WE News:
2025-12-06@21:13:21 GMT

افغانستان میں بھارت کی اسٹریٹیجک ڈیپتھ

اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT

جو حضرات پاکستان کے اسٹریٹیجک ڈیپتھ کے تصور کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے کیا انہیں افغانستان میں بھارت کے اسٹریٹیجک ڈیپتھ کا آزار دکھائی دے رہا ہے؟

بھارت افغان تعلقات کی بنیاد کیا ہے؟ اس کا سادہ سا جواب ہے: پاکستان دشمنی۔

 بھارت صرف یہ چاہتا ہے پاکستان کو بیچ میں سینڈ وچ بنا لیا جائے۔ ایک طرف مشرق میں بھارت ہو اور دوسری جانب مغرب میں افغانستان میں ایک پاکستان مخالف حکومت ہو اور پاکستان کو دونوں اطراف سے انگیج کر لیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: ’عمران خان ہی ریاست ہیں‘

بھارت کا یہ کھیل پہلے دن سے جاری ہے  تقسیم ہندوستان کے وقت صوبہ  سرحد نے بھارت کی بجائے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تو کانگریس ہی کی ایما پر ایک طرف پشتونستان کا نعرہ بلند کیا گیا اور دوسری جانب افغانستان سے رابطے کیے گئے کہ وہ شمال مغربی سرحدی صوبے پر اپنا حق جتائے۔

ڈیورنڈ لائن کے بیانیے کا ایک سیاق سباق یہ بھی ہے چنانچہ افغانستان وہ واحد ملک تھا جس نے پہلے مرحلے میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا۔ ( جو بعد میں اگر چہ واپس لے لیا گیا۔)

ایک طویل عرصہ بھارت نے افغانستان سے پاکستان کے لیے مسائل پیدا کیے رکھے۔ پاکستان مخالف تحریکیں چلیں اوور بھارت  اور افغان حکومتوں نے ان کی مکمل سرپرستی کی۔ بھارت کی اسٹریٹیجک ڈیپتھ کا کھیل چلتا رہا۔

بھارت کی سہولت کاری سے افغان وزیر اعظم ہاشم خان کی سرپرستی میں پشتون زلمے قائم ہوئی۔ منصوبہ یہ تھا کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی یہ زلمے گڑ بڑ پھیلائے گی اور افغان فوج پاکستان پر حملہ کر دے گی۔

 بھارت میں افغانستان کے سفیر سردار نجیب اللہ  تھے۔ انہوں نے کہا بس آج کل میں قبائلی عوام اٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنی مرکزی اسمبلی کا انتخاب کر کے حکومت قائم کر لیں گے۔

افغان وزیر اعظم داؤد خان نے تو پاکستان میں بغاوت کے لیے باقاعدہ ایک وزارت قائم کی اور اس معاملے میں ان کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ وزیر اعظم ہوتے بھی اس کا قلمدان خود سنبھالا۔

مزید پڑھیے: بیت اللہ سے

قیام پاکستانن کے ابتدائی دنوں میں بھارت کی قیادت جو یہ کہہ رہی تھی کہ پاکستان جلد ہی ختم ہو جائے گا اور پھر سے بھارت میں شامل ہو جائے گا تو اس منصوبے میں صرف بھارت کی قیادت شامل نہیں تھی، افغان قیادت بھی اس کے ساتھ تھی۔ آپ اسے بھارت کی اسٹریٹیجک ڈیپتھ کہہ سکتے ہیں۔

پاکستانن کا اسٹریٹجک ڈیپتھ کا تصور صرف یہ تھا کہ بھارت اس منصوبے میں کامیاب نہ ہو۔  ایسا ہر گز نہیں  تھا کہ پاکستان نے افغانستان پر قبضہ کرنا تھا یا اس نے بھارتی حملے کے جواب میں افغانستان کی تزویراتی گہرائی میں جا کر جواب دینا تھا۔ یہ تصور صرف اتنا تھا کہ افغانستان میں پاکستان دوست حکومت رہے ۔

