Jasarat News:
2025-10-23@02:06:51 GMT

دوحا مذاکرات کا مستقبل

اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251023-03-2
حالیہ جنگ اور کشیدگی کے ماحول میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان میں ہونے والی ملاقات اور مذاکرات کا عمل یقینی طور پر ایک اہم پیش رفت سمجھی جانی چاہیے۔ کیونکہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے اور مذاکرات ہی کی بنیاد پر مسائل کا حل تلاش کیا جانا چاہیے۔ چین سعودی عرب ترکی اور قطر کی مشترکہ حمایتی حکمت عملی نے دوحا مذاکرات کے عمل کو یقینی بنایا۔ کہا جا رہا ہے کہ ترکی نے ان مذاکرات کے نتیجے میں سامنے آنے والے نکات پر عمل درآمد کی ضمانت دی ہے۔ کیونکہ موجودہ صورتحال میں پاکستان افغانستان کے درمیان جو بداعتمادی ہے اس میں کسی تیسرے ملک کی ضمانت کے بغیر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان نے ان مذاکرات کو خوش آئند قرار دیا ہے لیکن یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اگر افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہوگی تو مذاکرات اور معاہدوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ ایسی صورت میں پاکستان جوابی کارروائی کا حق رکھتا ہے اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کے مذاکرات کی کامیابی کا انحصار افغانستان کے جواب پر منحصر ہوگا۔ پاکستان کا موقف ہے افغانستان کو زیادہ ذمے داری کے ساتھ پاکستان کے تحفظات کو اور بالخصوص ٹی ٹی پی کے حوالے سے اپنی پالیسی کو واضح کرنا ہوگا اور اس میں کوئی تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ پاکستان کے لیے اس کی داخلی سلامتی اور سیکورٹی زیادہ عزیز ہے اور اس پر سمجھوتا کرنا پاکستان کو حالت جنگ میں رکھنے کے مترادف ہوگا۔

پاکستان کو افغانستان پر اس حوالے سے بھی تشویش ہے کہ اس کے بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات پاکستان دشمنی پر مبنی بن رہے ہیں جو پاکستان کے لیے مزید مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ دہلی اور کابل کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ بھارت کی کوشش ہے کہ وہ طالبان کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر زیادہ دباؤ ڈالے اور پاکستان کو غیر مستحکم رکھے۔ افغان طالبان کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ بھارت سے اس کے تعلقات کی نوعیت پاکستان دشمنی پر مبنی نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ اس سے پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات بھی متاثر ہوں گے۔ خطے کی سیاست کے لیے نئے چیلنجز بھی ابھر کر سامنے آئیں گے۔ اسی ماہ اکتوبر میں استنبول میں ہونے والے مذاکرات کے دوسرے راؤنڈ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ان مذاکرات کی حتمی تفصیلات سامنے آئیں گی اور پھر اندازہ ہو سکے گا کہ یہ معاہدہ کیا ہے اور کس حد تک اس پر عمل درآمد ممکن ہو سکے گا۔ کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ اگر افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رہتی ہیں تو پھر مذاکرات اور اس کی اہمیت بہت پیچھے چلے جائیں گے۔ اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ مسائل کا حل نہیں ہو سکتی اور مسائل کا حل بات چیت کی مدد سے بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے پاکستان کو سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر اپنی موثر حکمت عملی کے ساتھ افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانا ہوگا اور یہ کہ اس سوچ سے گریز کرنا ہوگا کہ پاکستان مسئلے کا حل صرف جنگ کے ذریعے چاہتا ہے۔ بھارت کی کوشش ہوگی کہ پاکستان افغانستان کے تناظر میں جنگ میں الجھے اور اس کے تناظر میں اس کا داخلی استحکام کمزور ہو۔ اسی لیے پاکستان کو بھارت کے ساتھ ہوشیار رہنا ہوگا اور جنگ سے بچ کر چلنے کی پالیسی اختیار کرنی ہوگی۔ جنگ پاکستان کے لیے آخری آپشن ہونا چاہیے اور اس سے پہلے سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ کو بنیاد بنا کر ہی آ گے بڑھنا پاکستان کے مفاد میں ہے۔ اسی طرح پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری اسی صورت میں ممکن ہوگی جب بڑی طاقتیں ان دونوں ممالکوں کے درمیان بڑی ثالثی کا کردار ادا کریں۔ کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات سیاسی تنہائی میں حل نہیں ہو سکیں گے اور اس کے لیے معاملات کے حل میں بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔ اسی طرح ان مذاکرات کا مقصد محض جنگ بندی تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ مستقبل میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر ہوں اور امن کا راستہ اختیار کیا جائے۔ پاکستان ایک ہی وقت میں افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات خراب رکھ کر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس سلسلے میں جہاں پاکستان کو ذمے دارانہ کردار ادا کرنا ہے وہیں خود افغان طالبان پر بڑی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ بھی ذمے داری کا مظاہرہ کریں اور مسائل کا حل تلاش کرنے میں پاکستان کا ساتھ دیں۔ افغانستان کو یہ بھی کوشش کرنی ہوگی کہ وہ خود کو پاکستان کے ساتھ جوڑے اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات پاکستان دشمنی پر نہ رکھے۔ افغانستان کو سمجھنا ہوگا کہ بھارت اسے پاکستان کی مخالفت میں بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہتا ہے۔ خود افغانستان کا داخلی سیاسی استحکام پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے بغیر ممکن نہیں ہے اور یہی اس کی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔

