Express News:
2025-10-21@00:49:05 GMT

امن معاہدہ، خدشات اور مستقبل

اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT

پاکستان اور افغانستان حکومت میں امن معاہدہ ہوگیا ہے، مذاکرات کے دوران فریقین نے اپنے تحفظات، خدشات اور مستقبل کے تعاون کے امکانات پر تفصیلی گفتگو کی ہے، ہفتے کو استنبول میں دوبارہ مذاکرات ہونگے، طالبان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف کام کرنے والے گروپوں کو روکیں گے، قطری وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان امن اور استحکام کے لیے مستقل میکنزم بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے، سیز فائر دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی کا خاتمہ کرے گی۔

 بلاشبہ اس معاہدے کے خطے پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس معاہدے سے عالمی سطح پر یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان اور افغانستان اپنے اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس معاہدے کی شقیں بظاہر سادہ ہیں، مگر ان کے اندر چھپی پیچیدگیاں بہت گہری ہیں پہلا نکتہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کسی بھی مسلح گروہ کو دوسرے ملک کے خلاف اپنی زمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

دوسرا نکتہ یہ کہ کسی بھی قسم کی فضائی یا زمینی کارروائی کے بغیر مشترکہ تحقیقاتی کمیشن کے ذریعے مسئلہ حل کیا جائے گا۔ تیسری شق میں واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ اگر کسی طرف سے خلاف ورزی ہوئی تو ثالث ممالک، یعنی قطر اور ترکیہ، مداخلت کے مجاز ہوں گے۔ بظاہر یہ سب باتیں امن کی ضمانت لگتی ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان پر عمل درآمد ممکن ہوگا؟

  پاکستان کا ایک طویل عرصے سے یہ موقف رہا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، وہاں سے ہونے والی دہشت گردی کو بھارت سپورٹ کر رہا ہے، پاکستان جب بھی طالبان حکومت کے سامنے یہ معاملہ رکھتا تھا تو ان کی جانب سے یہ کہا جاتا کہ تحریک طالبان پاکستان یعنی فتنہ الخوارج کے لوگ ان کے کنٹرول میں نہیں۔ ان کی جانب سے بھارتی سپورٹ کی بھی نفی کی جاتی تھی مگر 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب پیدا ہونے والی صورتحال نے طالبان حکومت کو دنیا کے سامنے ایکسپوز کر دیا ہے، یہ واضح ہوگیا کہ افغانستان نے یہ حملہ بھارت کو خوش کرنے کے لیے کیا اور یہ بھی واضح ہوا کہ فتنہ الخوارج اور تحریک طالبان افغانستان دراصل اکٹھے ہیں اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے ذمے دار ہیں۔

 ذرا ماضی کو یاد کیجیے کہ پاکستان نے افغانستان کو کس کس موقع پر سہارا دیا، آج بھی لاکھوں افغانی پاکستان میں موجود ہیں، ان کی فیملیاں افغانستان میں ہیں مگر ان کے بزنس اور نوکریاں یہاں پر ہیں، پاکستان نے ان لاکھوں مہاجرین کا شناخت بھی دی، گھر بھی دیا اور روٹی مگر اس سب کے باوجود افغانستان بھارت کا گودی ملک بنتا رہا، بھارت کے اکسانے پر پاکستان کو دھمکیاں بھی لگاتا رہا اور اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال بھی کرتا رہا، حالیہ تنازعے کی بھی بنیادی وجہ یہی ہے کہ پاکستان نے افغانستان کو ہزاروں بار سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم دونوں اسلامی ملک ہیں، ہمیں تعاون کے ساتھ رہنا چاہیے اور یہ کہ افغانستان اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرے مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارا کھا کر ہمیں کو آنکھیں نکالنے والا ملک ایک مرتبہ پھر نئی دہلی کے اشارے پر چل رہا ہے۔ عین اس وقت جب افغانی وزیر خارجہ امیر متقی بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے ملاقات کر رہے تھے، پاک افغان کشیدگی جاری تھی، پاکستان نے بڑی کارروائی کرتے ہوئے افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے سربراہ کو جہنم واصل کیا۔

 عالمی سیاست میں چند خطے ایسے ہیں جو نہ صرف اپنی جغرافیائی حیثیت کے باعث اہم ہوتے ہیں بلکہ وہاں کی داخلی صورتحال براہِ راست دنیا کے امن و استحکام پر اثرانداز ہوتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کا تعلق بھی ایسے ہی خطوں سے ہے۔ یہ دونوں ممالک نہ صرف جغرافیائی اعتبار سے ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں بلکہ ان کی سیکیورٹی، معیشت، سیاست اور معاشرتی ڈھانچے بھی ایک دوسرے سے گہری جُڑت رکھتے ہیں۔

