نہیں تب تک ہم آپ کی درخواست نہیں مان سکتے۔ وکیل اکرم شیخ کے دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواست گزار کے وکیل شبر رضا رضوی نے اپنے دلائل کا آغاز کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ میری استدعا یہ ہے کہ اس کیس کی سماعت سپریم کورٹ کرے۔ وہ سپریم کورٹ جو آرٹیکل 176 اور 191 اے کو ملا کر بنے۔ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ آپ نے دو متفرق درخواستیں فائل کی ہیں؟ ہمارے پاس آپ کی صرف ایک متفرق درخواست ہے، دلائل شروع کرنے سے پہلے بتا دیں یہ بینچ فل کورٹ کا آرڈر کیسے پاس کرسکتا ہے؟ وکیل شبر رضا نے جواب دیا کہ آپ آرٹیکل 191 اے کے تحت بیٹھے ہیں لیکن پھر بھی آپ سپریم کورٹ ہیں۔ سپریم کورٹ کے کسی بھی بینچ کی طرح یہ بینچ بھی معاملہ چیف جسٹس یا کمیٹی کو ریفر کرسکتا ہے، اس مقدمے کو فل کورٹ سنے، یہ عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔

مانیٹرنگ ڈیسک

متعلقہ مضامین

  • 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے اہم سوالات اٹھادیے 
  • سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت
  • 26ویں ترمیم کیس : ہم حلف کے پابند‘ قوم کو جوابدہ ‘ ثابت کریں آئینی بنچ مقدمہ سننت کا اہل نہیں : جسٹس امین الدین 
  • ۔26 ویں ترمیم کیس:ہم سب حلف کے پابند اور قوم کو جواب دہ ہیں،سربراہ آئینی بینچ
  • چھبیسویں آئینی ترمیم کیس، ہم سب حلف کے پابند اور قوم کو جواب دہ ہیں،جسٹس امین الدین خان
  • اب تک ایک بھی وکیل نے آئین کے مطابق دلائل نہیں دیے، جسٹس امین الدین خان
  • ایک صاحب نے تو یہ تک کہہ دیا کہ 26ویں ترمیم کو بھول جائیں: جسٹس امین الدین خان
  • 26 ویں آئینی ترمیم؛ چیف جسٹس حکم دینگے تو ہم یہ ٹوپی اتار کر دوسری پہن لیں گے، جسٹس جمال کے ریمارکس
  • سپریم کورٹ: ‘ابھی تک آئین کے مطابق کسی وکیل نے دلائل نہیں دیے،’ 26ویں آئینی ترمیم کیس کی سماعت