پاکستان اس وقت داخلی سطح پر جو سنگین سیکورٹی اور دہشت گردی کے مسائل سے دوچار ہے اور اس سے صوبہ خیبر پختون خوا دہشت گردی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس صوبے میں روزانہ کی بنیاد پر ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں اور ٹی ٹی پی نے پاکستان کو اپنی دہشت گردی کا مرکز بنایا ہوا ہے۔ ایسے میں افغانستان کی حکومت کا ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہ کرنا بھی سمجھ سے بالاتر ہے اور اس حکمت عملی کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا متاثر ہونا فطری امر ہے۔ اس وقت پاکستان کی ضرورت بنتی ہے کہ وہ افغانستان کو مذاکرات کے ساتھ جوڑے رکھے اور اس عمل کو یقینی بنائے کہ مسائل کا حل مذاکرات کی مدد سے ممکن ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو افغانستان سے تعلقات کی بہتری کے لیے اپنے داخلی مسائل کو حل کرنا ہوگا اور کوشش کرنی ہوگی کہ افغانستان کے ساتھ حکمت عملی میں اتفاق رائے پیدا ہو اور سیاسی تقسیم سے گریز کیا جائے۔ کیونکہ اس سیاسی تقسیم کے ساتھ افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں ہوسکیں گے۔ اس لیے پاکستان کو زیادہ تحمل اور بردباری سے اپنے فیصلے کرنے ہوں گے اور ساتھ ساتھ اپنے داخلی مسائل کا علاج بھی تلاش کرنا ہوگا اور یہ تسلیم بھی کرنا ہوگا کہ سیکورٹی اور دہشت گردی سے جڑے مسائل کا تعلق ہمارے اپنے داخلی مسائل سے بھی ہے۔ محض دوسروں پر الزام لگا کر ہم اپنا دامن نہیں بچاسکیں گے۔

سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات پاکستان اور افغانستان کے افغانستان کے درمیان افغانستان کے ساتھ افغانستان کو میں پاکستان مسائل کا حل مذاکرات کے پاکستان کو پاکستان کے ان مذاکرات ہونا چاہیے ساتھ اپنے کرنا ہوگا تعلقات کی حکمت عملی ہے اور اس ہوگا اور نہیں ہو ہوگی کہ کے لیے دیا ہے

پڑھیں:

پاکستان طالبان رجیم سے مذاکرات ضرور کرے مگر بارڈر پر بھی نظر رکھے، اعزاز احمد چوہدری

پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اور امریکا میں سابق سفیر اعزاز احمد چوہدری نے خبردار کیا ہے کہ افغان طالبان قابل اعتبار نہیں ہیں لہٰذا پاکستان کو چاہیے کہ ان کے ساتھ مذاکرات کے دوران اپنی سرحد کی حفاظت پر بھی مکمل توجہ رکھے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان پر افغانستان میں رجیم چینج کی کوششوں کا الزام بے بنیاد ہے: وزیر دفاع خواجہ آصف

وی نیوز ایکسکلیوسیو میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان کا ماضی کے معاہدوں کا ریکارڈ تسلی بخش نہیں رہا۔ انہوں نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ سنہ 2020 میں طالبان نے امریکا کے ساتھ معاہدہ کیا مگر اس کی بڑی شقوں پر عمل نہیں کیا۔

اعزاز چوہدری نے کہا کہ خواہ تجارت ہو یا مہاجرین کی میزبانی پاکستان نے برسوں تک افغانستان کے ساتھ فراغ دلی دکھائی لیکن اب ان پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو بطور خودمختار ملک تسلیم کرنے کے باوجود پاکستان کے خدشات بجا ہیں کیونکہ بھارت کے اثر و رسوخ نے دونوں ممالک کے درمیان بدگمانی پیدا کی ہے۔

مزید پڑھیے: پاکستان نے قطر اور ترکیہ کی ضمانت پر سیز فائر کیا، طالبان اب ٹھیک ہوجائیں گے، سابق سفیر طارق رشید

تاریخی تناظر بیان کرتے ہوئے اعزاز چوہدری نے بتایا کہ سنہ 1893 میں عبدالرحمان خان نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کیا تھا اور ان کے بعد آنے والی افغان حکومتوں نے بھی اس فیصلے کی توثیق کی مگر وقت کے ساتھ افغانستان میں ایک غلط فہمی پیدا کر دی گئی کہ یہ علاقہ ان کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی غلط فہمی نے دونوں ممالک کے تعلقات کو نقصان پہنچایا۔

’افغانستان نے بھارت سے ہمیشہ اچھے تعلقات رکھے‘

ان کے مطابق ماضی سے اب تک افغانستان کی حکومتیں بھارت کے ساتھ قریبی روابط رکھتی آئی ہیں اور بھارت نے ہمیشہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کی۔ انہوں نے جعفر ایکسپریس حملے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس سانحے میں ملوث افراد کے بھارت سے روابط تھے۔

اعزاز چوہدری نے واضح کیا کہ بھارت اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں بلوچستان میں بدامنی پھیلانے میں شامل رہی ہیں جس کے شواہد مختلف عالمی رپورٹس میں موجود ہیں۔

چک ہیگل اور ابی ناشت پالی وال کی تحریروں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت کئی سالوں سے افغانستان کے ذریعے پاکستان کے لیے مسائل پیدا کرتا رہا ہے۔

مزید پڑھیں: عمران خان کے کہنے پر دہشتگردوں سے مذاکرات نہیں کریں گے، وزیر دفاع خواجہ آصف

اعزاز چوہدری نے افغان حکومت کو دہشتگردی کے مسئلے میں ’پارٹ آف دی پرابلم‘ قرار دیا۔

’افغان طالبان ٹی ٹی پی کے داعش میں شامل ہوجانے کے ڈر سے کوئی کارروائی نہیں کرتے‘

ان کے مطابق طالبان انتظامیہ کے پاس صلاحیت کی بھی کمی ہے اور ارادے کی بھی اس لیے وہ ٹی ٹی پی کے خلاف سختی سے کارروائی نہیں کرتی۔ ان کے خیال میں طالبان کو خدشہ ہے کہ اگر وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں گے تو وہ داعش خراسان میں شامل ہو جائیں گے۔

اعزاز چوہدری نے کہا کہ پاکستان کو دو طرفہ حکمت عملی اپنانی ہوگی، ایک طرف سرحدی تحفظ اور دوسری طرف اقتصادی، تعلیمی اور سفارتی معاملات پر محتاط نظر۔

ان کے مطابق دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی نئی حکمت عملی پہلے سے زیادہ مؤثر ہے کیونکہ اب ریاست نے معذرت خواہانہ رویہ چھوڑ کر سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔

اعزاز چوہدری نے کہا کہ آرمی پبلک اسکول پشاور جیسے سانحات نے یہ ثابت کر دیا کہ دہشتگردوں کے ساتھ کسی نرمی کی گنجائش نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’جب تک آپ طاقت کا استعمال نہیں کرتے ڈپلومیسی کامیاب نہیں ہوتی‘۔

’پاک امریکا تعلقات ہمیشہ مفادات کی بنیاد پر رہے‘

امریکا کے ساتھ تعلقات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاک امریکا تعلقات ہمیشہ ٹرانزیکشنل نوعیت کے رہے ہیں، یعنی مفادات کی بنیاد پر۔

انہوں نے وضاحت کی کہ جب بھی دونوں ممالک کے مفادات ملے، تعلقات بہتر ہوئے۔ تاہم، بھارت کی حالیہ پالیسیوں نے امریکا کے لیے بھی خدشات پیدا کیے ہیں جس کی وجہ سے واشنگٹن نے دوبارہ پاکستان کی طرف نرم رویہ اختیار کیا ہے۔

اعزاز چوہدری نے کہا کہ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات گہرے، پائیدار اور باہمی احترام پر مبنی ہیں۔

’چین نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا‘

ان کا کہنا تھا کہ چین نے ہمیشہ پاکستان کی خودمختاری کا احترام کیا اور مشکل وقت میں سرمایہ کاری کی۔

ان کے مطابق پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی صرف اپنے قومی اور اقتصادی مفادات کی بنیاد پر تشکیل دینی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے: پاک افغان معاہدہ: دہشتگردی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ کہنے والوں کا ٹی ٹی پی کی حمایت ترک کرنے کا وعدہ

افغان مہاجرین کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اعزاز چوہدری نے کہا کہ سنہ 1980 کی دہائی میں پاکستان نے فراخ دلی دکھاتے ہوئے لاکھوں افغانوں کو پناہ دی لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ان پالیسیوں کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے۔

ان کے مطابق افغانوں کو ملک بھر میں آزادانہ پھیلنے دینا ایک بڑی انتظامی غلطی تھی۔

’افغان طالبان حکومت نہیں رجیم کی طرح برتاؤ کر رہے ہیں‘

اعزاز چوہدری نے کہا کہ افغان طالبان ’حکومت‘کے طور پر نہیں بلکہ ’رجیم‘ کے طور پر برتاؤ کر رہے ہیں اور جب تک وہ بین الاقوامی ذمہ داریوں کو قبول نہیں کرتے خطے میں امن ممکن نہیں۔

مزید پڑھیں: افغانستان سے دہشتگردی کا سلسلہ فی الفور بند ہوگا، قطر اور ترکیہ کے مشکور ہیں، خواجہ آصف

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو چاہیے کہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مضبوط، متوازن اور حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی اختیار کرے کیونکہ یہی قومی سلامتی اور علاقائی استحکام کی ضمانت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغانستان پاک افغان مذاکرات پاکستان ڈیورنڈ لائن سابق سفیر اعزاز احمد چوہدری

متعلقہ مضامین

  • بھارت اور افغان طالبان کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوگئے
  • پاکستان طالبان رجیم سے مذاکرات ضرور کرے مگر بارڈر پر بھی نظر رکھے، اعزاز احمد چوہدری
  • پاکستان اور افغانستان میں کشیدگی
  • افغان وزیر دفاع نے پاک افغان کشیدگی میں بھارتی کردار کی باتوں کو مسترد کردیا
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنائو کی وجہ ٹی ٹی پی ہے: ملیحہ لودھی
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان تناؤ کی وجہ ٹی ٹی پی ہے: ملیحہ لودھی
  • افغان طالبان کے ساتھ بات کی ہے ٹی ٹی پی کے ساتھ نہیں، ان کے ساتھ کوئی بات نہیں ہوگی: خواجہ آصف
  • امن معاہدہ، خدشات اور مستقبل
  • دوحا مذاکرات کامیاب ،پاکستان اور افغانستان فوری جنگ بندی پر راضی