اس وقت جب افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے اور پاکستان مسلسل تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی دہشت گردی کا شکار ہے۔ بلاشبہ پاکستان ان اولین ممالک میں شامل تھا جس نے طالبان کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کی کوشش کی۔ اس کی بنیادی وجہ افغانستان میں امن کا قیام اور پاکستان کی مغربی سرحد کی سیکیورٹی تھی، مگر وقت کے ساتھ ساتھ صورتحال پیچیدہ ہوتی گئی۔ خاص طور پر جب ٹی ٹی پی نے پاکستان میں اپنی کارروائیاں تیز کیں اور الزامات لگنے لگے کہ یہ گروہ افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں سے کام کر رہا ہے، تو دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کا فقدان پیدا ہوا۔ پاکستان بارہا طالبان حکومت سے یہ مطالبہ کرتا رہا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کو اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روکے، مگر اب تک اس محاذ پر کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔

پاکستان کی داخلی سلامتی کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ ٹی ٹی پی سے لاحق ہے، یہ گروہ جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ملک میں دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے، 2014 کے آرمی پبلک اسکول حملے کے بعد شدید دباؤ کا شکار ہوا تھا۔ تاہم افغان طالبان کی واپسی کے بعد اس گروہ نے نئی توانائی حاصل کی اور دوبارہ منظم ہونے لگا۔ پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ اگر افغان طالبان واقعی ایک خود مختار اور منظم حکومت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو پھر ان پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔پاکستان کو افغان طالبان کے ساتھ دوٹوک بات چیت کرنی چاہیے۔

اگر طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہے تو پاکستان کو اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے تحفظ کے لیے دیگر راستے اختیار کرنے چاہئیں، جن میں سرحدی آپریشنز، انٹیلیجنس شیئرنگ اور بین الاقوامی تعاون شامل ہو سکتے ہیں۔ افغانستان کی عام عوام، بالخصوص تعلیم یافتہ اور نوجوان نسل، طالبان کے سخت گیر رویے سے ناخوش ہے۔ پاکستان کو ان طبقات سے تعلقات مضبوط کرنے چاہئیں تاکہ ایک متبادل بیانیہ فروغ پا سکے، جو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے پاک ہو۔ پاکستان کو اپنی مغربی سرحد پر حفاظتی اقدامات مزید سخت کرنے ہوں گے۔

بارڈر فینسنگ، سرحدی چوکیوں کی تعداد میں اضافہ، اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہو چکا ہے۔طالبان حکومت ایک طرف دنیا سے سفارتی و مالی تعاون چاہتی ہے، دوسری طرف وہ اپنی پالیسیوں میں لچک دکھانے سے گریزاں ہے۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ ان کا رویہ غیر شفاف ہے، اور اس کے باعث پاکستان کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ طالبان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ ایک ذمے دار حکومت کے طور پر اپنا مقام بنانا چاہتے ہیں تو انھیں علاقائی تحفظات کا احترام کرنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر، ان کی حکومت مزید تنہائی کا شکار ہو جائے گی اور خطے میں بداعتمادی کی فضا بڑھے گی۔افغانستان کے عدم استحکام کا اثر پاکستان کی معیشت پر بھی پڑ رہا ہے۔ پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیاں متعدد مواقع پر یہ واضح کر چکی ہیں کہ کچھ مہاجر کیمپ دہشتگرد گروہوں کی بھرتی اور تربیت کے مراکز بن چکے ہیں۔پاکستان کے لیے یہ وقت فیصلہ کن ہے۔

ایک طرف اسے دہشتگردی، معاشی بدحالی اور سیاسی عدم استحکام جیسے چیلنجز کا سامنا ہے، اور دوسری طرف ہمسایہ ملک میں ایسی حکومت ہے جس کے طرزِ حکمرانی پر نہ صرف عالمی برادری کو اعتراض ہے بلکہ جو پاکستان کی سیکیورٹی ترجیحات کو بھی خاطر میں نہیں لاتی۔ ایسے میں پاکستان کو ایک واضح، شفاف اور قومی مفاد پر مبنی پالیسی اختیار کرنی ہو گی۔ یہ صرف پاکستان کی بقاء کا سوال نہیں، بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کا معاملہ ہے۔طالبان حکومت کو بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ اگر وہ دنیا کے ساتھ چلنا چاہتی ہے تو اُسے دہشت گرد گروہوں کے ساتھ فاصلہ رکھنا ہوگا۔ پاکستان اور افغانستان کا رشتہ محض سفارتی نہیں بلکہ تاریخی، ثقافتی، مذہبی اور جغرافیائی بنیادوں پر قائم ہے۔ مگر جب ایک فریق دوسرے کی خودمختاری اور سلامتی کا احترام نہ کرے تو یہ رشتہ صرف نام کا رہ جاتا ہے۔

