پاک افغان جنگ بندی، مضمرات
اشاعت کی تاریخ: 24th, October 2025 GMT
برادر اسلامی ملک قطر نے اپنی ثالثی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے گزشتہ دنوں پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے میں اپنا مثبت اور تعمیری کردار ادا کیا جو قابل تعریف ہے، دوحہ مذاکرات کے پہلے مرحلے میں فوری جنگ بندی کا معاہدہ کیا گیا، پاکستانی وفد کے سربراہ وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیان کے مطابق افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا سلسلہ فوری طور پر بند ہوگا، دونوں پڑوسی ملک ایک دوسرے کی سرزمین کا مکمل احترام کریں گے، دونوں ممالک کے درمیان ترکیہ کے شہر استنبول میں 25 اکتوبر کو دوبارہ مذاکرات ہوں گے جس میں تفصیلی معاملات طے کیے جائیں گے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ جھڑپوں سے جہاں خطے میں کشیدگی پیدا ہوگئی ہے اور تنازع سے خطے کے امن کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں، وہیں عالمی سطح پر اس کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے چین، روس، ترکیہ، قطر، سعودی عرب، ایران اور دیگر ممالک نے سخت تشویش کا اظہار کیا اور بات چیت کے ذریعے معاملات حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
ترکیہ اور قطر کی کوششوں سے دوحہ میں مذاکرات کا پہلا مرحلہ جو 13 گھنٹے طویل رہا مکمل ہونے پر یہ اعلان سامنے آیا کہ افغانستان کی طالبان حکومت نے جنگ بندی پر رضامندی ظاہرکرتے ہوئے پاکستان کے اس دیرینہ مطالبے کو تسلیم کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر پناہ گزین دہشت گرد گروپوں کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں سے روکے گا۔ دوحہ معاہدے کی جملہ تفصیلات تو میڈیا کے سامنے نہیں آئیں، تاہم پاکستان میں حکومتی سطح پر اسے بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے اور توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ 25 اکتوبر کو استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں تمام تفصیلات باقاعدہ طے کر لی جائیں گی جیساکہ نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ دوحہ معاہدہ صحیح سمت میں پہلا قدم ہے اور ترکیہ کی میزبانی میں استنبول میں ہونے والے آیندہ اجلاس میں ایک ٹھوس اور قابل تصدیق نگرانی کا نظام قائم کیا جائے گا۔
دوحہ جنگ معاہدے سے عالمی برادری کو واضح طور پر یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اور جنوبی ایشیا کے امن کو برقرار رکھنے کے لیے پوری طرح سنجیدہ اور مخلص ہے، خطے میں کسی بھی پڑوسی ملک سے کشیدگی، تنازع اور جنگی اقدام کا خواہاں نہیں ہے، لیکن اگر کسی ملک نے پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا تو ملک کی مسلح افواج مادر وطن کا دفاع کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھے گی اور دشمن کے ہر وار کا پہلے سے زیادہ سخت اور منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے واضح کر دیا ہے کہ پڑوسی ملک کی ہر ریاستی پراکسی کو خاک میں ملا دیا جائے گا۔ انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں پیغام دیا کہ طالبان رجیم پراکسیوں کو لگام ڈالے جن کی افغانستان میں پناہ گاہیں ہیں۔ یہ پراکسیاں پاکستان کے اندر گھناؤنے حملے کرنے کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کرتی ہیں مٹھی بھر دہشت گردوں کے آگے کبھی نہیں جھکیں گے۔
دوحہ جنگ بندی معاہدے پر ایک جانب اطمینان کا اظہار اور مستقبل میں پاک افغان تعلقات میں بہتری اور کشیدگی کے خاتمے کی امید کی جا رہی ہے، تو دوسری جانب تحفظات اور خدشات کا بھی برملا اظہار کیا جا رہا ہے جو ناقابل فہم نہیں۔ ماضی میں بھی پاکستان ایک سے زائد مرتبہ طالبان حکومت کو دو ٹوک پیغام دیتے ہوئے خبردار کرچکے ہیں کہ وہ افغان سرزمین پر موجود دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کو ختم کرے جو پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہیں اور انھیں بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے، لیکن افغان طالبان نے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا نتیجہ جنگ کی صورت میں نکلا۔
