نجی جامعہ میں طالبہ کو مبینہ ہراساں کرنے کی کوشش، انتظامیہ نے طالبہ کو ہی معطل کردیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) شہر کی ایک معروف سی بی ایم یونیورسٹی میں ٹرانسپورٹ انچارج نے طالبہ کو زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی انچارج کے خلاف کسی قسم کی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی ۔ تفصیلات کے مطابق کورنگی کے علاقے میں سی بی ایم پرائیوٹ یونیورسٹی میں جمعہ 24 اکتوبر کویونیورسٹی کے ٹرانسپورٹ انچارج جلال نے مبینہ طور پر ایک طالبہ کو زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ واقعہ کے وقت طالبہ انتظامی دفتر میں موجود تھی جب جلال نے دروازہ بند کرکے کمرے کی کنڈی لگا لی، تاہم طالبہ نے حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چیخ و پکار شروع کر دی، جس سے عمارت کے باہر طلبہ اور طالبات جمع ہو گئے۔ شور سن کر ملزم جلال نے گھبرا کر دروازہ کھول دیا اور موقع سے فرار ہو گیا۔ذرائع کے مطابق واقعے کی خبر جب متاثرہ طالبہ کے اہلِ خانہ کو ملی تو وہ غم و غصے کے عالم میں یونیورسٹی پہنچے اور انتظامیہ سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔ تاہم حیران کن طور پریونیورسٹی انتظامیہ نے انصاف کے بجائے متاثرہ طالبہ کو ہی معطل کر دیا، یہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہ ‘‘طالبہ کے بھائی نے بدتمیزی کی ہے۔ ادھریونیورسٹی کے طلبہ، والدین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے انتظامیہ کے اس رویّے پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔انسانی حقوق تنظیم کے نائب صدر قاسم جمال اورسینئر نائب صدر سید صبغت اللہ نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘یہ محض ایک فرد کی بدکرداری نہیں بلکہ ادارے کی تربیتی اور انتظامی ناکامی کا مظہر ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: طالبہ کو
پڑھیں:
چوری کا شبہ ؛ 8 افراد کو دہکتے انگاروں پر چلایا گیا
سٹی 42: موسیٰ خیل کے علاقے کوٹ خان محمد میں ایک افسوس ناک اور حیران کن واقعہ پیش آیا ہےجہاں دکان میں چوری کے شبے پر مقامی جرگے نے رسم کے نام پر آٹھ افراد کو آگ کی انگاروں پر چلایا یہ واقعہ گزشتہ روز پیش آیا جس نے پورے علاقے میں تشویش کی لہر دوڑا دی۔
علاقہ مکینوں کے مطابق دکان میں چوری کے بعد جرگہ بلایا گیا تھا، جہاں دکاندار کے شدید اصرار پر مشتبہ افراد کو سزا کے طور پر دہکتے انگاروں پر چلایا گیا اہلِ علاقہ کا کہنا ہے کہ واقعے میں کوئی شخص زخمی نہیں ہوا تاہم یہ غیر انسانی اور فرسودہ طریقۂ کار علاقے کی سماجی اور قانونی صورتحال پر سوالیہ نشان ہے۔
نئی بننے والی واسا ایجنسیوں میں تقرروتبادلے
ڈپٹی کمشنر موسیٰ خیل رزاق خجک نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ انتظامیہ کو ایسے واقعے کی اطلاع موصول ہو چکی ہے اور اس پر تحقیقات جاری ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ قانون سے بالاتر کوئی اقدام قبول نہیں ہوگا۔
دوسری جانب شہریوں اور سماجی حلقوں نے اس غیر انسانی سلوک پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر دیا ہےعوامی رائے ہے کہ جدید دور میں اس قسم کی رسومات نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں بلکہ پشتون روایات کی بھی غلط تشریح ہےعلاقے میں خوف بے چینی اور سخت ردعمل پایا جا رہا ہے جبکہ انتظامیہ واقعے کی مکمل رپورٹ جلد جاری کرنے کا عندیہ دے رہی ہے۔
محسن نقوی کی انگلینڈ کے وزرا کے ساتھ مجرموں کی حوالگی پر اہم بات چیت