یہ جنگ صرف پاکستان کی نہیں بلکہ پوری عالمی برادری کی مشترکہ لڑائی ہے، اگر دنیا نے آج افغانستان میں پنپتے دہشت گرد گروہوں کو روکنے میں سنجیدگی نہ دکھائی تو کل یہ مسئلہ ان کے اپنے دروازوں پر بھی دستک دے سکتا ہے۔ پاکستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے، بلکہ اس کے سیکیورٹی خدشات کو سنجیدگی سے سنا جائے، تاکہ خطے میں امن، ترقی اور استحکام کی راہیں ہموار کی جا سکیں۔ اب ترکیہ اور قطرکی ثالثی میں پاک افغان مذاکرات کا انتہائی اہم دور مکمل ہوا ہے، ان مذاکرات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم ہو جائے گی مگر سوال پھر وہاں ہے کہ کیا افغانستان ہمیں بطور ’’ برادر اسلامی ملک ‘‘ تسلیم کرے گا یا بھارت کی طرح صرف ہمسایہ بن کر رہے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کے درمیان کے خلاف استعمال پاکستان کے خلاف افغانستان میں طالبان حکومت اپنی سرزمین کی سیکیورٹی پاکستان کو پاکستان کی پاکستان نے ہیں بلکہ ٹی ٹی پی یہ ہے کہ کے ساتھ رہا ہے کے لیے کہ اگر

پڑھیں:

طالبان ہوش سے کام لیں!

بھارت سندور آپریشن کے نام پر پاکستان پر بھرپور حملہ کر چکا ہے۔اس یہ حملہ ناکام رہا ۔ پاکستانیجواب اس کے لیے ایسا سبق بن چکا ہے کہ اب اسے کبھی پاکستان کے خلاف جارحیت کرنے کا دل میں خیال بھی نہیں لانا چاہیے مگر اسے کیا کہیے کہ وہ اتنا ہٹ دھرم واقع ہوا ہے کہ کراری ہار کے باوجود بھی پاکستان کے خلاف آپریشن سندور دوبارہ شروع کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے ۔

ایسے میں اس نے افغانستان کے وزیر خارجہ ملّا متقی کو اپنے ہاں مہمان نوازی کا موقع فراہم کیا ہے۔ افغانی وزیر خارجہ کئی دن دہلی میں گزار کر واپس کابل چلے گئے ہیں۔ طالبان وزیر خارجہ کا یہ دورہ افغان حکومت کی اعلیٰ قیادت کے حکم پر ہی عمل میں آیا تھا مگر اس دورے نے طالبان کے اصولوں کا جنازہ نکال دیا ہے۔

افغان طالبان خواتین سے کتنی نفرت کرتے ہیں، پوری دنیا کو پتا ہے۔ افغانستان کی خواتین طالبان سے اس قدر بے زار ہیں کہ وہ ان کی حکومت کے لیے بددعائیں ہی کرتی ہوں گی۔ اس لیے کہ انھیں وہاں غلام بنا کر رکھا گیا ہے۔

انھیں اسکولوں کالجوں میں تعلیم تک حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ان کے لیے نوکریوں کے دروازے بند ہیں۔ دکانداری نہیں کر سکتیں، کسی سرکاری عہدے پر فائز نہیں ہو سکتیں۔ سیاست ان کے لیے شجر ممنوعہ ہے۔

 دہلی میں ملّا متقی نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کو اس میں شرکت کی اجازت نہیں دی تھی مگر اس پریس کانفرنس پر بھارتی میڈیا نے ایسا شور مچایا اور طالبان کے رویے کو جاہلانہ اور نا قابل قبول قرار دیا، چنانچہ متقی کو دوبارہ پریس کانفرنس کرنا پڑی اور اس میں شرکت کے لیے خواتین کو دعوت دی گئی۔

اس طرح طالبان کے خواتین سے متعلق اصول چکنا چور ہوگئے۔ طالبان خواتین کے ساتھ اپنے ہاں جو رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں، اسے وہ اسلامی طریقہ بیان کرتے ہیں جو سراسر غلط ہے۔ اسلام نے کب خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کی ہے، خواتین کو تو اتنی آزادی حاصل تھی کہ وہ میدان جنگ میں آ کر باقاعدہ زخمی صحابہ کرامؓ کی مرہم پٹی کرنے کا فرض نبھاتی تھیں۔