یہ حقیقت اب کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ طالبان حکومت پاکستان سے زیادہ بھارت کی مودی حکومت کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے۔ اس کا بین ثبوت افغانستان کے وزیر خارجہ امیر متقی کا حالیہ بھارت کا دورہ ہے جس میں انھوں نے بھارتی موقف کی تائید کرتے ہوئے کشمیر کو بھارت کا علاقہ قرار دیا تھا جو پاکستان دشمنی کا کھلا اظہار ہے، اس بات کے بھی ثبوت موجود ہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ مودی حکومت کی سرپرستی میں افغانستان میں موجود دہشت گردوں کو مالی و عسکری تعاون فراہم کرتی ہے۔
پاکستان سے شکست کے بعد مودی حکومت بری طرح بوکھلاہٹ کا شکار ہے، اسی لیے افغان طالبان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرکے خطے کے امن کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ افغان طالبان کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ماضی میں ہر موقع پر پاکستان نے افغانستان کا ساتھ دیا ہے۔
روسی مداخلت سے امریکی جارحیت تک اور افغان مہاجرین کی میزبانی سے کابل میں طالبان حکومت کے قیام تک پاکستان نے سفارتی محاذ پر افغانستان کے ساتھ ہر طرح مخلصانہ تعاون فراہم کیا جب کہ بھارت کبھی افغانستان کا ہمدرد نہیں رہا۔ طالبان حکومت پر لازم ہے کہ وہ دوحہ جنگ بندی معاہدے پر اخلاص نیت کے ساتھ عمل کرے، بھارت سے تعلقات پر نظر ثانی کرے اور دہشت گردوں کی پشت پناہی سے باز رہے بصورت دیگر خطے کا امن اور سلامتی کو گزند پہنچی تو بھارت اور افغانستان ذمے دار ہوں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان کے خلاف طالبان حکومت افغانستان کے اور افغان جائے گا ہے اور
پڑھیں:
پاکستان طالبان رجیم سے مذاکرات ضرور کرے مگر بارڈر پر بھی نظر رکھے، اعزاز احمد چوہدری
پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اور امریکا میں سابق سفیر اعزاز احمد چوہدری نے خبردار کیا ہے کہ افغان طالبان قابل اعتبار نہیں ہیں لہٰذا پاکستان کو چاہیے کہ ان کے ساتھ مذاکرات کے دوران اپنی سرحد کی حفاظت پر بھی مکمل توجہ رکھے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان پر افغانستان میں رجیم چینج کی کوششوں کا الزام بے بنیاد ہے: وزیر دفاع خواجہ آصف
وی نیوز ایکسکلیوسیو میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان کا ماضی کے معاہدوں کا ریکارڈ تسلی بخش نہیں رہا۔ انہوں نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ سنہ 2020 میں طالبان نے امریکا کے ساتھ معاہدہ کیا مگر اس کی بڑی شقوں پر عمل نہیں کیا۔
اعزاز چوہدری نے کہا کہ خواہ تجارت ہو یا مہاجرین کی میزبانی پاکستان نے برسوں تک افغانستان کے ساتھ فراغ دلی دکھائی لیکن اب ان پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو بطور خودمختار ملک تسلیم کرنے کے باوجود پاکستان کے خدشات بجا ہیں کیونکہ بھارت کے اثر و رسوخ نے دونوں ممالک کے درمیان بدگمانی پیدا کی ہے۔
مزید پڑھیے: پاکستان نے قطر اور ترکیہ کی ضمانت پر سیز فائر کیا، طالبان اب ٹھیک ہوجائیں گے، سابق سفیر طارق رشید
تاریخی تناظر بیان کرتے ہوئے اعزاز چوہدری نے بتایا کہ سنہ 1893 میں عبدالرحمان خان نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کیا تھا اور ان کے بعد آنے والی افغان حکومتوں نے بھی اس فیصلے کی توثیق کی مگر وقت کے ساتھ افغانستان میں ایک غلط فہمی پیدا کر دی گئی کہ یہ علاقہ ان کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی غلط فہمی نے دونوں ممالک کے تعلقات کو نقصان پہنچایا۔
’افغانستان نے بھارت سے ہمیشہ اچھے تعلقات رکھے‘ان کے مطابق ماضی سے اب تک افغانستان کی حکومتیں بھارت کے ساتھ قریبی روابط رکھتی آئی ہیں اور بھارت نے ہمیشہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کی۔ انہوں نے جعفر ایکسپریس حملے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس سانحے میں ملوث افراد کے بھارت سے روابط تھے۔