پاکستان  کے ایک جانب 2912 کلومیٹر پرر بھارت بیٹھا ہے۔ اور دوسری جانب 2640 کلومیٹر پر افغانستان بیٹھا ہے۔ اگر دونوں طرف دشمنی ہو تو پاکستان سینڈوچ بن جاتا ہے۔ اسی چیز سے بچنے کے لیے پاکستان نے ہر ممکن کوشش کی لیکن جب پانی سر سے اونچا ہونے لگا تو پاکستان نے بھی کھل کر جوابی کارروائی کر دی۔

اس وقت بھی بھارت اور افغانستان کے تعلق کی نوعیت وہی ہے جو قیام پاکستان کے وقت تھی۔ بھارت کب سے افغانستان کا دوست ہو گیا۔ وہ صرف اس چانکیائی فارمولے پر عمل پیرا ہے کہ دشمن کے پڑوسی کو دوست بنا کررکھو۔ اس دوستی میں افغانستان صرف استعمال ہو گا اس ملے گا کچھ نہیں۔

بین الاقوامی پابندیوں اور جٖغرافیائی مسائل کی وجہ سے بھارت ایک حد سے افغانستان کو کچھ نہیں دے سکتا۔ نہ عسکری طور پر، نہ معاشی طور پر۔ افغانستان کا فروٹ سیدھا پاکستان کی منڈیوں تک آتا ہے، اب اگر کوئی اسے چاہ بہار کے راستے بھارت  کا طویل سفر کرنا چاہتا ہے تو کر کے دیکھ لے۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ امن فارمولا : کون کہاں کھڑا ہے؟

افغانستان میں دریائے کابل اور کنڑ پر ڈیموں میں بلاشبہ بھارت نے فنٖڈز دیے ہیں لیکن یہ بھی عملا ایک تزویراتی سرگرمی ہے اور اس کا مقصد پاکستان کو جانے والے پانی کو کم کرنا ہے۔ یعنی جو آبی جارحیت بھارت نے پاکستان کے خلاف خوود کی ہے ویسا ہی کام وہ افغانستان سے بھی کروانا چاہتا ہے۔

بھارت کے ساتھ اشتراک کار میں افغانستان کے لیے کچھ خاص نہیں ہے سوائے اس کے وہ بھارت کی پراکسی کے لیے سازگار زمین فراہم کرے۔ اس کے براہ راست معاشی مفادات پاکستان سے وابستہ ہیں۔

پاکستان افغان امپورٹس کا سب سے بڑا ٹرانزٹ روٹ بھی ہے۔ اس کا حجم قریب 60 فیصد ہے۔ ان امکانات کو نظر انداز کر بھارت کی اسٹریٹیجک ڈیپتھ کا ایندھن بن جانا افغانستان کے خسارے کا سودا ہی ہو گا۔

 لیکن یہاں وہ وقت بھی ہم نے دیکھا کہ ابھی ماضی قریب میں ہی افغانستان نے پاکستان کے ساتھ تجارتی بات چیت یہ کہہ کر معطل کر دی کہ اس میں جب تک بھارت کو بھی شامل نہیں کیا جاتا ہم کوئی بات نہیں کریں گے۔

یہ بھی پڑھیے: مریم نواز یا علی امین گنڈا پور

یہ جو دوحہ معاہدہ کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے ہی افغان قیادت نے ڈیرنڈ لائن  کا سہرا کہنا شروع کر دیا ہے یہ طرز عمل بتا رہا  ہے کہ امن معاہدے کی مدت بھی طویل نہیں ہو گی۔

بھارت اپنی اسٹریٹیجک ڈیپتھ کو مزید بڑھائے گا اور پاکستاان اس صورت حال سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ معاملات بہتر نہ ہوئے تو منظر نامے میں کافی کچھ تبدیل ہو سکتا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آصف محمود

آصف محمود انگریزی ادب اور قانون کے طالب علم ہیں۔ پیشے سے وکیل ہیں اور قانون پڑھاتے بھی ہیں۔ انٹر نیشنل لا، بین الاقوامی امور، سیاست اور سماج پر ان کی متعدد کتب شائع ہوچکی ہیں۔

اسٹریٹیجک ڈیپتھ افغانستان بھارت بھارت اور افغانستان کی پینگیں پاک افغان کشیدگی پاکستان ڈیورنڈ لائن.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغانستان بھارت پاک افغان کشیدگی پاکستان ڈیورنڈ لائن میں افغانستان افغانستان میں افغانستان کے پاکستان کے اور افغان میں بھارت کے ساتھ کے لیے یہ بھی تھا کہ