پھر نبی کریمؐ کی حدیث ہے کہ ’’ تعلیم کا حصول ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے‘‘۔ افسوس کہ طالبان خود کو کٹر مسلمان ضرورکہتے ہیں مگر انھوں نے اہم اسلامی تعلیمات کو یکسر نظرانداز کر دیا ہے یا اپنے فائدے کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔

وہ کابل پر قابض ضرور ہیں مگر ان کی حکومت غیر جمہوری اور عارضی ہے جو کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے، اس لیے کہ افغانستان میں شروع سے یہ ہوتا آیا ہے کہ ایک گروہ دوسرے کو شکست دے کر اقتدار پر قابض ہو جاتا ہے۔

افغان طالبان اس وقت پاکستان سے ناراض ہیں مگر افسوس کہ وہ پاکستان کے احسانوں کو فراموش کر چکے ہیں۔ ویسے افغانستان کے عوام کے ساتھ پاکستان کے بہت سے احسانات ہیں۔ یہ پاکستان ہی تھا جس نے افغانوں کو سوویت یونین کے تسلط سے آزاد کرایا تھا۔

حالانکہ بھارت انھیں روسی تسلط میں رکھنا چاہتا تھا مگر پاکستان نے ان کی آزادی کے لیے روس سے ٹکر لے کر کتنی ہی قربانیاں دی تھیں جب کہ روس اس وقت ایک سپرپاور تھا اور اس سے ٹکر لینا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔

پاکستان نے یہ مشکل جنگ جیتی اور روسی فوج کو افغانستان سے نکال باہر کر دیا۔ اس سلسلے میں پاکستان کو امریکی مدد ضرور حاصل تھی مگر افرادی قوت اور حکمت عملی تو پاکستان کی ہی تھی۔ افسوس کہ اس کے بعد افغان اپنی سرزمین کی پھر حفاظت نہیں کر سکے اور امریکا نے پورے افغانستان کو اپنی جاگیر بنا لیا۔

اس نے وہاں مستقل ڈیرہ ڈالنے کا ارادہ کر لیا تھا کیونکہ فوجی حکمت عملی کے لحاظ سے یہ ملک اس کے لیے بہت سودمند ثابت ہوا تھا۔ افغانستان برسوں امریکا کے زیر تسلط رہا، افغانوں نے امریکا سے اپنی سرزمین کو خالی کرانے کی بہت کوشش کی مگر اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

طالبان نے امریکا کو افغانستان سے باہر نکالنے کے لیے گوریلا جنگ کا سہارا لیا۔ مگر وہ اس عالمی طاقت کو ہٹانے سے قاصر تھے، پھر یہ پاکستان تھا جس نے امریکی حکومت سے مخاصمت مول لے کر امریکا کو افغانستان خالی کرنے پر مجبور کر دیا ۔

طالبان نے درپردہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو اپنے ساتھ ملائے رکھا۔ اب موجودہ صورت حال یہ ہے کہ طالبان پاکستان کے احسانات بھول چکے ہیں ۔ انھوں نے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں اپنے سینے سے لگا رکھا ہے، ٹی ٹی پی کے کئی رہنما طالبان کے اعلیٰ عہدیدار بھی بن چکے ہیں، ٹی ٹی پی پاکستان میں مسلسل دہشت گردی کر رہی ہے۔

 ملّا متقی کا حالیہ دورہ دہلی بھارت سے دوستی کو استوار کرنا ہے ۔ اب بھی وقت ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں ورنہ وہ اپنے اقتدار کے ساتھ ساتھ اپنے وجود سے بھی کہیں ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان معاہدہ، بیرونی اثرات سے بھی نکلیں
  • عمران خان کے کہنے پر دہشتگردوں کے مذاکرات نہیں کریں گے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • افغانستان میں حکومت تبدیلی کی کوششوں کا الزام بے بنیاد ہے: وزیر دفاع خواجہ آصف
  • آزاد کشمیر حکومت کا مستقبل کیا ہوگا؟ بڑی خبر آ گئی
  • پاک افغان معاہدہ: دہشتگردی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ کہنے والوں کا ٹی ٹی پی کی حمایت ترک کرنے کا وعدہ
  • افغان طالبان کا ایک اور آمرانہ اقدام، پاکستان مخالف پروپیگنڈے سےانکار پر بڑےادارےکی تمام نشریات معطل
  • طالبان حکومت کا نیا ظالمانہ اقدام، پاکستان مخالف پروپیگنڈا سے انکار پر شمشاد ٹی وی کی نشریات بند
  • طالبان ہوش سے کام لیں!
  • مذاکرات زیادہ پرامید نہیں، طالبان حکومت ماضی میں بھی وعدوں سے مکر گئی تھی، اعزاز چودھری