اعزاز چوہدری نے واضح کیا کہ بھارت اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں بلوچستان میں بدامنی پھیلانے میں شامل رہی ہیں جس کے شواہد مختلف عالمی رپورٹس میں موجود ہیں۔
چک ہیگل اور ابی ناشت پالی وال کی تحریروں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت کئی سالوں سے افغانستان کے ذریعے پاکستان کے لیے مسائل پیدا کرتا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: عمران خان کے کہنے پر دہشتگردوں سے مذاکرات نہیں کریں گے، وزیر دفاع خواجہ آصف
اعزاز چوہدری نے افغان حکومت کو دہشتگردی کے مسئلے میں ’پارٹ آف دی پرابلم‘ قرار دیا۔
’افغان طالبان ٹی ٹی پی کے داعش میں شامل ہوجانے کے ڈر سے کوئی کارروائی نہیں کرتے‘ان کے مطابق طالبان انتظامیہ کے پاس صلاحیت کی بھی کمی ہے اور ارادے کی بھی اس لیے وہ ٹی ٹی پی کے خلاف سختی سے کارروائی نہیں کرتی۔ ان کے خیال میں طالبان کو خدشہ ہے کہ اگر وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں گے تو وہ داعش خراسان میں شامل ہو جائیں گے۔
اعزاز چوہدری نے کہا کہ پاکستان کو دو طرفہ حکمت عملی اپنانی ہوگی، ایک طرف سرحدی تحفظ اور دوسری طرف اقتصادی، تعلیمی اور سفارتی معاملات پر محتاط نظر۔
ان کے مطابق دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی نئی حکمت عملی پہلے سے زیادہ مؤثر ہے کیونکہ اب ریاست نے معذرت خواہانہ رویہ چھوڑ کر سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔
اعزاز چوہدری نے کہا کہ آرمی پبلک اسکول پشاور جیسے سانحات نے یہ ثابت کر دیا کہ دہشتگردوں کے ساتھ کسی نرمی کی گنجائش نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’جب تک آپ طاقت کا استعمال نہیں کرتے ڈپلومیسی کامیاب نہیں ہوتی‘۔
’پاک امریکا تعلقات ہمیشہ مفادات کی بنیاد پر رہے‘امریکا کے ساتھ تعلقات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاک امریکا تعلقات ہمیشہ ٹرانزیکشنل نوعیت کے رہے ہیں، یعنی مفادات کی بنیاد پر۔
انہوں نے وضاحت کی کہ جب بھی دونوں ممالک کے مفادات ملے، تعلقات بہتر ہوئے۔ تاہم، بھارت کی حالیہ پالیسیوں نے امریکا کے لیے بھی خدشات پیدا کیے ہیں جس کی وجہ سے واشنگٹن نے دوبارہ پاکستان کی طرف نرم رویہ اختیار کیا ہے۔
اعزاز چوہدری نے کہا کہ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات گہرے، پائیدار اور باہمی احترام پر مبنی ہیں۔
’چین نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا‘ان کا کہنا تھا کہ چین نے ہمیشہ پاکستان کی خودمختاری کا احترام کیا اور مشکل وقت میں سرمایہ کاری کی۔
ان کے مطابق پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی صرف اپنے قومی اور اقتصادی مفادات کی بنیاد پر تشکیل دینی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیے: پاک افغان معاہدہ: دہشتگردی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ کہنے والوں کا ٹی ٹی پی کی حمایت ترک کرنے کا وعدہ
افغان مہاجرین کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اعزاز چوہدری نے کہا کہ سنہ 1980 کی دہائی میں پاکستان نے فراخ دلی دکھاتے ہوئے لاکھوں افغانوں کو پناہ دی لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ان پالیسیوں کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے۔
ان کے مطابق افغانوں کو ملک بھر میں آزادانہ پھیلنے دینا ایک بڑی انتظامی غلطی تھی۔
’افغان طالبان حکومت نہیں رجیم کی طرح برتاؤ کر رہے ہیں‘اعزاز چوہدری نے کہا کہ افغان طالبان ’حکومت‘کے طور پر نہیں بلکہ ’رجیم‘ کے طور پر برتاؤ کر رہے ہیں اور جب تک وہ بین الاقوامی ذمہ داریوں کو قبول نہیں کرتے خطے میں امن ممکن نہیں۔
مزید پڑھیں: افغانستان سے دہشتگردی کا سلسلہ فی الفور بند ہوگا، قطر اور ترکیہ کے مشکور ہیں، خواجہ آصف
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو چاہیے کہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مضبوط، متوازن اور حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی اختیار کرے کیونکہ یہی قومی سلامتی اور علاقائی استحکام کی ضمانت ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان پاک افغان مذاکرات پاکستان ڈیورنڈ لائن سابق سفیر اعزاز احمد چوہدری