پڑھیں:

آسٹریلیا نے افغان طالبان پر مالی اور سفری پابندیاں عائد کردیں

آسٹریلیا نے افغانستان میں خواتین اور بچیوں کے حقوق کی بگڑتی صورتِ حال کا حوالہ دیتے ہوئے طالبان حکومت کے 4 سینئر اہلکاروں پر مالی اور سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

عالمی میڈیا کے مطابق آسٹریلیا نے طالبان حکومت کے چار اعلیٰ عہدیداروں پر پابندیاں نافذ کی ہیں، جن میں تین وزراء اور طالبان کے نامزد چیف جسٹس شامل ہیں۔ کینبرا نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ عہدیدار افغانستان میں خواتین اور بچیوں کے بنیادی حقوق کو محدود کرنے اور اچھے طرزِ حکمرانی کو متاثر کرنے کے ذمہ دار ہیں۔

آسٹریلیا کی وزیرِ خارجہ پیّنی وونگ نے اپنے بیان میں کہا کہ طالبان کی موجودہ پالیسیوں نے خواتین کی تعلیم، ملازمت، آزادانہ نقل و حرکت اور عوامی زندگی میں شرکت کو سخت متاثر کیا ہے۔ ان کے مطابق پابندیوں کا مقصد طالبان پر براہِ راست دباؤ بڑھانا اور افغان عوام کے حقوق کے لیے کھڑے ہونا ہے۔

یہ اقدامات آسٹریلیا کے نئے قانونی فریم ورک کے تحت اٹھائے گئے ہیں، جس کے ذریعے حکومت خودمختار طور پر مخصوص افراد اور اداروں پر پابندی لگا سکتی ہے تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جواب دیا جا سکے۔

یاد رہے کہ طالبان کا موقف ہے کہ وہ اسلامی قانون اور مقامی روایات کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں۔ طالبان نے 2021 میں دوبارہ اقتدار سنبھالا تو خواتین اور بچیوں کی تعلیم اور کام کرنے پر سخت پابندیاں نافذ کی گئیں، جس پر عالمی سطح پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔

آسٹریلیا بھی ان ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اگست 2021 میں افغانستان سے اپنی فوجیں نکالیں، جہاں وہ دو دہائیوں تک نیٹو کے زیرِ قیادت مشن کا حصہ رہا۔ طالبان کے دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد آسٹریلیا نے ہزاروں افغان شہریوں زیادہ تر خواتین اور بچوں کو بطور اپنے یہاں پناہ دی۔

آج بھی افغانستان کی بڑی آبادی بنیادی ضروریات کے لیے انسانی امداد پر انحصار کر رہی ہے، جبکہ عالمی برادری طالبان سے خواتین کے حقوق بحال کرنے کا مطالبہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بانی پی ٹی آئی اقتدار کیلیے بچوں کے قاتلوں بھارت، افغانستان سے مدد لے رہا ہے، عظمیٰ بخاری
  • آسٹریلیا نے افغان طالبان پر مالی اور سفری پابندیاں عائد کردیں
  • افغان ڈیموکریٹک اپوزیشن نے طالبان سے یورپ سمیت خطے کو درپیش خطرات سے آگاہ کر دیا
  • افغانستان کیساتھ صرف انسانی امدادی کارروائی کیلیے کھولی ،دفتر خارجہ
  • پاکستان نے اپنی سکیورٹی کے پیشِ نظر سرحد بند کی؛ ترجمان دفتر خارجہ
  • افغانستان کی جانب سے دہشتگردوں کی روک تھام کی پختہ یقین دہانی تک سرحد بند رہیگی: پاکستان کا دو ٹوک مؤقف
  • سعودی عرب میں پاک افغان مذاکرات سے متعلق کچھ علم نہیں: ترجمان دفتر خارجہ
  • ترجمان دفترخارجہ کا سعودی عرب میں پاک افغان مذاکرات سے متعلق اظہار لاعلمی
  • واشنگٹن میں افغان شہری کے حملے میں امریکی اہلکار ہلاک؛ طالبان کا پہلا بیان سامنے آگیا
  • افغان مسئلے کے حل کی چابی علاقائی ممالک کے پاس ہے: سفارتی ماہرین